AD Banner

{ads}

(حضرت فضیل بن عیاض اور ہارون رشید کی ملاقات)

 (حضرت فضیل بن عیاض اور ہارون رشید کی ملاقات)

فضل بن ربیع بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ میں خلیفہ ہارون الرشید کے ساتھ مکہ گیا حج کرنے کے بعد ہارون الرشید نے مجھ سے کہا یہاں پر اللہ کا کوئی ایسا نیک بندہ موجود ہے، جس کی میں زیارت کر سکوں تو میں نے خلیفہ صاحب کو بتایا یہاں پر بڑے (مشہور محدث) عبدالرزاق صنعانی موجود ہیں خلیفہ نے فرمایا: مجھے ان کے پاس لے چلو۔ راوی بیان کرتے ہیں جب ہم ان کے پاس گئے تو ان کے ساتھ کچھ دیر بات چیت کرتے رہے ہارون نے مجھے یہ اشارہ کیا کہ میں یہ دریافت کروں ان کے ذمے کوئی قرض تو نہیں ہے؟ جب میں نے ان سے دریافت کیا: تو انہوں نے کہا: میرے ذمے کچھ قرض ہے پھر خلیفہ نے حکم دیا۔ ان کا قرض اتار دیا جائے۔ ہم وہاں سے باہر نکلے تو خلیفہ نے مجھ سے کہا : اے فضل بن ربیع ! میں اس سے بھی بڑے بزرگ کی زیارت کرنا چاہتا ہوں، میں نے خلیفہ سے کہا: یہاں پر سفیان بن عیینہ بھی موجود ہیں خلیفہ نے کہا: تم مجھے ان کے پاس لے جاؤ ہم ان کے پاس گئے ان کے ساتھ کچھ دیر بات چیت کرتے رہے جب واپس جانے لگے تو خلیفہ نے مجھے اشارہ کیا کہ ان سے دریافت کروں ان کے ذمے کوئی قرض تو نہیں ہے میں نے ان سے دریافت کیا: تو انہوں نے کہا ان کے ذمہ کچھ قرض ہے تو خلیفہ کے حکم کے تحت انہیں رقم عطا کر دی گئی جس سے وہ اپنا قرض ادا کر لیتے۔ ہم وہاں سے باہر آئے تو خلیفہ نے مجھ سے کہا: اے فضل ! ابھی میرا مقصد باقی ہے ( مجھے کسی اور بزرگ کی تلاش ہے )۔ راوی بیان کرتے ہیں: مجھے حضرت فضیل بن عیاض کا خیال آیا ، میں خلیفہ کو ساتھ لے کر حضرت فضیل بن عیاض کے پاس گیا وہ اس وقت اپنے حجرے میں موجود تھے اور قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے اندر سے دریافت کیا: کون ہے؟ میں نے جواب دیا: امیر المؤمنین ہیں انہوں نے اندر سے فرمایا:مَالِي وَلاَ مِيرِ الْمُؤْمِنِينَ " 
میرا امیرالمؤمنین کے ساتھ کیا واسطہ؟
میں نے انہیں جواب دیا: سبحان اللہ ، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا ،
 لَيْسَ لِلْعَبْدِ أَن يَذُلَّ نَفْسَهُ فَي طَاعَةِ اللَّهِ  بندے کو یہ حق حاصل نہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی حالت میں خود کو ذلیل کرے۔ 
تو حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے! لیکن جہاں تک رضامندی کا تعلق ہے تو وہ ان لوگوں کے نزدیک عزت کا باعث ہوتی ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں، تم میری ذلت کو دیکھ رہے ہو اور میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی عزت کو دیکھ رہا ہوں، بہر حال پھر وہ تشریف لائے دروازہ کھولا اور چراغ بجھا دیا اور خود ایک کونے میں کھڑے ہو گئے انہوں نے ٹٹول کر انہیں ڈھونڈا ، ان کا ہاتھ خلیفہ کے ہاتھ پر پڑا تو انہوں نے خلیفہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا : میں نے اس سے زیادہ نرم ہاتھ اور کوئی نہیں دیکھا بڑی حیرانگی کی بات ہو گی اگر خلیفہ کو اللہ تعالٰی کے عذاب سے نجات مل جائے گی یہ سن کر ہارون رونے لگا ، اور اتنا رویا اس پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی ، جب اس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو اس نے کہا: اے فضیل ! آپ مجھے کوئی نصیحت کیجئے، تو فضیل نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کے جد امجد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے ایک مرتبہ انہوں نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی ، کہ مجھے کسی قسم کا امیر بنا دیں ،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا ،
اے چا ! میں آپ کو آپ کی اپنی ذات کا امیر بناتا ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی بندگی میں تمہارا ایک سانس لینا مکروہ کام کرنے میں ہزار سال گزارنے سے بہتر ہے۔
" لِاَنَّ الْأَمَارَةَ يَوْمَ الْقِيمَةِ النَّدَامَةُ "
اس کی وجہ یہ ہے قیامت کے دن یہ حکومت انسان کے لیے شرمندگی کا باعث ہوگی ۔ 
ہارون نے کہا: اب مزید مجھے کوئی نصیحت کیجئے تو حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا: جب عمر بن العزیز کوخلیفہ بنایا گیا تو انہوں نے سالم بن عبد اللہ رجاء بن حیوۃ اور محمد بن کعب قرظی کو بلوایا اور کہا: میں اس آزمائش میں گرفتار ہو گیا ہوں، مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی یہ کیا چیز ہے ؟ کیونکہ میں اسے آزمائش سمجھتا ہوں اور لوگ اسے نعمت قرار دیتے ہیں۔ تو ان حضرات میں سے ایک نے جواب دیا اگر آپ یہ چاہتے ہیں: کل قیامت کے دن آپ کو عذاب نہ ہو تو آپ عمر رسیدہ لوگوں کو اپنے باپ کی جگہ سمجھیں، جَوان لوگوں کو اپنے بھائی کی طرح سمجھیں اور کم عمر لڑکوں کو اپنے بیٹوں کی طرح سمجھیں ، ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو اپنے باپ بیٹے یا بھائی کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے ، اور پوری اسلامی مملکت کو اپنا گھر سمجھیں اور اس میں رہنے والے افراد کو اپنے خاندان کا فرد سمجھیں۔ اس لیے آپ بھی اپنے والد کا خیال رکھیں اپنے بھائی کا خیال رکھیں اور اپنی اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کریں یعنی اپنی رعایا کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اس کے بعد حضرت فضیل بن عیاض نے کہا: اے امیر المؤمنین! مجھے اس بات کا اندیشہ ہے آپ کا خوبصورت چہرہ کہیں جہنم کی آگ میں نہ جلے اس لیے آپ اللہ تعالی سے ڈریں اور اس کا حق بہتر طریقے سے ادا کریں۔ اس کے بعد ہارون نے ان سے دریافت کیا: آپ کے ذمے کوئی قرض ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں! مجھ پر اللہ تعالٰی کا ہے کہ میں اس کی اطاعت و فرمانبرادری کروں خلیفہ نے کہا: اے فضیل! میں لوگوں کے قرض کی بات کر رہا ہوں تو حضرت فضیل نے جواب دیا: اللہ تعالی کے لیے ہر طرح کی حمد مخصوص ہے اس نے مجھے بہت سی ایسی نعمتوں سے نوازا ہے اللہ کے بندوں کے ساتھ کوئی ایسا تعلق نہیں ہے۔ اس کے بعد ہارون نے انہیں ایک ہزار دینار کی تھیلی پیش کی اور بولا : آپ اس رقم کو اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کیجئے تو فضیل نے کہا: اے امیر المؤمنین ! میری کی ہوئی تمام نصیحتیں آپ کے کسی کام نہیں آسکی ہیں آپ نے یہاں زیادتی کی ہے انہوں نے دریافت کیا: میں نے کیا زیادتی کی ہے؟ تو فضیل بن عیاض نے جواب دیا میں آپ کو نجات دلوانے کی کوشش کر رہا ہوں اور آپ مجھے ہلاکت کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیا یہ زیادتی نہیں ہے یہ سن کر ہارون پھر رونے لگا اور وہاں سے نکل کر باہر آ گیا اور بولا: اے فضل بن ربی ، حقیقی بادشاہ فضیل بن عیاض ہیں اور یہ سب ان کے دبدبے کی دلیل ہے جو دنیا میں اور اہل دنیا میں انہیں حاصل ہے کیونکہ دنیا کی تمام تر زینت ان کی نظر میں حقیر ہے اور کوئی وقعت نہیں رکھتی اور یہی وجہ ہے انہوں نے دنیا داروں کی خاطر تواضع کرنا بھی ترک کر دیا ہے ،(کشف المحجوب مترجم صفحہ 196,198 مکتبہ محمدی بکڈپو دہلی)
"" طالبِ دعا ""
محمد معراج رضوی واحدی براہی سنبھل یوپی ہند


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner