AD Banner

{ads}

( وما اھل بہ لغیر اللہ کا معنی ومفہوم؟)

 ( وما اھل بہ لغیر اللہ کا معنی ومفہوم؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ وما اھل بہ لغیر اللہ کا معنی ومفہوم کیا  ـ اسکی آڑ میں بعض لوگ اولیاء کرام کی نذر ونیاز کے جانور کو حرام کہتے ہیں اور گیارھویں وبارھویں کے لنگر کو بھی حرام کہتے ہیں ـ کیا آئمہ مفسرین رحمہم اللہ سے ایسی کوئی تشریح بیان کی ہے ؟
المستفتی:۔ انوار حسین پاکستان
  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب
اللہ عزوجل قرآن مجید برہان رشید میں ارشاد فرماتا ہے ( اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۷۳ ) ترجمہ کنزالایمان اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خداکا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو ناچار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ( پارہ دوم سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷۳)
 ( مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ ) اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لیکر ذبح کیا  گیا ) ( مفہوم) جس جانور پر وقت ذبح غیر خدا کا نام لیا جائے خواہ تنہا یا خدا کے نام کے ساتھ عطف سے ملا کر مثلا ( بسم اللہ ومحمد رسول اللہ ) وہ حرام ہے / اور نام خدا کے ساتھ غیر کا نام بغیر عطف ملایا مثلاً ( بسم اللہ محمد رسول اللہ) تو مکروہ ہے : اگر ذبح فقط اللہ عزوجل کے نام پر کیا گیا اور اس سے قبل یا بعد غیر کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ عقیقہ کا بکرا ولیمہ کا دنبہ یا جس طرف وہ ذبیحہ ہے اسی کا نام لیا یا جن اولیاء کرام کے لئے ایصال ثواب منظور ہے ان کا لیا تو یہ جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ) ( توضیح و تفسیر )  وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ اُھِل ‘‘ہلال سے بنا ہے جس کے لفظی معنی پہلی یا دوسری تاریخ کا چاند ـ اس کا مصدر ہے اھلال یعنی چاند دیکھانا ـ چونکہ اس وقت شور مچتا ہے کہ چاند وہ اس مناسبت سے ہر پکارنے والے اھلال کہہ دیتے ہیں ـ بچے کی چیخ کو بھی اسی لئے استھلال اور حرام کو اھلال کہا جاتا ہے ـ مگر عرف میں ذبح کے وقت آواز کو اھلال بولا جاتا ہے ـ وہ ہی معنی یہاں مراد ہیں(۱)ـ عبد اللہ ابن عباس(۲)مجاہد ـ(۳) ضحاک(۴)قتادہ رضی اللہ عنہم نے یہ ہی معنی بیان کئے عام مفسرین جیسے (۱)بیضاوی(۲) ـ جلالین(۳)ـ خازن(۴) ـ لباب التاویل ـ (۵)ـ مدارک ـ (۶)ـ احمدی ـ (۷)ـ تفسیر ابو السعود وغیرہم نے بھی یہ ہی معنی کئے جو یعنی جانور غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے وہ حرام ہے ( فقہا ) بھی یہی فرماتے ہیں چنانچہ شامی باب الذبح میں ہے کہ ذبح کے وقت کا اعتبار ہے اس زمانہ میں بعض مفسرین نے یہاں( اُھِلَّ) کے معنی مطلقاً پکارنا کئے ہیں اور کہا کہ جس جانور پر زندگی میں بھی غیر خدا کا نام پکارا جائے وہ بھی حرام ہے ـ اگر چہ خدا کے نام پر ذبح ہو مگر یہ تفسیر عقلا ونقلاً غلط ہے ـ نقلاً تو اس لئے کہ عام مفسرین و صحابہ کرام کی تفسیر کے خلاف ہے ـ دیکھو در منثور اور کبیر وروح البیان وغیرہ ـ عقلاً اس لئے کہ اس صورت میں آیت کا مقصود ہی بدل جائے گا ـ کیونکہ مشرکین کے رد میں آئی ہے اور اب ان کی تائید کرے گی مشرکین سمجھتے تھے کہ بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جانور حرام ہو جاتے ہیں ـ اس آیت نے ان کی تردید کی کہ نہیں تم جھوٹے ہو وہ حلال ہیں ـ اب اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہاں تم سچے ہو وہ واقعی وہ حرام ہے ـ نیز اس صورت میں کوئی چیز حلال نہ رہے گی ـ زید کا غلہ عمر کی روٹی بکر کے باغ کے پھل وغیرہ کیونکہ یہاں مابین جانور کی قید نہیں نیز اس صورت میں کوئی بھی  ذبیحہ حلال نہ ہوگا ـ زید کی گائے عمر کی بکری کا دنبہ سب ہی میں غیر اللہ کا نام پکارا گیا ـ یہ سب حرام ٹھرے اس لئے ان مفسرین کو دو قیدیں اپنے جیب سے نکال کر لگانی پڑے گی ایک ( ما ) میں جانور کی قید اور( اھل ) میں تقرب کی نیت مگر قرآن میں گھر کی قید نہیں لگ سکتی اگر ( اھل) کے معنی ذبح ہوں تو آیت بلا تکلف درست ہے نیز اس تفسیر پر لازم آئے گا کہ ہندوؤں کے سانڈ اور کفار عرب کے بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جانور حرام ہوں ـ یہ قرآن کریم اور عام مفسرین کے فرمان کے خلاف ہے( تفسیر نعیمی ج دوم ص ۱۶۲ ) 
دوسرے مقام پر اللہ عزوجل قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے (حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) (ترجمہ کنز الایمان) تم پر حرام ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا ) ( تفسیر مفاہم ومطالب) وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بتوں کے نا م پر ذبح کرتے تھے اور جس جانور کو ذبح تو صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیرِ خدا کی طرف منسوب رہا ہو وہ حرام نہیں جیسا کہ عبداللہ کی گائے، عقیقے کا بکرا ،ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو اُن کو ذبح کے وقت کے علاوہ اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذبح اُن کا فقط اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ہو، اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیّب ہیں۔اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذبح کرتے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو ،جو لوگ ذبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنیٰ میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام معتبر تفاسیر اور خود مفہومِ قرآن کے خلاف ہے )( کنز الایمان مع تفسیر خزائن العرفان )
 صحیح مسلم شریف میں ہے ( قُلْنَا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبِرْنَا بِشَيْءٍ أَسَرَّهُ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا أَسَرَّ إِلَيَّ شَيْئًا كَتَمَهُ النَّاسَ ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ ، يَقُولُ  لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَيْهِ ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ غَيَّرَ الْمَنَارَ ) ( باب تحريم الذبح لغير الله تعالى ولعن فاعله‘‘(بہار شریعت ذبح کا بیان ) 
 تفسیر مدارک شریف میں ہے ( وَمَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِۚ ) ( تفسیر) یعنی بتوں کے لئے ذبح کیا گیا ہو اور اس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو ( حرام ہے ورنہ نہیں) اور اصل میں اھلال کا معنی ہے آواز کو بلند کرنا یعنی اس کے ساتھ بتوں کے لئے آواز بلند کی گئی ہو اور یہ زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کا طریقہ تھا وہ جانور ذبح کرتے وقت (باسم الات العزّٰی ) کہا کرتے تھے)( تفسیر مدارک التنزیل اول سیقول: سورۃ البقرہ ۲ صفحہ ۱۸۵)
حضرت علامہ علاءالدین علی بن محمد بن ابراہیم صوفی بغدادی المروف بالخازن علیہ الرحمہ تفسیر الخازن میں فرماتے ہیں اس آیت کی مختصر تفسیر ( وَ مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ) اس کا معنی یہ ہے کہ وہ جانور جو بتوں اور باطل معبودوں کے پیش کیا جائے اس میں جو لفظ ( اھل ) ہے اس کا اصل معنی ہے ـ آواز بلند کرنا اہل عرب کا معمول یہ تھا کہ جب وہ بتوں کے لئے جانور ذبح کرتے تو ان بتوں کے ذکر میں اپنی آواز بلند کرتے ـ سو اہل عرب سو اہل عرب کے دستور اور ان کے معمول کے مطابق اس لفظ کا استعمال ہونے لگا اور معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ ہر ذبح کرنے والے کو ( مُھِلَّ ) کہا جاتا ہے ـ اگر چہ وہ بلند آواز سے بسم اللہ نہ پڑھے ) 
(ملحضاً اول سیقول ۲ سورة البقرہ ص ۳۹۵)
ممتاز الفقہا حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی قدس سرہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں ذبح کرتے وقت بسم ﷲ کے ساتھ غیر خدا کا نام بھی لیا اس کی دو صورتیں  ہیں اگر بغیر عطف ذکر کیا ہے ثلاً یوں  کہا ( بسم ﷲ محمد رسول ﷲ )  یابسم ﷲ اللّٰہم تقبل من فلان)  ایسا کرنا مکروہ ہے مگر جانور حرام نہیں  ہوگا۔ اور اگر عطف کے ساتھ دوسرے کا نام ذکر کیا مثلاً یوں کہا ( بسم ﷲ واسم فلان ) اس صورت میں جانور حرام ہے کہ یہ جانور غیر خدا کے نام پر ذبح ہوا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ ذبح سے پہلے مثلاً جانور کو لٹانے سے پہلے اس نے کسی کا نام لیا یا ذبح کرنے کے بعد نام لیا تو اس میں  حرج نہیں  جس طرح قربانی اور عقیقہ میں  دعائیں  پڑھی جاتی ہیں اور قربانی میں اون لوگوں کے نام لیے جاتے ہیں  جن کی طرف سے قربانی ہے اور حضور اقدس صلی ﷲ علیہ وسلم اور حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔( ہدایہ وغیرہا)
 یہاں  سے معلوم ہوا کہ ( مَااُھِلَّ لِغَیْرِاللّٰہِ بِہ ) جو حرام ہے اوس کا مطلب یہ ہے کہ ذبح کے وقت جب غیر خدا کا نام اس طرح لیا جائے گا اوس وقت حرام ہوگا اور وہابیہ یہ کہتے ہیں کہ آگے پیچھے جب کبھی غیر خدا کا نام لے دیا جائے حرام ہو جاتا ہے بلکہ یہ لوگ تو مطلقا ہر چیز کو حرام کہتے ہیںجس پر غیر خدا کا نام لیا جائے اون کا یہ قول غلط اور باطل محض ہے اگر ایسا ہو تو سب ہی چیزیں حرام ہو جائیں  گی۔ کھانے پینے اور استعمال کی سب چیزوں  پر لوگوں  کے نام لے دیے جاتے ہیں اور ان سب کو حرام قرار دینا شریعت پر افترا اور مسلم کو زبردستی حرام کا مرتکب بنانا ہے معلوم ہوا کہ بعض مسلمان گائے ،بکرا، مرغ جو اس لیے پالتے ہیں کہ ان کو ذبح کر کے کھانا پکوا کر کسی ولی ﷲ کی روح کو ایصال ثواب کیا جائے گا یہ جائز ہے اور جانور بھی حلال ہے اس کو(  مَااُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ ) میں  داخل کرنا جہالت ہے کیونکہ مسلمان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ اوس نے( تَقَرُّب اِلٰی غِیْرﷲ ) کی نیت کی، ہٹ دھرمی اور سخت بدگمانی ہے مسلم ہرگز ایسا خیال نہیں  رکھتا۔ عقیقہ اور ولیمہ اور ختنہ وغیرہ کی تقریبوں  میں  جس طرح جانور ذبح کرتے ہیں  اور بعض مرتبہ پہلے ہی سے متعین کر لیتے ہیں کہ فلاں موقع اور فلاں کام کے لیے ذبح کیا جائے گا جس طرح یہ حرام نہیں ہے وہ بھی حرام نہیں ( حصہ پانزدہم ۱۵ ذبح کا بیان )  
حاصل کلام مذکورہ بالاتصریحات سے ظاہر وباہر ہوگیا کہ / غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ ـ اس کا معنی یہ ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا جائے اور جس جانور کو غیراللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے وہ حرام و مردار ہے البتہ اگر ذبح فقط  اللہ تعالیٰ کے نام پر کیا اور اس سے پہلے یا بعد میں غیر کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ عقیقہ کا بکرا، ولیمہ کا دنبہ یا جس کی طرف سے وہ ذبیحہ ہے اسی کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ اپنے ماں باپ کی طرف سے ذبح کررہا ہوں یا جن اولیاء کے لیے ایصال ثواب مقصود ہے ان کا نام لیا تو یہ جائز ہے، اس میں کچھ حرج نہیں اور ا س فعل کو حرام کہنا اور ایسے جانور کو مردار کہنا سراسر جہالت ہے کیونکہ ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد غیر کی طرف منسوب کرنا ایسا فعل نہیں جو کہ حرام ہوجیسے ہم اپنی عام گفتگو میں بہت سی عبادات کو غیر کی طرف منسوب کرتے ہیں ،مثلاً یوں کہتے ہیں کہ ظہر کی نماز،جنازہ کی نماز،مسافر کی نماز،امام کی نماز،مقتدی کی نماز، بیمار کی نماز، پیر کا روزہ،اونٹوں کی زکوٰۃ اور کعبہ کا حج وغیرہ،جب یہ نسبتیں حرام نہیں اور ان نسبتوں کی وجہ سے نماز ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ میں کفر و شرک اور حرمت تو درکنار نام کو بھی کراہت نہیں آتی تو کسی ولی یا بزرگ یا کسی اور کی طرف منسوب کر کے فلاں کی بکری  کہنا کیسے حرام ہو گیا اور اس سے یہ خدا کے حلال کئے ہوئے جانور کیوں جیتے جی مردار ا ور سور ہو گئے کہ اب کسی صورت حلال نہیں ہو سکتے ۔ جو لوگ انہیں مردار کہتے ہیں وہ شریعت مطہرہ پر سخت جرأت کرتے ہیں۔یاد رکھیں کہ کوئی مسلمان  اللہ  تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام لے کر جانور ذبح نہیں کرتا اور کسی مسلمان کے بارے میں شرعی ثبوت کے بغیر یہ کہنا کہ اس نے غیرُاللہ کانام لے کر جانور ذبح کیا تو یہ بد گمانی ہے اور کسی مسلمان پر بد گمانی کرناحرام ہے اور حتی الامکان اس کے قول اور فعل کو صحیح وجہ پر محمول کرنا واجب ہے  اور ذبح کے معاملے میں دل کے ارادے پر اس وقت تک کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا جب تک قائل اپنے ارادے کی تصریح نہ کر دے اور اگر بالفرض بعض نا سمجھ احمقوں پر شرعی ثبوت کے ساتھ ثابت ہو بھی جائے کہ انہوں نے  غیرُاللہ    کا نام لے کر ذبح کیا اور اس ذبح سے  معاذاللہ  ان کا مقصود غیر خدا کی عبادت ہے تو کفر کا حکم صرف انہیں پر ہو گا،اُن کی وجہ سے عام حکم لگا دینا اور باقی لوگوں کی بھی یہی نیت سمجھ لینا باطل ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان  اپنے ربّ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کر رہا ہے تو اس پر بد گمانی حرام و ناروا ہے اور خود سے بنائے ہوئے ذہنی تَصوُّرات پر کسی مسلمان کو  معاذ اللہ  کفر کا مُرتکب سمجھنا  اللہ  تعالیٰ کے حلال کئے ہوئے کو حرام کہہ دینا ہے اور تکبیر کے وقت جو  اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اسے باطل و بے اثر ٹھہرانا ہر گزصحیح ہونے کی کوئی وجہ نہیں رکھتا ۔ اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ( وَمَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ ( انعام: ۱۱۹ ) 
ترجمہ کنز الایمان؛۔ اور تمہیں کیا ہوا کہ اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ) امام فخر الدین رازی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ہمیں شریعت مطہرہ نے ظاہر پر عمل کرنے کا حکم فرمایا ہے باطن کی تکلیف نہ دی تو جب اس نے  اللہ  تعالیٰ کا نام پاک لے کر ذبح کیا توجانور کا حلال ہو نا واجب ہے کہ دل کا ارادہ جان لینے کی طرف ہمیں کوئی راہ نہیں۔ ( تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:  ۱۷۳ ،  ۲ / ۲۰۱ )
 اس مسئلے کے بارے میں مزید تفصیل اور دلائل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی ۲۰ ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ( سُبُلُ الْاَصْفِیَاء فِیْ حُکْمِ ذَبَائِح   لِلاَوْلِیَاء ) کا مطالعہ فرمائیں مزید دیگر کتب تفاسیر مثلاً تفسیر در منثور جلد اول ص ۴۴۶ ؍تفسیر قرطبی جلد اول ص ۶۸۹ تفسیر ابن عباس ص ۷۳ تفسیر نعیمی جلد دوم ص ۱۶۲ تفسیر الخازن جلد اول ص ۳۹۵  کنز الایمان مع تفسیر خزائن العرفان سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷۳ سورۂ مائدہ آیت نمبر ۳ سورہ انعام آیت نمبر ۱۱۹ سورۃ النحل آیت نمبر ۱۱۵۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ رضوی خان 
الجواب صحیح والمجیب مصیب
ابوالحسنین محمد عارف محمود معطر قادری






Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner