AD Banner

{ads}

(حلال و حرام جانور وں کی پہچان ؟)

 (حلال و حرام جانور وں کی پہچان ؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ شریعت میں کتنے جانوروں کا گوشت حلال ہے اور کتنے جانواروں کا حرام ہے؟ نیز یہ بھی بتاے کتنے پرندے کا گوشت حلال ہے اور کتنے پندے کا حرام سوال کا جواب دے کر شکریہ کا موقعہ دیں۔ 
المستفتی:۔  غلام دستگیر نظامی بوندی غوثیہ مسجد
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

حرام اورحلال جانوروں کی نشانیاں درج ذیل ہیں :( قرآن پاک میں ہے )( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ)اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور ﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بچا لاتے ہو۔( سورة البقرة، ۲: آیت نمبر ۱۷۲)

( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالْأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر ﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لیے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہوگئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بے شک ﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

 حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی قادری رحمۃ اللہ علیہ حلال اور حرام جانوروں کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:اکیلے(۱) والاجانور جو کیلے سے شکار کرتا ہو حرام ہے جیسے۔ شیر، گیدڑ، لومڑی، بچھو، کتا وغیرہ کہ ان سب میں کیلے ہوتے ہیں اور شکار بھی کرتے ہیں اونٹ کے کیلا ہوتا ہے مگر وہ شکار نہیں کرتا ہے لہذا وہ اس حکم میں داخل نہیں ہے۔ پنجہ والا پرندہ جو پنجہ سے شکار کرتا ہے وہ حرام ہے جیسے شکرا، باز، بہری (۲)، چیل، حشرات الارض حرام ہیں جیسے چوہا، چھپکلی، گرگٹ (۳)، گھونس(۴)، سانپ، بچھو، بھڑ(۵)، مچھر، پسو، کھٹمل، مکھی، کلی ، مینڈک وغیرہ۔ گھریلو گدھا اور خچر حرام ہے اور جنگلی گدھا جسے گورخر کہتے ہیں حلال ہے۔ گھوڑے کے متعلق روائتیں مختلف ہیں یہ آلہ جہاد ہے اس کے کھانے میں تقلیل آلہ جہاد ہوتی ہے۔

 لہذا نہ کھایا جائے۔ کچھوا خشکی کا ہو یا پانی کا حرام ہے۔ غراب البقع یعنی کوا جو مردار کھاتا ہے حرام ہے اور مہوکا کہ یہ بھی کوے سے ملتا جلتا ہے ایک جانور ہوتا ہے حلال ہے۔ پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے جو مچھلی پانی میں مر کر تیر گئی یعنی جو بغیر مارے اپنے آپ مر کر پانی کی سطح پر۔الٹ گئی وہ حرام ہے.مچھلی کو مارا اور وہ مر کر الٹی تیرنے لگی یہ حرام نہیں۔ ٹڈی بھی حلال ہے مچھلی اور ٹڈی یہ دونوں بغیر ذبح کیے حلال ہیں۔ جیسا کہ حدیث پاک میں فرمایا کہ دو مردے حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی۔ پانی کی گرمی یا سردی سے مچھلی مر گئی یا مچھلی کو ڈورے میں باندھ کر پانی میں ڈالااور مر گئی یا جال میں پھنس کر مر گئی یا پانی میں کوئی ایسی چیز ڈال دی جس سے مچھلیاں مر گئیں اور یہ معلوم ہے کہ اس چیز کے ڈالنے سے مریں یا گھڑے میں مچھلی پکڑ کر ڈال دی اور اس میں پانی تھوڑا تھا اس وجہ سے یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے مر گئی ان سب صورتوں میں وہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے۔جھینگے کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مچھلی ہے یا نہیں اسی بناء پر اس کی حلت وحرمت میں بھی اختلاف ہے بظاہر اس کی صورت مچھلی کی سی نہیں معلوم ہوتی بلکہ ایک قسم کا کیڑا معلوم ہوتا ہے لہذا اس سے بچنا ہی چاہیے۔ چھوٹی مچھلیاں بغیر شکم چاک کئے بھون لی گئیں ان کا کھانا حلال ہے۔ مچھلی کا پیٹ چاک کیا۔ اس میں موتی نکلا اگر یہ سیپ کے اندر ہے تو مچھلی والا اس کا مالک ہے شکاری نے مچھلی بیچ ڈالی ہے تو وہ موتی مشتری (خریدنے والے) کا ہے اور اگر موتی سیپ میں نہیں ہے تو مشتری شکاری کو دیدے اور یہ لقطہ ہے اور مچھلی کے شکم میں انگوٹھی یا روپیہ یا شرفی یا کوئی زیور ملا تو لقطہ (۶) ہے ورنہ تصدیق کر دے۔ بعض گائیں بکریاں غلیظ کھانے لگتی ہیں ان کو جلالہ کہتے ہیں۔ ان کے بدن اور گوشت وغیرہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔اس کو کئی دن تک باندھ رکھیں کہ نجاست نہ کھائے۔ جب بدبو جاتی رہی ہو ذبح کر کے کھائیں۔ اسی طرح جو مرغی غلیظ کھانے کی عادی ہو اسے چند روز بند رکھیں جب اثر جاتا رہے ذبح کر کے کھائیں جو مرغیاں چھوٹی پھرتی ہیں ان کو بند کرنا ضروری نہیں جب کہ غلیظ کھانے کی عادی نہ ہوں اور ان میں بدبو نہ آئے ہاں بہتر یہ ہے کہ ان کو بھی بند رکھ کر ذبح کریں۔ بکرا جو خصی نہیں ہوتا وہ اکثر پیشاب پینے کا عادی ہوتا ہے اور اس میں ایسی سخت بدبو پیدا ہو جاتی ہے کہ جس راستہ سے گزرتا ہے وہ راستہ کچھ دیر کے لیے بدبودار ہو جاتا ہے اس کا حکم بھی وہی ہے۔ جو جلالہ کا ہے اگر اس کے گوشت سے بدبو دفع ہو گئی تو کھا سکتے ہیں ورنہ مکروہ وممنوع ہے۔بکری کے بچہ کو کتیا کا دودھ پلاتا رہا اس کا بھی حکم جلالہ کا ہے کہ چند روز تک اسے باندھ کر چارہ کھلائیں کہ وہ اثر جاتا رہے۔ بکری سے کتے کی شکل کا بچہ پیدا ہوا اگر وہ بھونکتا ہے تو نہ کھایا جائے اگر اس کی آواز بکری کی طرح ہے تو کھایا جا سکتا ہے اور اگر دونوں آوازیں دیتا ہے تو اس کے سامنے پانی رکھا جائے اگر زبان سے چاٹے کتا ہے اور منہ سے پیے تو بکری ہے اور اگر دونوں طرح پئے تو اس کے سامنے گھاس اور گوشت دونوں چیزیں رکھیں گھاس کھائے تو بکری مگر اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے کھایا نہ جائے اور گوشت کھائے تو کتا ہے اور اگر دونوں چیزں کھائے تو اسے ذبح کر کے دیکھیں اس کے پیٹ میں معدہ ہے تو کھا سکتے ہیں اور نہ ہو تو نہ کھائیں۔

جانور کو ذبح کیا وہ اٹھ کر بھاگا اور پانی میں گر کر مر گیا یا اونچی جگہ سے گر کر مر گیا اس کے کھانے میں حرج نہیں کہ اس کی موت ذبح ہی سے ہوئی پانی میں گرنے یا لڑھکنے کا اعتبار نہیں۔ زندہ جانور سے کوئی ٹکرا جدا کر لیا مثلا دنبہ کی چکی کاٹ لی یا اونٹ کا کوہان کاٹ لیا یا کسی جانور کا پیٹ پھاڑ کر اس کی کلیجی نکال لی یہ ٹکڑا حرام ہے جدا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ گوشت سے جدا ہو گیا اگرچہ ابھی چمڑا لگا ہوا ہو اور اگر گوشت سے اس کا تعلق باقی ہے تو مردار نہیں یعنی اس کے بعد اگر جانور کو ذبح کر لیا تو یہ ٹکڑا ابھی کھایا جا سکتا ہے۔ جانور کو ذبح کر لیا ہے مگر ابھی اس میں حیات باقی ہے اس کا کوئی ٹکڑا کاٹ لیا یہ حرام نہیں کہ ذبح کے بعد اس جانور کا زندوں میں شمار نہیں اگرچہ جب تک جانور ذبح کے بعد ٹھنڈا نہ ہو جائے اس کا کوئی عضو کاٹنا مکروہ ہے۔ شکار پر تیر چلایا اس کا کوئی ٹکڑا کٹ کر جدا ہو گیا اگر وہ ایسا عضو ہے کہ بغیر اس کے جانور زندہ رہ سکتا ہے تو اس کا کھانا حرام ہے اور اگر بغیر اس کے زندہ نہیں رہ سکتا مثلا سر جدا ہو گیا تو سر بھی کھایا جائے گا اور جانور بھی زندہ مچھلی میں سے ایک ٹکڑا کاٹ لیا یہ حلال ہے اور کاٹنے سے اگر مچھلی پانی میں مر گئی تو وہ بھی حلال ہے۔( بحوالہ الدرالمختار‘‘،کتاب الذبائح،ج۹،ص۵۰۷؍بہار شریعت، ۱۵ : ۱۲۷ سے ۱۲۹ حلال وحرام جانوروں کا بیان ،)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
 کتبہ
محمد صفی اللہ خان رضوی 
الجواب صحیح والمجیب نجیح 
محمد مقصود عالم فرحت ضیائی







Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner