AD Banner

{ads}

(جھاڑ پھونک کرکے اجرت لینا کیسا ہے؟)

 (جھاڑ پھونک کرکے اجرت لینا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جھاڑ پھونک کرکے اجرت لینا کیسا ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی:۔محمد صابر حسین ناگور شریف۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
جی جھاڑ پھونک کرکے اس پر اجرت لینا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ شرکیہ کلمے نہ ہوں ورنہ حرام ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے صحیح بخاری شریف میں ابو سعید خدری رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے مروی، کہتے ہیں صحابہ میں کچھ لوگ سفر میں تھے ان کا گزر قبائل عرب میں سے ایک قبیلہ پر ہوا،انھوں نے ضیافت کا مطالبہ کیا اُنھوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کردیا، اُس قبیلہ کے سردار کو سانپ یا بچھو نے کاٹ لیا اُس کے علاج میں اُنھوں نے ہر قسم کی کوشش کی مگر کوئی کارگر نہ ہوئی پھر اُنھیں میں سے کسی نے کہا یہ جماعت جویہاں آئی ہے (صحابہ) ان کے پاس چلو شاید ان میں سے کسی کے پا س اس کا کچھ علاج ہو، وہ لوگ صحابہ کے پاس حاضر ہوکر کہنے لگے کہ ہمارے سردار کو سانپ یا بچھو نے ڈس لیا اور ہم نے ہر قسم کی کوشش کی مگر کچھ نفع نہ ہوا کیا تمھارے پا س اس کا کچھ علاج ہے ایک صاحب بولے، ہاں میں جھاڑتاہوں مگر ہم نے تم سے مہمانی طلب کی اور تم نے ہماری مہمانی نہیں کی تو اب اُس وقت میں جھاڑوں گا کہ تم اس کی اُجرت دو، اُجر ت میں بکریوں کا ریوڑدینا طے پایا (ایک روایت میں ہے تیس بکریاں  دینا طے ہوا ) اُنھوں نے *اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن* / یعنی سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا شروع کیا، وہ شخص بالکل اچھا ہوگیا اور وہاں سے ایسا ہو کر گیا کہ اُس پر زہر کاکچھ اثر نہ تھا، اُجرت جو مقرر ہوئی تھی اُنھوں نے پوری دے دی۔ ان میں بعض نے کہا کہ اس کو آپس میں تقسیم کرلیا جائے مگر جنھوں نے جھاڑا تھا یہ کہا کہ ایسا نہ کرو بلکہ جب ہم نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہولیں گے اور حضور (صلی ﷲ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم) سے تمام واقعات عرض کرلیں گے پھر حضور (صلی ﷲ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم) اس کے متعلق جو کچھ حکم دیں گے وہ کیا جائے گا یعنی اُنھوں نے خیال کیا کہ قرآن پڑھ کردم کیا ہے کہیں   ایسا نہ ہوکہ اس کی اُجرت حرام ہو۔ جب یہ لوگ رسول اللّٰہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کا ذکر کیا، ارشاد فرمایا کہ تمھیں اس کا رقیہ (جھاڑ) ہونا کیسے معلوم ہوا اور یہ فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا آپس میں اسے تقسیم کرلو اور (اس لیے کہ اس کے جواز کے متعلق اُن کے دل میں کوئی خدشہ نہ رہے یہ فرمایاکہ) میرا بھی ایک حصہ مقرر کرو۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہو اکہ جھاڑ پھونک کی اُجرت لینا جائز ہے جبکہ کہ قرآن سے ہو یا ایسی دُعاؤں سے ہوجن میں ناجائز و باطل الفاظ نہ ہوں(حوالہ صحیح البخاري کتاب البیوع، باب إثم من باع حرًّا، الحدیث: ۲۲۲۷،ج۲، ص۵۲)(سنن ابن ماجۃ‘‘، کتاب الرھون، باب أجر الأجراء، الحدیث: ۲۴۴۳،ج۳، ص۱۶۲)(بہار شریعت جلد نمبر ۳ جدید حصہ نمبر ۱)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
 کتبہ 
محمد صفی اللہ خان رضوی 
الجواب صحیح
 ابو النعمان عطا محمد مشاہدی





Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner