AD Banner

{ads}

(وقوع طلاق کیلئے اضافت معنویہ بھی کافی ہے؟)

 (وقوع طلاق کیلئے اضافت معنویہ بھی کافی ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ہندہ اپنےشوہر زید کو پیار سے میکے میں بلائ اور زید سے طلاق مانگی زید د ینےسےانکار کرکےوہاں سے اپنی پھو پھی کےگھرچل دیامگراس کی بیوی زیدکی پھوپھی کےگھربھی پہنچ کر زیدسےطلاق کیلئےضد کرنےلگی مگر زید وہاں بھی انکارکیاتو ہندہ نے کہا تم  اپنی  ماں کی  حقیقی اولا ہو تو مجھےطلاق دےگا اگر دوسرےکاہے تو نہیں دے گا اس پر زید کو غصہ آ گیااوراس نےاپنےمنہ سےتین بار دیہا تی زبان میں کہہ دیا جو طلاق دیلئیو .طلاق  دیلئیو. طلاق  دیلئیو لہذا قرآن و حدیث روشنی میں جوا ب عنایت فرمائیں کہ طلاق واقع ہو ئی یا نہیں؟
المستفتی:۔ محمد نور عالم متعلم دارالعلوم جیلانیہ ملنگرا ضلع سرلاہی نیپال

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

صورت مذکورہ مسئولہ میں ہندہ پر تین طلاق مغلظ واقع ہوگئی اب بغیر حلالہ زید کیلئےحلال نہ ہوگی جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن)

 محقق علی الاطلاق امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ کی با رگاہ عبقری میں ایک سوال آیامحمد ظفر کا اپنی والدہ سے جھگڑا ہو رہاتھا اس کی والدہ نےکہا کہ اگر اپنی بیوی کو نہ چھو ڑوگے تو تم سور کھاؤ اسی طرح تین مرتبہ بولی مظفر نے کہا طلاق دیتےہیں پھر اس نے بلاقصد غصہ کےساتھ اپنی والدہ کے سامنےکہاطلاق طلاق طلاق بغیر مخاطب کرنےکسی کو اب شرعا صو رت مسئولہ میں ظفر کی بی بی کو طلاق پڑے گی یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرما تے ہیں کہ : تین طلاق واقع ہوگئیں بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آ سکتیں۔(فتاوی رضویہ ج ۳۶۸/۱۲)

ایک مقام پر اور فرماتے ہیں کہ : خسر داماد کے لڑائی کے دوران دا ما د کہے کہ " اگر تم کل چھڑواتے ہو تو میں آج ہی چھوڑتاہوں اس سے ایک طلاق رجعی ہوجائےگی۔(فتاوی رضو یہ ج ۵۷۰/۱۲)

دونوں میں صراحتا اضافت  بیوی کی جانب نہیں ہےلیکن اول کے سو ال میں صراحتا بیوی کا ذکرہے اور دوسرے میں اشارتا ذکر ہے جس کے جواب میں بغیر اضافت طلاق دیتے ہیں طلاق طلاق طلاق مذکور ہے او ر دوسرےمیں چھوڑتاہوں کا ذکر ھے اس پر محدث بریلوی علیہ الرحمہ و قوع طلاق کاحکم دیااورنیت و عدم نیت کا قول نہیں فرمایا جس سے واضح ہے کہ اتنی اضافت ہی وقوع طلاق کیلئے کافی ہے صراحتا اضافت کی حاجت نہیں:سوال مذکورمیں بھی مطالبۂ طلاق کا ذکر موجود ھے اور اس پر اصرار بھی ہےاس کے باوجود زید نے طلا ق نہیں دیا تو ہندہ نے اس کو غصہ دلا یا اور کہا کہ تم اپنی ماں کی حقیقی اولاد ہو تو مجھے طلاق دے گا اگر دوسرے کا ہے تو نہیں دیگا جس کے جواب میں کہا کہ جو طلا ق دیلیوتو یہاں بھی وہی حکم ہوگاکیونکہ یہاں تو اضافت اس سے کہیں زیادہ واضح ہے یک اور مقام پر محدث بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جا حالت مذ اکرہ میں طلاق ثابت کریگا اور اس سےپہلے کی طلاق صریح اس کیلئے مذاکرہ ہوگی۔(فتاوی رضویہ ج ۴۵۴/۱۲)

اس جگہ بھی مذاکرہ موجودھے اور یہی اضافت صریحہ پر دال ہوگا اور طلاق مغلظ واقع ہوگی: ایک مقام پراورمحدث بریلوی ارشاد فرماتے ہیں کہ : یہ کلام کسی سوال کے جواب میں تھا جس سے اضافت پیدا ہو۔(فتاوی رضویہ ج ۳۷۰/۱۲)

اس سے معلوم ہوا کہ اگر سوال طلا ق کےجواب میں طلاق بلااضافت ہو یامذاکرئہ طلاق کے وقت ہو تو اس سے اضافت پیدا ہوگی یعنی اس کو اضافت قرار دیا جائے گا اور وقوع طلاق کا حکم ہوگا اور مذکور مسئلہ میں مطالبۂ طلاق موجودہےتو اضا فت بھی موجود ھے: بدائع الصنائع میں ہے: وحال الغضب و مذاکرة الطلاق دلیل  ارادة الطلاق ظاہرا فلایصدق فی ا لصرف عن الظاہر(بدائع الصنائع کتا ب الطلاق فصل فی النیة فی نوعی الطلاق ج ۱۰۲/۳)

ہندیہ میں بحوالہ ذخیرہ مذکور ہے ۔سئل شمس الائمۃالأوزجندی عن امرأ ۃ قالت لزوجھا لو کان  الطلاق بیدی لطلقت نفسی ألف تطلیقۃ۔ فقال الزو ج :’’من ہزاردادم‘‘ولم یقل:’’دادم ترا‘‘ قال : یقع  الطلاق ۔( ہندیہ بحوالہ ذخیرہ)

شمس الائمہ سےسوال ہواکہ ایک عو رت نے کہا کہ اگر طلاق میرے ہاتھ میں ہو تی تو  میں  اپنے آپ کو ہزار طلاقیں دے ڈالتی ، جس کے جواب میں شوہر نے کہا کہ میں نے ہزاردے دیں اور یہ نہ کہا کہ تجھے دیں تو ا مام شمس الائمہ نے فرمایا کہ طلاق ہوگئی۔

بزازیہ کے درج ذیل جزئیہ میں بھی الفاظ میں ایقاع نہیں لیکن مذاکرہ طلاق اور حالتِ غضب میں  وقوع طلاق کا قول اختیار کیاگیاہے جیسا کہ بزازیہ میں ہے(ترا سه ذكر الصدر أنه لايقع  لأنه لا إ ضمار في الفارسية والمختار الوقوع إذانوى وقد ذكرنا عن صاحب المنظو مةجريان الإضمارفي الفارسيةولفظه يحتمل الطلاق وغيره فإذا نوى تعين وفي موضع آخرقال الصدر يقع وقال أبو القاسم لا وقال غيره إن في المذا كرة أو الغضب يقع و إلا لا)(البزا زیۃ ج۱/ص۱۵۸، قدیمی کتب خانہ)

رد المحتار میں ہے: و سيذ كر قريبا  أن   من  الا لفاظ  ا لمستعملة الطلاق يلزمني ، و الحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلانية للعرف الخ، فأوقعوا به ا لطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلا ق إليها صريحا ، فهذا مؤيد لما في ا لقنية، و ظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف،(رد المحتار ج ۳ / ص ۲۷۳، المکتبہ الشاملۃ)

تیسری صورت : تیسری صورت یہ ہے کہ شوہر کے کلام میں تو بیوی کی طرف اضافت نہ ہو،مگر اس کا کلام کسی ایسی بات کے جواب میں ہو جس میں اضافت مذکور ہوتو اصول فقہ کے قاعدے اورزبان کے محاورے کے تحت اضافت موجود مانی جائے گی،کیوں کہ یہ اصولی قاعدہ ہے کہ جواب میں سوال کا اعادہ ہوتا ہے اور عرف عام میں ایک ’’ہاں ‘‘یا ’’نا‘‘کو لمبی چوڑی تقریر کا جواب سمجھا جاتاہے:علامہ شامی  لکھتے ہیں: و فی الخانیۃ : قالت لہ :طلقنی ثلاثا فقال فعلت، أو قال طلقت وقعن۔۔ان طلقنی  أمر بالتطلیق ، و قولہ طلقت تطلیق فصح جوابا،والجواب یتضمن إعادۃمافی السؤال(ردالمحتار کتاب الطلاق . مطلب سن ہوش یقع بہ الر جعی ج ۲۲۸/۳)

قالت: طلاق بدست تو است ،مرا طلا ق کن‘‘فقال الزوج:’’طلاق می کنم‘‘،و کررثلٰثًا،طلقت ثلٰثًا(ردالمحتار ج ۲۹۲/۳)

سوم : اضافت در کلام سائل کما فی قولہ’’دادم‘‘ فی جواب قولھا’’مرا طلا ق دہ‘‘و لہٰذاثلث واقع شود لتکرار ھا ثلاثا(ردالمحتار کتاب الطلاق ج ۲۲۸/۳)

ان تمام حوالہ جات سے متحقق ھوگیا کہ اضافت لفظیہ ہو یا معنویہ ہو حسیہ ہویاعرفیہ ہویانیتا ہوبہر صو رت  طلاق واقع ہوگی مذکورہ مسئو لہ میں اضافت لفظیہ صریحہ نہ بھی ہو مگر معنویہ و عرفیہ موجود ھے اس لئے طلاق مغلظ واقع ہوگی۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
 کتبہ
محمد صفی اللہ خان رضوی 
الجواب صحیح والمجیب نجیح 
محمد مقصود عالم فرحت ضیائی 








Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner