AD Banner

{ads}

( مطلقہ وبیوہ عورت کی عدت کتنی ہے ؟)

 ( مطلقہ وبیوہ عورت کی عدت کتنی ہے ؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ مطلقہ عورت کی عدت کتنی ہے؟ اور بیوہ عورت کی عدت کتنی ہے؟ اور وہ اپنی عدت کو کیسے گزاریں گی؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر ممنون ہوں
المستفتی:۔ برکت علی رضوی مدھوبنی (بہار)
  وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب
شوہر کے طلاق دینے یا  اس کے وفات پاجانے کے بعد عورت کا نکاح ممنوع ہونا اور ایک زمانۂ معینہ تک انتظار کرنا اصطلاحِ شریعت میں عدت کہلاتا ہے ـــاللہ عزوجل قرآن عظیم برہان رشید میں ارشاد فرماتا ہے (وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ )مطلقہ عورتیں تین حیض مکمل ہونے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔
موت کی عدت مطلقاً چار مہینہ دس دن ہے / اللہ سبحانہ وتعالی قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے( وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ-فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (۲۳۴)
 ترجمۂ کنزالایمان:۔اور تم میں جو مریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں تو جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو اے والیوتم پر مواخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں موافق شرع کریں اور اللہ  کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
ایسا ہی حضور سیدی سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ در مختار کے حوالے سے فتاوی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں ( وللموت اربعة اشھر وعشراً مطلقاً وطئت اولا ولو صغیرة او کتابیة تحت مسلم ولو عبد افلم یخرج عنہا الا الحامل )  موت کی عدت مطلقاً چار ماہ دس دن ہے بیوی مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ اگر چہ نابالغہ یا کتابیہ مسلمان آزاد کے نکاح میں یا مسلمان غلام کے نکاح میں صرف حاملہ کا حکم اس سے علیحدہ کہ اس کی عدت وضع حمل ہے ۔( جلد ۱۳ص ۲۹۷)
 بیوہ حاملہ بیوہ حاملہ کی عدت وضعِ حمل ہے۔ بیوہ غیر حاملہ / بیوہ اگر حاملہ نہ ہو تو اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔ مطلقہ حاملہ /  طلاق والی عورت اگر حاملہ ہوتو اسکی عدت وضع حمل ہے۔ مطلقہ مدخولہ غیر حاملہ /  طلاق والی مدخولہ عورت اگر آئسہ یعنی پچپن سالہ( جو سن ایاس کو پہنچ چکی یعنی اب حیض کی عمر نہ رہی ) یا  نابالغہ جس کو ابھی حیض آیا  ہی نہیں ہو تو اس کی عدت تین ماہ ہے۔  اور طلاق والی مدخولہ عورت اگر حاملہ، نابالغہ یا آئسہ نہ ہو یعنی حیض والی ہوتو اس کی عدت تین حیض ہے، خواہ یہ تین حیض تین ماہ میں یا  تین سال میں یا  اس سے زیادہ میں آئیں ۔ مطلقہ غیر مدخولہ / طلاق کی عدت غیر مدخولہ پر اصلًا نہیں اگرچہ کبیرہ ہو۔( اً فتاویٰ رضویہ، ج ۱۳ ص ۲۹۳, ۲۹۴) 
عورت عدت کہاں گزارے عدت شوہر کے ہی گھر میں گزارنی ہوتی ہے۔ اگر مکان(گرنے) کا خوف ہو یا چوروں کا یا مال تلَف ہونے کا خوف ہوتو اِن صورتوں میں مکان بدل سکتی ہے۔(عالمگیری،کتاب الطلاق،الباب الرابع عشر فی الحداد،۱ / ۵۳۵ و بہارشریعت، حصہ۸، ۲ / ۲۴۵)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد صفی اللہ رضوی خان 
الجواب صحیح والمجیب مصیب
ابوالحسنین محمد عارف محمود معطر قادری



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner