AD Banner

{ads}

(نکاح کی شرطیں نیز نکاح کا وکیل خود ہی نکاح پڑھائے؟)

 (نکاح کی شرطیں نیز نکاح کا وکیل خود ہی نکاح پڑھائے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ نکاح کی شرطیں بیان فرمادیں نیز نکاح کا وکیل خود ہی نکاح پڑھائے یا پھر کوئ اور مدلل جواب عنایت فرمائیں
المستفتی:۔ غفران رضا ناتھ نگر ضلع سنت کبیر نگر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
صاحب بہار شریعت حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی رضوی علیہ الرحمۃوالرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ نکاح کے لیے چند شرطیں ہیں (۱) عاقل ہونا۔ مجنوں  یاناسمجھ بچہ نے نکاح کیا تو منعقد ہی نہ ہوا (۲)بلوغ۔ نابالغ اگر سمجھ وال ہے تو منعقد ہو جائے گا مگر ولی کی  اجازت پر موقوف رہے گا(۳)گواہ ہونا۔ یعنی ایجاب و قبول دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں  کے سامنے ہوں ۔ گواہ آزاد، عاقل، بالغ ہوں اور سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سُنے۔ بچوں اور پاگلوں کی گواہی سے نکاح نہیں ہوسکتا، نہ غلام کی گواہی سے اگرچہ مدبّر یامکاتب ہو۔مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت کے ساتھ ہے تو گواہوں کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے، لہٰذا مسلمان مرد و عورت کا نکاح کافر کی شہادت سے نہیں ہوسکتا اور اگر کتابیہ سے مسلمان مرد کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ ذمّی کافر بھی ہو سکتے ہیں اگرچہ عورت کے مذہب کے خلاف گواہوں کا مذہب ہو، مثلاً عورت نصرانیہ ہے اور گواہ یہودی یا برعکس یوہیں اگر کافر و کافرہ کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ کافر بھی ہو سکتے ہیں اگرچہ دوسرے مذہب کے ہوں ۔کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ کافر بھی ہو سکتے ہیں اگرچہ دوسرے مذہب کے ہوں ۔ (الدرالمختار‘‘و’’ ردالمحتار‘‘ ،کتاب النکاح،مطلب: التزوج بارسال کتاب، ج۴، ص۸۵۔ ۱)
اب رہی بات وکیل کی تو ملاحظہ فرمائیں (نکاح کاوکیل خود نکاح پڑھائے دوسرے سے نہ پڑھوائے)یہ جو تمام ہندوستان میں عام طور پر رواج پڑا ہوا ہے کہ عورت سے ایک شخص اذن لے کر آتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں  ، وہ نکاح پڑھانے والے سے کہہ دیتا ہے میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ نکاح پڑھا دیجیے۔ یہ طریقہ محض غلط ہے۔ وکیل کو یہ اختیارنہیں کہ اُس کام کے لیے دوسرے کو وکیل بنا دے، اگر ایسا کیا تو نکاح فضولی ہوا اجازت پر موقوف ہے، اجازت سے پہلے مرد و عورت ہر ایک کو توڑ دینے کا اختیار حاصل ہے بلکہ یوں چاہیے کہ جو پڑھائے وہ عورت یا اُس کے ولی کا وکیل بنے خواہ یہ خود اُس کے پاس جا کر وکالت حاصل کرے یا دوسرا اس کی  وکالت کے لیے اذن لائے کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کو تُو نے وکیل کیا کہ وہ تیرا نکاح فلاں بن فلاں بن فلاں سے کر دے۔ عورت کہے ہاں۔( حصہ ہفتم ۷ صفحہ  از ۱۱ تا ۱۵)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
 کتبہ
محمد صفی اللہ خان رضوی 
الجواب صحیح والمجیب نجیح 
محمد مقصود عالم فرحت ضیائی



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner