AD Banner

{ads}

(الدرر الکامنہ فی قبر آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

 (الدرر الکامنہ فی قبر آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) 

بِسْمِ اللہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْمِ 

الحمد للہ الذی جعل الا رض کفاتا واکر م المو منین احیا ء واموا تا والصلوٰۃ والسلام علی من عمر القلو ب بصلوتہ ونور القلو ب بصلو تہ وعلیٰ اٰلہ وصحبہ واہلہ وحز بہ اجمعین اٰمین 

جاننا چا ہئے کہ انبیا ء واولیا ء علیہم الصلوٰۃ والسلام وعامۂ مومنین اہلسنت کے ساتھ جو قلبی عداوت فر قۂ نجد یہ وہا بیہ کو ہے ایسی اور کسی فر قہ ٔ مبتدا عہ کو نہیں ہے اسی وجہ سے فر قۂ محد ثہ کے اکابر ملا عنہ کی تصانیف ابا طیل اہا نت محبوبا ن خداسے بھری پڑی ہیں جسکا جی چا ہے شیخ نجدی ابن عبد الو ہاب ،وملا اسمعیل دہلوی، صدیق حسن بھو پالی ،وخر معلی بلہوری، ورشید احمد گنگو ہی، خلیل احمد انبیٹھو ی، واشر فعلی تھا نوی ،قاسم نا نوتو ی وغیرہ کی تا لیفات با طلہ اٹھا کر دیکھ لے کہ قسم قسم کی اہا نتوں سے پر ہیں قبو ر انبیا ء وشہدا ء واولیا ء واہل بیت اطہار علیہم السلام ومساجد مدینہ منورہ کا منہدم ونا بو دتا بمقدورکر نا اس فر قے کا شعار ہو گیا ہے ۔ العیا ذ با للہ ۔ الحمد للہ الذی ھدانا لہذا اللھم اجعلنا من المھتدین ولا تجعلنا فئۃ للقوم الظالمین 

اب بلا تبصر ہ ’’ قبر آمنہ ‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق علما ئے کرام وفقہائے عظام جو عوام وخواص میں مقبو ل ہیں اوربر صغیر میں عامۃ المسلمین کے لئے جنکے ارشادات حر ف آخر اور سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں انکے ایما ن افروز اقوال ملا حظہ فرمائیں ۔

اقوا ل ائمہ کرام 

(۱) خا تم الحفا ظ حضرت علامہ جلا ل الدین سیو طی (متوفی ۹۱۱ھ؁) رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحر یر فرماتے ہیں ’’ قا ل الا زر قی  فی تا ریخ مکۃ ۔ حد ثنا محمد بن یحیی عن عبد العزیز بن عمر ان عن ہشام بن عاصم الا سلمی قال ۔ لما خر جت قر یش الی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی غزوۃ احد فنز لو ابا لا بوا ء قالت ہند ابنۃ عتبۃ لا ٔ بی سفیان بن حرب : لو بحثتم قبر آمنۃ ام محمد فانہ با لا بوا ء فان اسر احدکم افتد یتم بہ کل انسان بارب من آر ابھا فذکر ذلک ابو سفیان لقر یش فقالت قر یش : لا تفتح علینا ہذا الباب اذاتبحث بنوبکر مو تا نا‘‘(۱) (۱)( مسالک الحنفا فی والدی المصطفیٰ ، ص۷۲ ، مطبوعہ گجرات )

تر جمہ : اما م الا زر قی تا ریخ مکہ میں کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی محمد بن یحییٰ عبد العزیز بن عمران ، از ہشام بن عاصم ، وہ کہتے ہیں کہ جب غزوۂ اُحد میں میں نے نبی کر یم رؤف الر حیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف خروج کیا تھا تو ہم مقام ابو اء میں اتر ے تو ہندہ بنت عتبہ نے ابو سفیا ن حرب سے کہا : کا ش ! میں آمنہ والد ہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) کی قبر کو ملیا میٹ کر سکتی ! کیونکہ ان کی قبرابو اء میں ہے لہٰذا تم میں سے کوئی بھی ایسا کر کے مجھے خو ش کر ے ۔ میں اس کی ہر خواہش کو پورا کر دوں گی ۔ پھر اسکا ذکر ابو سفیا ن نے قر یش سے کیا تو قر یش نے کہا : ہم پر یہ دروازہ نہ کھو لو ورنہ اس وقت بنی بکر ہمارے مردوں کی قبر یں کھود ڈالیں گے ۔ 

وہ ہندہ جس نے ( بحالت کفر ) سید الشہدا سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلیجہ چبا ڈالا وہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزار کی مٹی اڑانے سے کب باز آنے والی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے مزار آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہندہ کی دست انداز ی سے بچا یا لیکن افسوس کہ وہ کا م جو اسلام کے بد تر ین دشمن نہ کر سکے ۔ آج وہ نجدیوں نے بے دردی سے مزار آمنہ کو نہا یت ذلیل طر یقے سے پا مال کر دکھا یا ۔

(۲) عاشق رسول سید نا شیخ عبد الحق محد ث دہلو ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں:معارج النبوہ میں واقدی سے منقول ہے کہ جب یہ مشر کین ’’ ابواء ‘‘ میں پہنچے جہاں حضور اکر م صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کی قبر اطہر ہے تو انہوں نے چا ہا کہ حضرت آمنہ کی قبر کو کھود کر ہڈیاںنکا ل لیں تا کہ اگر با لفرض ہماری عورتیں ان کی قید میں چلی جا ئیں تو ہم کہیں کہ تمہاری والدہ کی ’’ عظام رمیم ‘‘ یعنی قبر کی ہڈیاں ہمارے قبضہ میں ہیں تووہ لا محالہ ا س کے بدلہ میں ہماری عورتوں کو واپس کردیں گے ۔ اور اگر عورتیں ان کی قید میں نہ آئیں تو ہم مال کثیر کے بدلہ میں یہ ہڈیاں ان کے حوالہ کردیں گے جب انہو ں نے ابو سفیان سے اس بارے میں مشورہ کیا تو انھوں نے ان کی رائے کو بودہ اور کم عقل قرار دیا اور کہا کہ بنو بکر اور خزاعہ جو کہ (محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) کے حلیف ودوست ہیں اگر وہ اس بات پر مطلع ہو جا ئیں گے تو وہ ہمارے مردوں کی تمام قبروں سے ان کی ہڈیاں نکا ل لیں گے۔(۲) (۲)(مدارج النبوہ جلد دوم ص۱۹۵) 

(۳) یہی عاشق رسول سیدنا شیخ عبد الحق محد ث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحر یر فرماتے ہیں :کہ جب حضور سید المر سلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چا ر پانچ چھ یا سات سال کے ہوئے ،ایک روایت میں بارہ سال ہے مگر صحیح چھ یاسات سال ہے ، حضرت سید ہ آمنہ حضور صلی اللہ تعالیٰعلیہ وسلم کو لے کر ام ایمن کے ساتھ اپنے والدسے ملنے کے لئے قبیلہ بنی نجا ر مدینہ منورہ تشریف  لے گئیں اور وہاں ایک ماہ گزار کر مکہ مکرمہ کو واپس ہو نے لگیں تو دوران سفر مقام ’’ ابو اء ‘‘ میں انتقال فرمایا اور اسی جگہ دفن کی گئیں ’’ ابو ا ئ‘‘ مدینہ منورہ کے قر یب ایک جگہ کا نام ہے

(۱) ایک روایت میں ہے کہ سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر انور حجون میں جانب معلی یعنی بلند ی میں ہے بعض کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ابو اء میں مد فو ن ہو نے کے بعد انہیں مکہ مکر مہ منتقل کیا گیا ہو( حالا نکہ یہ درست نہیں ہے )(۳)(۳)( مدارج النبوہ جلد دو م ص۳۷)

(۴) الا ما م العلامۃ السیدعلی نور الدین السمہو د ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں :’’والا صح ان قبر ام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم با لا بواء ماتت ھنا ک وھی راجعہ الی المکۃ ‘‘

تر جمہ(۱) صحیح تر یہی ہے کہ ام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سید ہ آمنہ کی قبر ابو اء میں ہے یہیں فوت ہو ئیں جب مدینہ شر یف سے واپس مکہ مکر مہ کو جا رہی تھیں۔(۴)(۴)(خلا صۃ الوفا ء ص ۱۰ مطبوعہ مدینہ منورہ )

(۵) یہی عا لم مدینہ منورہ علامہ علی نور الدین سمھو دی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وفا ء الوفا میں رقمطراز ہیں 

(۱)( جو کہ مدینہ منورہ سے مکہ شریف کے راستے میں بدر شر یف سے قر یب مقام ابو اء ہے جو کہ قدیم راستہ ہے آج کل جو نیا راستہ ہے اس پر ابو اء شر یف نہیں پڑتا۔ آپ کی قبر انو ر ایک پہاڑی پر ہے وہا بیہ اور حکومت وہاں زیارت کو نہیں جا نے دیتے )

وبہ (ای با لا بواء ) قبرا م رسول اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ والہ وسلم وذلک ان ابا ہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خر ج الیٰ المدینۃ یمتا ز تمر افما ت بھا فکا نت زوجتہ آمنۃ تخر ج کل عام تز ارہ قبر ہ فلما اتی لر سول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ست سنین خر جت بہ ومعھا عبد المطلب وقیل ابو طالب وام ایمن فما ت فی منصر فیھا با لا بو اء فی روایتہ ان قبر ھا بمکۃ وقا ل النو وی ان الا ول اصح(۵) (۵)( وفاء الوفاجلد ۴ ص۱۱۱۹مطبو عہ مدینہ منورہ) 

تر جمہ : ابو اء میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی والد ہ آمنہ کی قبر ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ حضور سر ورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدمدینہ پاک میں کھجو ر وں کی خرید کے لئے تشر یف لا ئے تو وہیں فوت ہو گئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ آمنہ ہر سال ان کی قبر کی زیارت کے لئے آتی تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چھ سال کے ہو ئے تو انکو ساتھ لا ئیں ان کے ساتھ حضرت عبد المطلب یا ابو طالب اور ام ایمن تھیں مکہ کو واپس جاتے ہو ئے مقام ابو اء میں فو ت ہو گئیں اور وہیں تد فین ہو ئی ایک روایت میں ہے ان کی قبر مکہ میں ہے لیکن اما م نو وی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فر مایا کہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے

(۶) الا مام الحافظ عبد الرحمن بن ابی الحسین علی بن الجو زی القر سی الحنبلی  رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد :’’ذکر ابن الجوزی فی کتاب الوفا ء ان رسول اللہ صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم بعد وفا ۃ ابیہ ، کان مع امہ آمنۃ فلما بلغ ست سنین خرجت بہ الی اخو الھا بنی عد ی بن النجار با لمدینۃ تز ور ھم ثم رجعت بہ الی مکۃ ، فلما کا نو ابا لا بواء تو فیت فقبر ھا ھناک ‘‘

تر جمہ : امام ابن جو زی نے کتاب الو فا میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے والد ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی وفات کے بعد اپنی والدہ ( حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے پاس رہے جب آپ کی عمر چھ سال کی ہو ئی تووہ آپ کو اپنے ماموؤں کے پاس بنی عد ی بن النجا ر کے پاس مدینہ میں لے گئیں ۔ آپ انکی زیارت کے لئے گئیں ۔ پھر آپ مکہ روانہ ہو ئیں ، جب آپ مقام الا بو اء پر پہنچیں توآپ فوت ہو گئیں آپ کی قبر وہیں پر ہے(الو فا ء با حوال المصطفیٰ ، جلد اول ص۷۲ )


(۷) یہی علامہ ابن الجو زی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :’’وقیل لما افتتح رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکۃ زارقبر ھا با لا بواء‘‘ 

تر جمہ:ایک قول یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو مقام ابواء میں آپ کے قبر کی زیا رت کی (۷)(از محولہ مرقاۃ شر ح مشکوٰۃ جلد ۴ ص۲۱۶ )

(۸)زینۃ الا حنا ف ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رقمطراز ہیں :’’ولما بلغ ، صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم ،اربع سنین ، وقیل خمس سنین وقیل ست ، وقیل تسع ، وقیل اثنتی عشرۃ سنۃ وشہرا وعشر ۃ ایام ماتتامہ بالا بواء وھو مو ضع بین المکۃ والمدینۃ ‘‘

تر جمہ :جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چا ر سال کے ، ایک روایت میں پانچ سال ، ایک روایت میںچھ سال اور ایک روایت میں نو سال ایک روایت میں بارہ سال ایک ماہ دس دن کے ہو ئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کا ابواء شریف کے مقام پر انتقال ہو ا ۔یہ مکہ اور مدینہ کے در میان ایک مقام ہے۔(۸)(۸) (الموردالر وی فی مو لد النبی ص۴۸ )

(۹) عمدۃ الحفاظ الا مام شہا ب الدین القسطلانی المصر ی رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ رقمطراز ہیں: ’’ولما بلغ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اربع سنین ،وقیل خمسا ، وقیل ستا ، وقیل سبعا ، وقیل تسعا ، وقیل اثنتی عشر ۃ سنۃ وشہر اوعشر ۃ ایام ، ما تت امہ الا بواء وقیل بشعب ابی ذ و یب با لحجو ن وفی القا موس ! ودار رائعۃ بمکۃ فیہ مد فن آمنۃ ام النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ‘‘

تر جمہ : جب حضور صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم چار سال ، پانچ سال ، چھ سال ، سات سال ، نو سال ، بارہ سال ایک ما ہ دس یوم کے ہوئے ، تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کا وصال ،مقام ابوا ء میں یا شعب ابی ذویب با لحجون میں ہو ا ،اور قامو س میںہے کہ مکہ معظمہ اور دار رائعہ میں اور وہیں انھیں دفن کیا گیا (۹)(۹)(المو اھب ا للدنیہ جلد اول ص۳۰۷)

(۱۰) امام حافظ ابو نعیم احمد بن عبد اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں :واقدی کہتے ہیں آپ کی والدہ آپ کو لے کر سوئے مکہ روانہ ہو ئیں راستہ میں ( مدینہ طیبہ سے  تیئس ۲۳ ؍ میل دور ) مقام ابواء پر حضرت آمنہ کا وصال ہو گیا انہیں وہیں دفن کر دیا گیا (۱۰)(۱۰)(دلا ئل النبوۃ ص۱۴۵ ، مطبوعہ دہلی)

(۱۱) عار ف با للہ حضرت العلامہ یو سف بن اسماعیل نبھا نی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رقمطراز ہیں:اما م زہری رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت کر تے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چھ سال کی عمر شر یف کو پہنچے تو آپ کی والد ہ محترمہ آپ کو آپ کے ننہال (مدینہ شریف ) بنو نجار سے ملانے کے لئے لے گئیں ام ایمن اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھیں وہاں آپ کی والدہ ماجدہ نے ایک ماہ قیام فرمایاپھر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہو ئیں جب ابو اء کے مقام پر پہو نچیں تو حضر ت آمنہ کا وصال ہو گیا اورو ہیں انھیں دفن کیا گیا (۱۱)(۱۱)( حجۃ اللہ علی العالمین جلد اول ص۴۴۵)

(۱۲) الا مام الحافظ محمد البا قر بن محمد بن عبد الکبیر الکتانی الحسینی رقمطراز ہیں :’’اخر ج ابن سعد فی الطبقات ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کان مع امہ آمنۃ بنت وھب ، فلما بلغ ست سنین خرجت بہ الی اخوالہ (بنی عدی بن النجار) با لمد ینۃ تزورہم بہ ومعہ (ام ایمن )فا قامت بہ عندہم شہرا،ثم رجعت بہ امہ الی مکۃ فلما کان  (با لا بواء ) تو فیت آمنۃ بنت وھب فقبرھا ھناک ‘‘

(ترجمہ ) اما م محمد بن سعد نے طبقات میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی والدہ (حضرت ) آمنہ بنت وھب ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کے پاس رہے جب آپکی عمر چھ سال کی ہوئی تو وہ آپ کو اپنے ماموں حضرات کے پاس بنی عدی بن النجار کے پاس مدینہ میں لے گئیں آپ انکی زیارت کے لئے گئیں ۔ا ور ام ایمن اس سفر میں آپکے ہمراہ تھیں تووہاں ایک ما ہ گزارکر مکہ مکرمہ واپس ہو نے لگیں جب حضرت آمنہ بنت وھب(رضی اللہ عنہا) مقام ابواء پر پہنچیں وہیں فو ت ہو گئیں آپ کی قبر انور اسی جگہ ہے (۱۲)(۱۲)(الطبقات جلد اول ص۱۰۰ ،روضات الجنات فی مولد خا تم الر سا لا ت ص۵۳) 

شر ح مو اہب القسطلانی لا بی عبد اللہ محمد بن عبد البا قی الزر قانی المصری الما لکی الا مام الجلیل خاتمۃ المحد ثین با لد یا ر المصر یہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رقمطرازہیں :قبر آمنہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا کا ذکر حجو ن میں ذکر کے اسکی تردید میں فرماتے ہیں ’’قا ل ابن سعد فی الطبقات ہذا غلط قبرھا با لمکۃ قبرھا با لا بواء‘‘

ابن سعد نے طبقات میں لکھا کہ یہ غلط ہے کہ آمنہ کی قبر مکہ میں ہے بلکہ ان کی قبر ابوا ء میں ہے (۱۳)( شر ح مواہب اللدنیہ جلد اول ص۳۱۰مطبوعہ بیروت )

الحمد للہ یہ بطورنمونہ بار ہ عبارات قاہرہ جن سے وہا بیت کی ذلیل عمارت نہ صر ف منہدم ہو ئی بلکہ قارون اور اسکے گھر کی طر ح بفضلہ تعالیٰ تحت الثر یٰ پہو نچتی ہے اس مطلب پر اقو ال ائمہ بے شمار ہیں خدا انصاف دے تو یہی ا قل قلیل کہ مذکورہو ئے بسیار ہو ئے غر ض شمس وامس کی طرح روشن ہو اکہ ’’ قبر آمنہ ‘‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مقام ابو اء میں ہے کما لا یخفی علی من طا لعہ با معا ن النظر واللہ الموفق ۔

اب ذرا چشم حق بین سے دیکھئے !

مسلما نو! اے مصطفی پیارے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عزت وعظمت پر قر بان ہو نیوالو!مزار آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابو اء میں ائمہ اسلام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ارشاد ات سے واضح وروشن ہو گیا :۔ مگر نجدی اسلامی اصول سے ناواقف ضد کے پکے بلکہ میرے نزدیک انکی فر عونیت کا ر فرماہے ورنہ جہاں محد ثین و مو رخین نے حجو ن کا ذکر کیا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ صحیح تر یہی ہے کہ قبر آمنہ ابواء میں ہے ۔

 بتا ئیے عمل صحیح تر پر ہونا چا ہیے یا غیر صحیح پر لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر حجون میں ہے علا وہ ازیں سیدہ طیبہ طا ہر ہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ابتدائی دفن ابو اء میں ہے اس کے متعلق کسی کو اختلا ف نہیں ہاں احتمال ہے کہ بعد کو ابوا ء سے منتقل کر کے حجو ن میں مد فو ن ہو ئیں لیکن میں کہتا ہوں عمل یقین پر ہو تا ہے نہ کہ احتمال پر : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت مبارکہ سے قبر آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! ابو اء میں ثا بت ہے ۔ وھو المقصود والحمد للہ العلی الو دود 

(قبر آمنہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کی پا مالی کی داستان )

ہمیں دلوں کو تڑ پا دینے والی پہا ڑوں کو چیر دینے والی اور دماغو ں کو جھنجھو ڑ دینے والی روح فرسا خبر پہو نچی کہ سعودی عر ب میں مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقام ابواء پر موجود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والد ہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر مبارک کو نہ صر ف بلڈوزر کی مدد سے منہدم کر دیا گیا بلکہ بلڈوزر کے ذریعہ اس جگہ کو کھود کر بر ابر کر کے زمین کو ہموار کر دیا گیا ۔مزید یہ کہ جس پہاڑکی چوٹی پر یہ قبر انورموجود تھی اسے کاٹ کر ایک جانب دھکیلا گیا اور زائرین کے دلوں کو تڑپانے کے لئے راستے میں شیشے اور غلاظت کے ڈھیر لگا ئے گئے دنیا بھر میں اس خبر نے اہل سنت مسلمانوں کو انتہائی کر ب وغم میں مبتلا کر دیا ( تفصیل کے لئے ملا حظہ کریں :رسالہ حضرت آمنہ کی قبر کی پامالی )


(مزارات کا انہدام )

وفد کے اراکین نے مدینہ طیبہ کے منہدم شدہ مزارات کی جو فہر ست قلمبند کی ہے ذرا دل پر ہاتھ رکھ کراس کی بھی ایک جھلک ملا حظہ فرمائیں ہا ئے ! کیسے کیسے لا لہ رخو ں کی جلو ہ گاہوں کو چشم زدن میں دیو کے بندے وہا بیہ، عقیدوں کے گندے نجدیہ ، صحرائے نجد کے درندوں نے ویران کر ڈالا ۔

(مزارات شہزا دیان خاندان نبوت)

(۱) بنت رسول حضرت سیدہ فا طمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 

(۲) بنت رسول حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا 

(۳) بنت رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا 

(۴) بنت رسول حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 

(۵) حضر فاطمہ صغر ی بنت حضرت اما  م حسین شہیدکر بلا رضی اللہ تعالیٰ عنہم 

(مزارات ازواج مطہر ات)

(۱) ام المو منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

(۲) ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا 

(۳) ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 

(۴) ام المو منین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وغیرہا 

کل نو ازواج مطہرات کے مزارات 

(مزارات مشا ہیر اہل بیت )

(۱) شہزادۂ رسول حضرت اما م حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۲) سر مبارک حضرت اما م حسین شہیدکر بلا رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۳) حضرت اما م زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۴) جگر گو شہ رسول حضرت ابر اہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۵) عم النبی حضرت عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۶) حضرت امام جعفر صا دق رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۷) حضرت امام محمد با قر رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(مزارات مشا ہیر صحابہ وتا بعین) 

(۱) امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۲) حضرت سیدنا عثمان ابن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۳) حضرت عبد الرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۴) حضرت سعد ابن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۵) حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ 

(۶) حضرت اما م نا فع رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رپوٹ خلافت کمیٹی ص۸۰تا ۸۹)

صحرائے نجدکے جن وہا بیہ درندوں نے سرور کو نین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ اور شہزا دوں ، ازواج مطہرات ،ا ور ان کے مقدس صحابہ کی لا شوں پر تیشے چلا ئے ۔ ان کے مزارات کی حرمتوں کو خاک وخون میں ملا یا ۔ کیا زند گی کے کسی لمحہ میں بھی آپ انھیں معا ف کر سکتے ہیں ؟

(مسا جد کا انہدام)

مسا جد کی بے حر متی اور ان کی پا مالی کے جان گدا ز حا دثات اس ارکان وفد کے عینی شاہد لکھتے ہیں ۔ پڑھییٔ اور خون کے آنسو روئیے کہ نجد ی درندوں کی کا فرانہ سر کشی کے آگے اسلام کی حر متوں کو اپنے گھر میں بھی پنا ہ نہ مل سکی اس سے بھی زیادہ افسوس ناک چیز یہ ہے کہ مکہ معظمہ کی طرح مدینہ منورہ کی بعض مساجد بھی نہ بچ سکیں اور مزارات کے قبوں کی طرح یہ مساجد بھی توڑ دی گئیں 

مدینہ شریف میں منہدم کردہ مساجد کی تفصیل یہ ہے 

(۱) مسجد فا طمہ متصل مسجدقبا

(۲) مسجد ثنا یا ( میدان احد جہاں سر کار کے دندان مبارک شہید ہو ئے تھے )

(۳) مسجد ما ئدہ ( جہاں سورہ مائدہ نازل ہو ئی تھی )

(۴) مسجد اجا بہ ( جہاں سرکا رکی ایک نہا یت اہم دعاقبو ل ہو ئی تھی )(۱)(رپو ٹ خلا فت کمیٹی ص۸۸)

مسلمانوں ! تمہیں تمہارے رب عزوجل تمہارے پیارے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری عظمت پیاری جلا لت پیاری وجا ہت کا واسطہ !ذرا انصاف کی نظر سے ملاحظہ فرمائیے 

(نجدی وہا بی کفار مکہ اور نا صبیوں کے نقش قد م پر) 

ما قبل میں قارئین نے ملا حظہ کیا کہ سید ہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر گرانے اور ان کی ہڈیاں لے جانے کے لئے ہندہ اور دیگر کفار مکہ نے ارادہ ظا ہر کیا لیکن رسو ل اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایک حریف ( قبیلہ ) سے ڈر کر کفار مکہ اس لعنت کا طوق گلے میں نہ ڈال سکے جو نجدیوں کی نصیب میں آئی ۔ کا ش آج رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا کوئی حریف ہوتا جس سے نجدی درندے ڈر کھا کر سید ہ طیبہ طاہر ہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزار مبار ک کو پامال نہ کر سکتے 

اے چشم انصاف یہ مانا! کہ مسئلہ قطعی نہیں ، اجما عی نہیں ، پھر ادھر کو ن ساقاطع کو ن سااجما ع ؟ آدمی اگر جانب ادب میں خطا کرے تو لا کھ جگہ بہترہے اس سے کہ معاذاللہ اسکی خطا جانب گستا خی جا ئے 

جسے یہ پسند ہوفبہا ورنہ ’’ ان ذلکم کا ن یؤ ذی النبی ‘‘ سے ڈرے 

( احا دیث طیبہ میں ہے )

مسلم شر یف کی حدیث میں ہے کہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لا ن یجلس احدکم علی جمر ۃ فتحر ق ثیا بہ فتخلص الی جلدہ  خیرلہ من ان یجلس علی قبر ‘‘

(تر جمہ) تم میں سے کو ئی آگ پر بیٹھ جا ئے جو اس کے کپڑے جلا کر اس کی کھال تک پہنچے اس سے بہتر ہے کہ وہ قبر پر بیٹھے ۔(۱)(۱)(مسلم شر یف جلد اول ص ۳۱۲)(ا بو دادؤد شر یف جلد ۲ ص ۱۰۴وابن ماجہ جلد اول ص۱۱۳)  

ابن ابی شیبہ کی حدیث میں ہے کہ۔ سید المر سلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا !’’اذی المو من فی مو تہ کا ذاہ فی حیا تہ ‘‘

(تر جمہ ) مو من کو اس کی وفات کے بعد ایذاء دنیا ایسا ہے جیسے اس کو حیات میں ایذا دینا (۲)(۲)( شر ح الصدور ص۱۲۶مطبوعہ بیروت )

ابو داؤدوابن ما جہ کی حدیث میں ہے کہ ! شفیع المذنبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ’’کسر عظم ا  لمیت واذا ہ ککسر ہ حیا ‘‘

(تر جمہ ) مر دہ کی ہڈی تو ڑنا اور اس کو تکلیف دینا ایسا ہی ہے جیسے زند ہ کی ہڈی کو توڑ نا(۳) (۳) ( ابو داؤد جلد ۲ص۱۰۲ ؍المسند ابن حنبل جلد ۶ ص۵۸۔ جمع الجوامع حد یث نمبر ۶۸۲۳)

لہٰذ ا مردہ کی عزت وحرمت ، مسلمان کی قبر پر بیٹھنے ، اس کی بے حرمتی کر نے کی ممانعت ان احادیث سے ثا بت ہے اب نجدیہ غیر مقلدین نجدیہ دیو بند یہ جواب دیں جنہوں نے حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے مزار ات کی تو ہین کی اور سید ہ طاہر ہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزار کو مسمار کر دیا جن کی زیارت کر نا سنت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وسنت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہے )کیا وہا بیہ دیا بنہ نے سید المر سلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس فر مان کی صریح مخا لفت نہیں کی طبرانی کی حدیث میں ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مر دوں کو براکہہ کر زند وں کو ایذا ء نہ دو ۔‘‘

یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تو زندہ ابدی ہیں ہمارے تمام افعال واقوال پر مطلع ہیں ۔کیا وہا بیہ دیا بنہ نے حضرت سید ہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قبر مبا رک کو منہد م کر کے سید المر سلین شفیع المذنبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایذاء نہ دی ؟ضرور ضروردی ! تو ایسوں کے لئے تمہارا رب عزوجل فرماتا ہے :والذین یؤذون رسول اللہ لھم عذاب الیم  (۱) (۱) (پارہ ۱۰؍ سورہ توبہ ، آیت ۶۱) 

جو لوگ رسول اللہ کو ایذا ء دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

 اور فرماتا ہے:ان الذین یؤذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدینا والا خرۃ واعدلھم عذابا مھینا (۲) (۲)(پا رہ ۲۲؍سورہ احزاب آیت ۵۷)

بیشک جو لو گ اللہ ورسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر لعنت ہے دنیا اور آخر ت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ! 

(للہ انصاف)

اس سے بڑی اذیت کیا ہے کہ حضور سید المر سلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والد ہ ماجدہ سید ہ آمنہ اہل بیت اطہار وازواج مطہر ات وصحابہ وصحابیات رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین !کے مزارات کو منہد م کر دیا گیا !

’’ انا للہ وانا الیہ راجعون ولاتحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون ‘‘


(متوکل عبا سی کی شقاوت )

خاتم الحفاظ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، تاریخ الخلفا ء میں ’’متوکل کی شقاوت‘‘ کے بارے میں رقمطراز ہیں: وفی سنۃست وثلا ثین امر بھدم قبر الحسین ، وھدم ما حولہ من الدور، وان یعمل مزارع ، ومنع الناس من زیارتہ وخرب وبقی صحراء وکان المتوکل معروفا با لتعصب ’’ فتا لم المسلمون ‘‘من ذلک ، وکتب اھل بغد ادشتمہ علی الحیطان والمساجد وھجا ہ الشعر اء فمما قیل فی ذلک !

۲۳۶ھ؁ میں متوکل نے حضرت اما م حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک اور ان مقابر کو جو اس کے ارد گر د واقع تھیں منہدم کرادیا تمام قبر یں کھد وادیں اور حکم دیا کہ زمین ہموار کر کے یہاں کا شتکار ی کی جا ئے لو گوں کو سختی کے ساتھ ان قبور کی زیارت سے روک دیا گیا چنانچہ قبو رکے انہدام کے بعد تمام علاقہ مدتوں تک ایک خرابہ (کھنڈار) اور جنگل بنا رہا متوکل کی ان حرکات سے لو گوں کو سخت صدمہ پہنچا لو گ اس سے نفرت کرنے لگے اور اسکو ناصبی یعنی خار جی کہنے لگے !بغداد والوں نے اس کی اس حرکت پر دیو اروں او ر مسجدوں پر گالیاں اور برے کلمات لکھے شعرا ء نے اسکے ہجو میں اشعارلکھے نمو نۃً چند شعر یہ ہیں 

(۱) باللہ ان کا نت امیۃ قد اتت

قتل ابن بنت نبیھا مظلوما

(۲)فلقد اتاہ بنو ابیہ بمثلہ 

ہذا لعمدی قبر ہ مھدوما

(۳)اسفو اعلی الا یکو نو اساد کو 

فی قتلہ فتتبعوہ ر میما

ترجمہ : (۱) خداکی قسم بنو ا میہ نے پیدا ہو کر ۔نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نواسے کو مظلوم قتل کر دیا ۔

(۲) اب انکے مثل ایک بنو امیہ سے آیا ہے ۔ اور اس نے حسین کی قبر اکھڑا وپھینکی ہے ۔

(۳) اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کو اس بات کا رنج اور افسوس تھا کہ وہ قتل میں شریک نہ ہو سکا ۔ 

 چنانچہ اس کی تلا فی کے لئے اس نے ہڈیا ں اکھا ڑ پھینکی ہیں۔ (۱)(۱)(تا ریخ الخلفاء ص۲۵۳؍مطبوعہ دیوبند)

خاتم الحفاظ امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عر بی میں ’’ فتا لم المسلمون ‘‘ کا جملہ ہمارے مو ضو ع یہ قبر آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خا ص منا سبت رکھتا ہے کہ ظالم ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان سے ایسا سلو ک کرتے آرہے ہیں مسلمان اے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے امتی ! تجھے اپنے دین وایمان کا واسطہ ، کیا شید الشہدا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار مبارک منہدم کروانے سے ! حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کواذیت نہ ہو ئی ، ضرورہوئی ۔

مسلمانو! کیا حضور سید المر سلین شفیع المذنبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اذیت دینے پہونچا نے والے گمراہ نہیں ہو ئے ضرور ہو ئے ۔بلکہ چو پاؤں سے بڑھکر گمراہ ہو ئے اوران آیا ت طیبہ کے مصداق ٹھہرے ۔

مسلمانو! خاص ان صحرائے نجد کے درندوں یا انکے پیر وکار وہا بیہ دیابنہ سے پو چھو ان پر خود انکے اقرا ر سے قرآن عظیم کی یہ آیتیں چسپا ں ہو ئیں یا نہیں ۔

تمہارا رب عزوجل فرماتا ہے

(۱)و لقد ذر أنا لجھنم کثیر امن الجن والا نس لھم قلو ب لایفقھو ن ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اذان لا یسمعون بھا اولئک کا لا نعام بل ھم اضل اولٰئک ھم الغٰفلون۔

ترجمہ : اور بیشک ضرور ہم نے جہنم کے لئے پھیلا رکھے ہیں بہت سے جن اور آدمی انکے وہ دل ہیں جن سے حق کو نہیں سمجھتے اور وہ آنکھیں جن سے حق کا راستہ نہیں سو جھتے اوروہ کا ن ہیں جن سے حق بات نہیں سنتے وہ چو پاؤں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر بہکے ہو ئے وہی لو گ غفلت میں پڑے ہیں۔ (۱)(۱)( مسالک الحنفا فی والدی المصطفیٰ ، ص۷۲ ، مطبوعہ گجرات )

اور فرماتا ہے 

(۲) ’’ارایت من اتخذالھہ ہوٰہ افانت تکو ن علیہ وکیلا ام تحسب ان اکثر ھم یسمعون اویعقلون ان ھم الا کا لانعام بل ہم اضل سبیلا ‘‘

(تر جمہ )بھلا دیکھ تو جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا تو کیا تو اسکا ذمہ لے گا یا تجھے گمان ہے کہ ان میں بہت سے کچھ سنتے یا عقل رکھتے ہیں وہ تو نہیں مگر جیسے چو پائے بلکہ وہ تو ان سے بھی بڑھکر گمراہ ہیں (۲) (۲)(پارہ ؍۹؍سورہ اعراف آیت ؍۱۷۹)

اور فرماتا ہے :

(۳) کذلک العذاب ولعذاب الا خرۃ اکبر لو کانو ایعلمون (۳)(۳)(پارہ ؍۱۹سور ہ فرقان آیت ؍ ۴۳؍۴۴)

تر جمہ : مار ایسی ہو تی ہے اور بے شک آخر ت کی مار سب سے بڑی کیا اچھا تھا اگر وہ جا نتے (۴)(۴)(پارہ ۲۹؍سور ہ قلم آیت ۳۳)

 مسلمانو! یہ حاصل ہے خاتم النبیین سید المر سلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جناب میں باعث اذیت کا ۔ وسیعلم الذین ظلمو اای منقلب ینقلبون (ترجمہ ) اور اب جا نا چا ہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھا ئیں گے (۱) (۱)( پارہ ۱۹؍ سور ہ شعراء ،آیت ۲۲۷)

لیکن آج اسلام کی دعویدار بیشمار سلطنتیں مو جو د ہیں کسی سے بھی ظالم نجدی کو خطرہ نہیں اسے یقین ہے کہ جو کچھ کر یگا اس سے کو ن پو چھے گا ! مجھے تو حیرت ہے حکومت ایران پر کہ ان کے اہل بیت کی محبت کے لمبے چوڑے دعو ے کہاں گئے وہ تو اہلسنت سے اس مسئلہ میں دو قدم آگے ہیں وہ کہتے ہیں ایمان آمنہ کا عقیدہ فرض ہے لیکن حکومت ایران اسطرح خمو ش ہے گو یا اسے سانپ سو نگھ گیا ہے ساتھ ہی ہند و پاک کے وہبڑ ے صحرائے نجد کے درندوں کے چیلے بغلیں بجا کر خوب مسرور ہیں اور کہہ رہے خو ب شد اور محبوب خدا صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وسلم کے خا ندان کے ساتھ ایسا ہو نا ضروری تھا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون 

(صحابہ وتا بعین کے دور کا ایک واقعہ )

(عالم مدینہ علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ (خلا صتہ الوفا ) میں رقمطراز ہیں ولید بن عبد الملک نے (۸۸ھ؁ میں حضرت عمر بن عبد العزیز (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو لکھا کہ مسجد نبو ی شریف کی پرانی عمارت کو شہید کرکے ازسرنو تعمیر کیا جا ئے اور مسجد سے متصل امہات المومنین کے جو حجرات اور دوسرے مکا نا ت ہیں ، انہیں خر ید کر مسجد کی عمارت میں تو سیع کرو! عمر بن عبد العزیز ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے حکم کی تعمیل کی ! جس دن حضرت عمر بن عبد العزیز نے حجرات کو گرانے کا حکم دیاتو مدینہ منورہ میں کہرام تھااور اس دن سے زیادہ گریہ کنا ں لو گ کبھی نہیں دکھا ئی دئے پھر حضرت عمر بن عبد العزیز (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ) نے مسجد نبوی شریف کی عمارت کو دوسرے طریقہ سے تعمیر کروایا ۔(۲)(۲) (خلا صتہ الوفاص۹،تاریخ طبری جلد ۸؍ ص۱۳۱۳) 

(عبرت زاہرہ)

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجرات مقدسہ کو تو ہین کی غر ض سے نہیں منہد م کرانے کا حکم دیا بلکہ تعمیر کے ارادہ سے منہدم کرانے کا حکم دیا تو صحابہ اور تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں کہرام مچ گیا یہاں تو ام النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی توہین ہے اگر آج صحابہ وتا بعین حیات ظاہر ہ میں ہو تے تو قبر آمنہ کے منہدم کرنے پر پھر جسد آمنہ کی توہین پر ان کا کیا ردعمل ہو تا لیکن درد کی داستان وہ سنتا ہے جس میں غیر ت ایما نی ہو جب غیر ت ہی اٹھ گئی تو اب ہم کہیں تو کس سے ۔ فا لی اللہ (المشتکی وھو المستعان )

(ہارون رشید کا سہانا دور)

علامہ جمال الدین بن عقبہ حسنی رقمطراز ہیںکہ جب ہارون رشید بادشاہ کا دور آیا تو اس نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے قبر مبا رک کی مٹی نشان کو اجا گر کیا !

الر شید ہا رون بن محمد بن عبد اللہ فانہ خرج ذات یو م یتصیدو ھنا ک حمر وحشیتہ وغزلا ن بکا ن کلما القی الصقور والکلاب علیھا لجا ت الی کثیب رمل ھنا ک فتر جع عنھا الصقور والکلا ب فتعجب الرشید من ذالک ورجعی الی الکو فۃ وطلب من لہ علم بذلک فاخبرہ بعض شیو خ الکو فتہ انہ قبر امیر المومنین علی فیحکی انہ خرج لیلا الی ھناک ومعہ علی بن عیسی الھا شمی وابعد اصحابہ عنہ وقا م یصلی عند الکثیب  ویبکی ویقول اللہ یا ابن اعم انی  لا عرف حقک ولا انکر فضلک ولکن ولنا لیخر جون ویقصدون قتلی وسلب ملکی الی ان قر ب افجرو علی بن عیسی نائم فلما قرب الفجر ایقظہ ہا رون وقال قم فضل عند قبر ابن عمک قال وای ابن عم ھو قال امیر المومنین علی بن ابی طا لب فقام عیسی وتو ضا وصلی وزار اقبر ثم ان ھا رون امر فبنی علیہ قبۃ عظیمتہ واخذ الناس فی زیارتہ والدفن لمو تا ھم حولہ انی ان کا ن زمن عضد فتا جز ابن بوید الدیلی فعمر ہ عمار تہ عظیمتہ واخرج علی ذالک امو الہ جزیلتہ وعین الہ اوقانا

ہارون الرشید بن محمد بن عبد اللہ ایک دن شکار کی غر ض سے نکلا تو کچھ ہرن اور وحشی گدھے وہاں تھے جب شکا ری جانور چرخ اور کتے ان پر چھو ڑے جا تے تھے وہ سب ہرن ایک ریگ کے ٹیلے پر پناہ لیتے تھے سب شکا ری جانور پلٹ آتے تھے ہارون الر شید کو سخت تعجب ہوااور کوفہ میں پلٹ کر واقف کا ر لو گوں کو بلا یا اور ان سے اس حقیقت کا انکشا ف چاہا بعض شیو خ کو فہ نے بیان کیا کہ یہ قبر امیر المومنین حضرت علی کی ہے ایک شب ہارون رشید علی بن عیسی ہا شمی کو ساتھ لے کر وہاں آیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو علیحدہ کر کے خو داس ٹیلے کے پاس نماز میں مشغول ہو گیا اور روتا جا تا تھا اور کہا کہ خداکی قسم میں آپ کے حق کو جانتا ہوں اور آپ کی فضیلت کا منکر نہیں ہو ں مگر آپ کی اولاد میرے اوپر خروج کرکے مجھے قتل کر نا اور میرے ملک کو چھیننا چا ہتے ہیں اس حا لت میں صبح قر یب ہو گئی اور اس وقت علی بن عیسی سورہے تھے ۔

 ہا رون نے علی بن عیسی کو بیدا ر کیا اور کہا اٹھو اپنے ابن عم کی قبر کے قریب نما ز پڑھو انہوں نے کہا کون ابن اعم کہا امیر المو منین حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ عیسی کھڑے ہو ئے وضو کیا اور نماز پڑھی اور زیارت قبر کی پھر ہارون نے حکم دیا اور قبہ اس قبر پر تعمیر ہو گیا اور لوگوں نے زیارت کر نا شروع کی اور اپنے مردوں کو اسکے گر ددفن کر نے لگے یہاں تک کہ عضد الد ولہ

 دیلمی کا زمانہ آیا عضد الد ولہ نے بہت بڑی عمارت وہاں بنا دی اور بہت سے امو ال اس میں صر ف کیے اور اوقا ف اس کے لئے معین کردیئے(۱)(۱)(عمدۃ الطالب فی النا ب ال ابی طالب ص۷۲) 

خاتم الحفاظ علامہ جلا الد ین سیو طی رحمۃ اللہ علیہ ’’تا ریخ الخلفا ‘‘میں ہا رون رشید بادشاہ کے کردار کے بارے میں رقمطراز ہیں

’’وکا ن یحب العلم واھلہ ویعظم حر مات الا سلام ویبغض المر اء فی الدین ، والکلام فی معا رضۃ النص‘‘

ہارون الرشید علم وعلما کا قدردان تھا اور احکام شرعیہ وشعا ئر اسلام کی تعظیم کر تا تھا اور دین میں ظاہر داری اور نص کے مقابلہ علم کلام سے بیزاری رکھتا تھا (۲)(۲)( تا ریخ الخلفا ص۲۱۰مطبوعہ دیوبند)

(عبرت باہر ہ )

مو رخین تحریر فرماتے ہیں ہارون الر شید کا سہانا دور تھا کہ علما ء فقہا ء کا رواج تھا وہ اپنے ملک میں اسلامی شعائر کو رواج دینے کو اولیت دیتا تھا اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سید نا علی المر تضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار کے متعلق بھی اختلاف ہے لیکن اس کے با وجود ہارون الر شید نے امام مالک وامام شافعی کے استاذ ابر اہیم اور امام ابو یو سف رحمۃ اللہ کے علاوہ بڑے بڑے ائمہ اعلام اور فقہا ء کرام کے سامنے سیدنا علی المر تضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہ صرف قبر بلکہ اس پر عالیشان قبہ بنا یا جو آج تک مختلف ادوارگزرنے کے باوجود خوب سے خوب تر ہے نجف اشر ف (کوفہ ) میں زیا رت گاہ عوام وخواص ہے اس وقت کے علماء فقہا ء نجدیوں سے لا کھو ں درجہ بڑھ کر علم وعمل اور تقویٰ کے حامل تھے وہ ہا رون الر شید کی اس کا روائی کے حامی رہے لیکن افسو س کہ ہمارے دور کے سر براہان ممالک الٹا مزارات گرانے والے دشمنان اسلام نجدیوں کے ساتھ روداری کر تے ہو ئے چپ شاہ بنے بیٹھے ہیں ۔(انا للہ وانا الیہ راجعون ولا تحسبن اللہ غا فلا عما یعمل الظلمون )

(وہا بی کی گواہی )

اس سے پہلے جن اکا بر علما ء کے ارشادات نقل کیے گئے ہیں ان کی حیثیت ہر مکتب کے نزدیک مستند ہے ۔ذیل میں سردست دو اقتباس ایسے دوشخص کی پیش کی جا تی ہیں جنکی وہا بیہ دیا بنہ کے نزدیک بڑی وقعت ہے !

(۱)  شیخ شبلی نعمانی لکھتے ہیں !آنحضرت(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) کی عمر جب چھ بر س کی ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو لیکر مدینہ گئیں چو نکہ آنحضرت (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) کے داد ا کا ننہالی خاندان نجار میں تھی وہیں ٹھہر یں اس سفر میں ام ایمن بھی ساتھ تھیں جو آنحضرت (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) کی دایہ تھیں مو رخین نے لکھاہے کہ آپ کی والدہ اس ننہالی رشتہ کی وجہ مدینہ گئیں لیکن یہ رشتہ دورکا تھا قیا س میں نہیں آتا کہ صرف اتنے سے تعلق سے اتنا بڑا سفر کیا جا ئے ،میرے نزدیک بعض مو رخین کایہ بیان صحیح ہے کہ حضرت آمنہ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے گئی تھیں ، جو مدینہ میں مد فو ن تھے بہر حال ایک مہینہ تک مدینہ میں مقیم رہیں واپس آتے ہو ئے جب مقام ابو اء میں پہنچیں تو ان کا انتقال ہو گیا اور یہیں مد فو ن ہو ئیں ،ام ایمن آنحضرت (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )کو لیکر مکہ میں آئیں (۱) (۱)(سیر ۃ نبو ی جلد اول ص۱۶۳)

(۲)  مو لوی سید سلیمان ندوی لکھتا ہے آپ چھ بر س کے ہو چکے تو آپکو آپکی ما ں بی بی آمنہ نے اپنے پاس رکھ لیا بی بی آمنہ آپکولیکر کسی سبب سے مدینہ آئیں اور نجا ر کے خاندان میں ایک مہینہ تک رہیں ۔ایک مہینہ کے بعد جب یہاں سے واپس ہو ئیں تو کچھ منزل چلکر بیمار ہو ئیں اور ’’ابواء ‘‘ کے مقام پر وفات پا گئیں اور یہیں دفن ہوئیں ۔(۱) (۱) (رحمت عالم مطبوعہ چا ر مینار حیدرآباد طبع ثانی ۱۳۶۲ھ؁ مطابق ۱۹۴۳ءص۱۵)

گواہی تو زبر دست ہے لیکن ہمارا مخالف ضدی ہے مانے گا پھر بھی نہیں ہاں قیامت میں ضرور مانے گا مگر وہاں کا ما ننا فائدہ نہ دیگا ۔

سچ فرمایا اما م اہلسنت اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا فا ضل بر یلو ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 

آج لے ان کی پناہ آج مد د مانگ ان سے 
پھر نہ مانگے قیامت میں اگر مان گیا 

(تتمہ )

ان فرعون وشداد مزاج وہا بیہ دیا بنہ کو فقیر رضوی نے دلا ئل سے ثابت کر دیاہے حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مزار یقینا ابواء میں ہے اور سیدہ آمنہ مومنہ کا ملہ بلکہ ولیہ ہیں ان کا مزار دوسرے مزارات اولیا ء کرام کی طرح شعائر ہ میں داخل ہے !’’ ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقو ی القلوب ‘‘بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشا نیوں کی تعظیم کر ے تو یہ دلوں کی پر ہیز گاری سے ہے(۲) (۲)(پارہ ؍۱۷؍سورہ حج آیت ۳۲)

ان ظالموں کے تو ایمان کی جڑ کٹ چکی ہے انہیں تقوائے قلوب کیا نصیب ہو گااولیا ئے کاملین کے مزارات تو بڑی بات ہے ہمارے فقہاء عظام کو تو عام قبور کی بے حر متی بھی ناگوارہے ۔

’’ محقق علی الا طلاق علامہ کما ل الدین محمد بن عبد الوا حد ابن الہمام مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی ۶۸۱ھ؁ )فرماتے ہیں کہ ’’ الا تفا ق علی ان حر مۃ المسلم میتتہ کحرمتہ حیا ‘‘

تر جمہ : یہ امر متفق علیہ ہے کہ مردہ مسلمان کی عزت وحرمت زندہ مسلمان کی طرح ہے (۱)(۱)(فتح القدیر شر ح ہدایہ جلد دوم ص۱۵۰  )

علماء اسلام فرماتے ہیں ’’المیت یتا ذی بما یتا ذی بہ الحی !کذا فی رد المختار وغیرہ من معتمد ات الا سفار‘‘

جس بات سے زندوں کو ایذاپہنچتی ہے مردے بھی اس سے تکلیف پاتے ہیں ۔جیسا کہ ردالمختار وغیرہ معتمدکتب میں مذکورہے(۲)(۲)(رد المحتار فصل الا ستنجا ء جلد اول ص۵۵۶ و بحر الر ائق جلد دوم ص۳۴۲ )

لیکن وہا بیہ دیا بنہ مسلمانوں کے اس اجماع واتفاق سے محروم !بعد اس اطلاع کے بھی اگر ایسے اشخاص اپنی حر کت سے باز نہ آئیں !توسن لیں اور کان کھول کر سنیں کہ ان کی گستاخیاں سیدہ آمنہ طیبہ طاہر ہ ولیہ کا ملہ کے ساتھ ہیں اور اشد واعظم مصیبت اس کو جو اولیا ء کی جنا ب میں گستا خ ہو 

نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں !اللہ جل جلا لہ فرماتاہے:’’من عاد ی لی ولیا فقد اذنتہ با لحر ب ‘‘

ترجمہ : جو میرے کسی ولی سے دشمنی با ندھے میں نے اس سے لڑائی کا اعلان کر دیا۔(۱)(۱) (بخاری شریف جلد ۲کتاب الر قائق با ب التواضع ص۹۶۳) 

اعلیٰ حضرت عظیم البر کت مجدد اعظم امام احمد رضا فا ضل بر یلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رقمطراز ہیں:غر ض ان لو گو ںپر ضرورہے کہ اپنے حال سقیم پر رحم کریں اور خدائے جبارو قہار جل جلا لہ کے انتقام سے ڈریں اور مسلمانوں کے اموات کو ایذانہ پہنچا ئیں ،آخرانھیں بھی اپنے ا مثال کی طر ح ایک دن زمین میں جاناا ور بے کس بے بس ہو کر پڑنا ہے جیسا آج یہ لو گوں کے ساتھ پیش آتے ہیں ویسا ہی اور لو گ کل ان کے ساتھ کریں گے۔ 

سید المر سلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’کما تد ین تدان ‘‘جیسا کروگے ویسا بھر وگے(۲)(۲) (کنزالعمال جلد ۱۵ ص۷۷۲حدیث ۴۳۰۳۲)

اللہ تعالیٰ کی طرف شکو ے کہ یہ بلا ان وہا بیہ دیابنہ میں صحرائے نجدکے درندوں کی پھیلا ئی ہوئی ہے جنہو ں نے اموات کو بالکل پتھر سمجھ لیا کہ مر گئے اور خاک ہو گئے ۔نہ اب کچھ سنیں نہ سمجھیں نہ کسی چیز سے ایذایا ر احت پائیں اور جہاں تک بن پڑا قبو ر مسلمین کی عظمت قلو ب عوام سے سلب کر ڈالی !انا للہ وانا الیہ راجعون(۳)(۳) (فتا ویٰ رضویہ جلد ۹ ص۴۵۶مطبوعہ گجرات) 

(تنبیہ نبیہ )

ائے عزیز !ایمان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت سے مربوط ہے اور آتش جا ن سوز جہنم سے نجا ت ان کی الفت پر منو ط !جو ان سے محبت نہیں رکھتا واللہ ایمان کی بو اس کے مشام تک نہیں آئی وہ خود فرما تے ہیں :’’لا یو من احدکم حتی اکو ن احب الیہ من والدہ وولد ہ والناس اجمعین‘‘ 

ترجمہ : تم میں سے کسی کو ایمان حاصل نہیں ہو تا جب تک میں اس کے ماں باپ اور اولاد ،سب آدمیوں سے زیادہ پیار انہ ہوں (۱)(۱)(بخاری شریف جلد اول ص۷؍مسلم شریف جلد اول ص۴۹)

اور آفتا ب نیم روز کی طرح روشن کہ آدمی ہمہ تن اپنے محبوب کے نشر فضائل وتکثیر مدائح میں مشغول رہتا ہے اور جو بات اس کی خوبی اور تعر یف کی سنتا ہے کیسی خوشی اور طیب خاطر سے اظہار کر تا ہے ، سچی فضیلتوں کا مٹا نا اور شام وسحر نفی او صاف کی فکر میں رہنا کا م دشمن کا ہے نہ کہ دوست کا ۔

ائے عز یز ! چشم خر د میں سر مۂ انصا ف لگا اور گو ش قبول سے پنبہ نکال ، پھرتمام اہل اسلام بلکہ ہر مذہب وملت کے عقلاء سے پوچھتا پھر کہ عشاق کا اپنے محبوب کے ساتھ کیا طریقہ ہوتا ہے اورغلاموںکو مولیٰ کیسا تھ کیا کر نا چا ہئے آیا نشر فضائل وتکثیر مدائح اور ان کی خوبی حسن سن کر باغ باغ ہو جا نا ،جامے میں پھو لا نہ سمانایا رد محاسن ،نفی کمالا ت اور ان کے اوصاف حمیدہ سے بہ انکار وتکذیب پیش آنا اگر ایک عاقل منصف بھی تجھ سے کہہ دے کہ نہ وہ دوستی کا مقتضی نہ یہ غلامی کے خلاف ہے تو تجھے اختیار ہے ورنہ خدا ورسول سے شر مااور اس حرکت بے جاسے بازآ، یقین جان لے کہ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوبیاں تیر ے مٹانے سے نہ مٹیں گی ۔

ائے عزیز !سلف صالحین کی روش اختیار کراور ان کے قدم پر قدم رکھ ، ائمہ دین کا وطیر ہ ایسے معاملات میں دائما تسلیم وقبول رہا ہے ،جب کسی ثقہ معتمد علیہ نے کوئی معجزہ یا خاصہ ذکر کر دیا اسے مر حبا کہہ لیا اور حبیب جان میں بہ طیب خاطر جگہ دی ، یہاں تک کہ اگر اپنے آپ احا دیث میں اس کی اصل نہ پائی ،قصور اپنی نظر کا جانا ، یہ نہ کہا کہ غلط ہے ،باطل ہے ، کسی حدیث میں وارد نہیں ، نہ یہی ہو اکہ جب حدیث سے ثبوت نہ ملا تھا اس کے ذکر سے باز رہتے بلکہ اسی طرح اپنی تصانیف میں اس کے ذکر سے باز رہتے بلکہ اسی طرح اپنی تصانیف میںاس ثقہ کے اعتبار پر اسے لکھتے آئے ،اور کیوں نہ ہو ، مقتضیٰ عقل سلیم کا یہی ہے !

(آداب بارگاہ )

ہماراان کا معاملہ واحد ہے ، جوان کا غلام ہے ہمارا قائد ہے ، ان کے حضور آواز بلند کرنے سے عمل حبط ہو جاتے ہیں ، انھیں نام لے کر پکار نے والے سخت سزائیں پاتے ہیں ، اپنے جان ودل کا انھیں مالک جانو، ان کے حضور زندہ بد ست مردہ ہو جا ؤ ، ہمارا ذکر ان کی یاد کے ساتھ ہے ، ان کا ہاتھ بعینہ ہمارا ہا تھ ہے ، ان کی رحمت ہماری مہر ، ان کا غضب ہمارا قہر ، جس قدر ملا زمت زیادہ ہو تی حضور کی عظمت ومحبت ترقی پاتی اور وہ حال مذکور یعنی خشوع وخضوع ورعب ، ہیبت روز افزوں کرتی قال اللہ تعالیٰ زادتھم ایمانا ۔

اور ایمان حضور کی تعظیم ومحبت کانام ہے ، کمالا یخفی ۔

اللہ تعالیٰ خوش عقیدہ مسلمانوں کو ایسے اخوان الشیا طین وہا بیہ دیابنہ کے شر سے محفوظ رکھے اور انکی صحبت وسنگت سے پر ہیز کرنے کی تو فیق رفیق عطا فر مائے 

رز قنا اللہ تعالیٰ حسنہ !ربنا لا تز غ قلو بنا بعد اذھد یتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ ۔انک انت الو ھاب وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا محمدن البد رالکامل والہ واصحابہ النجوم والعلم بالحق عند اللہ ربنا تبارک وتعالیٰ واھب العلوم !وللہ العزۃ ولر سولہ وللمو منین ولکن المنا فقین لا یعلمون امین یا ارحم الرحمین ارحم فا قتنا یا ار حم الر حمین ارحم ضعفنا تبر انا من حولنا البا طل وقوتنا العاطلۃ والتجانا الی حولک العظیم وطو لک القد یم وشہد نابان لا حول ولا قوۃ الا با للہ العلی العظیم واخر دعوٰنا ان الحمد للہ رب العلمین وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا ومولا نا محمد والہ وصحبہ وذریتہ اجمعین امین 

ہذا ما رقمہ قلم الفقیرمحمد معین الدین خان الحنفی 
القادر ی الر ضوی الھیم فو ری غفر لہ ربہ القوی 
خادم الا فتا ء 
دارالعلوم اہلسنت حشمت العلوم کائیدیہ بلرامفور 
۲۰ربیع الغوث ۱۴۳۶ھ





हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 



Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads