( دہلی کی فتح)
اس وقت دہلی کا حکمراں رائے مہیپال تھا۔ اس کے پاس تیرہ لاکھ نوے ہزار فوج اور تقریبا ڈھائی ہزار جنگی ہاتھی تھے جس پر اسے بڑا ناز تھا۔ جب حضرت سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کوچ کرتے ہوئے دہلی کی سرزمین پر رونق افروز ہوئے تو وہاں سے تقریباً بارہ کوس کے فاصلے پر رائے مہیپال خبر پا کر پہلے ہی سے اپنی فوج لئے تیار کھڑا تھا۔ ان کے پہونچتے ہی رائے مہیپال نے حملہ کر دیا اور دونوں فوجیں اپنی بہادری کے جوہر دکھانے لگے۔ مقابلہ بڑا سخت تھا۔ روزانہ صبح سے شام تک دونوں طرف کے بہادر سپاہی اپنی جانوں پر کھیلتے تھے مگر جنگ کسی فیصلہ کن مرحلے میں نہیں پہونچتی تھی۔ ایک دن سرکار غازی نے اپنا سر سجدے میں رکھ کر اپنے خالق و مالک کے حضور دست بدعا ہوئے کہ ائے رب کریم ہماری فتح و نصرت فرما۔ اس دعا کے ختم ہوتے ہی ایک شخص نے آکر خبر دی کہ آپ کے پانچوں رفیق سالا رسیف الدین ، بختیار، میرا عزالدین ، ملک دولت شاہ اور میاں رجب ، خواجہ احمد بن حسن کی شرارت سے اپنے اپنے جلیل القدر عہدوں کو چھوڑ کر بہت بڑی فوج غزنی سے لے کر آرہے ہیں۔ اس خبر کو سنتے ہی آپ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ اور اسے تائید غیبی سمجھا۔ ادھر راجہ مہیپال پر ہیبت چھا گئی۔ آپ نے ایک بار پھر راجہ پر اسلام پیش کیا۔ راجہ نے غور و خوض کا بہانہ لے کر ڈیڑھ ماہ تک جنگ کو ملتوی کر دیا اور اس درمیان اس نے اپنی فوجی طاقت خوب مضبوط کر لی اور تیاری کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر دی ۔ جب اس کا لشکر میدان میں اترا تو اس وقت سرکار غازی اشرف الملک کے ساتھ کوئی مشورہ کر رہے تھے کہ اتنے میں رائے مہیپال اور رائے گوپال نے گھوڑا دوڑا کر سر کار غازی پر گرز کا وار کیا جس سے ناک مبارک زخمی ہوگئی اور دودانت شہید ہو گئے ۔ اشرف الملک نے تلوار کا وار رائے گوپال پر کیا وہ وہیں واصل جہنم ہو گیا مگر راجہ مہیپال بھاگ گیا۔ سرکار غازی زخم پر رومال باندھ کر میدان میں نکل آئے ۔ بڑے گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ اسلامی شیروں نے دشمنوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں۔ خود جام شہادت نوش فرمایا اور دشمنوں کو بھی جہنم میں پہونچا دیا۔ دوسرے دن بھی جب جنگ کا نقارہ بجا تو حضرت میرسید اعزالدین داد شجاعت دیتے ہوئے گردن پر نیزے کا پھل کھا کر شہید ہو گئے ۔ یہ خبر سن کر سرکار غازی بے چین ہو گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر غنیم پر دھاوا بول دیا، چاروں طرف سے گھیر لیا اور اتناز بر دست حملہ کیا کہ دشمنوں کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی مگر رائے مہیپال نے میدان نہ چھوڑا اور اپنی تین لاکھ چالیس ہزار فوج کے ساتھ اب بھی میدان میں ڈٹا رہا۔ بہتوں نے سمجھایا بھی کہ اس وقت چلے چلو اگر زندگی رہے گی تو پھر لڑیں گے مگر اس نے ایک نہ مانا۔ آخر کار وہ مارا گیا اور مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔ اس روز پہلی بار ۴۲۰ ھ میں دہلی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سپاہی شہید ہوئے ۔ اور دشمنوں کے تین لاکھ نوے ہزار سپاہی مارے گئے۔ فتح کے بعد فوج کے افسروں نے کہا کہ آپ دہلی کے تخت پر تشریف فرمائیے اور اس شہر کو اپنا دارالسلطنت قرار دے کر ملک کے دور دراز علاقوں کو فتح کیجئے ۔ کیوں کہ یہ شہر ملک کے قلب میں واقع ہے اور جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے اس سے بہتر اور کوئی دارالسلطنت نہیں مل سکتا۔ آپ نے فرمایا میں یہ تخت و تاج کے لئے نہیں کر رہا ہوں میرے اس راز سے میرا پروردگار عالم خوب واقف ہے۔ گویا آپ زبان حال سے کہہ رہے تھے:
دوعالم سے کرتی ہے بیگا نہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
پھر آپ نے امیر بایزید جعفر کے ہاتھوں میں حکومت دہلی کی باگ ڈور عطا فرما دی اور تین ہزار آدمی انتظامی امور کے لئے چھوڑ دیئے اور نصیحت فرمائی کہ یا درکھنا تمہیں یہاں خلق خدا کی خدمت کے لئے معین کیا گیا ہے۔ خبردار تمہاری ذات سے ہرگز ہرگز کسی کو تکلیف نہ پہونچے ۔ یہاں آپ نے چھ ماہ سولہ روز قیام فرمایا پھر میرٹھ کی طرف کوچ فرمایا۔
میرٹھ کے راجہ کی اطاعت
چوں کہ مہیپال کی شکست کے بعد ہر راجہ مسلمانوں سے خوفزدہ تھا۔ اس لئے ہر والی ریاست کو خطرہ لاحق تھا۔ میرٹھ کا راجہ ہردت دوڑ راجپوت کو نیز اطراف کے راجاؤں کو پہلے ہی سے خبر مل گئی تھی کہ حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ زبر دست فوج کے ساتھ آرہے ہیں اور کوئی بھی ان کے مقابلے پر نہیں ٹھہر پاتا ہے۔ لہذا عاقبت اندیشی کے طور پر سب نے ایک قاصد کو بہت کچھ تحائف دے کر آپ کی خدمت میں بھیجا اور کہلا دیا کہ یہ ملک آپ ہی کا ہے ۔ ہم سب آپ کے تا بعدار اور اطاعت گزار ہیں۔ حضرت مسعود غازی رضی اللہ عنہ راجگان میرٹھ وغیرہ کے اس رویہ سے بہت خوش ہوئے اور ان کا علاقہ انہیں کو سونپ دیا۔(سوانح مسعود غازی ص۔۵۱/ ۵۲ )
طالب دعا
محمد ابرارالقادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔