(حضرت سالار مسعود کی ہندوستان روانگی)
سلطان محمود غزنوی کا وزیر خواجہ حسن میمندی تھا جس کو سالار مسعود غازی سے عداوت تھی۔ ہر دم یہی کہتا تھا کہ سالار مسعود کو دیکھنے سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ لہذا اس نے عداوت اور حسد کی وجہ سے ملک میں چاروں طرف فساد بھڑ کا دیا۔ یہ دیکھ کر ایک روز سلطان محمود نے حضرت سالار مسعود غازی کو تنہائی میں بلا کر کہا کہ وزیرتم سے بغض رکھتا ہے اور تم سے بہت جلتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے انتظام میں گڑ بڑی پیدا کرتا ہے۔ اس لئے نور نظر تم فی الحال کچھ دنوں کے لئے کا ہیلر والدین کے پاس چلے جاؤ ، سیر و شکار میں طبیعت بہلاؤ ۔ ہم پہلے ملک کا انتظام درست کر کے اس کا قصہ پاک کر دیں گے پھر آپ کو بلا لیں گے۔ اور میری جان تم میری طرف سے کسی اور طرح کا خیال نہ کرنا ایسا میں مصلحتا کر رہا ہوں۔ سالار مسعود نے فرمایا کہ واقعی یہ مصلحت ہے مگر کا ہیلر میں رہنا میرے لئے حماقت ہے بلکہ ہندوستان جا کر کفار سے جہاد کروں گا۔ اور اس کفر و شرک کی زمین پر اللہ کا نام بلند کروں گا۔ بادشاہ نے بہت اصرار کیا مگر آپ نے کا ہیلرجانے سے سراسر انکار کر دیا۔
دوسرے دن ہندوستان کی طرف لشکر روانہ کر کے خود سلطان محمود کے پاس آکر حرف رخصت زبان پر لائے۔ سلطان نے کلیجے سے لگا کر آپ کو رخصت کیا۔ وقت رخصت پانچ عراقی گھوڑے اور دو ہاتھی مرحمت فرمائے اور بہت غمگین ہو کر سالار سا ہو کے پاس خط لکھا کہ مصلحتا چند روز کے واسطے فرزند مسعود کو آپ کے بھیج رہا ہوں مگر ان کا ارادہ ہندوستان جانے کا ہے۔ آپ راستے میں انھیں روک لیں گے پھر چند روز کے بعد ہم انھیں بلالیں گے اگر خفا ہوں گے تو منالیں گے ۔ الحاصل آپ نے ہندوستان کی طرف کوچ فرمایا۔ صاحب تاریخ محمودی فرماتے ہیں کہ لوگ آپ کے اخلاق و کمالات کے اس قدر گرویدہ تھے کہ ہزاروں آدمی اپنا گھر بار، عزیز واقارب چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہوگئے ۔ اور جب سلطان کا خط سالار سا ہو کے پاس آیا تو سالا رسا ہو نے آپ کی والدہ ستر معلی کو ساتھ لے کر راستے میں ملاقات کیا۔ بارہا کہا کہ ہندوستان نہ جاؤ بلکہ کا ہیلر میں ہی دل بہلاؤ لیکن نوشتہ تقدیر تو کچھ اور ہی تھا۔ آپ نے کا ہیلر جانے سے انکار کر دیا تو ان کے والدین نے کہا کہ پھر ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی ہمارے ساتھ جانے میں سلطان کو ملال ہوگا۔ نیز سلطان کو احمد حسن میمندی کی بات کا یقین ہو جائے گا کہ ان لوگوں نے مل کر بغاوت کر دی ہے۔ اس لئے آپ ہمارے ساتھ تشریف نہ لے چلیں۔ آخر سالار سا ہونے کا ہیلر رہنے میں مصلحت جانی اور سالار مسعود غازی کی بات مانی اور چند تجربہ کار بہادر امراء مع گھوڑے اور خزانہ واسباب دے کر خود کا ہیلر کا راستہ لیا۔ رخصت کے وقت حضرت بی بی ستر معلی کی بے قراری اور حضرت سالا رسا ہو کی گریہ وزاری سے زمین کا جگر چاک ہور ہا تھا۔ والدین کی جدائی کے بعد راہ کے مصائب و آلام جھیلتے ہوئے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں غریب مسافروں کو مال و دولت عطا فر مایا۔ ہر امیر و غریب صغیر و کبیر سے اخلاق محمدی سے پیش آتے تھے۔ بعد نماز عشاء جب حجرے میں تشریف لے جاتے تو اس وقت حضرت مولانا سید ابراہیم صاحب جن کا مزار مبارک ضلع بارہ بنکی کے مشہور قصبہ کشور میں ہے سرا پردہ میں وضو کے لئے پانی لاتے تھے۔ کسی اور کو باریابی کی اجازت نہ تھی ۔ اگر دھوکے سے کوئی اندر چلا جاتا تو آپ غلبہ مشاہدہ الہی سے اسے پہچانتے ہی نہ تھے ۔ ذکر خدا کے سوا گویا سونا جانتے ہی نہ تھے۔ اس طرح یہ نورانی قافلہ ہندوستان کی سرزمین میں ایک عظیم مقصد کے ساتھ داخل ہوا۔ اس قافلے کا ہر ہر فرد شہادت کا متوالا تھا۔ ان کبھی لوگوں کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ تھا ( ليكون كلمة الله هی العلیا) تاکہ اللہ کا نام بلند ہو۔(سوانح مسعود غازی ص۔ ۴۶)
طالب دعا
محمد ابرارالقادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔