(حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت کے بعد)
سکندر دیوانه حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتا ہوا دیکھ کر دیوانہ ہو گیا۔ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا۔ ایک نعرہ جگر سوز مار کر لشکریوں کو پکارا کہ یارو! قیامت آئی، حضرت نے شہادت پائی۔ یہ سن کر تمام لشکری رونے لگے۔ سب کی نگاہوں میں زمانہ تاریک ہو گیا۔ آخرش ما بقیہ غازیان اسلام تلوار میں کھینچ کر مقابلہ پر آئے ۔ دل کھول کر لڑے، شام تک سب راہ خدا میں شہید ہو گئے ، کوئی بھی زندہ نہ رہا۔ سکندر دیوانہ نے بھی ہزاروں تیر کھایا مگر سر اقدس کو اپنے زانو سے نیچے نہ سر کا یا ، قدم مبارک پر گر کر اپنے مالک پر فدا ہو گیا۔ شہید ہو کر حق خدمت ادا کر گیا۔ گھوڑا بھی چند تیر کھا کر اپنے مالک پر قربان ہو گیا۔ جب رات کی تاریکی چھا گئی تو کفار باغ میں داخل ہوئے اور چاندنی رات میں سالار مسعود کی لاش کو تلاش کیا لیکن خدا نے ان کی آنکھوں میں ایسا پردہ ڈال دیا کہ انھیں لاش مبارک نظر ہی نہیں آئی۔ سورج کنڈ کے باغ میں سوائے شہداء کی لاشوں کے کوئی بھی موجود نہ رہا۔ پھر کفار نے سوچا کہ یہاں تو مسلمانوں کا خون گرا ہے اس لئے ہمارا یہاں ٹھہر نا اچھا نہیں۔ ہم واپس اپنے لشکر میں جائیں گے زندہ و مردہ کا شمار کریں گے، صبح باغ میں آکر دیکھ لیں گے۔ یہ سوچ کر وہ سب اپنے مقام پر لوٹ آئے ۔
تاریخ ہندی میں ہے کہ جسے چارج برہمن نے لکھا ہے کہ اسی شب آدھی رات کے وقت حضرت سیدنا سالار مسعود نے شہر دیو سے خواب میں فرمایا کہ تو مجھ کو شہید کر کے چاہتا ہے کہ اب اس دنیا میں حکمرانی کرے، بہت مشکل ہے، تو بھی واصل جہنم ہوگا ۔ وہ تو یہ خواب دیکھ کر گھبرا گیا، خوف و دہشت سے کانپنے لگا۔ باغ میں دو تین مسلمان زندہ بچ گئے تھے مگر وہ زخموں سے چور تھے ۔ راتوں رات وہ گرتے پڑتے کسی طرح سید ابراہیم کے پاس آئے جنگ کی پوری روداد سناتے ہوئے بولے کہ حضرت بھی شہید ہو گئے ہیں۔ سید صاحب حضرت کے ہم عمر تھے، بڑے گہرے دوست تھے۔ گویا ایک جان دو پوست تھے۔ سلطان الشہدا نے جب جہاد کا ارادہ فرمایا تھا تو اسباب کی حفاظت کے واسطے بہرائچ میں آپ کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ یہ حادثہ عظیمہ سن کر بے ہوش ہو گئے۔ ایک ساعت کے بعد جب ہوش آیا تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ہم تو حضرت کے ساتھ یہاں آئے تھے تم کو بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ وہ تو دنیا سے منھ موڑ گئے اور ہم کو تنہا چھوڑ گئے۔ اب ہم یہ صورت کسے دکھلائیں گے۔ ان شاء اللہ ہم بھی دشمنوں سے جہاد کر کے شہید ہو جائیں گے۔ جس کو مرنا ہو وہ ہمارے ساتھ آئے ورنہ چلا جائے ۔ ہماری طرف سے بخوشی اجازت ہے۔ تمام لشکر نے دست بستہ عرض کیا کہ یہ کون سی بات ہے ۔ ان شاء اللہ ہمارا اور آپ کا ساتھ تادم آخر رہے گا۔ مگر رات زیادہ گزر چکی ہے اور تاریکی بھی چھا گئی ہے۔ صبح سویرے ان سے جنگ کریں گے۔ سید صاحب نے کہا کہ ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا جو بہتر ہو کر و۔ پھر زار و قطار رونے لگے اور روتے روتے پھر بے ہوش گئے اور جب ہوش آیا تو نیند کے غلبے نے آپ کو تھوڑی دیر کے لئے سلا دیا۔
ایک خواب
سیدابراہیم صاحب کو سوتے دیر نہیں ہوئی کہ دیکھنے لگے، خواب میں ایک بلند ٹیکر انظر آیا جو گلہائے بہشت سے آراستہ تھا، جس کے درمیان حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ سرخ لباس پہن کر تخت مرصع پر جلوہ افروز ہیں ۔ ارد گرد شہدائے لشکر حلئہ بہشتی سے آراستہ ہو کر کھڑے ہیں۔ سید صاحب نے ہر چند او پر جانے کا ارادہ کیا مگر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ حضرت نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ ابھی تمہارا وقت نہیں آیا ہے۔ صبح دنیا میں کچھ کام کر کے شام تک سرخرو ہو کر ہمارے پاس آجاؤ گے۔ اتنا کہہ کر گھوڑے پر سوار ہو کر کسی طرف روانہ ہو گئے ۔ سید صاحب پیچھے دوڑے اور عرض گزار ہوئے کہ جو حکم ہو بجا لاؤں ۔ ارشاد فرمایا کہ باغ میں ہمارا وجود ظاہری ( جسم ) مہوے کے نیچے بے گور و کفن پڑا ہے۔ لباس و ہتھیار زیب تن ہے۔ اور سکندر دیوانہ کی لاش پائنتی جانب پڑی ہے، گھوڑا بھی ایک طرف پاش پاش ہے اور شہدائے کرام بھی بے گور و کفن ہیں۔ پہلے آپ سب کو دفن کریں پھر سہر دیو سے ہمارا قصاص لیں ۔ اس امر خیر میں آپ بھی درجہ شہادت سے ہمکنار ہو جائیں گے۔ سید صاحب یہ خواب دیکھ کر بیدار ہوئے ، جوش محبت سے شہادت کے طلبگار ہوئے ۔ فورا غسل کر کے جامعہ گراں بہا پہن کر عطر لگایا اور نماز فجر کی ادائیگی سے فارغ ہونے کے بعد فوج کو دائیں بائیں کر کے اولا باغ میں آکر جسم مبارک مع لباس و ہتھیار مہوے کے نیچے عین نشست گاہ پر حسب وصیت دفن کیا ۔ سکندر دیوانہ کو حضرت کے برابر میں قبر بنا کر رکھ دیا۔ اور باقی تمام شہدائے کرام کو سورج کنڈ تالاب میں رکھ کر مٹی سے پاٹ دیا تا کہ نظروں سے پوشیدہ ہو جائیں۔ اسی دن سے سورج کنڈ کے کفر کی ظلمت دور ہوئی اور وہ زمین برکت اسلام سے پر نور ہوگئی ۔ حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ نے حالت جذب میں میاں رجب سے جو فر مایا تھا، راز الہی سے آگاہ کیا تھا، وہ اب نظر آیا۔ ملائک نے برکت شہداء سے سورج کنڈ کو نو ر اسلام سے مہر منور کر دیا۔ سید صاحب نے بھی اپنی قبر سکندر دیوانہ کی قبر سے متصل بنادیا۔
حضرت میر سید ابراہیم کی شہادت
حضرت میر سید ابراہیم بارہ ہزاری ان تمام شہداء کرام کی تجہیز وتکفین سے فارغ ہو کر میدان میں آئے۔ ادھر دشمنان اسلام کو بھی اطلاع ملی کہ مسعودی لشکر ابھی بھی میدانِ جنگ میں موجود ہے۔ یہ سن کر سہر دیو نے بہت پیچ و تاب کھایا اور فورا مسلح ہو کر اپنی فوج کے ساتھ میدان میں آگیا۔ سید صاحب نے سہر د یو کوللکارا کہ اگر تو بہادر ہے تو میرے مقابلے پر آجا۔ وہ بھی طیش میں آکر آپ کے مقابلے میں آ گیا۔ آتے ہی جھپٹ کر آپ پرحملہ کیا آپ نے اس کا وار خالی کر کے جوش حیدری سے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا۔ دشمنوں نے آپ پر سخت حملہ کر دیا۔ آپ بھی مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ دوستوں نے اسی قبر تک لاش | پہونچا دیا اور حسب وصیت کھدی ہوئی قبر میں دفن کر دیا۔ پھر سب کے سب لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ صرف حضرت کے چند خدمت گار اور دو غلام زندہ بچے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد وہ حضرت کی بارگاہ میں آئے اور وہیں اپنا ڈیرہ بنالیا اور آخری دم تک سرکار غازی کے مزار شریف کی جاروب کشی کرتے رہے۔ ایک عرصے کے بعد سید حاجی احمد وسید حاجی محمد جو حضرت سالا رسا ہو کے ملازم تھے، ستر کھ سے بہرائچ آکر مجاوری کی خدمت انجام دیتے رہے۔ حضرت اپنی زندگی میں ان کو بہت مانتے تھے۔ بالکل عزیزوں کی طرح جانتے تھے۔ بعد شہادت بھی و ہی مہربانی فرماتے رہے۔ نذریں دلواتے رہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک
انہیں کی اولا دمجاور ہے۔ تاریخی دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے وہ تمام رفقاء جو دور و نزدیک اشاعت اسلام و تبلیغ دین میں مشغول تھے ، دھیرے دھیرے یکے بعد دیگرے سب کے سب شہید کر دئیے گئے اور وہ حکمراں بھی جو د ہلی ستر کھ، کٹرہ اور مانکپوروغیرہ میں متعین تھے سب کے سب شہید کر دئیے گئے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سرزمین بہرائچ کا چپہ چپہ خون شہداء سے لالہ زار بنا ہے۔ تب جا کر حق و صداقت کا پرچم اس بنجر زمین پر لہرایا ہے۔
چپے چپے پر مزارات شہیداں دیکھئے
دید کے قابل ہیں بہرائچ کے میداں دیکھئے
حضرت سید سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ سے کافروں کی جو مختلف جنگیں ہوئیں ان ساری جنگوں میں کافروں کے ۵ر کروڑ باون لاکھ پچہتر ہزار سات سو ستانوے، ۵۵۲۷۵۷۹۷/آدمی مارے گئے۔ اور آپ کے ساتھیوں نے بھی کثیر تعداد میں جام شہادت نوش فرمایا۔(سوانح مسعود غازی ص۔ ۷۸/ ۸۱)
طالب دعا
محمد ابرارالقادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔