AD Banner

{ads}

ستر کھ میں سیدنا سالار مسعود غازی کا قیام

 ستر کھ میں سیدنا سالار مسعود غازی کا قیام


ضلع بارہ بنکی کے ایک قصبہ ستر کھ کو ہندو دھرم میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ کہتے ہیں کہ راجہ دشرتھ کے دونوں لڑکے رام چندر اور لچھمن نے یہیں تعلیم حاصل کی ہے۔ اس زمانے سے ستر کھ اور بہرائچ بہت آباد تھا۔ ہزاروں مندر تھے، ناف ہند کے نام سے مشہور تھا۔ حضرت سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کو یہاں کی آب و ہوا بہت پسند آئی۔ نیز معقول شکار گاہ پائی ۔ اس لئے آپ ستر کھ میں مقیم ہو گئے اور اطراف و جوانب میں فوج بھیجنے کا بندوبست فرمایا۔ چنانچہ حضرت سالا رسیف الدین سرخرو اور سالا ررجب کو دودستے فوج کے دے کر بہرائچ کی طرف روانہ کیا اور سالار رجب کے بیٹے کو جو ہمت و شجاعت میں اپنے باپ ہی کی طرح تھے۔ سالار رجب کی جگہ اپنے لشکر کا کو تو ال مقرر کیا جب یہ دونوں افسر بہرائچ آئے تو غلہ نہ پاکر کے سخت گھبرائے اور حضرت سالار  مسعود کو اطلاع دی ۔ حضرت نے سدھور کے چودھری تماش کو اور امیٹھی کے چودھری نر ہر کو بلایا اور ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اچھی طرح کھیتی کرو اور جس چیز کی ضرورت ہو ہم سے لو۔ فی الحال کچھ نقد پیسے بھی لے جاؤ اور جہاں تک ہو سکے غلہ اکٹھا کر کے بہرائچ پہونچاؤ۔ سبھی نے عرض کیا حضور ہم پہلے غلہ لائیں گے۔ پھر روپیہ پیسہ لیں گے۔ حضرت نے عطر و پان ، خلعت و انعام دے کر رخصت فرمایا اور امیر حسن عرب کو مہو بہ (ضلع باندہ یوپی ) میرسید علی المعروف سید اعزالدین عرف لال پیر کوگو پا مئو، ملک فضل کو بنارس ، ملک عبدالرحمن کو بھا کنکر ، سلطان مہی بختیار کو کانو در کی جانب فوج کے دستے دے کر بھیجا اور نصیحت فرمائی کہ جہاں کہیں جانا سب سے خلق محمدی سے پیش آنا۔ پہلے گمراہوں کو صراط مستقیم پر لانے کی کوشش کرنا ، اگر راہِ راست پر آجائیں تو ٹھیک ہے ورنہ جہاد کر کے پر چم اسلام کو سر بلند کرنا۔ پھر ہر ایک کو سینے سے لگا کر زار زار رونے لگے ۔ فرمایا کہ کہا سنا معاف کرنا جاؤ اللہ تم سب کا حافظ و ناصر ہے اور خود آپ نے ستر کھ کا انتظام سنبھالا۔

گٹر ہ مانکپور کے راجاؤں کی دھمکی

 ایک دن کی بات ہے کہ دو سفیر کٹر ضلع الہ آباد اور مانکپور ضلع پرتاپ گڑھ کے را جاؤں کی طرف سے آئے اور اپنے ساتھ دوزین اور چند لگام پر سحر ا کر بطور ہدیہ پیش کر دیا اور کہا کہ آج تک اس جگہ کسی دوسرے ملک کا تاجدار نہیں آیا ہے۔ اسکندر رومی نے البتہ حوصلہ کیا مگر کچھ سجھ کر چھوڑ دیا محمود غزنوی بھی قنوج ، گجرات وغیرہ فتح کیا لیکن اس ملک کو معاف کیا۔ تم کیسے بے باکانہ چلے آئے؟ کچھ خوف و ہیبت دل میں نہیں سمائی ؟ ہم کو تمہاری بزرگ زادگی کا خیال ہے۔ آپ ہی کی ذات سے سالا رسا ہو کا نام روشن رہے گا۔ تمہارے بعد قصہ ختم ہو جائے گا۔ سن لو ہم نو لاکھ تلوار کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بڑے بڑے سردار موجود ہیں خیریت اسی میں ہے کہ اس ملک کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔ یہ سن کر حضرت کو طیش آ گیا اور فرمایا کہ اپنی زین دلگام لے جاؤ بحر اور جادو کسی اور کو دکھاؤ۔ خدا کی قسم اگر تم قاصد بن کر نہ آتے تو ابھی تلوار سے تمہاری گردن اڑادی جاتی ۔ یہ ملک خدا کا ہے جس کی تلوار ہے اس کا قبضہ ہے۔ ہم یہاں دین محمدی کو رواج دیں گے اور آتش کفر کو بجھا کر اسلام کا بول بالا کریں گے ۔ قاصد واپس آکر لوگوں کو بتایا کہ یہ لڑ کا اگر چہ کمسن اور نو خیز ہے مگر جری اور بہادر ہے ۔ تمہاری نو لاکھ فوج سے نہ ڈریں گے۔ آن کی آن میں فتح کرلیں گے ۔ یہ سن کر سب حیران ہو گئے ۔

زہر میں بجھی ہوئی نحرنی

وہیں پر ایک حجام بھی تھا، وہ بول اٹھا کہ تم سب کیوں خوف کھاتے ہو؟ ڈر کی وجہ سے مرے جاتے ہو؟ یہ کون سا بڑا کام ہے ، صرف ایک نحرنی سے میں اس کا نام ونشان صفحہ ہستی سے مٹا دوں گا۔ غرضیکہ اس حجام نے شہادت سالار مسعود غازی کا بیڑا اٹھا کر سواشر فی انعام میں پایا۔ ایک نحرنی زہر میں بجھا کر نذ رلایا، حضرت نے پوچھا تو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں بہت زمانے سے مسلمانوں کا میراثی ہوں۔ ہندوؤں کی چوٹیاں پکڑ کر مونڈتا ہوں۔ اس وقت میں بہت پریشان ہوں ۔ آپ کی خدمت میں ملازمت کے سلسلے میں آیا ہوں اور یہ نحرنی بطور تحفہ لایا ہوں۔ آپ نے نحرنی اس کے ہاتھ سے لے لی اور اس کی باتوں میں خلوص کی بو نہ پاکر اسے خدمت سے باز رکھا اور دو اشرفی دے کر اسے رخصت کر دیا۔ وہ خوش ہو کر گھر آیا اور اپنے نزدیک وہ کام کر گیا۔ ایک دن حضرت نے اسے الٹے ہاتھ کے ناخن پر لگایا، انگلی بل گئی، تیزی سے کھال چھل گئی ، زہرا اپنا کام کر گیا، پورا جسم پسینے میں شرابور ہو گیا۔ اور چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور سخت ہے چین ہو گئے ۔ جب لوگوں کو خبر ہوئی اور پہچان لیا کہ زہر کا اثر ہے تو فورا ز ہر مہرہ پانی میں گھول کر پلایا کچھ دیر کے بعد زہر کا اثر ختم ہو گیا صحت حاصل ہوئی۔ راہ خدا میں صدقہ دیا۔ لشکر میں تازہ جان آئی۔ فوراً امرائے نامدار کو مفصل حالات لکھ کر بھیجوائے اور غسل صحت سے آگاہ فرمایا اور ایک خط حضرت سالا رسا ہو کی خدمت میں ارسال کیا۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک پندرہ سال تھی۔(سوانح مسعود غازی ص۔ ۵۵/ ۵۶)

طالب دعا

محمد ابرارالقادری





مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner