AD Banner

{ads}

(سوانحِ حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ03)

(سوانحِ حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ03)

*تصانیف* حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ صاحب تصانیف بزرگ گزرے ہیں آپ حدیث وتفسیر وتنزیل میں فائق اور بے نظیر تھے جیساکہ امام کمال الدین حیٰوۃ الحیوان میں لکھتے ہیں کہ ابن قتیبہ نے کتاب ادب الکاتب میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت نے ایک کتاب بنام *جفر* اہلبیت کیلئے تحریر فرمائی اس کی خصوصیت یہ ہے کہ قیامِ قیامت تک کے جملہ حاجات جو پیش ہوں گے تمام کو آپ نے تحریر فرمایا-
اور شرحِ مواقف اور روضۃ الصفا وغیرہ میں ہے کہ آپ ارشاد فرماتے تھے:
علمنا غابر ومزبور ونکت فی القلوب وثقر فی الاسما وان عندنا الجفر الاحمر والجفر الابیض ومصحف فاطمۃ وان عندنا الجامعۃ فیھا جمیع مایحتاج الناس الیہ-
جب حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ سے مذکورہ بالا عبارت کی تفسیر دریافت کی گئی تو آپ نے اس کی تشریح یوں بیان فرمائی کہ غابر علم اس کا ہے جو زمانۂ آئندہ میں تا قیامِ قیامت ہوگا اور مزبور میں وہ علوم ہیں جو روز اول سے زمانۂ حال تک وقوع میں آئے اور علم جفر الابیض وہ ہیں جن کے اندر توریت، انجیل، زبور اور جملہ کتب آسمانی ہیں- اور مصحف فاطمہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں جو شئے قوت سے فعل میں آئی اس میں موجود ہیں اور ساتھ ہی ہر ایک ملک وحاکم کا نام جو قیامت تک ہوں گے اس میں درج ہیں جن کی خلق خدا قیامت تک محتاج ہوگی- مذکورہ بالا کتابوں سے آپ کی علمی ادبی، دینی خدمات کا پتہ ملتا ہے اور ساتھ ہی آپ کی انکساری وتواضع کا بھی پتہ چلتا ہے اتنے عظیم علوم پر حاوی واستاذ زمن ہونے کے ساتھ آپ سے لوگوں نے کہا کہ آپ میں سب ہنر ہیں آپ زاہد بھی ہیں، کریم بھی ہیں اور خاندان کے قرۃ العین بھی لیکن متکبر بھی ہیں- تو آپ نے جواب دیا: میں متکبر نہیں ہوں اس لئے کہ مجھے جلوۂ کبریائی حاصل ہے کہ جب میں نے اپنے سر سے تکبر نکال دیا تو اس ذات واحد کی کبریائی کا جلوہ مجھ میں سما گیا اور یہی وجہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تکبر سے تکبر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی کبریائی سے کبر زیبا ہے-
*کرامات* آپ کی ذاتِ بابرکات کا ہر گوشہ مسلمانوں کے لئے کامیابی وکامرانی کی دلیل تھی اور شریعت پر پورے طور پر عمل ہی بندۂ مومن کی زندگی بطورِ کرامت گزرتی ہے آپ نے پورے طور پر اپنے جدِ اکرم ﷺ کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہوکر دنیا کو اپنے کراماتِ مشہورہ سے بھی آگاہ فرمایا جو کرامات مومن کامل کو بطورِ سند وحجت دی جاتی ہیں- اور قیامت تک معجزۂ نبوی ﷺ کی توثیق کرامات کی صورت میں ظاہر فرماتے ہیں- یہاں چند کرامات بطورِ تبرک پیش کی جاتی ہیں-
*کراماتِ عجیبہ* اس کی روایت اس طور پر ہے کہ ایک مرتبہ آپ زیارتِ حرمین طیبین کو تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک خرمے کے خشک درخت کے پاس قیام فرمایا- اور چاشت کے وقت اس درخت سے آپ نے خرمے طلب فرمائے- فوراََ درخت سرسبز و شاداب ہوگیا اور ساتھ ہی تازہ خرما بھی پیدا ہوگیا- ایک اعرابی نے جب اس عظیم کرامت کو دیکھا تو وہ دنگ ہو گیا اور کہنے لگا کہ: یہ جادو ہے- تو آپ نے فرمایا کہ یہ جادو نہیں اس لئے کہ ربّ کائنات نے مجھے وہ قوت عطا فرمائی ہے کہ اگر میں دعا کردوں تو ٹھیک ابھی تیری شکل کتے کی شکل ہوجائے گی صرف اتنا کہتے ہی وہ کتے کی شکل میں تبدیل ہوگیا اعرابی نے یہ کیفیت دیکھی تو حد درجہ پریشان ہوا اور ندامت و شرمندگی سے معافی کا طلبگار ہوا تو آپ نے اعرابی پر رحم فرمایا اور پھر دعا دی تو وہ اپنی اصلی حالت پر ہوگیا-
*پرندوں کا زندہ کرنا* اسی طرح ایک شخص نے آپ کی بارگاہ میں یہ مشہور واقعہ حضرتِ سیدنا ابراھیم خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا بیان کیا کہ حضرتِ سیدنا ابراھیم علیہ السّلام نے چار پرندوں کو ذبح کیا اور ان کا گوشت ریزہ ریزہ کر کے باہم ملا دیا اور پھر زندہ فرمایا تو وہ تمام زندہ ہوکر اپنے اپنے سروں سے لگ گئے- اس سوال پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم دیکھنا چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا ہاں اے ابنِ رسول اللّٰہ ﷺ! آپ نے فرمایا ایک طاؤس، ضراب، باز اور ایک کبوتر کو حاضر کرو چاروں پرندوں کو آپ نے ذبح فرمایا اور ریزہ ریزہ کر کے سب کو باہم ملا دیا پھر آپ نے یکے بعد دیگرے پرندوں کو آواز دی سب کے سب زندہ ہوگئے-
*خلیفہ منصور پر آپ کی ہیبت* حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ پر بھی امتحان وآزمائش کی بیشمار گھڑیاں آئیں مگر تمام دشمن ومخالف آپ کی خدا داد طاقت کے آگے مبہوت ہو کر رہ جاتے انہیں میں سے ایک خلیفہ منصور بھی تھا جس کی خباثت کا واقعہ اس طرح ہے-
خلیفہ منصور نے ایک روز اپنے وزیر سے کہا کہ امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ عنہ کو میرے دربار میں حاضر کرو تاکہ میں ان کو قتل کر دوں ؟ اس پر وزیر نے کہا کہ ایک سید گوشہ نشین کو قتل کرنا مناسب نہیں، خلیفہ منصور وزیر کی بات سن کر بہت غصّہ ہوا اور کہا کہ جو میں حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو- ناچار وزیر حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ عنہ کو بلانے کیلئے روانہ ہوگیا- ادھر خلیفہ منصور نے حکم دیا کہ جب امام جعفر صادق (رضی اللّٰہُ عنہ) آئیں تو میں اس وقت اپنے سر سے تاج اتاروں گا اور یہ عمل دیکھتے ہی اسی دم ان کو قتل کر دینا- چنانچہ حضرت امام جعفر رضی اللّٰہُ عنہ تشریف لائے اور دربار میں داخل ہوئے- خلیفہ منصور کی نظر جب آپ پر پڑی تو فوراََ ہی اپنی جگہ سے اٹھا اور آپ کا استقبال کیا اور صدر مقام پر آپ کو لیکر بٹھایا اور خود مؤدبانہ طور پر آپ کے سامنے دوزانو بیٹھ گیا- یہ کیفیت دیکھ کر اس کے مقرر کئے ہوئے غلاموں کو بڑا تعجب ہوا کہ پروگرام تو کچھ اور ہی تھا اور عمل کچھ اور ہے؟ منصور نے حضرت امام سے عرض کیا کہ آپ کو اگر کوئی حاجت ہو تو بیان فرمائیں غلام آپ کی ہر حاجت پوری کرنے کو تیار ہے- آپ نے فرمایا میری حاجت تم سے یہی ہے کہ:آئندہ پھر کبھی مجھے اپنے حضور میں طلب نہ کرنا تاکہ میں خدا کی یاد میں مشغول رہوں- منصور نے جب حضرت امام کا یہ جملہ سنا تو فوراً آپ کو بڑی عزت واحترام سے رخصت کیا اور آپ کے رعب سے اس کے پورے بدن میں کپکپی طاری تھی اور اختلاجی کیفیت پائی جارہی تھی حضرت امام کے واپس ہونے کے بعد وزیر نے اس تبدیلی حال کی وجہ پوچھی تو منصور نے کہا کہ: *جب حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ دروازے سے دربار میں داخل ہوئے تو میں نے آپ کے ہمراہ ایک بہت بڑا اژدہا دیکھا جس کا ایک لب میرے تخت کے اوپر اور ایک نیچے تھا اور وہ زبان حال سے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اگر تم نے امام کو ستایا تو تمہیں تخت سمیت نگل جاؤں گا* چنانچہ میں نے اس اژدہے کے خوف ہی سے جو کچھ کیا وہ تم نے دیکھا-
*کرامت، گائے کا زندہ ہونا* ایک روز حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ مکہ مکرمہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک عورت کو بچوں کے ساتھ روتے دیکھا جس کے آگے مردہ گائے پڑی ہوئی تھی حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو اس عورت نے کہا کہ ہمارے پاس صرف ایک یہی گائے تھی جس کے دودھ سے ہمارا گزارا ہو رہا تھا اور یہ مر گئی ہے تو ہم پریشان حال ہیں کہ اب کیا کریں گے- گزارا کیسے ہوگا- آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تو یہ چاہتی ہے کہ اللّٰہ تعالٰی اسے زندہ کردے؟ اس نے کہا کہ ہم پر تو مصیبت طاری ہے اور آپ ہم سے مزاق کرتے ہیں- آپ نے فرمایا کہ میں مزاق نہیں کرتا- پھر آپ نے دعا فرما کر گائے کو ایک ٹھوکر ماری اور وہ زندہ ہو کر کھڑی ہوگئی اور آپ فوراََ عام لوگوں میں جا ملے تاکہ کوئی شناخت نہ کر سکے- اس عورت کو معلوم نہ ہو سکا کہ آپ کون ہیں- *(تاریخِ مشائخِ قادریہ برکاتیہ رضویہ صفحہ: 92)*

*اولاد کرام* آپ کے اولاد امجاد میں کل چھہ شہزادے اور ایک شہزادی تھیں جن کے اسماء یہ ہیں-
1 حضرت اسماعیل، 2 محمد، 3 علی، 4 عبد اللہ، 5 اسحٰق، 6 موسیٰ کاظم، رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین- صاحبزادی حضرت ام فردہ جن کو ام الاخضر نے فاطمہ لکھا ہے اور شہرستانی نے ملل و نحل میں صرف پانچ ہی اولاد بتائے ہیں-
*خلفائے کرام* آپ کے خلفائے کرام کی دینی خدمات کی تاریخ پڑھیں گے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کے فیض سے منور ہونے والے کیسے کیسے افراد ہیں اور ہر فرد اپنی جگہ ایک عالمگیر جماعت کی حیثیت رکھتا ہے- جن کے اسماء گرامی یہ ہیں-
1 حضرت امام موسیٰ کاظم، 2 حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، 3 حضرت سلطان بایزید بسطامی، رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین-
*وصال مبارک* سلطنتِ عباسیہ کے خلیفۂ دوم ابو جعفر منصور ابنِ ابو العباس السفاح کے عہد میں بروزِ جمعہ دوشنبہ ١٥ رجب یا ٢٤ شوال المکرم سن 765 عیسوی ٦٨ سال کی عمر میں زہر سے مدینہ منورہ میں وصال فرمایا-
*مزار مبارک* آپ کا مزار مبارک مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں والد ماجد حضرت امام باقر رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کے پہلو میں ہے-(مشائخِ قادریہ برکاتیہ رضویہ صفحہ: 150/151/152/153)
تاریخ: ٢٧ رجب المرجب سن ١٤٤٢ ہجری
مطابق: 12 مارچ سن 2021 عیسوی
بروزِ جمعہ مبارکہ
عبد القاسم خان برکاتی




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner