AD Banner

{ads}

سوانحِ حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ 02)

 ( سوانحِ حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ 02)

ایثار وقربانی حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ خاندانِ نبوت کے چشم وچراغ تھے- آپ کے اخلاق کریمانہ وایثار وقربانی کے بیشمار واقعات سیر وتاریخ میں بھرے پڑے ہیں صرف ایک واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ربّ کائنات نے آپ کو آپ کو کیسا ایثار وقربانی کا پیکر بنایا تھا-
*واقعہ* یہ ہے کہ ایک شخص کی دیناروں کی تھیلی گم ہوگئی اس نادان نے آپ کو پکڑ کر کہا میری تھیلی آپ نے لی ہے؟اس بےخبر نے آپ کو پہچانا نہیں اور بلا وجہ الزام لگا دیا- آپ نے فرمایا کہ بتاؤ تمہاری تھیلی میں کتنی رقم تھی؟ اس نے کہا کہ تھیلی میں ایک ہزار دینار تھا- آپ اس کو اپنے دولت کدے پر لے گئے اور ایک ہزار دینار اس کو مرحمت فرمادیا- دوسرے دن اس کی گمشدہ تھیلی مل گئی تو دوڑا ہوا آپ کی بارگاہ میں آیا اور معذرت کرتے ہوئے وہ ہزار دینار واپس کرنے لگا آپ نے ارشاد فرمایا یہ مال تمہارا ہوگیا اس لئے کہ ہم لوگ جس چیز کو دے دیتے ہیں اس کو پھر واپس نہیں لیتے- اس کے بعد اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ ہیں آپ کی ذات سے جب وہ شخص واقف ہوا تو بڑا ہی نادم ہوا-
*حکایت* احمد بن عمر بن مقدام رازی کہتے ہیں کہ ایک مکھی منصور کے چہرہ پر بیٹھی منصور نے مکھی اڑایا مگر پھر وہ دوبارہ آبیٹھی یہاں تک کہ وہ تنگ آگیا اس وقت حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ منصور کے پاس موجود تھے- منصور نے آپ سے دریافت کیا اے ابا عبد اللہ!
اللّٰہ تعالٰی نے مکھی کو کیوں پیدا فرمایا؟ آپ نے ارشاد فرمایا اس لئے کہ جبابرہ ( ظالم وجابر ) کو ذلیل کرے اس جواب کو سن کر منصور چپ ہوگیا-
*دہریوں سے مناظرہ* حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ فلسفۂ الحاد ودہریت کے خلاف دین کے تحفظ کی خاطر جہاد باللسان میں مصروف رہتے تھے اور اپنے جدِ اکرم حضورِ اقدس ﷺ کے دین کی تبلیغ واشاعت میں اپنے علم الکلام سے جو کارنامے انجام دئے ہیں ذیل میں کچھ مکالمے پیش ہیں-
چنانچہ آپ کی خدمت میں مصر کا رہنے والا ایک دہریہ حاضر ہوا- آپ ان دنوں مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے آپ نے اس سے نام اور کنیت دریافت فرمایا تو اس نے جواب دیا- میرا نام عبد الملک اور کنیت عبد اللہ ہے- یہ سن کر آپ نے فرمایا یہ *«ملک»* جس کا تو عبد اور بندہ ہے ملوک آسمان سے ہے یا ملوک زمین سے اور وہ خدا جس کا بندہ تیرا بیٹا ہے خدائے آسمان ہے یا خدائے زمین- دہریے کو کچھ جواب نہ بن پڑا تو آپ نے پھر فرمایا کیا تو کبھی زمین کے نیچے گیا؟ اس نے جواب دیا نہیں- جانتا ہے اس کے نیچے کیا ہے؟ جواب دیا نہیں مگر گمان ہے کہ کچھ نہ ہوگا- گمان کا کام نہیں یہاں یقین درکار ہے- اچھا کیا تو کبھی آسمان پر بھی چڑھا؟ جواب دیا نہیں، جانتا ہے وہاں کیا ہے؟ جواب دیا نہیں کبھی مشرق ومغرب کی بھی سیر کی ہے اور ان کی مدد سے آگے کا کچھ حال بھی تجھے معلوم ہے؟ جواب دیا نہیں- ہر بات یہی ایک جواب تھا- تعجب ہے تجھے زیر زمین اور بالائے آسمان کا حال تو معلوم نہیں اور باوجود اس جہالت کے خداوند تعالٰی کے وجود سے انکار کرتا ہے- اے مردِ جاہل نادان کو دانا پر کوئی حجت نہیں ہے تو دیکھتا ہے کہ چاند، سورج، رات، دن ایک طریقے پر رواں ہیں وہ یقیناً کسی ذات کے تابع فرمان ہیں- اس لئے تو سرمو تجاوز نہیں کرسکتے- اگر ان کے بس میں ہوتا تو ایک مرتبہ بھی جاکر واپس نہ آتے اور اگر وہ پابند اور مجبور نہ ہوتے تو کیوں نہ رات کی جگہ دن اور دن کی جگہ رات ہوجاتی- تو اس بلند آسمان اور پست زمین پر غور نہیں کرتا کہ کیوں آسمان زمین پر آنہیں جاتا اور کیوں زمین اس کے نیچے دب نہیں جاتی؟ آخر کس نے اسے تھام رکھا ہے اور جس نے اسے تھام رکھا ہے وہ ہی قادر مطلق ہے وہی ہمارا اور ان کا خدا ہے-
آپ کے اس کلامِ حق نما میں نہ جانے کیسی غضب کی تاثیر تھی کہ وہ دہریہ قائل ہوکر خدائے تعالٰے پر ایمان لے آیا-
*جعد ابنِ درہم* (جو اس وقت دہریوں کا سردار سمجھا جاتا تھا) نے کچھ مٹی اور پانی کو ایک شیشی میں رکھ کر چھوڑ دیا- کچھ عرصے بعد اس شیشی میں کیڑے پیدا ہوگئے جس کو دیکھ کر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں نے اس کو پیدا کیا ہے اور میں اس کا خالق ہوں- جب اس دہریہ کی اس جہالت کی خبر سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کو لگی تو آپ نے اس دہریہ کو بلایا اور ارشاد فرمایا: اگر تو ان کا خالق ہے تو بتا تیرے پیدا کئے ہوئے یہ کیڑے تعداد میں کتنے ہیں- اور پھر ان میں نر کتنے اور مادہ کتنے اور جو ان میں سے ایک سمت کو جارہے ہیں انہیں حکم دے کہ وہ دوسری جانب پلٹ جائیں- آپ کا یہ کلام سن کر وہ دنگ رہ گیا اور کچھ جواب نہ دے سکا، اور نادم ہوکر واپس چلا گیا-
*دس ہزار درہم* ایک شخص آپ کو دس ہزار درہم دیکر حج کو گیا اور کہا کہ میرے واسطے ایک حویلی خرید کر رکھئے گا- آپ نے وہ تمام درہم اللّٰہ تعالٰی کے راستے میں صرف کردیا- جب وہ حج سے واپس ہوا اور حال دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مکان میں نے تیرے واسطے خرید رکھا ہے اور اس کا یہ قبالہ (بیع نامہ؛ سند) ہے اس قبالہ میں لکھا تھا کہ ایک دیوار اس کی ملحق ہے حضور نبی کریم ﷺ کے مکان سے اور دوسری دیوار ملحق ہے مولائے کائنات شیر خدا رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کے مکان سے اور تیسری دیوار اس کی حضرتِ امام حسن رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کے مکان سے ملی ہے اور چوتھی دیوار اس کی حضرتِ امام حسین رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کے مکان سے ملحق ہے- اس شخص نے اس قبالہ کو لیا اور اپنے وارثین سے وصیت کی کہ یہ قبالہ میری قبر میں رکھ دینا- اس کے انتقال کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کا یہ قبالہ قبر پر رکھا ہے- اور اس کی پشت پر لکھا ہے کہ وفا کی حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے-
*حضرتِ بایزید بسطامی رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ* حضرتِ بایزید بسطامی رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ حضرتِ امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں سقائی کرتے تھے ایک دن آپ نے نظر شفقت سے توجہ فرمائی اور آپ کے فیض صحبت سے روشن ضمیر اور اکابر اولیائے عظام سے ہوگئے-
*نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں*

حضرتِ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ سے اکتسابِ فیض فرمایا ہے- چنانچہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے امام اعظم رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ سے دریافت فرمایا کہ عقلمند کون ہے؟ حضرتِ امام اعظم رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ جو خیر وشر میں تمیز کرسکے- حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا یہ تمیز تو چوپایوں میں بھی ہے کہ جو اس کو مارتا یا پیار کرتا ہے اس کو خوب پہچانتا ہے- امام اعظم رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ پھر حضرت آپ ارشاد فرمائیں کہ آپ کے نزدیک عاقل کون ہے؟ حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ فرمایا کہ جو دو خیروں اور دو شروں میں تمیز کرے تاکہ دو خیر میں سے بہترین خیر کو اختیار کرے اور دو شروں میں سے بدترین شر کو دور کرے-
اور ایک دوسرا واقعہ درر الاصداف میں ہے کہ آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ سے فرمایا کہ مجھ کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ تم دین میں قیاس کرتے ہو اور سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس تھا- حضرتِ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا *انما اقیس فیما لا اجد فیہ نصاً* یعنی میں اس میں قیاس کرتا ہوں جس میں کوئی نص نہیں پاتا-
*خلوت پزیر* نقل ہے کہ ایک مرتبہ آپ گوشہ نشین ہوگئے اور کچھ دنوں تک باہر تشریف نہ لائے- تو حضرت سفیان ثوری رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ آپ کی بارگاہ میں پہنچے اور عرض کی کہ *اے ابنِ رسول اللّٰہ ﷺ!* لوگ آپ کے ارشاداتِ قدسیہ سے محروم ہوگئے ہیں آپ نے گوشہ نشینی کیوں اختیار کر لی ہے- تو آپ نے جواب دیا کہ اب میرا سینہ ایسا نہیں ہے-
اور دو شعر اپنے حال پر پڑھے،

ذھب الوفاء ذھاب انس الذاھب
وفا مثل جانے والے کے جاتی رہیں
والناس بین المخائل ومحارب
اور لوگ اپنے خیالات وحاجات میں محو ہیں
یفشون بینھم المودۃ والوفاء
ایک دوسرے کے ساتھ تو محبت کا اظہار کرتا ہے
وقلوبھم محشوۃ بعقارب
اور ان کے قلوب برائیوں سے بھرے ہوئے ہیں
مذکورہ بالا اشعار سے حضرتِ سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کی ادبیت وشعریت کا بھرپور پتہ چلتا ہے اور آپ کے کمالات اور آپ کی علمی خدمات کی مکمل نشاندہی آپ کی تصانیف سے بھی ملتی ہے لاکھو انسان آپ کے دستِ حق پرست پر تائب ہوکر دین مصطفوی ﷺ پر چلنے لگے اور بیشمار افراد آپ سے اکتسابِ فیض پاکر اکناف عالم میں پھیل گئے اور جس کو جس فن میں نواز دیا اس میدان کے امام وشیخ طریقت بن کر منارۂ نور ثابت ہوئے-
*ملفوظات* حضرت امام جعفر صادق رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کے ملفوظات سے چند بطورِ تبرک پیش کئے جاتے ہیں جو مختلف کتابوں میں بکھرے ہیں-
آپ نے اپنے غلام *نافد* سے ارشاد فرمایا کہ *اے نافد!* جب تو کوئی خط کسی کام کیلئے لکھے اور یہ چاہے کہ ہمارا وہ کام پورا ہوجائے تو سر ورق پر یہ عبارت لکھ:
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم وعد اللہ الصابرین المخرج مما یکرھون والرزق من حیث لا یحتسبون جعلنا اللہ وایاکم من الذین لا خوف ولاھم یحزنون-
نافد نے فرمایا کہ میں ایسا ہی کرتا ہوں جس کی حیرت انگیز تاثیر سے میرے جملہ کارہائے عظیم پورے ہوتے ہیں-
آپ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے: اللھم اعزنی بطاعتک ولاتخزنی بمعصیتک اللھم ارزقنی مراساۃ من قترت علیہ رزقہ بما وسعت علی من فضلک! اے اللہ مجھے عزت عطا فرما اپنی فرمانبرداری کے ساتھ اور مجھے رسوا نہ کر معصیت کے ساتھ اے اللہ جس پر تو نے رزق تنگ فرما دیا ہے مجھے اس کی غمخواری کی توفیق عطا فرما اپنے اس فضل خاص کے ساتھ جس کو تو نے مجھ پر وسیع فرمایا ہے-
آپ نے فرمایا: لا زاد افضل من التقویٰ ولا شیئ احسن عن الصمت ولا عدوا ضر من الجھل ولا داء ادویٰ من الکذب- کوئی توشہ پرہیز گاری سے افضل نہیں اور خاموشی سے احسن کوئی چیز نہیں اور جہالت سے زیادہ مضر کوئی دشمن نہیں اور جھوٹ سے زیادہ بری کوئی بیماری نہیں-
فرماتے ہیں: من عرف اللہ اعرض عما سواہ- جسے اللہ کی معرفت حاصل ہوگئی وہ ماسوا اللہ سے کنارہ کش ہوگیا-
فرماتے ہیں: لا تصح العبادۃ الا بالتوبۃ لاق اللّٰہ تعالٰی قدم التوبہ علی العبادۃ قال اللّٰہ تعالٰی التائبون! بغیر توبہ کے عبادت صحیح نہیں اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے عبادت پر توبہ کو مقدم رکھا ہے چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے توبہ کرنے والے عبادت بجا لانے والے ہیں-
فرماتے ہیں: جو شخص ہر کس وناکس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ سلامت نہیں رہتا؛ جو برے راستے پر جاتا ہے اسے اتہام لگتا ہے؛ جو اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتا وہ پشیمان ہوتا ہے؛ پانچ آدمیوں کی صحبت سے دور رہنا چاہئے
1 جھوٹے سے جو ہمیشہ تمہیں دھوکہ میں رکھے گا؛
2 احمق سے جو تمہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے گا مگر نقصان پہنچائے گا؛
3 بخیل جو اپنے تھوڑے نفع کی خاطر تمہارا بہت بڑا نقصان کردے گا؛
4 بزدل جو آڑے وقت پر تمہیں ہلاکت میں چھوڑ جائے گا؛
5 بد عمل جو تمہیں ایک نوالے پر بیچ ڈالے گا اور اس سے کمتر کی امید رکھے گا-(مشائخِ قادریہ برکاتیہ رضویہ صفحہ: 146/147/148/149/150)

تاریخ: ٢٠ رجب المرجب سن ١٤٤٢ ہجری
مطابق: 5 مارچ سن 2021 عیسوی
بروزِ جمعہ مبارکہ
عبد القاسم خان برکاتی




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner