قلعہ ٹھٹھ کی فتح
صبح کا سہانا وقت تھا نسیم سحری کے خوشگوار جھونکے چل رہے تھے۔ ایسے پر کیف ماحول میں فیروز شاہ تغلق کی ماں اپنے محل سرا کی چھت پر بیٹھی ہوئی مناظر قدرت کا مشاہد ہ کر رہی تھی کہ اچانک کیا دیکھتی ہے کہ دیوانوں کا ایک گروہ مستی و شوق میں عجیب و غریب انداز سے جھومتے ہوئے گزررہا ہے جن کے ہاتھوں میں مختلف رنگ کے نشان تھے۔ ملکہ ان لوگوں کو بلوا کر پوچھتی ہیں کہ آپ لوگ یہ دیوانگی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جواب ملتا ہے کہ ملکہ عالیہ ہم لوگ دیوانہ سر کار غازی ہیں، شمع جمال مسعودی کے پروانے ہیں۔ ہم لوگ ان کے شیدائی ہیں جنھوں نے اعلاء کلمتہ الحق کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ راہ خدا میں قربان کر دیا تھا۔ ملکہ عالیہ سال گزشتہ ہم لوگوں نے بارگاہ غازی میں التجائیں کی تھیں کہ اگر ہماری مراد میں پوری ہو گئیں تو گلد ستئہ عقیدت و محبت پیش کرنے کے لئے آپ کی بارگاہ میں حاضری دیں گے۔ ہم لوگوں کی منتیں پوری ہو چکی ہیں ، ہمارے دامن گو ہر مراد سے بھر چکے ہیں۔ لہذا آپ کی بارگاہ میں حاضری دینے اور نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے آستانے پر جارہے ہیں اور یہ علم (جھنڈا) آپ کی محبت کا نشان ہے جو چڑھانے کے لئے لے جارہے ہیں۔ ملکہ ان دیوانوں کی باتیں بڑے غور سے سن رہی تھیں ۔ ان کے دل کی دنیا میں تمنائیں انگڑائیاں لے رہیں تھیں۔ ان دیوانوں کو رخصت کرنے کے بعد دل کی گہرائیوں سے حضرت سالار مسعود غازی کی بارگاہ میں دعا کرتی ہیں کہ اے میرے آقا اگر میرا بیٹا فیروز شاہ ٹھٹھہ کی مہم سے کامیاب ہو کر آجائے تو میں اس کو آپ کے دربار میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے بھیجوں گی۔
در حقیقت فیروز شاہ تغلق اپنی افواج کثیرہ کو لے کر دہلی سے کوچ کر کے سندھ عبور کرنے کے بعد اس قلعہ ٹھٹھہ تک پہونچا جس کی سنگینی اور مضبوطی دور دور تک مشہور تھی۔ بہادر سپاہیوں نے پہونچ کر قلعہ کا محاصرہ کر لیا اور ادھر سے شاہی فرمان نافذ ہوا کہ محاصر ہ اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک فتح کی نوبت نہ آجائے۔ قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے کئی دن گذر گئے لیکن کامیابیوں کی کوئی صورت نظر نہیں آئی سب کے دل ٹوٹ گئے ، ہمتیں جواب دے چکیں ۔ دوسرا شاہی فرمان جاری ہوا کہ صبح تک قلعہ اگر فتح نہ ہوا تو محاصرہ اٹھا کر واپس چلے جائیں گے۔
رات بھر فوج نے مستعدی سے قلعہ کا محاصرہ قائم رکھا۔ صبح ہو چکی تھی بس محاصرہ اٹھنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک نقاب پوش نیلی گھوڑی پر سوار ہو کر لشکر کو درمیان سے چیرتا ہوا سب سے آگے پہونچ کر دروازے پر رکھتا ہے اور مضبوط کواڑ کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ دروازہ ٹوٹتے ہی ساری فوج قلعہ کے اندر داخل ہوگئی۔ تھوڑی دیر میں قلعہ فتح ہو جاتا ہے۔ شمس سراج نامه نویس دن تاریخ اور وقت اپنے روز نامچہ میں لکھ لیتا ہے۔ فیروز شاہ تغلق فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ دہلی لوٹتا ہے اور اپنی والدہ سے اس واقعہ کی پوری سرگذشت بیان کرتا ہے۔ ماں نے کہا بیٹا جس وقت تو ان مراحل سے گزر رہا تھا، میرا دل بے چین تھا۔ لہذا میں نے فوراً حضرت سیدنا سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں امداد کی درخواست کی تھی۔ مجھے کامل یقین ہے کہ سرکار غازی کی روحانی حمایت نے تیری شکست کو فتح میں تبدیل کر دیا ہے۔ میرے بیٹے میں نے یہ عہد کیا ہے کہ اگر تو میدان جنگ سے فاتح بن کر آئے گا تو تجھ کو سرکار غازی کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے بھیجوں گی، اس لئے بیٹا تم ان کی بارگاہ کی حاضری ضرور دو۔ فیروز شاہ ماں کے حکم کے مطابق افواج کثیرہ لے کر آستانہ عالیہ پر حاضری دینے کے لئے چل پڑا۔ جب بہرائچ پہونچا تو وہ لوگ جن کے قلوب عظمت اولیاء سے خالی تھے، بادشاہ سے کہنے لگے کہ سر کار غازی کا یہ مزار مصنوعی ہے، حقیقی مزار یہاں کے بجائے کہیں نامعلوم جگہ ہے۔ بادشاہ کو تشویش ہوئی ، اس نے حکم دیا کسی روشن ضمیر فقیر کو تلاش کیا جائے تا کہ اس کے ذریعہ مسیح حالات کا علم ہو سکے۔ چنانچہ لوگوں نے اس وقت کے نامور بزرگ سید افضل الدین ابو جعفر عرف میر ماہ علیہ الرحمہ کی رہنمائی کی جن کی مشہور کرامت ہے کہ اگر ان کے آستانے پر کوئی جھوٹی قسم کھالیتا ہے تو فورا اندھا ہو جاتا ہے۔ بادشاہ نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے اور آپ یہاں کب سے رہتے ہیں۔ اس طرح سے بادشاہ نے کئی سوال کر ڈالے۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے کو میر ماہ کہتے ہیں، میں یہاں مدتوں سے رہتا ہوں ۔ پھر بادشاہ نے پوچھا کیا آپ حضرت سید سالار مسعود غازی کو جانتے ہیں؟ ان کا مزار مبارک کہاں ہے؟ حضرت میر ماہ نے فرمایا کہ ہاں میں جانتا ہوں ۔ لیکن تم یہ بتاؤ کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔ اس نے کہا کہ میں ہندوستان کا بادشاہ فیروز شاہ تغلق ہوں اور دہلی سے آیا ہوں۔ حضرت میر ماہ نے فرمایا اچھا حضرت سید سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ تیری ہی مدد کے لئے فلاں دن فلاں تاریخ کو اسی مزار مبارک سے نکل کر نیلی گھوڑی پر سوار ہو کر قلعہ ٹھٹھہ کی مہم سر کرنے کے لئے تشریف لے گئے تھے اور وہاں سے لوٹ کر پھر یہیں تشریف لائے تھے۔ یہ ساری گفتگوسن کر بادشاہ کے حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ اسے یقین کامل ہو گیا کہ یہ کوئی معمولی ہستی نہیں بلکہ اللہ کے خاص ولی ہیں جن کی نظریں ٹھٹھ کا میدان کارزار دیکھ رہی تھیں ۔ بادشاہ نے روز نامچہ منگوا کر دیکھا تو فتح کا دن ، تاریخ اوروقت وہی تھا۔ بادشاہ نے بڑے ادب سے عرض کیا کہ حضور میں آپ کے ساتھ آستانہ مبارک پر حاضری دینا چاہتا ہوں۔ حضرت میر ماہ نے فرمایا کہ میں تو حاضری دیتا ہی رہتا ہوں اگر تمہاری خواہش ہے تو چلے چلتا ہوں ۔ چنانچہ بادشاہ اور درویش دونوں چلے لیکن درویش ٹیڑ ھے میٹر ھے چل رہے تھے۔ بادشاہ سے رہا نہ گیا تو پو چھ بیٹھا کہ حضور راستہ سیدھا بھی ہے اور صاف بھی اس کے باوجود آپ ٹیڑھے میڑھے کیوں چل رہے ہیں؟ کبھی پاؤں آگے، کبھی پیچھے، کبھی دائیں کبھی بائیں، کبھی کو دتے ، کبھی پنجوں کے بل کبھی انگوٹھوں کے سہارے تو کبھی چھلانگ لگا کر ادھراُدھر کر کر ، ایسا کیوں؟ یہ سن کر اللہ کے ولی نے اپنی ٹوپی اتار کر بادشاہ کے سر پر رکھ دی۔ جیسے ہی ٹوپی سر پر رکھی، زمین کا نچلا حصہ روشن ہو گیا۔ اب بادشاہ کیا دیکھتا ہے کہ زمین کے نیچے شہدائے کرام کی لاش ہی لاش ہے جو خون میں لت پت ہے۔ کسی کے ہاتھ کئے ہیں تو کسی کا سر اور کسی کے دوسرے اعضاء ۔ گویا یہ گنج شہیداں ہے۔ بادشاہ حیران و پریشان ہے۔ حضرت میر ماہ نے اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر فرمایا کہ ہمارا اور تمہارا یہی فرق ہے کہ تم بغیر دیکھے چل رہے ہو اور میں دیکھ کر چل رہا ہوں ۔ ٹیڑھا میڑھا نہیں چل رہا ہوں بلکہ اس احتیاط سے چل رہاہوں کہ کہیں ان شہیدوں میں سے کسی پر میرا پیر نہ پڑ جائے۔
نکته: اگر بار خاطر نہ ہو تو یہی ایک نکتہ ذہن نشین کر لیجئے کہ جس کی ٹوپی کایہ عالم ہو کہ اگر ایک بادشاہ کے سر پر رکھ دی جائے تو زمین کے طبقات روشن ہوجائیں تو پھر ٹوپی والے کی آنکھ کا عالم کیا ہوگا۔حضرت میر ماہ کی رہبری میں چلتے چلتے منزل مقصود پر پہو نچا تو کیا دیکھا کہ حضرت سید سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کے آستانے پر رحمت وانوار کی موسلا دھار بارش ہورہی ہے۔ بادشاہ نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ تاج شاہی گلوں سے سجا کر قبر انور کے پائتی حصہ پر ڈال دیا اور عرض کیا کہ حضور سارے ہندوستان کے اصل فرماں روا آپ ہی ہیں۔ میں تو آپ کا ایک ادنی خادم ہوں ۔ آپ ہی کو یہ تاج شاہی زیب دیتا ہے۔ سرکار ہمارا یہ نذرانہ عقیدت اور حاضری قبول فرمائیں۔ اے قلعہ ٹھٹھ کے دروازے کو اکھاڑ پھینکنے والے آقا ! ہمارے دلوں کے بند دروازوں کو بھی کھول دیجئے جس سے تجلیات ربانی اور محبت رسول سے داخل ہو سکے۔
بہت دیر تک عرض و معروض کرنے کے بعد جب ذرا سکون ہوا تو بادشاہ نے حضرت میر ماہ کے ساتھ دوسرے شہدائے کرام کی مزاروں پر حاضری دی۔ عقیدت ومحبت کی باتیں کرتے ہوئے آج جہاں زنجیری پھاٹک ہے، آکر رک گئے ۔ ایک طرف حضرت میر ماہ اور دوسری طرف فیروز شاہ تغلق کھڑے ہو گئے۔ اب فوج کے سپاہیوں کو زیارت کی اجازت دی گئی ۔ ایک طرف سے جاتے اور دوسری طرف سے نکل جاتے ۔ اس دوران فیروز شاہ نے حضرت میر ماہ سے عرض کیا کہ ان کی کوئی کرامت بیان فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا دیکھنا چاہتا ہے کہ ان کی بارگاہ میں تجھ جیسا بادشاہ اور مجھ جیسا فقیر دونوں بھکاری کی طرح ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ لرزہ براندام ہو گیا۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گیا۔ کہنے لگا بیشک اس سے بڑی کرامت نہیں ہو سکتی یہ واقعہ ۷۸۴ہجری کا ہے۔
صاحب منتخب التواریخ تحریر فرماتے ہیں کہ فیروز شاہ دہلی لوٹنے کے بعد سلطنت اپنے نواسے کے سپرد کر دیا اور خود وہاں سے چل کر گروہ صوفیاء میں داخل ہو گیا۔ بہرائچ آکر سرکار غازی کے مزار پر گوشہ نشین ہو گیا۔ آستانہ سرکار کی بہت سی عمارتیں اس تاجدار کی یادگار ہیں جن میں احاطہ سید سالار وز نجیری گیٹ اور سالا ر رجب کا روضہ نعل درواز ہ اور محفل خانہ قابل ذکر ہیں۔(سوانح مسعود غازی ص۔۸۹/ ۹۳ )
طالب دعا
محمد ابرارالقادری
مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔