AD Banner

{ads}

وسیلہ لینے کا طریقہ کیا ہے ؟

( وسیلہ لینے کا طریقہ کیا ہے ؟)

 مسئلہ:کیا فرماتے ہیں مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ :حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے وسیلہ  لینے کا کیا طریقہ تھا ؟بینواتوجروا  

از ۔محمد ارشاد رضا متعلم الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ

الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب بعون المجیب الوہاب 

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پاک اور ان کے عزیز واقارب کے وسیلہ سے دعا مانگتے تھے جو حقیقت میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی کے وسیلہ سے دعا مانگنا ہواجیسا کہ امام دا ر می حضرت ابو الجوزا ء اوس بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے سا تھ روا یت کرتے ہیں ’’قحط اھل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الی عائشۃ فقالت انظر واقبرالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فاجعلو امنہ کوی الی السماء حتی لایکون بینہ وبین السماء سقف  ففعلوا فمطروامطراحتی نبت العشب وسمنت الابل حتی تفتقت من الشحم  فسمی عام الفتق رواہ الدارمی‘‘مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انھوں نے حضرت عا ئشہ سے (اپنی دگر گوں حا لت کی) شکا یت کی آپ نے فرمایا :حضور  ﷺ کی قبر انور اور آسمان کے درمیان کو ئی پر دہ حا ئل نہ رہے را وی کہتے ہیں کہ انھوں نے ایسا ہی کیا پس بہت زیا دہ با رش ہو ئی حتیٰ کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے مو ٹے ہو گئے کہ جیسے وہ چر بی سے پھٹ پڑیں گے ،لہذا اس سال کا نام ہی ’’عام الفتق ‘‘ رکھ دیا گیا۔(مشکوۃ ص ۵۴۵)

حضرت آدم علیہ السلام نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی ’’ربنا ظلمنا الی اخرہ‘‘ کے ساتھ یہ عرض کیا’’ اسئلک بحق محمد الا غفرت لی‘‘ (اے اللہ !)میں تجھ سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما ۔

ایک روایت میں یہ کلمے ہیں’’اللھم انی اسئلک بجاہ محمد عبد ک وکرامتہ علیک ان تغفرلی خطیتی‘‘اے اللہ !میں تجھ سے تیرے محبوب بندے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کے واسطے سے اور اس بزر گی کے وسیلے سے جو انہیں تیری با ر گاہ میں حا صل ہے سوال کرتا ہو ں کہ تو میری خطا بخش دے ۔(در منثور جلد اول ص ۳۲۲)

یہ دعا کرنی تھی کہ حق تعالیٰ نے ان کی مغفر ت فرمائی اس روایت سے واضح ثبوت ملتا ہے کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے دعا بحق فلاں اور بجاہ فلاں کہہ کر مانگنا جائز ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے امام بخا ری نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روا یت کی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کے زما نہ میں حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعا لی عنہما کے وسیلے سے دعا طلب کی تو فرمایا ’’ اللھم انا کنا نتو سل الیک بنبیناصلی اللہ علیہ وسلم فتسقینا وانانتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون‘‘اے اللہ ! ہم اپنے نبی  ﷺ کو آپ کی با ر گا ہ میں وسیلہ بنا تے تھے پس تو ہم کو سیرا بی بخش دیا کرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی  ﷺ کے چچا کو وسیلہ بنا تے ہیں پس ہم کو (ان کے وسیلے سے) سیراب کردے۔(بخاری شریف جلد اول ص ۱۳۷)

اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ،وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا(پارہ اول آیت ۸۹ سورہ بقرہ)

اس آیت کریمہ میں یہو دیوں کا ایک عمل بیان ہوا ہے جس کی قرآن مجید نے تصدیق فرما ئی اور جملہ محدثین و مفسرین کرام نے اس سے دلیل پکڑ ی ہے کہ جب گزشتہ امتوں کا ہما رے آقا حضور نبی کریم  ﷺ سے توسل کر نا ثا بت ہے تو پھر اس امت کے لئے آپ  ﷺ کا وسیلہ پکڑنا تو بطریق اولیٰ جا ئز اور درست عمل ہے۔ اھ ملخصا ۔وھو تعالیٰ اعلم 

 محمدمعین الدین خان رضوی ہیم پوری غفرلہ القوی

کتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــبہ

۵؍جمادی الآخر۱۴۲۹ھ؁






مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں  


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner