AD Banner

{ads}

(لاجواب دل خوش کرنےوالا واقعہ)

(لاجواب دل خوش کرنےوالا واقعہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم! لك الحمد يا الله والصلواة والسلام عليك يارسول الله
صلى الله تعالى عليہ وسلم

(نوٹ: بہت ہی لاجواب واقعہ مطالعہ فرماکر دعاؤں سے نوازیں)

حضرت شیخ مخدوم علاء الحق پانڈوی علیہ الرحمہ والرضوان اور حضرت عزرائیل علیہ السلام یعنی ملك الموت

: حضرت مخدوم علیہ الرحمہ کی حیات مقدسہ کا یہ مشہور واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شباب (جوانی) کا پورا زمانہ عالم وجد وتحصیل کمالات میں گزر گیا اور عیش وراحت کی یہ مخصوص گھڑیاں جزبہ خدمت شیخ پر نچھاور ہوگئیں یہاں تک کہ عمر کا آخری حصہ آگیا اور حضرت کے محل سرا میں کسی بچہ کی ولادت کی مسرت منانے کی نوبت نہ آئی-
اولاد کی آرزو ایک عجیب دلکش وعالمگیر آرزو ہے یہ وہ تمنا ہے جس سے کسی مرد وعورت کا سینہ خالی نہیں ہے- بے اولاد کو لوگ بے نصیب کہتے ہیں اور بے اولاد کا گھر بے چراغ کا گھر کہا جاتا ہے- اسی لئے ولد صالح کی خواہش کرنے کی اسلام میں تعلیم دی گئی ہے اور ہمارے زمانہ میں تو حج بیت اللہ وزیارت مدینہ طیبہ سے بھی اکثر یہی عرض ہوتی ہے کہ اولاد کیلئے وہاں دعا کریں- ایک شخص کسی شیخ کا مرید ہوتا ہے اگر وہ بے اولاد ہوتا ہے تو اس کی پہلی عرضی اسی کیلئے گزرتی ہے- اگر ہم مریدوں کے خطوط جمع کریں جن میں ذکر الہی سے پہلے خواہش اولاد ظاہر کی گئ ہے تو بلا مبالغہ ایک ایسا مجموعہ تیار ہو جس کے حجم (جسامت،موٹائی) کا مقابلہ کسی وسیع کتب خانہ کی تمام مجلدات کو جمع کرنے سے شاید ہی ہو سکے- یہاں تک تو خیر ہے قیامت خیز منظر تو یہ ہے کہ اولاد کیلئے کوئی فسق، کوئی فجور، کوئی کفر، کوئی شرک ایسا نہیں ہے جس کو ابنائے زمانہ اختیار کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام لیں- بتوں کا پوجا، گنگا کا اشنان، جن بھوت کی پرستش، مداریوں کی بھینٹ، کالی کامنتر، جوگی کا بھبوت، چوکی کابھرنا (معاذاللہ) سب قبول ہے، اگر گود بھرنے کی امید ہوجائے-
یہ معلوم ہے کہ اولاد اگر ہوئی بھی تو ممکن ہے کہ مرجائے یا زندہ بچ گیا تو نالایق وظالم ہوکر عذاب جان ہوجائے اور پھر یہ کچھ نہیں تو اس پر پورا وثوق ہے کہ قیامت کے دن وہ نہ کام آئےگا- اپنا ہی ایمان مفید ہوگا مگر، واہ رے اولاد کی آرزو کہ سارے یقینیات پر حجاب پڑ جاتا ہے اور یہ آرزو ہر ناگفتنی وناکردنی پر تیار کر دیتی ہے- بہر حال آرزوئے اولاد بشریت کا ایک جزء لاینفك ہے یہاں تک کہ دین ومذہب بھی اسی تمنا کے بت پر بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے(والعیاذ باللہ تعالی منہ)

مگر ہاں حضرت مخدوم علاء الحق والدین پانڈوی علیہ الرحمہ کا سینہ ہے جس میں اس آرزو کی کوئی گنجائش نہ تھی اور جو عام بشریت کے فہم سے کہیں بلند وبالا ہےعمر شریف کا وہ زمانہ آچکا ہے جس کو اطباء مایوسی کا زمانہ کہتے ہیں، زوجہ طاہرہ کا سن ڈھل چکا ہے، اعزہ واقرباء انقطاع نسل کا مرثیہ پڑھ چکے ہیں-

مولانا اسعد کے خاندان کا خاتمہ متیقن ہوچکا ہے، دوست احباب انکی لاولدی کا کا غم منا چکے ہیں اور اب قریب قریب سب کو ایک طرح کا صبر آچکا ہے- مہینوں گزر جاتے ہیں اور کسی کو اس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہاں جس دل میں یہ غم ہر وقت موجود رہتا ہے اور رات دن چٹکیاں لیا کرتا ہے وہ زوجہ عفیفہ کا دل ہے- آپ کے قلب سے ایک ساعت کیلئے یہ رنج نہ گیا، سارا دن اسی کی یاد میں آہ وزاری اور ساری رات اسی فکر میں اختر شماری فرماتی رہیں- آپ کیلئے بجز دعا کے کیا چارہ تھا ہر نماز کے بعد ولد صالح کا سوال دربار الوہیت میں کرتیں اور آہ دل واشک چشم نذر پیش کرتیں-

یہ رات دن کی دعا بےکار نہ گئ اور آخر آپ کو گویا الہام ہوا کہ اس تمنا کی کنجی حضرت مخدوم علیہ الرحمہ کو ہی دیدی گئ ہے- چنانچہ ایک موقعہ پر حضرت شیخ سے آپ نے عرض کیا کہ میں اپنے دل میں ایک دیرینہ آرزو رکھتی ہوں-
حضرت شیخ: کس چیز کی؟

زوجہ مقدسہ: اولاد کی-
حضرت مخدوم(متعجبانہ): ہاں مگر اولاد کی تمنا تمکو کیوں ہے؟ تم کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟
زوجہ مقدسہ: اگر اولاد صالح ہو تو بہت کچھ نفع کی امید کی جاسکتی ہے-
حضرت مخدوم: مگر میں دیکھتا ہوں کہ تمھارے لئے اولاد مقدر نہیں ہے-
زوجہ مقدسہ: تو کیا میری قسمت میں یہ داغ ہمیشہ کیلئے لکھا ہے؟ (رونے لگیں)
حضرت مخدوم داغ کیسا؟ یہ تم روتی کیوں ہو؟
زوجہ مقدسہ:(روتی ہوئی) خاندان کی عورتیں مجھکو بانجھ کہتی ہیں، نہ مجھے عمر والی اولاد چاہئے نہ مجھے اس کی کمائی کھانے کا شوق ہے- ہاں اتنا چاہتی ہوں کہ کوئی لڑکا پیدا ہوکر مرجائے مگر ہم چشموں کے طعن سے تو نجات ملے-
حضرت مخدوم: اچھا رونے کی ضرورت نہیں ہے- تمھارے لڑکا پیدا ہوگا مگر پھر اس کی زندگی کی خواہش نہ کرنا!
سچ ہے بزرگوں کا کہنا نہیں ٹلتا! اس گفتگو کے گنتی کے مہینوں کے بعد حرم سرا سے ولادت فرزند ارجمند کی خوشخبری خانقاہ میں آئی اور پنڈوہ کی تمام آبادی میں گویا عید ہوگئ شہر کے تمام امراء، وزراء، علماء، اولیاء کے جشن مسرت کا تذکرہ اس قدر قابل حیرت نہیں ہے جتنا یہ امر ہے کہ اس مزدہ کو سنتے ہی حضرت مخدوم محل سرا میں تشریف لائے اور فرمایا کہ:
تم کو طعن سے نجات مل گئ اور بانجھ کا داغ مٹ گیا!
حضرت ملك الموت علیہ السلام کھڑے ہیں اب ان کو قبض روح کی اجازت دیتا ہوں- اس ارشاد نے زوجہ محترمہ کو سکتہ میں ڈال دیا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، مگر بظاہر کوئی چارہ نہ تھا، بے اختیار قدم شیخ پر گر پڑیں اور عرض کیا کہ حضور اختیار ہے صرف میں اتنا چاہتی تھی کہ سنت عقیقہ ادا کرنے کا ثواب حاصل کرسکوں!
سنت کا نام سننا تھا حضرت محل سرا سے نکل آئے اور حضرت عزرائیل علیہ السلام کو عقیقہ کے دن مدعو کردیا- خوشی کے دن جاتے دیر نہیں لگتی آخر عقیقہ کی تاریخ آگئ دروازہ پر ادنی واعلی کا ہجوم ہے، چھوٹے بڑے گویا اس خوشی میں کھلے جاتے ہیں، محل سرا میں برادری کی بیویاں جمع ہیں، جسے دیکھو محو مسرت ہے، مولود مسعود پر زر وجواہر نثار ہورہے ہیں، عقیقہ کا جانور ذبح ہوچکا اور فرزند کا نام حضرت نے نور رکھ دیا-
حاشیہ مختصر آپ کا اصل نام نور ہے صاحب مراة الاسرار نے اصل نام احمد لکھا ہے، نور قطب عالم سے مشہور ہوئے، سن ولادت 722ھ مطابق 1322ء ہے، آپ بڑے عالی مقام بزرگ تھے، 11 ذی قعدہ 813ھ کو وصال ہوا، مزار شریف پنڈوہ شریف مالدہ میں ہے
ابھی تک لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ یہ جشن ہفتوں منایا جائےگا کہ پھر حضرت مخدوم علیہ الرحمہ محل سرا میں تشریف لائے اور فرمایا کہ:حضرت عزرائیل علیہ السلام کھڑے ہیں، سنت ادا ہوچکی ہے، اب میں ان کو اندر بلاتا ہوں اس فرمان نے جشن کو کہرام سے بدل دیا اور ہر نفس نقش بدیوار ہوگیا- آپ کی زوجہ محترمہ نے جب اس خبر کو سنا تو پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئ، قدم پر گر پڑیں اور عرض کیا کہ: اب مرضی مبارک سب پر مقدم ہے، آپ کا لڑکا ہے، ابھی اس نے اللہ تعالی کا نام بھی نہیں لیا ہے، خدا وند قدوس کا کلام بھی نہیں پڑھا، اسی حالت میں مرجانا آپ کو پسند ہو تو مجھے کوئی عذر نہیں ہے! حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے اللہ رب العزت کا نام سنا تو پھر دروازہ پر تشریف فرما ہوئے اور ختم قرآن مجید تک حضرت عزرائیل علیہ السلام کو آنے سے منع کردیا- ماں باپ کے آنکھوں کے نور کی اب آغوش امارت میں پرورش ہونے لگی- اللہ تعالی کے شکر سے وہ اب گھٹنوں کے بل چلنے لگے، پاؤں سے بھی چلنا شروع کردیا اور آنکھ جھپکتے وہ دن آگیا کہ الف با شروع ہوئی اور بہت جلد قرآن کریم ختم ہوگیا- دوست احباب رشتہ دار سب اندر باہر اس موقع پر جمع ہوگئے اور خوشیاں منانے لگے اور حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے یہ کہا کہ اندر تشریف لائیے اور فرمایا کہ آج نور نے قرآن کریم بھی ختم کرلیا- اب میں حضرت عزرائیل علیہ السلام کو طلب کرتا ہوں-
زوجہ عفیفہ کے پاس اب کوئی عذر نہ تھا، دست بستہ عرض کیا کہ حضرت کا ارشاد سر آنکھوں پر ہے- میری آرزو سر پر سہرا دیکھنے کی تھی، اگر وہ پوری نہ ہوئی تو سمجھوں گی کہ جس آستانہ سے سب کی امیدیں پوری ہوتی ہیں، وہاں ایک نامراد میں ہی رہ گئ(رونے لگیں)- حضرت کو رحم آگیا اور فرمایا کہ تم بہت حیلے بہانے کرتی ہو! اچھا اب وعدہ کرو کہ آئندہ کوئی عذر نہ پیش کروگی، بیوی صاحبہ نے وعدہ کیا اور حضرت نے باہر آکر تاریخ شادی پر آنے کو کہہ دیا- اس عرصہ میں خاندانی فراست اور اعلی تعلیم کی بدولت مولانا نور کا وجود مقدس چراغ خاندان بن گیا اور برابر یکے بڑے بوڑھے لوگ بھی مولانا نور کا ادب کرنے لگے، خوشی کا پورا سال ایک منٹ کے برابر ہوتا ہے چنانچہ مولانا نور کی بیس برس کی عمر گویا بیس منٹ میں گزر گئ- اسی سال آپ کی شادی خاندان میں کی گئ اور جس دن آپ کی دولھن کا ڈولا حرم سرائے علائی میں اترا ہے اس دن مولانا نور کی عمر شریف پورے بیس سال کی تھی-
نئی نویلی دولھن کی شرم وحیا کو دنیا جانتی ہے اپنی پہلی آمد میں سسرال کی اینٹ اینٹ سے شرم کی جاتی ہے اور کھانے پینے میں نگاہ بچانے کی کوشش ہوتی ہے- ڈولا کے آتے ہی بی بیوں نے ہاتھوں ہاتھ عروس (دولھن) کو محل میں پہنچایا ہے- ایک دھوم ہے کہ کان پڑے آواز نہیں سنائی دیتی ہر شخص اپنی ہی کہتا اور آپ ہی سنتا ہے- دولھن کے خیال سے خانہ عروسی میں تخلیہ کردیا گیا ہے- مولانا نور کی والدہ ماجدہ تنہا وہاں ہیں اور فرزند کی حیات کا قصہ سنا رہی ہیں سب کہہ چکنے کے بعد فرمایا:
اب حضرت شیخ آتے ہی ہوں گے اور میرے پاس سکوت کے سوا کوئی حیلہ نہیں ہے، اگر تم نے شرم سے کام لیا تو آج ہی تمھارے بیوہ ہونے کی بھی تاریخ ہے- آپ ادھر نصیحت فرما رہی تھیں کہ واقعی حضرت مخدوم علیہ الرحمہ اندر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ بیوی اب تمھارا کوئی عذر نہ سنا جائےگا! حضرت عزرائیل علیہ السلام کھڑے ہیں اب میں بےتکلف ان کو قبض روح اجازت دیتا ہوں- مولانا نور کی والدہ نے عرض کیا کہ مجھے اب کوئی عذر نہیں ہے- حضرت باہر جانے لگے کہ حضرت ملك الموت علیہ السلام کو بلائیں کہ ایک مجسمہ حیا وتصویر شرم ہستی قدم سے لپٹ گئ اور زار زار رونے لگی- حضرت نے فرمایا کہ یہ کون ہے؟ آپ کی زوجہ نے فرمایا کہ آپ کی بہو ہے-
فرمایا یہ کیا کہتی ہے عرض کیا کہ حضور یہ آہ وزاری کر رہی ہے کہ مجھ بےخطا کو کس جرم کی سزا دی گئ ہے، اگر مولانا نور کی موت ہی پسند خاطر تھی تو ایک دن پہلے بھی ممکن تھا یا آج ہی موت آتی مگر مجھ کو عقد نکاح میں نہ لایا جاتا کسی کا نہ کچھ بنےگا نہ بگڑےگا مگر میری تقدیر انکی موت سے ہمیشہ کیلیے بگڑ جائےگی- مجھ بےکس اور دکھیاری کا ستانا شان کرم سے بعید ہے- حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے جو اتنا سنا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور چہرہ پر جلال کا تیور چڑھ گیا اور اسی وجد میں باہر تشریف فرما ہوئے اور حضرت عزرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ سو برس تک اس کام کیلئے یہاں نہ آنا!
چنانچہ اس تاریخ سے لےکر سو برس تک مولانا نور عالم حیات ظاہری میں رہے اور آپ کی کل عمر شریف پوری ایک سو بیس/120 برس کی ہوئی-
اس واقعہ سے جہاں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت کے قلب کو دنیا وسامان دنیا سے کتنی بےتعلقی تھی وہاں اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ:
خاصان خدا خدا نہ باشند؛لیکن زخدا جدا نہ باشند[ اللہ تعالی کے مقرب بندے اللہ نہیں ہیں، لیکن اللہ سے جدا بھی نہیں ہیں.(مخدوم علاء الحق پانڈوی صفحہ:22/23/24/25/26/27)
تاریخ: ٢٩/ ذى القعده ١٤٤٠ هجرى
مطابق: 2/ اگست 2019 عیسوی
بروز جمعہ مبارکہ
عبد القاسم خان برکاتی



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner