AD Banner

{ads}

نس میں انجکشن لگوایا تو روزہ کا کیا حکم ہے؟

 نس میں انجکشن لگوایا تو روزہ کا کیا حکم ہے؟

مسئلہ ۴: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین امور ذیل میں کہ بعض علمائے دیو بند نے روزہ میں انجکشن کو جائز لکھا ہے، اور بعضوں نے گوشت والے انجکشن کو جائز لکھا ہے۔ اس کا اثر معدہ تک نہیں پہنچتا، اور اس کے لئے طبیب حاذق کی بھی قید لگائی ہے، جہاں تک احقر کی معلومات کا تعلق ہے، دل سے بڑی نسیں شروع ہوتی ہے۔ اور اس سے جسم کے ہر حصہ میں باریک نسوں یعنی شریانوں کا جال پھیلتا چلاجاتا ہے، جو آخر میں بال کی طرح باریک ہو جاتی ہیں ۔ اگر یہ نسیں نہ ہوں تو ہر جگہ دوران خون نہ ہوسکے۔ اگر آپ کی کھال بھی چھلتی ہے تو وہی نسیں خون دیتی ہیں ، اور اگر کسی وجہ سے یہ نسیں بند ہو جائیں تو جسم کا متاثرہ حصہ سوجھ جاتا ہے، ہاں جو انجکشن بڑی نس میں لگتا ہے، اس کا اثر فورا ہو تا ہے، اور جوگوشت میں لگتا ہے، اس کی دوا پہلے باریک نسوں میں پھر رفتہ رفتہ بڑی نسوں میں ہو کر کچھ تاخیر سے پورے جسم میں پہنچتی ہے، لیکن وہ تاخیر گھنٹوں کی ہو سکتی ہے، دنوں کی نہیں اسلئے نس اور گوشت کا سوال ہی غلط محسوس ہو تا ہے، اسی لئے فقہائے کرام نے روزہ میں غرارہ اور ناک میں پانی چڑھا نے کو منع لکھا ہے، جب کہ حلق اور نرم بانسے کی تیزی معدہ تک نہیں پہنچتی اور کھل کر بیٹھ کر استنجے کی بھی ممانعت فرمائی ہے، جب کہ مقعد کی تیزی کسی طرح بھی معدہ تک نہیں پہنچتی، کیونکہ درمیان میں آنتوں کا جال اور فضا حائل ہے، اب دریا فت طلب یہ امور ہیں ۔

(۱): آیا روزہ کی حالت میں انجکشن جائز ہے یا نہیں ؟ (۲): اور اگر بہ استثنائے معدہ جائز ہے تو دوا معدہ تک نہ پہنچنے کی کون سی شکل ہے، اور فقہائے کرام کے جزئیات کا کیا جواب ہے؟ (۳): کیا انڈیا کے ڈاکٹر وں میں طبیب حاذق کے شرائط پائے جاتے ہیں ؟ (۴): وہ شرائط کیا ہیں ۔ بینواتوجروا۔

مسئولہ اختیار حسین، محلہ دیپا سرائے، سنبھل، ضلع مرادآباد ، ۲۲؍سمتبر ۱۹۷۴؁ء

الجواب: (۱): روزہ کی حالت میں کسی طرح کا انجکشن خود لگانا یا لگوانا جائز نہیں ، چونکہ انجکشن کی دوارقیق ورطب ہوتی ہے، جو جلد ترنسوں اور رگوں اور شرائین کے ذریعہ دماغ نیز معدہ تک ضرور پہنچتی ہے، اور ہرایسی دو ا اور ہر ایسا علاج جس کا اثر وحصہ دماغ اور معدہ تک پہنچتا ہو بر قول امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہاللہ تعالیٰ علیہ مفسدِ صوم ہے۔ میرے علم وتحقیق میں ایسا کوئی انجکشن نہیں ہے، جس کا اثر وحصہ دل ودماغ تک نہیں پہنچتا ہو اور جس سے معدہ متا ثر نہیں ہو تا ہو۔ فتاویٰ عالمگیری مصری جلد اول ص ۱۹۱ میں ہے۔

وفی دواء الجائفۃ والآ مَّۃِ أکثر المشائخ علی أن العبرۃ للوصول الی الجوف والدماغ لا لکونہ رطبا أویابسا حتی اذا علم أن الیابس وصل یفسد صومہ، ولو علم أن الرطب لم یصل لم یفسد ھکذا فی العنایۃ، واذالم یعلم احد ھما، وکان الدواء رطبا فعند حنیفۃ رحمہاللہ تعالی یفطر للوصول عادۃ۔

معدہ دماغ پر پہونچنے والی دواؤں کے سلسلہ میں عامۂ مشائخ کا موقف یہ ہے کہ اعتبار اس بات کا ہے کہ دوا معدہ یا دماغ تک پہنچی یا نہیں ۔ اس کا تروخشک ہونا معیار نہیں ۔ چنانچہ اگر پتہ چل گیا کہ خشک چیز معدہ تک پہونچ گئی، روزہ ٹوٹ جائیگا۔ اگر یہ معلوم ہوا کہ ترچیز معدہ تک نہیں پہونچی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ایسا ہی العنایۃ میں ہے، اور اگر کچھ معلوم نہ ہو اور دواتر ہو تو امام ابو حنیفہ رحمہاللہ کے نز دیک ٹوٹ جائیگا، کیو نکہ عام طور پر تر دوائیں دماغ ومعدہ تک پہونچتی ہیں ۔

یہ جزئیہ نہایت صاف طریقہ پر بتارہا ہے کہ خشک یا تر جو دوا دماغ و معدہ تک پہنچتی ہو اور اس کا پہنچنا معلوم ہو مفسدِصوم ہے، اور جو دوا خواہ خشک ہو یا تر دماغ و معدہ تک اس کا پہنچنا معلوم نہ ہو وہ مفسد صوم نہیں ۔ اور جس دوا کا دماغ و معدہ تک پہنچنا اور نہ پہنچنا کچھ معلوم نہ ہو لیکن وہ دوا تر ہو تو سیدنا امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ایسی تر دوا کا دماغ و معدہ تک پہونچنا عادۃً غالب و مظنون ہے۔ اور مفسد صوم ہے۔ انجکشن کی ترددا دماغ اور معدہ تک پہونچنا ہی معلوم ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کا بھی یہی کہنا ہے، لہٰذا انجکشن کا روزہ کی حالت میں خود لگانا اور لگوانا مفسدِصوم ہے، اور اگر انجکشن کی دوا کا دماغ و معدہ تک پہنچنا یا نہ پہونچنا کچھ نہ معلوم ہو تو بھی بر قول ِامام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ تردوا کا اثر و حصہ کا دماغ و معدہ تک پہنچنا ہی عادۃ ًغالب و مظنون ہے اور مفسد ِصوم ہے، اور یہی ظاہر الروایۃ ہے۔ جس کی تصریح علامہ شامی نے فرمادی ہے۔ درمختار مطبوعہ دیوبند جلد ثانی ص ۱۰۲ میں ہے۔(أوداوی جائفۃ أو آمَّۃ) فوصل الدواء حقیقۃ الیٰ جوفہ و دماغہ۔

یا علاج کیا ایسی چیز سے جو معدہ اور دماغ تک پہونچنے والی ہے اور دوا حقیقت میں معدہ اور دماغ تک پہنچ بھی گئی یہ روزہ توڑ دیگا۔

شامی میں ہے۔قولہ (فوصل الدواء حقیقۃ) اشار الیٰ أن ماوقع فی ظاھرالروایۃ من تقیید الافسادبالدواء الرطب مبنی علی العادۃ من أنہ یصل۔

(ان کا قول دواء حقیقت میں پہونچ گئی) یہ اس قول کی طرف اشارہ ہے جو ظاہر الروایۃ میں آیا ہے کہ دوا روزہ توڑنے کاسبب اس وقت بنے گی جب وہ تر ہو۔ اس کا دارومدار عادت پر ہے کہ عام طور پر تر دوائیں معدہ و دماغ تک پہنچتی ہیں ۔

اسی میں ہے۔وانما الخلاف اذالم یعلم یقینا فافسد بالطری حکما بالوصول نظر الیٰ العادۃ و نفیاہ کذا أفادہ فی الفتح۔

اختلاف اس وقت ہے جب یقینی طور پریہ معلوم نہ ہوکہ دواخشک ہے یاترہے لہٰذا اگر دواترہے تو روزہ ٹوٹنے کا حکم دیاجائے گا۔ کیونکہ عادتاً تر دوائیں معدہ اوردماغ تک پہنچتی ہیں ۔

یہ بھی واضح رہے کہ فقہائے کرام کی تحقیق یہ ہے کہ دماغ و معدہ دونوں کا اصلی منفذ و راستہ ایک ہے، لہٰذا جو چیز دماغ تک پہنچتی ہے، وہ معدہ تک ضرور پہنچتی ہے، اور جو چیز معدہ تک پہنچتی ہے وہ دماغ تک ضرور پہنچتی ہے۔ شامی میں ہے۔قال فی البحر والتحقیق أن بین جوف الراس و جوف المعدۃ منفذا اصلیا فما و صل الی جوف الراس یصل الی جوف البطن۔

تحقیق یہ ہے کہ جوف سراور جوف معدہ کے درمیان بنیادی راستہ ہے لہٰذا جو دواجوف سر تک پہونچتی ہے وہ جوفِ معدہ تک بھی پہونچتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔

(۲): صرف معدہ کا استثنا، درست نہیں ، بلکہ دماغ و معدہ دونوں کا استثناء ضروری ہے، کہ جس دوا کا اثر وحصہ دماغ ومعدہ تک نہیں پہنچتا ہو مفسد ِصوم نہیں ، ورنہ مفسد صوم ہے۔ میری تحقیق میں ہے کہ انجکشن کی ہر تردوا معدہ و دماغ تک ضرور پہنچتی ہے، جس طرح ’’احتقان‘‘ یعنی حقنہ لگوانے ’’استعاط‘‘ یعنی ناک میں دوا اوپر چڑھانے اور اِقطارفی الاذنین کان میں دوا یا تیل کا قطرہ ڈالنے کی صورتوں میں دماغ و معدہ تک دوا کا پہنچنا ہی ظاہر و ضروری ہے۔ واللہ تعالی اعلم

(۳): طبیب ِ حاذق کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہرعلاج و معالجہ میں بالخصوص اور تمام احکام شرعیہ میں بالعموم پابندِ مذہب اور حکم دین پر عمل کرتاہواور صحیح العقیدہ سنی اور صالح ہو، بالعموم ایسے ڈاکٹر نہیں ملتے ہیں ، لیکن شاذونادر طور پر اب بھی ایسے ڈاکٹر ہیں جو طبیب ِحاذق کے صحیح مصداق ہیں ۔ میں نے جہاں تک دنیا دیکھی ہے اور ڈاکٹروں سے ملاقات کی ہے، بعض ڈاکٹروں کو طبیب ِ حاذق کا مصداق پایا ہے، اس لئے میں تمام ڈاکٹروں کے لئے ایک حکم نہیں صادر کرسکتا۔ واللہ تعالی اعلم۔


کتبہ 

علامہ محمد حبیب اللہ نعیمی اشرفی



مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads