AD Banner

{ads}

(بہجۃ الاسرار کی تحقیق)

(بہجۃ الاسرار کی تحقیق)


کتابِ مستطاب: بهجۃ الاسرار اور مصنف بھجۃ الاسرار الحافظ ابو الحسن علی بن یوسف رحمۃ اللّٰہ تعالٰی عليہ کے بارے میں : مجددِ اعظم حضور سیدنا سرکار اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان  محدثِ بریلوی رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کی! تحقیقِ انیق ملاحظہ فرما کر دعاؤں سے نوازیں 

فتاویٰ رضویہ شریف  جلد 12 صفحہ: 228  "رسالہ طرد الافاعی عن حمی ھاد رفع الرفاعی" سے مقتبس و ملخص تحریر

اول: مصنف بهجۃ الاسرار کی ذات و شخصیت کے بارے میں!یہ امام اجل اوحد یعنی سیدی نور الملۃ والدین ابوالحسن علی بن یوسف بن جریر اللخمی الشطنوفی قدس سرہٗ الشریف صرف دو واسطہ سے حضور سرکار غوثیت کے مستفیضین بارگاہ میں ہیں
ان کو محدثِ جلیل القدر ابوبکر محمد ابن امام حافظ تقی الدین انماطی سے تلمذ ہے ان کو امام اجل شہیر علامہ موفق الدین ابن قدامہ مقدسی سے ان کو حضور قطب الاقطاب، غوث الاغواث، غوث الثقلین، غوثِ اعظم رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھم سےنیز ان کو امام قاضی القضاة محمد ابن امام ابراہیم ابن عبد الواحد مقدسی سے ان کو امام ابوالقاسم ھبۃ اللّٰہ ابن منصور نقیب السادات سے نیز ان کو شیخ جنید ابو محمد حسن ابن علی لخمی سے ان کو ابوالعباس احمد بن علی دمشقی سے ان کو سرکار غوثیت سے نیز ان کو امام صفی الدین خلیل بن ابی بکر مراعی وامام بن عبد الواحد بن علی بن احمد قرشی سے ان دونوں کو امام اجل ابونصر موسیٰ سے ان کو اپنے والد ماجد حضور سیدنا غوثِ اعظم سے رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھم اور ان کے سوا بہت طرق سے ان امام جلیل کی سند حضور تک ثنائی یعنی صرف دو واسطہ سے ہے۔

سن 713 ہجری میں ان کا وصال شریف ہے اکابر اجلاء نے انھیں امام مانا یہاں تک کہ امام فن رجال شمس ذھبی نے بآنکہ  
اولاً انکی نگاہ دربارۂ رجال کس درجہ بلند درجہ و دشوار پسند واقع ہوئی ہے

ثانیاً:انھیں حضرات صوفیاء کرام رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھم اور ان کے علومِ الٰہیہ سے بہت کم عقیدت بلکہ تقریباً بالکلیہ مجانبت ہے

ثالثاً* اشاعرہ کے ساتھ ان کا برتاؤ معلوم ہے خود ان کے تلمیذ اجل امام تاج الدین سبکی ابن امام اجل برکۃ الانام تقی الملۃ والدین علی بن عبد الکافی قدس سرھما نے تصریح فرمائی کہ " شیخنا الذھبی اذا مر باشعری لایبقی ولایذر " ہمارے استاذ ذھبی جب کسی اشعری پر گزرتے ہیں تو لگی نہیں رکھتے کچھ باقی نہیں چھوڑتے اور امام اجل صاحب بہجہ اشعری ہی ہیں

رابعاً معاصرت دلیلِ منافرت ہے اور ذھبی ان امام جلیل کے زمانے میں تھے ان کی مجلس مبارک میں حاضر ہوئے ہیں یا ایں ہمہ ان کے مداح ہوئے اور اپنی کتاب طبقات المقرئین میں ان کو الامام الاوحد کے لفظ سے یاد فرمایا یعنی امام یکتا امام الشان ذھبی کے یہ دو لفظ تمام مدائح و مدارج توثیق و تعدیل و اعتماد و تعویل کو جامع ہیں , فرماتے ہیں :" علی بن یوسف جریر اللخمی الشطنوفی الامام الاوحد المقری نورالدین شیخ القراء بالدیار المصریۃ ابوالحسن اصلہ من الشام ومولدہ بالقاھرة سنۃ اربع واربعين وستمائۃ وتصدر للاقراء والتدريس بالجامع الزهر وقد حضرت مجلس اقرائہ واستانست بسمتہ وسكوتہ "على بن يوسف بن جرير لخمى شطنوفى امام يكتا صاحب تعليم فرقان حميد تمام بلاد مصر میں شیخ القراء ابوالحسن کنیت ان کی اصل شام سے اور ولادت قاھرہ میں سن 644 ھ میں پیدا ہوئے اور جامع ازھر مصر میں درس وتعلیم کی صدارت فرمائی ان کی مجلس درس میں حاضر ہوا اور ان کی روش وخاموشی سے انس پایا

اور امام جلیل عبد اللّٰہ بن اسعد یافعی قدس سرہ الشریف مراۃ الجنان میں فرماتے ہیں کہ حضور پُرنور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ کی کرامات شمار سے زیادہ ہیں انھیں میں سے کچھ ہم نے اپنی کتاب نشرالمحاسن میں ذکر کیں اور جتنے مشاہیر اکابر اماموں کے وقت میں نے پائے سب نے مجھے یہی خبر دی کہ سرکار غوثیت کی کرامات متواتر یا قریب تواتر ہیں اور بالاتفاق ثابت ہے کہ تمام جہان کے اولیاء میں کسی سے ایسی کرامتیں ظاہر نہ ہوئیں جیسی حضور پُرنور سے ظہور میں آئیں اس کے بعد امام یافعی فرماتے ہیں ان میں سے صرف ایک کا ذکر کرتا ہوں وہ جسے روایت کیا شیخ امام فقیہ مقری ابوالحسن علی بن یوسف بن جریر بن معضاد شافعی لخمی نے مناقب حضور غوثِ اعظم رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ (کتابِ مستطاب بهجۃ الاسرار شريف) میں اپنی پانچ سندوں سے اس کے بعد امام یافعی نے معروف ومشہور روایت مرغ زندہ فرمانے اور چیل کو مارنے کے بعد زندہ فرمانے والی کرامت کا ذکر فرمایا
 قادرا قدرت تو داری ہر چہ خواہی آں کنی
مردہ را جانے دہی و زندہ را بے جاں کنی 

 امام محدث شیخ القراء شمس الملۃ والدين ابو الخير محمد محمد محمد ابن الجزرى رحمۃ اللّٰہ علیہ کتاب نهايۃ الدرايات فى اسماء رجال القرأت میں فرماتے ہیں
علی بن یوسف بن جریر بن فضل بن معضاد نور الدین ابوالحسن لخمی شطنوفی شافعی استاد محقق بارع یعنی ایسے جلیل فضائل والے کہ انھیں دیکھ کر آدمی حیرت میں رہ جائے تمام بلادِ مصریہ کے شیخ سن 644 ھ میں قاھرہ میں پیدا ہوئے اور جامع ازھر میں مسند درس پر جلوس فرمایا اور انکے فوائد و تحقیق کے باعث لوگوں کا ان پر ہجوم ہوا اور مجھے خبر پہنچی ہے کہ شاطبیہ مبارکہ پر ان کی شرح ہے اگر یہ شرح ملتی تو اس کی سب شرحوں سے بہترین شروح میں ہوتی ان کے حواشی فائدہ بخش ہیں ذھبی نے کہا ان کو سرکار غوثیت سے عشق تھا حضور کے حالات و کمالات تین مجلد میں جمع کئے ہیں میں شمس جزری فرماتا ہوں کہ یہ کتاب قاھرہ میں خانقاہ حضرتِ صلاح الدین انار اللّٰہ برھانہ کے وقف میں موجود ہے ہمارے استاذ حافظ الحدیث محی الدین عبد القادر حنفی وغیرہ استاذوں نے ہمیں اس کتاب کی روایات کی خبر و مضامین کی اجازت دی حضرتِ مصنف کتابِ ممدوح کا روز شنبہ وقتِ ظہر وصال ہوا اور روز یکشنبہ بستم ذی الحجہ سن 713 ھ کو دفن ہوئے - رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیھم اجمعین -
دوم: کتاب بهجۃ الاسرار كے بارے میں!امام عمر بن عبد الوھاب قرضی حلبی نے اپنے نسخہ کتاب مبارک بهجۃ الاسرار شریف پر لکھا کہ بیشک میں نے اس کتاب بهجۃ الاسرار شریف کو اول تا آخر جانچا تو اس میں کوئی روایت ایسی نہ پائی جسے اور متعدد اصحاب نے روایت نہ کیا ہو اور اس کی اکثر روایتیں امام یافعی نے اسنے المفاخر و نشرالمحاسن و روض الریاحین میں نقل کیں یوں ہی شمس الدین زکی حلبی نےکتاب الاشراف میں اور سب سے بڑی چیز جو بهجہ شریفہ میں نقل کی حضور کا مردے جلانا ہے جیسے وہ مرغ زندہ فرما دیا اور مجھے اپنی جان کی قسم یہ روایت امام تاج الدین سبکی نے بھی نقل کی اور یہ کرامت ابن الرفاعی وغیرہ اولیاء سے بھی منقول ہوئی اور کہاں یہ منصب کسی غبی جاہل حاسد کو جس نے اپنی عمر تحریر سطور کے سمجھنے میں کھوئی اور تزکیۂ نفس و توجہ الی اللّٰہ چھوڑ کر اسی پر بس کی کہ اسے سمجھ سکے جو کچھ تصرفوں کی قدرت اللّٰہ عزوجل اپنے محبوبوں کو دنیا وآخرت میں عطا فرماتا ہے اسی لئے سیدنا جنید بغدادی رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا ہمارے طریقے کا سچ ماننا بھی ولایت ہے۔
اقول بحمد اللّٰہِ تعالٰی یہ تصدیق ہے امام مصنف قدس سرہٗ کے اس ارشاد کی کہ خطبۂ بہجہ میں فرمایا کہ لخصتہ کتاباً مفرداً مرفوع الاسانید معتمداً فیھا علی الصحۃ دون الشذوذ یعنی میں نے اسے کتاب یکتا کر کے مہذب ومنقح فرمایا اور اس کی سندیں منتہے تک پہنچائیں جن میں خاص اس صحت پر اعتماد کیا کہ شذوذ سے منزہ ہو یعنی خالص صحیح ومشہور روایات لیں جن میں نہ ضعیف ہے نہ غریب وشاذ (رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھم اجمعین)  والحمد للّٰہ رب العالمین

امام خاتم الحفاظ جلال الملۃ والدین سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ حسن المحاضرہ فی اخبار مصر والقاھرہ میں فرماتے ہیں کہ علی بن یوسف بن جریر لخمی شطنوفی امام یکتا نور الدین ابوالحسن دیارِ مصر میں شیخ القراء ؛ قاھرہ میں سن 644  ھ پیدا ہوئے اور جامع ازھر میں مسند تدریس پر جلوس فرمایا طلبہ کا ان پر ہجوم ہوا ذی الحجہ سن 713 ھ میں انتقال فرمایا شیخ محقق مولانا عبد الحق محدثِ دہلوی زبدة الاسرار میں فرماتے ہیں بهجۃ الاسرارتصنیف شیخ امام اجل فقیہ عالم مقری یکتا بارع نورالدین ابوالحسن علی بن یوسف شافعی لخمی ان میں اور حضور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھم اجمعین میں دو واسطے ہیں

نیز اپنے رسالہ صلوٰۃ الاسرار میں فرماتے ہیں " کتابِ عزیز بهجۃ الاسرار ومعدن الانوار " معتبر ومقرر ومشہور و مذکورست ومصنف آں کتاب از مشاہیر مشائخ وعلماست  میان وے وحضرتِ شیخ (غوثِ اعظم) رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھما دو واسطہ است - ومقدم است بر امام عبد اللّٰہ یافعی علیہ الرحمہ کہ ایشاں نیز از منتسبانِ سلسلہ ومحبان جنابِ غوث الاعظم اند - اسی میں ہے ایں فقیر در مکہ معظمہ بود در خدمتِ شیخ اجل اکرم اعدل شیخ عبد الوھاب متقی کہ مرید امام ہمام حضرت شیخ علی متقی قدس اللّٰہ سرھما بودند فرمودند بهجۃ الاسرار كتاب معتبرست مانزدیک ایں زمان مقابلہ کردہ ایم وعادت شریف چناں بود کہ اگر کتابے مفید ونافع باشد مقابلہ می کردند وتصحیح می نمودند دریں وقت کہ فقیر رسید بمقابلۂ بهجۃ الاسرار مشغول بودند

الحمد للّٰہ ان عباراتِ ائمہ واکابر سے واضح ہوا کہ

" نمبر ایک 1 " امام ابوالحسن علی نورالدین مصنف کتابِ مستطاب بهجۃ الاسرار امام اجل امام یکتا محقق بارع فقیہ شیخ القراء منجملہ مشاہیر مشائخ وعلماء ہیں

" نمبر دو 2 " اور یہ کتابِ مستطاب معتبر ومعتمد کہ اکابر ائمہ نے اس سے استناد کیا اور کتبِ حدیث کی طرح اسکی اجازتیں لیں دیں

" نمبر تین 3 " کتبِ مناقب سرکار غوثیت میں باعتبار علو اسانید اس کا وہ مرتبہ ہے جو کتب حدیث میں موطائے امام مالک کا

" نمبر چار 4 " اور کتبِ مناقب اولیاء میں باعتبارِ صحتِ اسانید اس کا وہ مرتبہ ہے جو کتبِ حدیث میں صحیح بخاری کا بلکہ صحاح میں بعض شاذ بھی ہوتی ہیں اور اس میں کوئی حدیث شاذ بھی نہیں امام بخاری نے صرف صحت کا التزام کیا اور ان امام جلیل نے صحت وعدم شذوذ دونوں کا ; اور بشہادت علامہ عمر حلبی وہ التزام تام ہوا کہ اس کی ہر حدیث کیلئے متعدد متابع موجود ہیں "-  رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھم اجمعین والحمد للّٰہ رب العالمین

نوٹ : میں نے اس تحریر میں اردو عبارت یعنی بالخصوص ترجمہ پر اکتفا کیا ہے -فتاویٰ رضویہ شریف قدیم جلد دواز دھم(12)صفحہ : 232 / 233 / 234 / 235 / 236/ ناشر رضا اکیڈمی بمبئ 3)

طالب دعا
عبد القاسم خان برکاتی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner