AD Banner

{ads}

(اولیاء اللّٰہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں)

(اولیاء اللّٰہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں)

اولیاء اللّٰہ کی حیات و ممات میں ان کے تصرفات پر انعقادِ اجماع


جمہور علماء و فقراء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کتبِ قوم اس سے بھری ہوئی ہیں کہ جو اولیاء اللّٰہ کہ صاحبِ تصرفِ تام ہوتے ہیں جن کو خدائے تعالٰے منتخب کر کے اپنے بندگانِ خاص میں داخل و شامل فرماتا ہے جس طرح سے کہ ان سے تصرفات و خوارقِ عادات زندگی میں صادر ہوتے ہیں اسی طرح ان کی وفات کے بعد بھی ان کی قبور پر ظہور میں آتے ہیں.( قلائد الجواھر صفحہ : 154 / 155 ): *قال حجۃ الاسلام امام محمد غزالى رضى اللّٰہُ تعالٰی عنہ و ارضاه من يستمد فى حياتہ يستمد بعد مماتہ یعنی جس سے بحالتِ حیات مدد لی جاسکتی ہے اس سے بعدِ ممات بھی مدد طلب کی جاسکتی ہے -ویکے از مشائخ گفتہ کہ چہار کس از اولیاء دیدم کہ در قبور خود تصرف میکنند مثل تصرف ایشاں در حیات یا بیشترازاں جملہ حضرتِ شیخ معروف کرخی و حضرتِ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللّٰہُ عنھما{ حاشیہ قلائد الجواھر : صفحہ : 154 }

  اولیاء کرام بعدِ انتقال تمام عالم میں تصرف کرتے اور کار وبار جہان کی تدبیر فرماتے ہیں "فالمدبرات امراً :اس آیتِ کریمہ کا معنی تفسیر بیضاوی شریف کے حوالے سےمجددِ اعظم؛ محدثِ بریلوی اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ تحریر فرماتے ہیں اس آیتِ کریمہ میں اللّٰہ عز وجل ارواحِ اولیاء کرام کا ذکر فرماتا ہے جب وہ اپنے پاک مبارک بدنوں سے انتقال فرماتی ہیں کہ جسم سے بقوتِ تمام جدا ہوکر عالمِ بالا کی طرف سبک خرامی اور دریائے ملکوت میں شناوری کرتی حظیر ہائے حضرتِ قدس تک جلد رسائی پاتی پس اب تو اپنی بزرگی و طاقت کے باعث کار و بار عالم کے تدبیر کرنے والوں سے ہوجاتی ہیں - تفصیل کیلئے مطالعہ فرمائیں [ الامن و العلٰی: صفحہ: 98 / مصنف؛ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ: پریس؛ اسپریچول کمپیوٹرس دہلی ]

  قبر سے نکل کر بیعت لى :شیخ اسعد یافعی یمنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرتِ محمد ابن ابوبکر حکمی اور حضرتِ ابو الغیث بن جمیل قدست اسرارھما اپنے دور میں سر زمینِ یمن کے ممتاز عارفین کاملین میں ہوئے ہیں ان کا وصال ہوجانے کے بعد ایک درویش ان کی خدمت میں حصولِ فیض کا ارادہ لےکر آئے چنانچہ حضرتِ محمد بن ابوبکر حکمی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنی قبر سے باہر تشریف لائے اور درویش سے بیعت لی اور بہت کچھ عہد و شرط لیا جس کا ذکر طویل ہے اسی طرح حضرت ابو الغیث رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہ نے اپنی قبر سے ہاتھ باہر نکال کر بیعت فرمایا-  علیھم الرحمہ مولا کریم ہمیں ان کی برکتوں سے نوازے آمین(روض الریاحین فی حکایاتِ الصالحین صفحہ:202)

 اولیاء مرتے نہیں زندہ ہیں :

 روایت نمبر 1

حضرتِ شیخ ابو سعید خراز رضی اللّٰہُ عنہ مکہ معظمہ میں بابِ بنی شیبہ سے گزر رہے تھے انھوں نے دیکھا راستے میں ایک لاش رکھی ہوئی ہے شیخ نےلاش کا چہرہ دیکھا وہ ایک نو جوان تھاشیخ کو دیکھ کر مسکرایا اور بولا ابوسعید کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللّٰہ تعالٰی کے محب مرکر بھی زندہ ہوتے ہیں وہ تو صرف ایک عالم سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں[ روض الریاحین فی حکایاتِ الصالحین:204 ]

 روایت نمبر 2

اسی طرح شیخ ابو یعقوب سنوسی علیہ الرحمہ کے پاس مکہ معظمہ میں ایک مرید آیا اور عرض کیا میں کل ظہر کے وقت مرجاؤں گا یہ دنیا حاضر خدمت ہے آدھے سے کفن کا؛ اور آدھے سے دفن کا انتظام کیجئے گا دوسرے روز ٹھیک وہ ظہر کے وقت حرم شریف میں آیا طوافِ کعبہ کیا پھر ذرا دور ہٹا اور انتقال کرگیا شیخ سنوسی فرماتے ہیں میں نے غسل وغیرہ دے کر اسے کفن پہنایا جب قبر میں اتارا تو اس نے آنکھ کھول دی میں نے کہا موت کے بعد بھی زندگی ؟اس نے کہا شیخ! میں زندہ ہوں اور خدا کا ہر محب زندہ ہوتا ہے-  علیھما الرحمہ(روض الریاحین فی حکایاتِ الصالحین صفحہ:204/205)

روایت نمبر 3

ایک بزرگ ایک میت کو نہلا رہے تھےاس نے بزرگ کا انگوٹھا پکڑ لیاانھوں نے فرمایا بیٹے انگوٹھا چھوڑومجھے معلوم ہے تو مردہ نہیں ہے یہ تو ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف انتقال ہے اس نے چھوڑ دیا-  علیھما الرحمہ

روایت نمبر 4

ایک غسالہ عورت نے میت کو غسل دیتے وقت ناخن تراشے،ایک ناخن کاٹنے میں کچھ اندیشہ محسوس کیا تو میت نے اپنی انگلی کھینچ لی اور مسکرانے لگی غسالہ اور مرنے والی دونوں نیک خواتین تھیں 

روایت نمبر 5

حضرتِ شیخ ابنِ جلاء علیہ الرحمہ کا بیان ہےمیرے والد صاحب علیہ الرحمہ کا انتقال ہوا اور غسل کیلئے انہیں تختہ پر رکھا گیا تو ہنسنے لگے کسی کو انہیں غسل دینے کی ہمت نہ ہوتی تھی کہتے یہ تو زندہ ہیں بالآخر ان کے ہم رتبہ بزرگوں میں سے ایک بزرگ آئے تو انہیں غسل دیا-  علیھم الرحمہ{روض الریاحین فی حکایات الصالحین صفحہ:205}( بحوالہ بزمِ اولیاء صفحہ: 312/313/314 )

حضور سیدنا غوثِ اعظم کی حضرتِ معروف کرخی کی قبر مبارک پر حاضری اور آپ کی ذات سے ہم کلامی رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھما: ایک دفعہ سیدنا غوثِ اعظم رضی اللّٰہُ عنہ حضرتِ شیخ علی ابن نصر الہیتی رضی اللّٰہُ عنہ کے ہمراہ حضرتِ شیخ معروف کرخی رضی اللّٰہُ عنہ کی قبر شریف پر تشریف لے گئے اور قبر کے پاس کھڑے ہوکرفرمایا: السّلام علیك یا معروف! آپ ایک درجہ ہم سے آگے ہیں پھر آپ واپس تشریف لےگئےچند دن بعد آپ ( یعنی سیدنا غوثِ اعظم رضی اللّٰہُ عنہ ) پھر شیخ علی ابن نصر الہیتی رضی اللّٰہُ عنہ کے ہمراہ حضرتِ شیخ معروف کرخی رضی اللّٰہُ عنہ کے مزار اقدس پر تشریف لے گئے اور قبر کے پاس کھڑے ہوکرفرمایا: السّلام عليك یا شیخ معروف!ہم دو درجے آپ سے بڑھ گئے حضرتِ شیخ معروف کرخی کی قبر مبارک۵ سے فوراً آواز آئی وعلیك السّلام  یا سید اھل الزمان یعنی سلام ہو آپ پر اے زمانے کے سردار!( سیرتِ غوثِ اعظم صفحہ: 179)

تشریح مذکورہ واقعہ سے پتہ چلا کہ سیدنا غوثِ اعظم رضی اللّٰہُ عنہ کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ واقعی اولیاء اللّٰہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں تبھی تو آپ رضی اللّٰہُ عنہ نے حضرتِ شیخ معروف کرخی رضی اللّٰہُ عنہ کے مزار اقدس پر حاضر ہوکر سلام پیش کیا اور آپ نے اپنے اور ان کے درجات کا ذکر کیاجیسا کہ تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 98 کی عبارت مذکور ہے اولياء اللّٰہ لايموتون لكن ينتقلون من دار الى داربیشک اولیاء اللّٰہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے ہیں -

نوٹ:ان حوالوں کے پیشِ نظر اور اپنے اسلاف کے عقائد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم تمام مسلک اہلِ سنّت وجماعت سے وابستہ حضرات اولیاء اللّٰہ رضی اللّٰہُ تعالٰی عنھم اجمعین کو بعدِ وفات بھی زندہ مانتے ہیں.

طالب دعا
عبد القاسم خان برکاتی




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner