AD Banner

{ads}

(تذکرہ نبيره صدر الشریعہ)

(تذکرہ نبيره صدر الشریعہ)

جگر گوشہ محدِِّثِ کبیر حضرت علامہ ‏مفتی عطاءالمصطفٰی اعظمی امجدی نوری رحمۃ اللہ علیہ

(1)نام و نسب
(2)تاریخ پیدائش
(3)مولد
(4)خاندانی ماحول
(5)تعلیم ناظرہ اور اردو و فارسی قاعدہ
(6)ابتدائی تعلیم درس نظامی
(7)سند فراغت و تربیت حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ
(8)فن قرآت
(9)فتوٰی نویسی
(10)اسناد
(11)درس و تدریس
(12)علمی شغف او ر اعزاز و مناصب
(13)علمی قلمی خدمات و مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت
(14)درسِ نظامی ، عقائد و مسائل اور دیگر بہت سی کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں چند کتابوں کے نام
(15)مدارس کا قیام و طلباء سے محبت
(16)عقدِ مسنون
(17)اولاد امجاد
(18)شرف بیعت
(19)خلافت
(20)اجازت حدیث
(21)وصال با کمال
(22)مدفن

(1)نام و نسب:

عطاء المصطفٰی اعظمی بن ضیاءالمصطفٰی اعظمی بن امجد علی اعظمی بن جمال الدین

(2)تاریخ پیدائش:

۱۴/رجب المرجب ۱۳۸۴ ھ بمطابق ۱۹۶۴

(3)مولد:

مدینۃ العلماء گھوسی ضلع مئو سابق اعظم گڑھ یو۔پی(انڈیا)

(4)خاندانی ماحول :

آپ کے آباؤ اجداد علماء بلکہ علماء گر میں آپ مفتی ابن مفتی ابن مفتی ۔آپ کا خاندان ابتدا ہی سےمذہبِ حق اہلسنت و جماعت کا پاسبان رہا ہے۔

(5)تعلیم ناظرہ اور اردو و فارسی قاعدہ:

قادری منزل میں اپنی دادی محترمہ سے حاصل کی۔

(6)ابتدائی تعلیم درس نظامی :

۱۳۹۴ھ بمطابق ۱۹۷۴ شمس العلوم گھوسی میں شروع کی۔ یہاں آپ کے اساتذہ کرام میں مولاناسیف الدین ، مولانا محمد عاصم اعظمی قابل ذکر ہیں ۔

(7)سند فراغت و تربیت حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ :

شمس العلوم میں ایک برس پڑھتے رہے اس کے بعد ۱۳۹۵ھ بمطابق ۱۹۷۵ء میں مصباح العلوم جامعہ اشرفیہ میں داخلہ لیا جہاں آپ ایک سال حضور حافظ ملت کی پاکیزہ محبت سے سرفراز رہے۔ والد گرامی محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ مدظلہ العالی کے حکم پر آپ حضور حافظ ملت کے گھر کا سودا سلف لاتے رہتےحضور حافظ ملت آپ پر انتہائی شفقت و کرم نوازی فرماتے اور تربیت کرتے۔ گویا آپ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوتی رہی۔ مصباح العلوم الجامعہ اشرفیہ میں آپ کے اساتذہ کرام میں والدِگرامی حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفٰی مدظلہ العالی، علامہ نصیرالدین صاحب، بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی ، علامہ عبد الشکور گیاوی، علامہ اسرارالحق مبارکپوری،قاری محمد عثمان گھوسوی، علامہ اعجاز مبارکپوری، علامہ یاسین اختر مصباحی مولانا افتخار گھوسوی مولانا محمد شفیع اعظمی قابلِ ذکر ہیں۔ درسِ نظامی کی تعلیم سے سندفراغت ۱۴۰۳ ھ بمطابق ۱۹۸۳ء انیس(۱۹) سال کی عمر میں حاصل کی۔ آپ کی دستاربندی جید علماء اور والدماجد نے فرمائی۔

(8)فن قرآت:

فن قرآت کی تعلیم جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں قاری ابوالحسن مدظلہ العالی سے اٹھارہ(۱۸) سال کی عمر میں مکمل کر کے یکم جمادی الاخر ۱۴۰۲ھ بمطابق ۲۸ مارچ ۱۹۸۲ء کو سند قرات عاصم بروایت حفص حاصل کی اس کے بعد حضرت قاری محمد عثمان گھوسوی سے قرآت سبعہ میں شاطبیہ اور اس کی عربی شرح وغیرہما سبقاً سبقاً پڑھی ۔ اور سند فراغت ۱۴۰۳ھ بمطابق ۱۹۸۳ء انیس(۱۹)سال کی عمر میں حاصل کی۔

(9)فتوٰی نویسی:

فتوٰی نویسی کی ابتداء ضلع بستی جمداشاہی دارالعلوم علیمیہ میں ۱۹ ستمبر ۱۹۸۴ بے کو بیس(۲۰) سال کی عمر میں پہلا فتوٰی گونگے کے نکاح کے بارے میں دیا۔ اور اپنے والدماجد سے فتوٰی نویسی کی تربیت لیتے رہتے تھے پھر پاکستان جانے کے بعد ۱۹۸۵ء تا ۱۹۹۳ رئیس دارافتاء دار العلوم امجدیہ حضرت علامہ محمد وقارالدین علیہ الرحمہ کی زیرنگرانی باقاعدہ فتوٰی نویسی کرتے رہے ۔ اورساتھ ہی تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد ۱۹۹۳ء تا ۲۰۰۳ ء دار العلوم امجدیہ میں منصبِ افتاء پر قائم رہے اور بےشمار فتاوٰی جات صادر کر کے قوم و ملت کی رہنمائی کرتے رہے ۔ ۲۰۰۳ء تادم تحریر رئیس امجدی دارافتاء کی حیثیت سے دارالعلوم صادق اسلام ۴۸۳ / ١٠ لیاقت آباد میں فائز تھے۔ آپ کے فتاوٰی جات کی ترتیب کا کام جاری ہے جو عنقریب ایک ضخیم اور عظیم الشان فقہی انسائیکلو پیڈیا کی صورت میں آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔

(10)اسناد:

الٰہ آباد بورڈ سے غالباً ۱۹۷۹ ء میں سکنڈ ڈویژن سے عالم کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۸۲ء میں فاضل عربی فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ ۱۹۸۳ء میں درس نظامی سے فراغت اور سند اجازت الحدیث حاصل کی۔

(11)درس و تدریس:

تدریس کا سلسلہ آغا ز سب سے پہلے دار العلوم علیمیہ جمداشاہی بستی سے کیا ایک سال تک يہیں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اس کے بعد ستمبر۱۹۸۵ء تا ۱۵جنوری ۲۰۱۱ء دار العلوم امجدیه عالمگیر روڈ کراچی میں چھبیس(۲۶) سال تک اپنے علمی جواہر پارے بکھیرتے رہے اور ایک عالَم آپ کے فیضان سے فیض یاب ہوتا رہا۔ آپ کی مصروفیت کا عالم یہ تھا کہ صبح میں دار العلوم امجدیہ میں منصب افتاء و تدریس پر فائز تھے خواتین میں علم دین کی اشاعت و ترویج کے لئے ایک طویل عرصہ تک دن میں اپنے گھر میں اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ طالبات کو بھی درسِ نظامی کی تعلیم دیتے رہے اور سیکڑوں طالبات کو فارغ التحصیل بنا کرمسندتدریس پر فائز کیا۔ اور ۲۰۰۳ء سے رات میں دارالعلوم صادق اسلام ۴۸۳ / ١٠ لیاقت آباد میں درسِ نظامی کی ابتدائی کلاس کا با قاعدہ آغاز کیا آپ ہی تدریس فرماتے رہے ہر سال ایک ایک درجہ کا اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ آج اسی دارالعلوم صادق اسلام میں آپ شیخ الحدیث کی حیثیت سے دورۂ حدیث کی تکمیل بھی فرمارہے ہیں ۔ دار العلوم صادق اسلام میں اساتذہ کرام کا انتخاب دارالعلوم کے محنتی اور ذہین طلباء میں سے کیا جاتا ہے ۔ آپ کے علمی لگاؤ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دار العلوم صادق اسلام ۴۸۳ / ۱۰ لیاقت آباد اور دار العلوم صادق اسلام ۵۷۱ / ۵ لیاقت آباد کراچی میں صبح ۸ تا ١ بجے دن تدریس و افتاء و تعویذات کے کام میں مصروف پھر بعد ظہر تدریس، عصر کے بعد اوراد و وظائف، بعد مغرب پھر دارالعلوم صادق اسلام چاندنی چوک نزد پرانی سبزی منڈی کراچی میں تدریس و تعویذات کا اجراء، پھر بعد عشاء تا رات ۱۲ بجے دارالعلوم صادق | سلام ۴۸۳ / ۱۰ لیاقت آباد کراچی میں تدریس فرماتے تھے اور اسی اثناء میں کتب بینی اور افتاء نویسی اور کتب نویسی کا کام بھی جاری رہتا ہے۔

(12)علمی شغف او ر اعزاز و مناصب:

آپ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ احقاق حق اور ابطال باطل میں کبھی پس و پیش سے کام نہ لیا اور نہ کسی مصلحت کا شکار بنے۔ بےشمار طلباء کو علمِ دین سے آراستہ و پیراستہ کرتے رہے ہزاروں اساتذہ آپ کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد ہیں ۔ اس کے علاوہ دارالعلوم امجدیہ میں ناظم امتحان کے حیثیت سے فرائض انجام دیئے ۔ دار العلوم امجد یہ میں ۱۹۹۳ ء تا ۱۹۹۸ء ناظمِ تعلیمات رہے۔ دارالعلوم امجدیہ میں ہی ۱۹۹۳ء تا ۲۰۰۳ ء منصبِ افتاء پر رہے۔ جامع مسجد امجدی رضوی میں ۱۲ فروری ۱۹۸۶ تا ۱۵ جنوری ۲۰۱۱ امام و خطیب کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے ۔ اس وقت (۲۰۰۳ ء تا دم تحریر) دارالعلوم صادق اسلام ۴۸۳ / ۱۰ لیاقت آباد کراچی میں شیخ الحدیث و رئیس دارا فتاء کے منصب پر فائز رہے۔

(13)علمی قلمی خدمات و مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت:

دینی و اصلاحی تنظیم بنام فیضانِ مصطفٰی قائم کی جس کے زیرِاہتمام مختلف علاقوں میں جلسے جلوس اور مختلف علمائےِکرام کی تقریروں سے لوگوں کی اصلاح کی گھر گھر محافل و مجالس کا انعقاد کروایا ۔ آپ نہ صرف خود مسلکِ اعلیٰ حضرت پر سختی سے قائم  تھے بلکہ اپنے طلباء، مریدین ، متوسلین، متعلقین کو بھی مسلک اعلیٰ حضرت پرسختی سے قائم رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے ۔ بزرگانِ دین کے اعراس کے موقعوں پر پروگرامات منعقد کر کے عوامِ اہلِسنت کے دلوں میں عشقِ مصطفیٰ و عشقِ اولیاءِکرام علیہم الرضوان کی شمع فروزاں کرتے تھے ۔

(14)درسِ نظامی ، عقائد و مسائل اور دیگر بہت سی کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں چند کتابوں کے نام:

(1) ضیاء النحو
(۲) ضیاء الصرف
(۳) ضیاء فارسی
(۴) فارسی کی پہلی کتاب کا حاشیہ
(۵) ضیاء المنطق
(۶) ضياء اصول حدیث
(۷) ترجمه صرف میر
(۸) ترجمه مشکوۃ المصابیح شریف
(۹) ترجمہ منية المصلی
(۱۰) منہاج العارفین ترجمہ منہاج العابدین
(۱۱) جنوں کی دنیا ترجمہ لفظ المرجان فی احکام الجان
(۱۲) جشن عید میلاد النبیﷺ
(۱۳) فضائل سید ناصدیق اکبر رضی اللّٰه تعالٰی عنه
(۱۴) حسن قرآت
(۱۵) کف ثوب
(۱۶) بہار اعتکاف
(۱۷) راحت القلوب
(۱۸) سلام کے فضائل و اہمیت
(۱۹) سماع موتٰی
(۲۰) نماز کا طریقہ
(۲۱) فضائل رمضان المبارک
(۲۲) فضائل شعبان المعظم
(۲۳) پرائز بانڈ پر انعام لینا جائز ہے
(۲۴) حج و عمرہ ایک نظر میں
(۲۵) سوانح رئیس التحریر حضرت علامہ ارشدالقادری و غیرہم ۔

(15)مدارس کا قیام و طلباء سے محبت:

لوگوں کی اصلاح کے لئے آپ نے اپنی توجہ مدرسوں کے قیام کی طرف مبذول کی اس سلسلے میں ۱۹۹۲ ھ میں دارالعلوم صادق اسلام کے نام سے ایک مدرسہ کی داغ بیل ڈالی آج دارالعلوم صادق اسلام کراچی کے مختلف مقامات پر دینِ متین کی ترویج واشاعت میں مصروفِ عمل ہے تمام مدارس کی سرپرستی و اہتمام اور انتظام و انصرام خود آپ ہی فرماتے ہیں۔ یہاں ناظرة القرآن، حفظ اور درسِ نظامی کے سینکڑوں طلباء و طالبات علم دین کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں آپ کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب کسی طالبِ علم نے کسی بھی وقت پڑھنے کی خواہش ظاہر کی توآپ اس کو بھی بھی رد نہیں فرماتےتھے۔

(16)عقدِ مسنون:

آپ کا عقد مسنون ( نکاح ) علامہ غلام ربانی علیہ الرحمہ کی صاحبزادی ( جو رشتے میں آپ کی سگی پھوپھی زاد بھی ہیں ) سے اگست ۱۹۸۴ ء میں ہوا ۔ آپ کا نکاح آپ کے والد گرامی حضور محدث کبیر مدظلہ العالی نے پڑھایا۔ جولائی ۱۹۸۷ ء میں رخصتی ہوئی۔

(17)اولاد امجاد:

آپ کی اولاد میں تین لڑکے ریاض المصطفٰی اعظمی محمد عبد المصطفٰی اعظمی مصطفٰی رضا اور تین لڑکیاں ہیں۔

(18)شرف بیعت:

١٧/ربیع النور ۱۳۹۶ ء بمطابق ١٩/مارچ ۱۹۷۶ء میں حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰی رضا خان علیہ الرحمہ کے دستِ حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے ۔

(19)خلافت:

١٨/ذی الحج ١٤٠٩ جی کو نبیرہ اعلیٰ حضرت تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا عليه الرحمه نے مولاناشوکت حسن خان صاحب زید مجدکم کے دولت خانہ فیڈرل بی ایریا میں عطا فرمائی اور ٣/جمادی الاولیٰ ١٤١٠ شہزادہ صدر الشریعہ حضور محدث کبیر مفتی ضیاء المصطفٰی اعظمی مدظلہ العالی نے خلافت سےسرفراز کیا۔

(20)اجازت حدیث:

حضور محدث کبیر مفتی ضیاء المصطفٰی اعظمی مدظلہ العالی تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں علیہ الرحمہ علامہ عبدالمصطفٰی ازهری علیہ الرحمہ علامہ عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ،علامہ مفتی محمد وقارالدین علیہ الرحمہ ۔

(21)وصال با کمال:

15/اپریل 2024 ء بمطابق 5/شوال المکرم 1445 ھ سفر عمره کے دوران ریاض / طائف ہائی وے پر عرب شریف کے وقت کے مطابق رات تقریباً 9:30 بجے کار حادثے میں وصال فرما گئے ۔

(22)مدفن: جنت البقیع شریف مدینہ منورہ شریف۔

(تذكره نبيره صدر الشريعة، جگر گوشہ محدِِّثِ کبیر حضرت علامہ مفتی محمد عطاءالمصطفٰی اعظمی رحمۃاللہ علیہ)


دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں مفتی صاحب میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner