AD Banner

{ads}

(حضورصلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی شانِ جود و کرم 03)

(حضورصلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی شانِ جود و کرم 03)


(1)ایک آدمی نےحضورﷺ سے دو پہاڑوں کےدرمیان کی بکریاں مانگیں، آپ نےاس کو وہ بکریاں عطا کر دیں۔
(2)حضورﷺنے صحابہ کرام سے فرمایا اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ، بکریاں ہوتیں تو میں تم میں تقسیم کر دیتا-
(3)ایک آدمی صرف دنیا(مال)کی وجہ سےمسلمان ہوتا تھا، پھر اسلام لانے کے بعد اس کو اسلام دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہو جاتاتھا۔
(4)رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے حضرت صفوان بن امیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کوتین سو(300)اونٹ دیے-
(5)غزوہ حنین کےبعد حضورﷺکے حصہ میں آیا تھا۔ تفصیل یوں ہے۔آٹھ ہزار بکریاں، چار ہزار آٹھ سو اونٹ۔ آٹھ ہزار اوقیہ چاندی۔ گیارہ سو جنگی قیدی۔
 (7)حضورﷺکےاعلانِ نبوت سےپہلے ہی حضورﷺکی شانِ جود و کرم زبان زد خاص و عام تھی۔ 
(8)حضورﷺنے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اتنا عطا فرمایا کہ اسے اٹھا نہ سکے۔ 


(1)سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم سے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریاں مانگیں، آپ نے اس کو وہ بکریاں عطا کر دیں۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا:((اَىۡ قَوْمِ ! اَسْلِمُوا، فَوَاللّٰهِ! إِنَّ مُحَمَّدًا لَيُعْطِي عَطَاءٌ مَا يَخَافُ الْفَقْرَ))اے میری قوم! اسلام لے آؤ، کیونکہ اللہ عز وجل کی قسم ! محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم اتنا دیتے ہیں کہ فقر کا خدشہ نہیں رہتا ۔(صحیح مسلم)

(2)سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نےفرمایا:((لَو كَانَ لِي عَدَدُ هٰذِهِ الْعِضَاهِ نَعَمٌ لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيْلًا وَلَا كَذُوبًا وَلَا جَبَانًا))اگر میرے پاس درخت کے کانٹوں جتنے بھی اونٹ، بکریاں ہوتیں تو میں تم میں تقسیم کر دیتا، مجھے تم بخیل نہیں پاؤ گے، نہ جھوٹا اور نہ بُزدِل ہی پاؤ گے۔(صحیح البخاری)

(3)حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی صرف دنیا (مال) کی وجہ سے مسلمان ہوتا تھا، پھر اسلام لانے کے بعد اس کو اسلام دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہو جاتا تھا۔(صحیح مسلم)

(4)ابن شہاب کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے فتحِ مکہ کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مِل کر حنین(حُ-نَ-یۡ-ن) میں جنگ کی اور اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی ۔ اس دن رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صفوان بن امیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو سو اونٹ عطا فرمائے ، پھر سو اونٹ عطا فرمائے اور پھر سو اونٹ عطا فرمائے (یعنی کل تین سو(300)اونٹ دیے ) حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:((وَاللّٰهِ لَقَدْ اَعْطَانِي رَسُولُ اللّٰهِ مَا اَعْطَانِي وَإِنَّهُ لَاَبْغَضُ النَّاسِ إِلَىَّ فَمَا بَرِحَ يُعْطِيْنِي حَتّٰى إِنَّهُ لَاحَبَّ النَّاسِ إِلَىَّ))اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے مجھے عطا فرمایا جو بھی عطا فرمایا۔ آپ میری نظر میں تمام لوگوں سے زیادہ قابلِ نفرت تھے۔ آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم مجھے مسلسل عطا فرماتے رہے، یہاں تک کہ آپ میری نظر میں تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو گئے ۔(صحیح مسلم)

حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی یہ فیاضی صرف اس سائل کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اَن گِنت لوگ آئے اور اپنی جھولیاں بھر کر لے گئے۔ دینے والے نے انہیں ان کی توقعات سے کہیں زیادہ عطا فرمایا۔


(5)حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کے جود و کرم کا اگر آپ کو انداز ہ لگانا ہو تو صرف اس مالِ غنیمت کا اندازہ لگائیے جو غزوہ حنین کے بعد حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے حصہ میں آیا تھا۔ تفصیل یوں ہے۔آٹھ ہزار بکریاں، چار ہزار آٹھ سو اونٹ۔ آٹھ ہزار اوقیہ چاندی۔ گیارہ سو جنگی قیدی۔(ضیاء النبی جلد 5 صفحہ:328-329)


(6)حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جب غزوہ حنین میں بےشمار اموالِ غنیمت مسلمانوں کے حصہ میں آئے تو حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے گائے،بکریاں، اونٹ ان لوگوں میں تقسیم فرما دیئے یہاں تک کہ ہر چیز ختم ہو گئی۔(ضیاء النبی جلد5 صفحہ:328)

 حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے فیض و عطا کا ایک انداز نہ تھا بلکہ متعدد انداز تھے كبھی حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سارا مال فقیروں اور محتاجوں میں تقسیم کر دیا کرتے۔ کبھی مجاہدینِ فی سبیل اللہ کو جنگی ساز و سامان مہیا کرنے کیلئے خرچ کرتے۔ کبھی ان لوگوں کی تالیفِ قلب کیلئے خرچ کرتے جن کے اسلام قبول کرنے سے اسلام کو تقویت پہنچنے کی توقع ہوتی اور کبھی اپنی ذات اور اپنی اولاد کی ضرورتوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیا کرتے۔ جو کچھ موجود ہوتا محتاجوں میں بانٹ دیا کرتے۔ حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کو خود اور اہل و عیال کو فقر و فاقہ کی طویل عرصہ تک مشقت برداشت کرنا پڑتی۔ کبھی کبھی ایک دو ماہ تک کا شانہ نبوت میں چولہے میں آگ نہ جلائی جاتی ۔


(7)جس رات غارِ حرا میں حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم پر وحی اِلٰہی کا نزول ہوا تو آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم گھر واپس لائے۔ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے سارا ماجرا بیان کیا تو وہ حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس حاضر ہوئیں ۔تو حضرت ورقہ نے حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے حالات سن کر فرمایا۔((إِنَّكَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومُ))(آپ کو پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں) "آپ تو قرض کے بار گراں کےنیچے دبے ہوئے لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ جو نادار ہو اس کی ضروریاتِ زندگی مہیا فرماتے ہیں۔“اس سے واضح ہوا کہ حضورصلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے اعلانِ نبوت سے پہلے ہی حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی شانِ جود و کرم زبان زد خاص و عام تھی۔ 

(8)حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا سحاب کرم بر سا۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ میں بہت زیر بار ہوں۔ غزوہ بدر کے بعد میں نے اپنا فدیہ بھی ادا کیا اور اپنے بھتیجے عقیل کا فدیہ بھی ادا کیا اس لئے مجھے کچھ عطا فرمائیے۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے پاس سونے چاندی کا ایک ڈھیر لگا تھا۔ حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اپنی چادر بچھا دی اور اس ذخیره سے سونا چاندی اُٹھا اُٹھا کر اپنی چادر پر رکھنے لگے۔ جب وہ اپنے دل کی حسرت پوری کر چکے تو گٹھڑی باندھی۔ جب اس کو اُٹھا کر اپنے سر پر رکھنے لگے تو وہ اتنی وزنی تھی کہ اسے اٹھا نہ سکے۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی خدمت میں عرض کی یارسول اللہ ! اس کے اٹھانے میں میری مدد فرمائیں۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے انکار کر دیا پھر عرض کی کسی اور کو حکم دیں کہ وہ اس کے اٹھانے میں میری مدد کرے۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے پھر بھی ایسا کرنے  سے انکار کر دیا۔ دوسری مرتبہ وزن کم کیا اور باقی ماندہ کو بَدِقت سر پر اٹھایا اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے.(ضیاء النبی جلد 5 صفحہ321-322)

دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner