AD Banner

{ads}

( کرامات مولی علی رضی اللہ عنہ)

( کرامات  مولی علی رضی اللہ عنہ)


(1)غیب کی خبر دینا کہ یہ تیرا شوہر نہیں بیٹا ہے
(2)دریا پیچھے ہٹ گیا
(3)غیب کی خبر دیناچشمہ ظاہر ہونےپر راہب کا ایمان لانا
(4)خالی مٹھی میں اشرفیاں
(5)قبر کے حالات منکشف ہو گئے
(6)صاحبِ قبر سے گفتگو

(1)غیب کی خبر دینا کہ یہ تیرا شوہر نہیں بیٹا ہے

حضرت علامہ عبد الرحمٰن جامی رحمۃاللہ علیہ  تحریر فرماتے ہیں کہ کوفہ میں ایک روز حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فجر کی نماز کے بعد ایک شخص سے فرمایا کہ فلاں مقام پر جاؤ وہاں ایک مسجد ہے جس کے پہلو میں ایک مکان واقع ہے اس میں ایک مرد ایک عورت آپس میں لڑتے ہوئے ملیں گے انہیں ہمارے پاس لے آؤ۔ وہ شخص وہاں پہنچا تو دیکھا واقعی وہ دونوں آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں۔ آپ کے حکم کے مطابق وہ ان دونوں کو ساتھ لے آیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: آج رات تم دونوں میں بہت لڑائی ہوئی۔ نوجوان نے کہا : اے امیرالمومنین ! میں نے اس عورت سے نکاح کیا لیکن جب میں اس کے پاس آیا تو اس کی صورت سے مجھے سخت نفرت ہو گئی۔ اگر میرا بس چلتا تو اس عورت کو میں اسی وقت اپنے پاس سے دور کر دیتا۔ اس نے مجھ سے جھگڑنا شروع کر دیا اور صبح تک لڑائی ہوتی رہی یہاں تک کہ آپ کا بھیجا ہوا آدمی ہمیں بلانے کے لیے پہنچا۔حاضرین کو آپ نے جانے کا اشارہ فرمایا۔ وہ چلے گئے ۔ اس کے بعد آپ نے اس عورت سے پوچھا: تم اس جوان کو پہچانتی ہو ؟ اس نے کہا: نہیں ، صرف اتنا جانتی ہوں کہ یہ کل سے میرا شوہر ہے۔ آپ نے فرمایا : اب تو اچھی طرح جان لے گی مگر سچ سچ کہنا جھوٹ ہرگز نہیں بولنا۔ اس نے کہا: میں وعدہ کرتی ہوں جھوٹ قطعی نہیں بولوں گی۔ آپ نے فرمایا: تم فلاں کی بیٹی فلاں ہو ؟ اس نے کہا: ہاں حضور ! میں وہی ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: تمہارا چچازاد بھائی تھا جو تم پر عاشق تھا اور تُو بھی اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ اس نے اس بات کا بھی اقرار کیا۔ پھر آپ نے فرمایا: تو ایک دن کسی ضرورت سے رات کے وقت گھر سے باہر نکلی تو اس نے تجھے پکڑ کر تجھ سے زنا کیا اور تو حاملہ ہو گئی۔ اس بات کو تو نے اپنے باپ سے چھپا رکھا۔ اس نے کہا: بےشک ایسا ہی ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: مگر تیری ماں سارا واقعہ جانتی تھی اور جب بچہ پیدا ہونے کا وقت آیا تو رات تھی۔ تیری - ماں تجھے گھر سے باہر لے گئی تجھے لڑکا پیدا ہوا تونے اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر دیوار کے پیچھے ڈال دیا اتفاق سے وہاں ایک کتا پہنچ گیا جس نے اسے سونگھا تونے اس کتے کو پتھر مارا جو پتھر بچے کے سر پر لگا۔ جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ تیری ماں نے اپنے ازاربند سے کچھ کپڑا پھاڑ کر اس کے سر کو باندھ دیا پھر تم دونوں واپس چلی آئیں اور پھر تمہیں اس لڑکے کا کوئی پتہ نہ چلا۔ اس عورت نے جواب دیا: ہاں حضور ! ایسا ہی ہوا تھا۔ مگر اے امیرالمؤمنین ! اس واقعہ کو میرے اور میری ماں کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں جانتا تھا ؟

حضرت علی کرم اللّٰهُ تَعَالیٰ وَجْهَهُ الکریم نے فرمایا : جب صبح ہوئی تو فلاں قبیلہ اس لڑکے کو اُٹھا کر لے گیا اور اس کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہو گیا کوفہ شہر میں آیا اور اب تجھ سے شادی کر لی۔ پھر آپ نے اس نوجوان سے کہا : اپنا سر کھولو۔ اس نے اپنا سر کھولا تو زخم کا اثر(نشان)ظاہر تھا۔ آپ نے فرمایا : یہ تمہارا لڑکا ہے۔ خدائےِعزوجل نے اسے حرام چیز سے محفوظ رکھا۔فرمایا: لے ، اسے اپنے ساتھ لے جا۔ تو اس کی بیوی نہیں ماں ہے اور یہ تیرا شوہر نہیں بیٹا ہے۔(شواہد النبوة، رکن سادس در بیان شواهد و دلایلی ... الخ ، ص ۲۱۳،تذکرہ خلفاء راشدین)

(2)دریا پیچھے ہٹ گیا

کوفہ والوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے عرض کیا : اے امیر المؤمنین ! اس سال دریائےِفرات کی طغیانی کے سبب ہماری کھیتیاں برباد ہو رہی ہیں کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ دریا کا پانی کم ہو جائے۔ آپ اُٹھ کر مکان کے اندر تشریف لے گئے۔ لوگ گھر کے دروازہ پر آپ کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک آپ سرکارِاقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  کا جُبہ پہنے ، عمامہ سر پَر باندھے اور عصائےِمبارک ہاتھ سے میں لیے ہوئے باہر تشریف لائے ایک گھوڑا منگوا کر اس پر سوار ہوئے اور فرات کی طرف روانہ ہوئے عوام و خواص میں سے بہت لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔جب آپ فرات کے کنارے پہنچے تو گھوڑے سے اتر کر دور کعت نماز پڑھی۔ پھر اُٹھ کر عصائےِمبارک ہاتھ میں لیا اور فرات کے پُل پَر سے آ گئے اس وقت حسنین کریمین رضی الله تعالٰى عنهما ان کے ساتھ تھے۔ آپ نے عصا سے پانی کی طرف اشارہ کیا تو پانی کی سطح ایک ہاتھ کم ہو گئی۔ آپ نے فرمایا: کیا اتنا کافی ہے ... ؟ لوگوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے پھر عصا سے پانی کی طرف اشارہ کیا پانی ایک ہاتھ اور کم ہو گیا۔ اس کے طرح جب تین ہاتھ پانی کی سطح نیچے ہو گئی تو لوگوں نے کہا: یا امیر المومنین ! بس اتنا کافی ہے۔(شواہد النبوة، رکن سادس در بیان شواهد و دلایلی ... الخ، ص ۲۱۴،ایضاً)

(3)غیب کی خبر دیناچشمہ ظاہر ہونےپر راہب کا ایمان لانا

جب حضرت علِی کرم الله تَعَالٰى وَجۡهَهُ الكریم جنگِ صِفین میں مشغول تھے کے ۔ آپ کے ساتھیوں کو پانی کی سخت ضرورت پڑی لوگوں نے بہت دوڑ دھوپ کی مگر پانی دستیاب نہ ہوا۔ آپ نے فرمایا : اور آگے چلو۔ کچھ دور چلے تو گِرجا نظر آیا۔آپ نے اس گِرجا میں رہنےوالے سے پانی کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا: یہاں سے چھ(۶)میل کے فاصلے پر پانی موجود ہے آپ کے ساتھیوں نے کہا : اے امیرالمؤمنین ! آپ ہمیں اجازت دیجئے شاید ہم اپنی قوت کے ختم ہونے سے پہلے پانی تک پہنچ جائیں ۔ آپ نے فرمایا: اس کی حاجت نہیں۔ پھر اپنی سواری کو مغرب کی طرف موڑا اور ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہاں سے زمین کھودو۔ ابھی تھوڑی ہی زمین کھودی گئی تھی کہ نیچے سے ایک بڑا پتھر ظاہر ہوا جسے ہٹانے کے لیے کوئی ہتھیار بھی کار گر نہ ہو سکا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ  الکریم نے فرمایا: یہ پتھر پانی پر واقع ہے کسی طرح اسے ہٹاؤ ۔ آپ کے ساتھیوں نے بہت کوشش کی مگر اسے اپنی جگہ سے ہلا نہ سکے ۔اب شیرِخدا نے اپنی آستینیں چڑھا کر انگلیاں اس پتھر کے نیچے رکھ کر زور لگایا تو پتھر ہٹ گیا۔ اور اس کے نیچے نہایت ٹھنڈا ، میٹھا اور صاف پانی ظاہر ہوا جو اتنا اچھا تھا کہ پورے - سفر میں انہوں نے ایسا پانی نہ پیا تھا۔ سب نے شکم سیر ہو کر پیا اور جتنا چاہا بھر لیا۔ پھر آپ نے اس پتھر کو اٹھا کر چشمہ پر رکھ دیا اور فرمایا: اس پر مٹی کے ڈال دو۔ جب راہب نے یہ دیکھا تو آپ کی خدمت میں کھڑے ہوکر نہایت ادب سے پوچھا ! کیا آپ پیغمبر ہیں ... ؟ فرمایا : نہیں۔ پوچھا: کیا آپ فرشتہ مقرب ہیں ...؟ فرمایا : نہیں۔ پوچھا : تو پھر آپ کون ہیں ...؟ فرمایا کہ میں سیدنا محمد رسول اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ تَعَالٰى عَلَيْهِ وَاٰلِهِ وَسَلَّم کا داماد اور ان کا خلیفہ ہوں۔ راہب نے کہا:ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں۔ آپ نے ہاتھ بڑھایاتو راہب نے کہا :"أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهَ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًارَّسُولُ اللّٰه"آپ نے راہب سے دریافت فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تم اتنی مدت سےاپنےدین پر قائم تھے اور آج تم نے اسلام قبول کر لیا۔ اس نے کہا : حضور ! یہ گِرجا اسی ہاتھ پر فتح ہونا تھا جو اس چٹان کو ہٹا کر چشمہ نکالے اور ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہےکہ اس چٹان کا ہٹانے والا یا تو پیغمبر ہو گا اور یا پیغمبر کا داماد ۔ جب میں نے دیکھا کہ آپ نے اس پتھر کو ہٹا دیا تو میری مراد پوری ہو گئی اور مجھے جس چیز کا انتظار تھا وہ مل گئی۔ جب راہب سے آپ نے یہ بات سنی تو اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی کے بال تَر ہو گئے۔ پھر فرمایا: سب تعریف خدائےِتعالیٰ کے لیے ہے کہ میں اس کے یہاں بھولا بسرا نہیں ہوں بلکہ میرا ذکر اس کی کتابوں میں موجود ہے۔(شواہد النبوۃ، رکن سادس در بیان شواهد و دلایلی ... الخ، ص ۲۱۶،ايضاً)

اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کو معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں کہاں کیا چیز ہے اور یہ در حقیقت علمِ غیب ہے جو سرکارِاقدس صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے صدقے و طفیل میں انہیں حاصل ہوتا ہے۔

(4)خالی مٹھی میں اشرفیاں

ایک دفعہ یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس ایک سائل نے آکر سوال کیا۔ اُنہوں نے ازراہِ مذاق کہا ، وہ علی کھڑا ہے وہ امیر آدمی ہے اس کے پاس جاؤ وہ تمہیں بہت کچھ دے گا ۔ حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اس وقت خود تہی دست تھے ۔ سائل آپ کے پاس آیا اور آتے ہی سوال کیا ۔ آپ اپنی مومنانہ فراست سے بھانپ گئے کہ یہ یہودیوں کی شرارت ہے ۔ چنانچہ آپ نے دس(10)بار درود پڑھ کر سائل کے ہاتھ پر دَم کر دیا اور فرمایا ، اس مٹھی کو یہودیوں کے پاس جا کر کھولنا۔ جب وہ یہودیوں کے پاس گیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا دیا ہے؟ اس پر اس سائل نے ان کے سامنے ہتھیلی کھولی تو اس میں دس(10)اشرفیاں موجود دیکھ کر یہود دَم بخودرہ گئے اور کئی ایک یہودی آپ کی یہ کرامت دیکھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے ۔(راحة القلوب ،ص72،مفهوماً)

(5)قبر کے حالات منکشف ہو گئے

منقول ہے:امیر المؤمنین حضرت علیُّ المرتضٰى کرم الله تعالٰی وجہہ الکریم ایک بار زیارتِ قُبور کے لئے کوفے کے قبرِستان تشریف لے گئے ،وہاں ایک تازہ قَبۡر پر نظر پڑی آپ کو اس کے حالات معلوم کرنے کی خواہش ہوئی ، چنانچہ بارگاہِ خداوندی میں عرض گزار ہوئے یا اللہ عزوجل! اس میت کے حالات مجھ پر مُنۡکَشِف (یعنی ظاہر ) فرما۔ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آپ کی التجا فوراً مَسۡمُوع ہوئی (یعنی سنی گئی)اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے اور اُس مُردے کے درمیان جتنے پر دَے حائل تھے تمام اٹھا دیئے گئے ! اب ایک قبر کا بھیا نک منظر آپ کے سامنے تھا ! کیا دیکھتے ہیں کہ مردہ آگ کی لَپیٹ میں ہے اور رور وکر آپ سے اس طرح فریاد کر رہا ہے:((يَاعَلِيُّ! أَنَا غَرِيۡقٌ فِي النَّارِ وَحَرِيقٌ فِي النَّار))یعنی: یا علی! میں آگ میں ڈوبا ہوا ہوں اور آگ میں جل رہا ہوں ۔

قبر کے دَہشتناک منظر اور مُردے کی دردناک پُکار نے حیدرِ گَرَّار حضرت علی کو بے قرار کر دیا۔آپ نے پروردگار کے دربار میں ہاتھ اٹھادیئے اور نہایت عاجزی کے ساتھ اس مَیِِّت کی بخشش کیلئے درخواست پیش کی ۔

غیب سے آواز آئی:اے علی ! آپ اِس کی سِفارش نہ ہی فرمائیں۔ کیوں کہ روزے رکھنے کے باوجود یہ شخص رمضان المبارک کی بےحرمتی کرتا،رمضان المبارک میں بھی گناہوں سے باز نہ آتا تھا، دن کو روزے تو رکھ لیتا مگر راتوں کو گناہوں میں مُبۡتَلا رَہتا تھا۔‘‘مولائےِ کائِنات علُّی المُرتَضٰی کرم الله وَجۡهَہُ الۡکَرِیۡم یہ سن کر اور بھی رنجیدہ ہو گئے اور سجدے میں گر کر رو رو کر عرض کرنے لگے : یا اللہ عزوجل! میری لاج رکھ لے، اِس بندے نے بڑی امید کے ساتھ مجھے پکارا ہے، میرے مالِک ! تو مجھے اِس کے آگے رُسوا نہ فرما، اِس کی بےبَسی پر رَحم فرما دے اور اِس بے چارے کو بَخۡش دے ۔حضرت علی کرم الله وجهه الکريم رو رو کر مُناجات کر رہے تھے۔ اللہ عزوجل کی رحمت کا دریا جوش میں آ گیا اور ندا آئی: اے علی ! ہم نے تمہاری شِکِسۡتَہ دِلی کے سبب اسے بخش دیا ۔چنانچہ اُس مُردے پر سے عذاب اٹھالیا گیا۔(انیس الواعظين صفحه:۲۵ - ۲۶خطبات ماهِ رمضان صفحه،نمبر،۸۹ - ۹۰)

قارئین کرام! أمير المؤمنین حضرت مولائِےِ کائنات عَلِىُّ المُرۡتَضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم کی عظمت وشان کے کیا کہنے! اللہ عزوجل کی عطا سے آپ اہلِ قُبور سے گفتگو فرما لیا کرتے تھے ۔

(6)صاحبِ قبر سے گفتگو

مشہور تابعی بزرگ حضرت سیدنا سَعید بن مُسَیّب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ایک بار ہم امیر المؤمنین حضرت مولائےکائنات علی المرتضٰی شیرِخدا كرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کے ہمراہ قبرِستان گئے ۔

حضرت مولٰی علی کرم الله تعالٰى وجہہ الکریم نے قبر والوں کو سلام کیا اور فرمایا: اے قبر والو! تم اپنی خبر بتاؤ گے یا ہم تمہیں بتائیں ؟ سعید بن مسیب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے "وَعَلَيۡكَ السَّلَامُ وَرَحۡمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَكَاتُهٗ یا اَمِیۡرَالۡمؤۡمِنِیۡن كَرَّمَ اللّٰهُ وَجۡهَهُ الۡكَرِیۡم‘‘ کی آواز سنی اور کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا:یا امیر المؤمنین! آپ ہی خبر دیجئے کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوا ؟ حضرت مولٰی علی كرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے فرمایا:سُن لو! تمہارے مال تقسیم ہو گئے ، تمہاری بیویوں نے دوسرے نکاح کر لئے٬ تمہاری اولاد يتیموں میں شامل ہوگئی ، جس مکان کوتم نے بہت مضبوط بنایا تھا اس میں تمہارے دشمن آباد ہو گئے۔اب تم اپنا حال سناؤ۔ یہ سن کر ایک قبر سے آواز آنے لگی: یا امیرالمؤمنین ! ہمارے کفن پھٹ کر تار تار ہو گئے ، ہمارے بال جھڑ کر منتشر ہو گئے ، ہماری کھالیں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں، ہماری آنکھیں بہہ کر رخساروں پر آ گئیں اور  نتھنوں کا پیپ بن گیا جیسا کیا ویسا پایا یعنی جیسے عمل کئے اس کو پایا ، جو چھوڑ کر آئے اس میں نقصان اٹھایا اور اب اعمال کے بدلے رَہَن ہیں.(یعنی جس کے اچھے اعمال ہوں گے آخرت میں آسائش پائے گا اور برے اعمال والا اپنی کرنی کا پھل بُھگتے گا)(شرح الصدورص۲۰۹،ابن عساکر جلد ۲۷ صفحه.٣٩٥)

گزشتہ دونوں حکایات میں ہمارے لئے عبرت کے بے شمار مدنی پھول ہیں ۔زنده انسان خوب پُھدَکتا ہے مگر جب موت کا شکار ہوکر قبر میں اتار دیا جا تا ہے ، اس وقت آنکھیں بند ہونے کے بجاۓ حقیقت میں کُھل چکی ہوتی ہیں ۔اچھے اعمال اور راہِ خدائے ذوالجلال میں دیا ہوا مال تو کام آتا ہے مگر جو کچھ دھن دولت پیچھے چھوڑ آ تا ہے اس میں بھلائی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ، وُرَثا سے یہ امید کم ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مرحوم عزیز کی آخرت کی بہتری کیلئے مالِ كثیر خر چ کریں ، بلکہ مرنے والا اگر حرام و ناجائز مال مثلًا گناہوں کے اسباب جیسا کہ آلات موسیقی،میوزک سینٹر، سینما گھر ، شراب خانہ، جوا کا اڈّا، ملاوٹ والے مال کا دھوکھے والا کاروبار وغیرہ پیچھے چھوڑے تو اس کے لئے مرنے کے بعد سخت ترین اور نا قابلِ تصور نقصان ہے۔

دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


نوٹ:۔ دیگر پوسٹ کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner