AD Banner

{ads}

(سیرت اعلٰی حضرت)

(سیرت اعلٰی حضرت)


  
(1)دِل پر کلمہ لکھا ہوا
(2)تفسیری مہارت ترجمۂ کنز الایمان
(3)علمِ توقِيت
(4)تصورِ تعلیم:
(5)وفاتِ حسرت آیات:

(1)دِل پر کلمہ لکھا ہوا

اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ خود فرماتے ہیں ۔بحمداللہ : اگر میرے قلب کے دوٹکڑے کئے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر((لاالہ الا اللہ))اور دوسرے پر((محمد رسول اللہ)) ہوگا۔(الملفوظ جلد دوم ص۱۶۷،سوانح امام احمد رضا ص:۹۶مکتبه نوریه رضویه سکهر)

(2)تفسیری مہارت ترجمۂ کنز الایمان

ترجمۂِ قرآن ’’کنزالایمان‘‘ "اعلٰی حضرت"زبانی طور پر آیاتِ کریمہ کا ترجمہ بولتےجاتےاور "علامہ صدرالشريعہ علیہ الرحمہ" اس کو لکھتےرہتے"کنز الایمان" کے بارے میں محدثِ اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’علمِ قرآن کا اندازہ صرف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور...۔۔۔جس کی مثالِ سابق نہ عربی میں ہے نہ فارسی میں ہے ، نہ اردو زبان میں ہے، اور جس کا۔۔۔۔ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اُس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو۔۔۔۔۔بظاہر محض ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں قرآن(کی روح)ہے-(جامع الاحادیث جلد،۸ صفحہ:۱۰۱از: مولانا حنیف خان رضویمطبوعہ:مکتبہ شبیر برادرز لاہور)

        پھر یہ ترجمہ کس طرح معرضِ وجود میں آیا، ایسے نہیں جس طرح دیگر مترجمین عام طور سے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر متعلقہ کتابوں کا انبار لگا کر اور ترجمہ، تفسیر کی کتابیں دیکھ دیکھ کر معانی کا تعین کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ حضرت کی مصروف ترین زندگی عام مترجمین کی طرح ان تمام تیاریوں اور کامل اہتمامات کی متحمل کہاں تھی۔.....’’سوانح امام احمد رضا‘‘میں.مولانا بدرالدین قادری صاحب تحریر فرماتے ہیں :’’صدر الشریعہ‘‘ حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی نے۔قرآنِ مجید کے صحیح ترجمہ کی ضرورت پیش کرتے ہوئےامام احمد رضا سے ترجمہ کر دینے کی گزارش کی۔۔۔۔۔۔۔آپ نے وعدہ فرمالیا لیکن دوسرے مشاغلِ دینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی،جب حضرت ’’صدر الشریعہ‘‘کی جانب سے اصرار بڑھا تو۔۔۔۔۔۔۔اعلیٰ حضرت نے فرمایا:۔۔۔۔۔چونکہ ترجمہ کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے۔۔۔۔۔۔۔آپ رات میں سوتے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں چنانچہ۔۔۔۔۔حضرتِ ’’صدرالشریعہ‘‘۔۔۔۔۔ایک دن۔۔۔۔کاغذ۔۔۔۔۔قلم اور۔۔۔۔دوات لے کر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہو گیا۔۔۔۔۔آپ زبانی طور پر آیات کا ترجمہ بولتے اور صدر الشریعہ لکھتے رہتے:۔۔۔۔۔۔ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ۔۔۔۔۔۔اعلیٰ حضرت زبانی طور پر آیاتِ کریمہ کا ترجمہ بولتے جاتے۔۔۔۔اور’’ صدرالشریعہ‘‘ اس کو لکھتے رہتے ،۔۔۔۔۔لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا۔۔۔۔۔کہ آپ پہلے۔۔۔۔۔۔۔کتبِ تفسیر۔۔۔۔۔و لغت۔۔۔۔کو ملاحظہ فرماتے ،۔۔۔۔۔۔بعدہٗ آیت کے معنی کو سوچتے پھر ترجمہ بیان کرتے،۔۔۔۔۔۔۔بلکہ آپ قرآن مجید کا۔۔۔۔۔۔۔فی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے۔۔۔۔۔۔جیسے کوئی پختہ یادداشت کا حافظ اپنی قوتِ حافظہ پر بغیر زور ڈالے۔۔۔۔۔۔۔قرآن شریف روانی سے پڑھتا جاتا ہے،۔۔۔۔۔۔۔پھر جب حضرتِ’’ صدر الشریعہ‘‘ اور دیگر۔۔۔۔۔علمائے حاضرین اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا۔۔۔۔۔۔کتبِ تفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ آپ کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیرِ معتبرہ کے بالکل مطابق ہے۔الغرض اِسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہاپھر۔۔۔۔۔۔۔وہ مبارک ساعت بھی آگئی کہ حضرتِ ’’صدرالشریعہ‘‘ نے اعلیٰ حضرت سے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کروا لیا۔۔۔۔۔۔۔اور آپ کی کوششِ بلیغ کی بدولت دنیائےِسنیت کو۔۔۔۔۔’’ کنز الایمان ‘‘۔۔۔۔۔۔۔کی دولتِ عظمیٰ نصیب ہوئی ۔ (انوارِ رضا مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور ص؛۸۱-۸۲)

(3)علمِ توقِيت

اعلٰی حضرت کو علمِ تَوقیت (علمِ تَو ۔ قِی ۔ ت) میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملا لیتے ۔ وقت بالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوا ۔(حیاتِ اعلٰحضرت)

(4)امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ اور تصورِ تعلیم:

امام احمد رضارحمة اللّٰه علیه علوم وفنون کے بحرِبیکراں تھے۔ اپنے چون(54)علوم کا تذکرہ خود فرمایا۔ اکیس علوم اپنے والدِماجد سے حاصل کیے(۱)والدِماجد رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمة  اللّٰہ تعالٰی علیہ سے درج ذیل اکیس(21)علوم پڑھے:

(1) علم القرآن
(2) علم تفسیر
(3) علم حدیث
(4) اصولِ حدیث
(5) کتب فقہ حنفی
(6) کتب جملہ مذاہب
(7) علم العقائد والكلامإ
(8) اصولِ فقہ
(9) جدل مہذب
(10) علمِ منطق
(11) علم نحو
(12) علم صرف
(13) علم معانی
(14) علم بیان
(15) علم مناظرہ
(16) علم بدیع
(17) علم فلسفہ
(18) علم حساب
(19) علم ہیئت
(20) علم ہندسہ
(21) علم تکسیر
دیگر علوم وفنون اعلٰی حضرت نے بغیر استاذ کے سیکھے وہ یہ ہیں:
(22) قرأت
(23) علمِ تجوید
(24) اخلاق
(25) اسماء الرجال
(26) لغت
(27) ادب مع جملہ فنون
(28) ارما ارتباطیقی
(29) جبر و مقابلہ
(30) حساب ستینی
(31) علم توقِیۡت
(32) علم الاکر
(33) زيجات
(34) مثلث کروی
(35) تصوف
(36) سلوک
(37) تاریخ
(38) لوگارثمات
(39) سیر
(40)، مثلث مسطح
(41) علم زائچہ
(42) نظم فارسی
(43) خط نستعلیق
 (44) نثر فارسی
(45) خط نسخ
(46) رسم خط قرآن مجید
(47) ہیئت جدیدہ(انگریزی فلسفہ)
(48) مربعات
(49) علمِ جفر
(50) علمِ فرائض
 (51) نظم ہندی
(52) نظم عربی
(53) نثر عربی
(54) نثر ہندی

        اعلٰی حضرت نے ان علوم کی نہ صرف تحصیل کی بلکہ ہر علم و فن میں اپنی کوئی نہ کوئی یادگار چھوڑی ہے۔احمد رضا خان، امام، الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ و المدینۃ، مشمولہ رسائل رضویہ، مطبوعہ ادارہ اشاعت تصنیفات رضا بریلی، ص۱۶۳،اعلٰی حضرت اعلٰی سیرت صفحه،۴۰-۴۱)

(5)وفاتِ حسرت آیات:

اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی وفات سے4 ماه 22 دن پہلے خود اپنے وصال کی خبر دے کرپارہ.29 سُوۡرَةُ الدَّهۡر کی آیت 15سےسالِ انتقال کا اِسۡتِخۡراج فرما دیا تھا۔اس آیتِ شریفہ کے علمِ اَبۡجَد کے حساب سے تیرہ سو چالیس(1340)عَدَد بنتے ہیں اور یہی ہجری سال کے اعتبار سے سنِ وفات ہے ۔وہ آیتِ مبارَکہ یہ ہے:((وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ)) ترجمۂِ کنز الایمان((اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کوزوں کا دور ہوگا)(پاره۲۹،سورة الدهر:آیة۱۵)(سوانح امام احمد رضا ص۳۸۴)

        25 صفر المظفر ۱۳۴۰ھ مطابق 28/اکتوبر 1921ءکو جمعة المبارك کے دن.2 بجکر 38 مِنَٹ  پر عَین اذانِ جمعہ کے وَقۡت اعـلٰـى حضرت ، امـام أحـمـد رضـا خـان رحمة الله علیه نے داعئِ اَجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار بریلی شریف(یو۔پی) میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام ہے۔


        دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads