AD Banner

{ads}

(سوانح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم)

(سوانح حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم)


(1)نام و نسب(2)حضورﷺکی پرورش میں(3)قبولِ اسلام(4)کس عمر میں ایمان لائے(5)اسلام لانےکاسبب(6)بہادر لڑکا(7)بچپن میں حضورﷺکی حمایت

(1)نام و نسب:

آپ کا نام ” علی بن ابی طالب اور کنیت ابو الحسن وابو تراب ہے۔ آپ :حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے چچا ابوطالب کے صاحبزادے ہیں یعنی حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے چچازاد بھائی ہیں۔آپ کی والدہ محترمہ کا اسمِ گرامی فاطمه رضی اللّٰہ عنہا بنتِ اسد بن ہاشم ہے۔(معرفة الصحابة، معرفة نسبة على بن ابي طالب،95/1)آپ واقعہ فیل کےتیس(30)سال بعد پیدا ہوئے۔

(2)حضورﷺکی پرورش میں:

اعلانِ نبوت سے پہلے ہی حضورصلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی پرورش میں آئے کہ جب قریش قحط میں مبتلا ہوئے تھے تو حضور صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ابوطالِب پر عیال کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو لے لیا تھا۔ اس طرح حضور صلی الله علیہ وسلّم کے سائے میں آپ نےپرورش پائی اور آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی گود میں ہوش سنبھالا، آنکھ کھلتے ہی حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کا جمالِ جہاں آراء دیکھا۔ آپ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ہی کی باتیں سنیں اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ہی کی عادتیں سیکھیں۔ اس لیے بتوں کی نجاست سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا دامن کبھی آلودہ نہ ہوا یعنی آپ نے کبھی بت پرستی نہ کی اور اسی لیے کرم اللہ تعالیٰ وجہہ آپ کا لقب ہوا۔(الصواعق المحرقه، الباب التاسع ، ص120،الرياض النضرة، الفصل الرابع في اسلامه،109/3، جزء3،فتاوٰی رضویه ،436/28)

(3)آپ کا قبول اسلام:

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نو عمر لوگوں میں سب سے پہلےاسلام سے مشرف ہوئے۔

(4)کس عمر میں اسلام لائے:

تاريخ الخلفاء میں ہے کہ جب آپ  ایمان لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک دس(۱۰)سال تھی بلکہ بعض لوگوں کے قول کے مطابق نو(۹)سال اور بعض کہتے ہیں کہ آٹھ(۸)سال اور کچھ لوگ اس سے بھی کم بتاتے ہیں اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ "تنزيه المكانة الحیدریہ“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ بوقتِ قبول اسلام آپ کی عمر آٹھ دس سال تھی۔(الطبقات الکبرٰی، علی بن ابی طالب15/3،خلفائے راشدین،فتاوٰی رضویه434/28)

(5)اسلام قبول کرنے کا سبب:

آپ کے اسلام قبول کرنے کی تفصیل محمد بن اسحاق رحمةاللّٰه تعالٰى علیہ نے اس طرح بیان کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضور صلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم اور حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ جب یہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے تو حضرت عل کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے پوچھا کہ آپ لوگ یہ کیا کر رہےتھے ؟ حضور صلَّى اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا دین ہے۔ جس کو اس نے اپنے لیے منتخب کیا ہے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنے رسول کو بھیجا ہے لہٰذا میں تم کو بھی ایسے معبود کی طرف بلاتا ہوں، جو اکیلا ہے اس کا کوئی ہےشریک نہیں اور میں تم کو اسی کی عبادت کا حکم دیتا ہوں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا کہ جب تک میں اپنے باپ ابوطالب سے دریافت نہ کر لوں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ چونکہ اس وقت حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کو راز کا فاش ہونا منظور نہ تھا اس لیے آپ صَلَّى اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا : اے علی ! اگر تم اسلام نہیں لاتے ہو تو ابھی اس معاملہ کو پوشیدہ رکھو کسی پر ظاہر نہ کرو

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اگرچہ اس وقت رات میں ایمان نہیں لائے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایمان کو واضح کر دیا تھا۔ دوسرے روز صبح ہوتے ہی حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلَّى الله علیہ وسلّم کی پیش کی ہوئی ساری باتوں کو قبول کر لیا اوراسلام لے آئے۔(اسد الغابة ، علی بن ابی طالب101/4)

(6)بہادر لڑکا:

ایک مرتبہ ابوطالب کی اپنے بیٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر نظر پڑی ، دیکھا کہ وہ حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے پیچھے پوشیدہ طور پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔ یہ پہلا موقع تھا جب ابو طالب کو اپنے چھوٹے بیٹے کے بارے معلوم ہوا کہ وہ بھی حضرت محمد(صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم)کے پیروکاروں میں شامل ہو چکے ہیں اور ان کے دین و مذہب کو قبول کر چکے ہیں اور قریش کے معبودوں سے خود کو بہت دور کر چکے ہیں۔ جب آپ نے نماز پوری کر لی تو اپنے والد کی جانب پامردی اور استقلال کے ساتھ متوجہ ہوئے اور بلاتامل پکار کر کہنے لگے : ابا جان! میں اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم پر ایمان لے آیا ہوں ، اور میں نے حضور اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے لائے ہوئے دین کی تصدیق اور اتباع کی ہے۔ ابوطالب نے کہا: یاد رکھو! یہ شخص آپ کو خیر و بھلائی کی ہی دعوت دیتے ہیں، پس ان کے دامن سے وابستہ رہو۔(خلفاء الرسول ص448-449)

 (7)بچپن میں حضورﷺکی حمایت:

نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم تین سال تک لوگوں کو پوشیدہ طور پر اللہ پاک کی طرف دعوت دیتےرہے لیکن جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:قرآنِ مجید وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ  ترجمۂ کنز الایمان اور اے محبوب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ (پارہ 19 سورۃ الشعراء آیت:214)

یعنی:اپنے قریبی اعزہ کو خدا کے عذاب سے ڈرائیے۔“ تو نبی مکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے بنو عبدالمطلب کو جمع کیا اور ان کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا، سب نے خوب سیر ہو کر کھایا ، مگر کھانا جوں کا توں باقی تھا جیسے کسی نے چھوا تک نہ ہو اور خوب سیر ہو کر پیا مگر مشروب جوں کا توں ( بطور معجزہ کے) باقی تھا جیسے کسی نے مس بھی نہ کیا ہو۔ اس کے بعد حضور اقدس صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا: اے بنو عبدالمطلب ! میں تمہاری طرف بطور خاص اور تمام لوگوں کی طرف بالعموم مبعوث ہوا ہوں۔ پھر متذکرہ آیت تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: تم میں سے کون اس بات پر بیعت(عہد)کرتا ہے کہ وہ میرا بھائی اور دوست بنے گا ؟ ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا، سب پر خاموشی چھائی تھی،جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ لیکن اس خاموشی کو ایک بچہ(حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جو نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے برابر کھڑےتھے) نے یہ کہہ کر توڑ دیا کہا میں آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا بھائی اور دوست بنوں گا۔

 حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے ۔ حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے اپنی بات دوبارہ دہرائی تو اس وقت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی نہیں اٹھا ،حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ پھر حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے تیسری بار اپنی بات دہرائی تواس بار بھی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی نہیں اٹھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی فرماتے رہے میں میں آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا بھائی اور دوست بنوں گا۔ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے تبسم فرمایا ، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے سینہ پر اپنا دستِ مبارک مارا جو کہ ان کے عمل پر خوشی کا اظہار تھا. (فضائل الصحابہ 712/2)

دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


نوٹ:۔ دیگر پوسٹ کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner