AD Banner

{ads}

( حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)

(حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)


(1)تیسرے مسلمان
(2)ماں نے بات چیت بند کر دی
(3)اونٹ کی ہڈی
(4)شعب ابی طالب میں سوکھے چمڑے کا ٹکڑا غذا
(5)مدینے کو ہجرت
(6)پتوں پر گزارہ
(7)غزوہ بدر میں نو عمر صحابی(حضرت عمیر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بن ابی وقاص) آپ کے چھوٹے بھائی کی دلیرانہ شہادت
(8)غزوہ اُحد میں آپ کی بہادری
(9)غزوہ اُحُد میں آپ کی اور حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی دعا
(10)ہاتھیوں کی خوفناک یلغار
(11)دریا میں گھوڑے دوڑا دئیے

(1)تیسرے مسلمان:

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت نبوی سے تقریباً تیس(۳۰)برس قبل مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی بعثت کے وقت حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عنفوان شباب تھا اور انہوں نے عمر کی صرف سترہ یا انیس منزلیں طَے کی تھیں ۔ جونہی ان کے کانوں میں دعوتِ توحید کی آواز پڑی انہوں نے بلا تامل اس پر لبیک کہا اور سَابِقُوۡنَ الۡاَلُون کی مقدس جماعت میں شامل ہو گئے۔ ایک روایت کے مطابق اسلام لانے والے بالغ مردوں میں وہ تیسرے مسلمان تھے اور بعض روایات کے مطابق ان سے قبل چھ سات بزرگ اسلام قبول کر چکے تھے بہر صورت وہ ان چند نفوسِ قُدسی میں سے ہیں جن کی دعوتِ حق کے ابتدائی سات دنوں کے اندر اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

(2)ماں نے بات چیت بند کر دی:

حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ حمنہ کو اپنے آبائی مذہب سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا اس کو بیٹے کے قبولِ اسلام کا حال سن کر اس قدر رنج ہوا کہ کھانا پینا ، بولنا چالناسب ترک کر دیا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ماں سے بےپناہ محبت کرتے تھے اور اپنی ماں کو آزردہ دیکھنا ان کے لئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی لیکن وہ اس آزمائش میں پورے اُترے۔ماں تین دن تک بھوکی پیاسی رہی ، یہی اصرار تھا کہ یہ نیادین ترک کر دو لیکن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک ہی جواب تھا : ماں تم مجھے بےحد عزیز ہو لیکن تمہارے قالب میں خواہ ہزار جانیں ہوں ایک ایک کر کے ہر جان نکل جائے تب بھی اسلام کو نہ چھوڑوں گا ۔“ بارگاهِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شانِ استقلال ایسی مقبول ہوئی کہ عامۃ المسلمین کے لیے یہ فرمانِ الٰہی نافذ ہو گیا۔وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا-وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا-ترجمۂ کنز الایمان،اور ہم نے آدمی کو تاکید کی اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کی اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہا نہ مان،(پارہ ۲۰ سورہ عنکبوت آیت ۸)

قبولِ اسلام کے بعد والدہ کی ناراضی کے علاوہ اور بھی کوئی ایسی سختی اور مصیبت نہ تھی جو حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے مشرکین کے ہاتھوں نہ جھیلی ہو ۔ انہوں نے کفار سے گالیاں کھائیں ، طعنے سہے اور جسمانی اذیتیں برداشت کیں لیکن کیا مجال کہ ان کے پائےاستقلال میں ذرہ برابر لغزش آئی ہو۔

(3)اونٹ کی ہڈی:

دعوتِ حق کے آغاز میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کفار کی شَر انگیزی سے بچنے کےلئے مکہ کے قریبی پہاڑوں کی سنسان گھاٹیوں میں چھپ کر خدائےواحد عزوجل کی عبادت کیا کرتے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی انہیں نفوسِ قدسی میں شامل تھے۔ایک دن وہ چند دوسرے صحابہ علیہم الرضوان کے ساتھ ایک ویران گھائی میں نماز پڑھ رہےتھے کہ چند مشرکین ادھر آنکلے۔ وہ مسلمانوں پر پہلے تو آوازیں کسنے لگے اور پھر ان پر حملہ کر دیا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اٹھتی جوانی تھی ، جوش آگیا ، پاس ہی اونٹ کی ایک ہڈی پڑی تھی اسے اُٹھا کر مشرکین پر پل پڑے۔ ایک مشرک کا سَر پَھٹ گیا اور اس میں سے خون بہنے لگا۔ اب شریروں نے وہاں سے بھاگنے ہی میں اپنی خیریت سمجھی۔ علامہ ابن اثیر کا بیان ہے -کہ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ بن ابی وقاص پہلے شخص ہیں جنہوں نے حق کی حمایت میں خونریزی کی۔

(4)سوکھے چمڑے کا ٹکڑا:

ہجرت سے قبل حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زندگی کا سب سے بڑھ کر تابناک باب وہ ہے جس میں وہ تین سال (۷ ھ سے ۱۰ھ بعد بعثت) تک سرور کائنات صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی رفاقت میں شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ شعب ابی طالب کی محصوری اگر چہ بنی ہاشم اور بنومطۡلِب سے مخصوص تھی لیکن حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہاشمی اور مطلبی نہ ہونے کے باوجود محض اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی کے رسول صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی خاطر بنوہاشم اور بنومطلب کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ تین سال تک ہولناک مصائب برداشت کرتے رہے۔ اس زمانے میں محصورین بعض اوقات درختوں اور جھاڑیوں کی پَتیاں اُبال اُبال کر اپنا پیٹ بھرتے تھے ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو انہیں سوکھے ہوئے چمڑے کا ایک ٹکڑا کہیں سے مل گیا۔ انہوں نے اسے پانی سے دھویا ، پھر آگ پر بُھونا، کوٹ کر پانی میں گھولا اور ستو کی طرح پی کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائی۔

(5)مدینے کو ہجرت:

۱۱/ہجری( بعد بعثت) میں اللہ تعالٰی نے اہلِ مدینہ کو اسلام کی طرف مائل کر دیا چنانچہ اس سال چھ سلیم الطبع خزرجی  اسلام قبول کر کے مدینے واپس گئے۔ اگلے سال مدینہ کے بارہ آدمیوں نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو کر قبولِ اسلام کا شرف حاصل کیا اس سے اگلے سال پچہتر حق پرست مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ پہنچے اور رحمت عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کے دست حق پرست پر اس عہد کے ساتھ بیعت کی کہ آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم مدینے تشریف لائیں تو ہم اپنی جانوں ، مالوں اور اولادوں کے ساتھ آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی حفاظت کریں گے ۔ یہ بیعت ” بیعت عقبہ کبیرہ“کہلاتی ہے۔ اس کے بعد حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو مدینے کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ اکثر صحابہ کرام علیہم الرضوان ارض مکہ کو الوداع کہہ کر مدینے چلے گئے ان مہاجرین میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے نو عمر بھائی عمیر بھی شامل تھے ۔ مدینے پہنچ کر حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ اور عمیر اپنے بڑے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کے مکان میں فروکش ہوئے۔ عتبہ نے جنگِ بعاث سے قبل مکہ مکرمہ میں ایک شخص کو قتل کر دیا تھا اور قصاص کے خوف سے بھاگ کر مدینے میں پناہ لی تھی۔ عتبہ اگر چہ مشرک تھا لیکن اس نے نہایت خوش دلی سے اپنے دونوں بھائیوں کو اپنے ہاں ٹہرایا۔ بدقسمتی سے عتبہ کافی عرصہ تک کفر و شرک کی ظلمتوں میں بھٹکتا رہا لیکن اس کی اسلام دشمنی نے چھوٹے بھائیوں کو ذرہ برابر بھی متاثر نہ کیا اور شروع سے لیکر اخیر تک اسلام سے ان کی والہانہ شیفتگی برقرار رہی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجرت کے تھوڑے عرصے بعد سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے بھی مدینے کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا اور یہ قدیم شہر "مدینة النبی بن گیا۔

(6)پتوں پر گزارہ:

بعض مہمات میں حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خود سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی معیت کا شرف بھی نصیب ہوا، یہ سخت تنگدستی کا دور تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی معیت میں غزوہ کرتے تھے اور ہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی، یہاں تک کہ ہمارا فُضلہ ایسا ہوتا کہ جیسا اونٹ یا بکری کا ہوتا ہے اس میں کوئی خلط نہیں ہوتی تھی۔ (یعنی مینگنیاں ہوتی تھیں)۔

(7)غزوہ بدر میں نو عمر صحابی(حضرت عمیر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بن ابی وقاص) آپ کے چھوٹے بھائی کی دلیرانہ شہادت:

غزوہ بدر میں حضرت سعد کے نو عمر بھائی عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اللہ تعالٰی نے رتبہ شہادت پر فائز کیا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ لڑائی سے پہلے میں نے عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھا کہ اِدھر اُدھر چُھپتا پِھرتا ہے میں نے اس سے پوچھا، عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کیا بات ہے؟ کہنے لگا، بھائی جان میری عمر کم ہے اس لئے ڈرتا ہوں کہ کہیں رسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم مجھے لڑائی میں حصہ لینے سے روک نہ دیں حالانکہ میری دلی تمنا ہے کہ میں راہِ حق میں لڑوں شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے۔ عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خدشه درست ثابت ہوا۔ حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے ان کی کم عمری کی وجہ سے واپس جانے کا حکم دیا۔ عمیر رضی اللہ تعالی عنہ رونے لگے۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کو ان کے شوق اور رونے کا حال معلوم ہوا تو آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے ان کو لڑائی(غزوہ بدر) میں شریک ہونے کی اجازت دے دی حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے ہونے اور تلوار کے بڑا ہونے کی وجہ سے میں اس کے تسموں میں گرہیں لگاتا تھا کہ اونچی ہو جائےحضرت عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ لڑائی میں مردانہ وار لڑے اور قریش کے نامور پہلوان عمرو بن عبدود کے ہاتھوں جامِ شہادت پیا۔حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عمیر سے بےپناہ محبت تھی ان کی شہادت ان کے لئے صدمہ جانکاہ سے کم نہ تھی لیکن وہ((اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡن))پڑھ کر خاموش ہو گئے۔ لڑائی (غزوہ بدر)میں مشرکین کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ ان کے ستر (۷۰) آدمی قتل ہوئے اور ستر (۷۰) کو مسلمانوں نے قیدی بنا لیا۔ ان میں سے تین آدمیوں (حارب بن وحرہ ، سامل بن شماخ اور فاکہہ) کو تنہا حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قیدی بنایا۔

(8)غزوہ اُحد میں آپ کی بہادری:

غزوه اُحُد (۳ ہجری) میں جب ایک اتفاقی غلطی سے لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی وقاص ان چند اصحاب میں تھے جو شروع سے اخیر تک رحمت عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے سپر بنے رہے۔ وہ ایک ماہر تیر انداز تھے کفار بار بار حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم پر نرغہ کرتے تھے اور سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے تیروں سے ان کا منہ پھیر دیتے تھے بخاری شریف میں ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کے پہلو میں کھڑے تھے۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم اپنے ترکش سے تیر نکال نکال کر انہیں دیتے تھے اور فرماتے تھے :((يَا سَعْدُ اِرْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِِّي))"اے سعد تیر چلا ، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں"حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ میں نے سعد کے سوا کسی اور کے حق میں ایسےالفاظ رسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی زبان مبارک سے نہیں سنے۔

ابن کثیر کا بیان ہے کہ غزوہ احد کے دن حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے تھے۔ اثنائے جنگ میں ایک مشرک ابو سعید بن ابی طلحہ (یا بروایت دیگر طلحہ بن ابی طلحہ) مسلمانوں پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاک کر اس کے حلق میں ایسا تیر مارا کہ اس کی زبان کتے کی طرح باہر نکل آئی اور وہ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا ایک مشرک نے بھی اپنے تندو تیز حملوں سے مسلمانوں پر آفت ڈھا رکھی تھی۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم دیا کہ اس کو اپنے تیر کا نشانہ بناؤ اتفاق سے اس وقت ترکش میں کوئی تیر نہ بچا تھا تاہم حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھل کے بغیر ایک تیر اُٹھا کر ایسی مہارت سے اس مشرک کی پیشانی پر مارا کہ وہ بدحواس ہو کر پیچھےکی طرف گر گیا اور برہنہ ہو گیا۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ماہرانہ تیراندازی اور اس مشرک کی بدحواسی پر بےاختیار ہنس پڑے ۔بعض روایتوں کے مطابق یہ واقعہ غزوہ احزاب میں پیش آیا۔(صحابہ کی ایمان افروز حکایات)

(9)غزوہ اُحد میں آپ کی اور حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی دعا:

حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غزوہ اُحُد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ اے سعد ! آؤ مل کر دعا کریں ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق دعا کرے اور دوسرا آمین کہے،پھر دونوں حضرات نے ایک کونے میں جا کر دعا کی۔یا اللہ جل جلالہ !جب کل لڑائی ہو تو میرے مقابلہ میں ایک بڑے بہادر کو مقرر فرمانا میں اس کو تیرے راستے میں قتل کر دوں ۔حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آمین کہی۔اس کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے.دعا کی اے اللہ جل جلالہ ! کل میدان جہاد میں ایک بہادر سے مقابلہ کرا،جوسخت حملہ آور ہو تو میں اس پر شدت سے حملہ کروں وہ بھی مجھ پر زور سے حملہ کرے اور میں بہت سے کافروں کوقتل کر کے پھر خود بھی شہید ہو جاؤں اور شہید ہونے کے بعد کافر میرے ناک اور کان کاٹ لیں پھر قیامت میں تیرے حضور پیش کیا جاؤں تو ،تو فرماۓ ،عبداللہ ! تیرے ناک اور کان کیوں کاٹے گئے ۔ تو میں عرض کروں : یا اللہ جل جلالہ ! تیرے اور تیرے حبیب  کے راستے میں کاٹے گئے پھر تو کہے کہ سچ ہے میرے ہی راستے میں کاٹے گئے ۔حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آمین کہی دوسرے دن لڑائی ہوئی تو دونوں حضرات کی دعائیں اسی طرح قبول ہوئیں جس طرح گئی تھیں ۔[کنز العمال،]

حضرت عبد اللہ بن حجش رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ابن اخنس ثقفی کے ہاتھ سے جامِ شہادت پیا۔ مشرکین نے ان کی لاش کا مثلہ کیا اور کان ناک ہونٹ کاٹ کر دھاگے میں پروئے۔ لڑائی کے بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا گزر ان کی لاش پر ہوا تو بےاختیار ان کے منہ سے نکلا :خدا کی قسم عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دعا میری دعا سے بہتر تھی۔“( صحابہ کرام کی ایمان افروز حکایات)

(10)ہاتھیوں کی خوفناک یلغار:

دوسرے دن رستم بڑے جاہ و جلال کے ساتھ دریائے فرات سے پار اُترا اور مسلمانوں کے سامنے صف آرائی کی۔ اس وقت دو لاکھ جنگجو اس کے جھنڈے تَلے جمع تھے۔ دوسری طرف اسلامی لشکر کی تعداد تيس ہزار کے لگ بھگ تھی لیکن مسلمانوں کے جوشِ جہاد کا یہ عالم تھا کہ صفوں سے نکلے پڑتے تھے اس نازک موقع پر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرض کی وجہ سے لڑائی میں بذاتِ خود شریک ہونے سے معذور ہو گئے۔ یہ مرض کیا تھا ؟ بعض نے لکھا ہے کہ وہ عرق النساء میں مبتلا تھے اور بعض کا بیان ہے کہ ان کی رانوں میں دنبل کے پھوڑے نکلے ہوئے تھے اس لئے گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتے تھے اور پَیدل چلنا پھرنا بھی دشوار تھا اس معذوری کے باوجود انہوں نے ارادہ کر لیا کہ اپنی فوج کو خود لڑائیں گے۔ میدانِ جنگ کے قریب ہی زمانہ قدیم کا ایک محل تھا وہ اس کی دوسری منزل میں تکیہ کے سہارے اس طرح بیٹھ گئے کہ سارا میدانِ جنگ نظروں کے سامنے تھا۔ اب انہوں نے فوج کے ایک افسر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عرفطہ کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: " خالد تم میری حالت دیکھ رہے ہو کہ بمشکل حرکت کر سکتا ہوں ، دشمن سر پر آپہنچا ہے اور لڑائی کو ٹالنا ممکن نہیں۔ میدانِ جنگ میں تم میری نيابت کرو گے وقفہ وقفہ کے بعد میں کاغذ کے پُرزوں پر ہدایات لکھ کر تمھاری طرف بھیجتارہوں گا انہی کے مطابق فوج کو لڑوانا ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے فوج کے علمبرداروں کو پیغام بھیجا کہ میں اس بیماری کی وجہ سے لڑائی میں عملی حصہ نہیں لے سکتا۔ خالد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بن عرفطہ کو میں نے اپنا نائب مقرر کیا ہے ان کے حکم کو میرا حکم سمجھو اور ان کی اطاعت کرو ۔ “ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حکم مجاہدین کو سنایا گیا تو سب نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔لڑائی کے آغاز سے پہلے ایک طرف رستم اور دوسرے ایرانی امراء اپنے لشکر کا قومی جذبہ اُبھار رہے تھے تو دوسری طرف عرب کے مشہور شعراء و خطباء تمام لشکرِاسلام میں پھیل گئے تھے اور اپنی رجز خوانی سے مجاہدین میں ہیجان برپا کر دیا تھا ساتھ ہی قاریوں نے خوش الحانی سے سورہ انفال کی تلاوت شروع کر دی تھی جس کی تاثیر نے دلوں کو گرما دیا تھا اور ہر مسلمان شوقِ شہادت سے بےتاب ہو گیا تھا۔ ایرانیوں نے سب سے پہلے اپنے جنگی ہاتھیوں کو مسلمانوں کی طرف دھکیلا۔ہاتھیوں کی خوفناک یلغار کو قبیلہ بجیلہ کے جانبازوں نے روکا ، بہت سے مجاہدین جانوں پر کھیل گئے لیکن یہ یلغار نہ رک سکی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کیفیت دیکھ کر بنواسد کو حکم بھیجا کہ بنو بجیلہ کی مدد کے لئے پہنچو بنواسد مردانہ وار ہاتھیوں کی طرف بڑھے لیکن وحشی ہاتھیوں نے انہیں بھی پیچھے دھکیل دیا۔ اب حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بنوتمیم کو ، جو نیزہ بازی اور تیراندازی میں بے پناہ مہارت رکھتے تھے، پیغام بھیجا کہ اے بنی تمیم آج تمہارے کمال فن کا مظاہرہ ہے آگے بڑھ کر اپنے بھائیوں کی مدد کو پہنچو۔ بنوتمیم نے تکبیر کا نعرہ لگا کر اس جوش سے حملہ کیا کہ ہاتھیوں کے منہ پھیر دیئے اور ان کے سواروں کو اپنے نیزوں اور تیروں سے نیچے گرادیا۔ اب دونوں فوجوں میں دست بدست اس گھمسان کی جنگ ہوئی کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔(حکایاتِ صحابہ المعروف صحابہ کی ایمان افروز حکایات صفحہ ۴ تا ۱۲)

(11)دریا میں گھوڑے دوڑا دیئے:

    قادسیہ کی عظیم الشان فتح کے بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بابل تک ایرانیوں کا تعاقب کیا اور آس پاس کے سارے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ ایران کا پایہ تخت مدائن یہاں سے قریب ہی تھا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی ہدایت کے مطابق حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدائن کی طرف بڑھے۔ راستے میں ایرانیوں نے جگہ جگہ مزاحمت کی اور کئی چھوٹے چھوٹے معر کے ہوئے لیکن بلند حوصلہ مجاہدین یلغار کرتے ہوئے مدائن تک جا پہنچے اور اس کے مغربی حصے (بہرہ شیر) کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ دو (۲) ماہ تک جاری رہا۔ آخر سارے ایرانی خاص مدائن میں جو دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر آباد تھا ، سمٹ کر جمع ہو گئے۔ انہوں نے دریا کا پل توڑ دیا اور تمام کشتیاں دوسرے کنارے کی طرف لے گئے ۔ اس وقت دریا میں خوفناک طغیانی آئی ہوئی تھی اور اس کو پار کرنا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ کیفیت دیکھی تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ دوسرے مجاہدین نے بھی ان کی پیروی کی دجلہ کے پھنکارتے ہوئے پانی پر مجاہدین رکاب سے رکاب ملائے اس طرح پڑھ رہےتھےایرانی یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ کچھ دیر تک ٹکٹکی باندھے مسلمانوں کو دیکھتے رہے اور پھر ”دیواں آمدند ۔ دیواں آمدند " ( دیو آگئے دیو آ گئے)کہتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یزد گرد اپنا حرم اور خزانے کا ایک حصہ پہلے بھی حلوان بھیج چکا تھا اب خود بھی مدائن کے در و دیوار پر حسرت کی نظر ڈالتا بھاگ نکلا۔ حضرت سعد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف عبر مناک سناٹا چھایا ہو اتھا اور کسریٰ کے پُر شکوہ محلات ، دوسری عظیم الشان عمار تھیں اور سر سبز و شاداب باغات زبان حال سے دنیائے دوں کی بے ثباتی کا اعلان کر رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان پر بے اختیار یہ آیات جاری ہو گئیں"كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ()وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍ()وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِیْهَا فٰكِهِیْنَ()كَذٰلِكَ-وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ()فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ() ترجمۂ کنز الایمانکتنے چھوڑ گئے باغ اور چشمے۔ اورکھیت اور عمدہ مکانات ۔اور نعمتیں جن میں فارغُ الْبال تھے۔ہم نے یونہی کیا اور ان کا وارث دوسری قوم کو کردیا۔تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے اور انہیں مہلت نہ دی گئی۔(سُورَه دُخان آیت25تا 29)(حکایاتِ صحابہ المعروف صحابہ کی ایمان افروز حکایات ص ۱۷-۱۸)

دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner