AD Banner

{ads}

(سیرت حضرت اسود رضی اللہ عنہ)

(سیرت حضرت اسود رضی اللہ عنہ)


(1)سیاہ فام صحابی حضرت سعد الاسودرضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
(2)انوکھا دولھا
(3)جنتی دولها
(4)حبشی صحابی رسول حضرت اسود راعی(حبشی)رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو دو حوریں ملیں

(1)سیاہ فام صحابی حضرت سعد الاسودرضی اللّٰہ تعالٰی عنہ

رحمتِ عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم ایک دن اپنے چند جاں نثاروں کے حلقےمیں تشریف فرما تھے کہ نہایت بےڈول جسم اور بھرے چہرے مہرے کے ایک سیاہ فام شخص ڈرتے جھجکتے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :اے اللہ کے رسول جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں میں نہایت بدصورت اور سیاہ فام آدمی ہوں۔ لوگ مجھ کو دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتے ہیں کیا مجھ جیسا کریہہ منظر بھی جنت میں داخل ہو سکے گا۔"سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے ان پر لطف و کرم سے بھر پور نظر ڈالی اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تمہیں تمہاری بدصورتی اور سیاہ رنگت جنت میں داخل ہونے سے ہر گز نہ روکے گی لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور میری رسالت پر ایمان لاؤ۔“حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا ارشاد سن کر ان صاحب کا چہرہ فرطِ مسرت سے چمک اٹھا اور ان کی زبان پر بےاختیار کلمہ شہادت جاری ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے بارگاہِ رسالت صلی اللّٰہ علیہ وسلّم میں عرض کیا : یارسول اللہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم میرے حقوق کیا ہیں ؟ “فرمایا :تمہارے حقوق وہی ہیں جو دوسرے مسلمانوں کے ہیں اور تم پر وہی فرائض ہیں جو دوسرے مسلمانوں کےہیں اور تم ان کے بھائی ہو۔“ یہ سیاہ فام کم رو صاحب جن کو اسلام لانے کے صلے میں خود سیدالمرسلین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے جنت کی بشارت دی سیدنا حضرت سعدالاسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔

(2)انوکھا دولھا:

علامہ ابن اثیر کا بیان ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد( اس مجلس میں یا ایک دوسری روایت کے مطابق چند دن بعد)حضرت سعدالاسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ رسالت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم میں عرض کیا :یارسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم میں نکاح کرنا چاہتا ہوں لیکن کوئی شخص میری بدصورتی کےسبب مجھ کو رشتہ دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ میں نے بہت سے لوگوں کو پیام دیئے لیکن سب نے رد کر دیئے۔ ان میں سے کچھ یہاں موجود ہیں ، کچھ غیر حاضر ہیں۔“رحمت عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا : سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھبراؤ نہیں ، میں خود تمہاری شادی کا بندوبست کرتا ہوں ، تم اسی وقت عمرو بن وہب ثقفی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر جاؤ اور سلام کے بعد ان سے کہو کہ رسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے آپ کی بیٹی کا رشتہ میرے ساتھ کر دیا ہے۔“ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا ارشاد سن کر حضرت سعدالاسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاداں و فرحاں حضرت عمرو بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی طرف چل دیئے۔ حضرت عمرو بن وہب ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی ان کے مزاج میں زمانہ جاہلیت کی دُرشتی موجود تھی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے گھر پہنچ کر انہیں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مطلع کیا تو ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ میری ماہ پیکر ذہین و فطین لڑکی کی شادی ایسے کریہہ منظر شخص سے کیسے ہو سکتی ہے۔انہوں نے سوچے سمجھے بغیر حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا پیام رد کر دیا- سعادت مند لڑکی نے حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ اور اپنے باپ کی گفتگو سن لی تھی ، جونہی حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ واپس جانے کے لئے مُڑے وہ لَپک کر دروازے پر آئی اور آواز دی : اللہ عزو جل کے بندے واپس آؤ ، اگر واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں بھیجا ہے تو میں بخوشی تمہارے ساتھ شادی کے لئے تیار ہوں جس بات سے اللہ عز وجل اور اس کارسول راضی ہیں میں بھی اس پر راضی ہوں"۔ اس اثناء میں حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ آگے بڑھ چکے تھے ، معلوم نہیں انہوں نے ان کی کی بات سنی یا نہیں بہر صورت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کر دیا۔ ادھر ان کے جانے کے بعد نیک بخت لڑکی نے اپنے والد سے کہا۔ ” والد ماجد قبل اس کے کہ اللہ عزوجل آپ کو رُسوا کرے آپ اپنی نجات کی کوشش کیجئے۔ آپ نے بڑا غضب کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پرواہ نہ کی اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے فرستادہ کے ساتھ درشت سلوک کیا۔ عمرو بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لڑکی کی بات سنی تو اپنے انکار پر سخت پشیمان ہوئے اور ڈرتے ہوئے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے ان کو دیکھ کر فرمایا :تم ہی نے میرے بھیجے ہوئے آدمی کو لوٹایا تھا۔ عمرو بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم بیشک میں نے اس آدمی کو لوٹایا تھا لیکن یہ غلطی لا علمی میں سرزد ہوئی۔ میں اس شخص سے واقف نہ تھا۔ اس لئے اس کی بات کا اعتبار نہ کیا اور اس کا پیام نامنظور کر دیا، خدا کے لئے مجھے معاف فرمادیجئے مجھے اپنی لڑکی کی شادی اس شخص سے بسر و چشم منظور ہے“۔
حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے حضرت عمرو بن وہب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عذر قبول فرمایا ،اور حضرت سعد الاسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا :سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ میں نے تمہاراعقد بنت عمرو بن وهب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کر دیا۔ اب تم اپنی بیوی کے پاس جاؤ“۔

(3)جنتی دولها:

رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بےحد مسرت ہوئی، بارگاہِ نبوی سے اُٹھ کر سیدھے بازار گئے اور ارادہ کیا کہ نو بیاہتا بيوی کے لئے کچھ تحائف خریدیں۔ ابھی کوئی چیز نہیں خریدی تھی کہ ان کے کانوں میں ایک منادی کی آواز پڑی جو پکار رہا تھا :اے اللہ عزو جل کے شہسوارو، جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ اور جنت کی بشارت لو“۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوجوان تھے ۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی ، بارہا مایوس ہونے کے بعد شادی ہوئی تھی لیکن منادی کی آواز سن کر تمام جذبات پر جوشِ ایمانی غالب آگیا اور نو عروس(نئی دلہن)کے لئے تحائف خریدنے کا خیال دل سے یکسر کافور ہو گیا ، جو رقم اس مقصد کے لئے ساتھ لائے تھے ، اس سے گھوڑا، تلوار اور نیزہ خریدا اور سر پر عمامہ باندھ کر سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی قیادت میں غزوہ پر جانے والے مجاہدین میں جا شامل ہوئے۔ اس سے پہلے نہ ان کے پاس گھوڑا تھا ، نہ نیزہ و تلوار اور نہ انہوں نے کبھی عمامہ اس طرح باندھا تھا اس لئے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ یہ سعدالاسود رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ میدانِ جہاد میں پہنچ کر حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ایسے جوش و شجاعت کے ساتھ لڑے کہ بڑے بڑے بہادروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک موقعہ پر گھوڑا اَڑ گیا تو اس کی پُشت پر سے کود پڑے اور آستینیں چڑھا کر پیادہ پا ہی لڑنا شروع کر دیا۔ اس وقت حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے ان کے ہاتھوں کی سیاہی دیکھ کر شناخت کر لیا اور آواز دی "اے (حضرت) سعد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) “لیکن حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت دنیا و مافیہا سے بےخبر اس جوش و وارفتگی کے ساتھ لڑ رہے تھے کہ اپنے آقاو مولا صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی آواز کی بھی خبر نہ ہوئی ، اسی طرح دادِشجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور عروسِ نو کے بجائے حورانِ جنت کی آغوش میں پہنچ گئے۔رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سعد الاسود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کی خبر ہوئی تو آپ ان کی لاش کے پاس تشریف لائے ، ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر دعائےِمغفرت کی اور پھر فرمایا :میں نے سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عقد عمرو بن وہب رضی اللہ عنہ کی لڑکی سے کر دیا تھا اس لئے اس کے متروکہ سامان کی مالک وہی لڑکی ہے۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہتھیار اور گھوڑا اسی کے پاس پہنچادو اور اس کے ماں باپ سے جا کر کہہ دو کہ اب خدا نے تمہاری لڑکی سے بہتر لڑکی سعد کو عطا کر دی اور اس کی شادی جنت میں ہو گئی ۔قبولِ اسلام کے بعد حضرت سعد الاسود رضی اللہ عنہ نے اس دنیائے فانی میں بہت کم عرصہ قیام کیا لیکن اس مختصر مدت میں انہوں نے اپنے جوشِ ایمان اور اخلاص عمل کے جو نقوش صفحہ تاریخ پر ثبت کئے وہ امتِ مسلمہ کے لئے تا ابد مشعلِ راہ بنے رہیں گے-(حکایاتِ صحابہ المعروف صحابہ کی ایمان افروز حکایات صفحہ52 تا 57)

(4)صحابی رسول حضرت اسود راعی(حبشی)رضی اللّٰہ عنہ كو دو حوریں ملیں:

7/ہجری کے آغاز میں سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم غزوہ خیبر کے لیے تشریف لے گئے تو یہودیوں نے اپنے قلعوں میں محصور ہو کر مزاحمت کے لئے زبردست تیاری کی۔ حضرت اسود راعی اور عامر یہودی نطاۃ کے قلعے میں تھے۔ حضرت اسود راعی نے یہودیوں سے پوچھا کہ تم کس لیے مسلح ہو رہے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص(حضرت)محمد(صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم)جو اپنے آپ کو اللہ عزوجل کا نبی کہتا ہے ہم پر حملہ آور ہوا ہے ہم اسی سے جنگ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں-ان کی باتیں سن کر حضرت اسود راعی کے دل میں ملاقات کا جزبہ پیدا ہو گیا اور وہ غائبانہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے شیدا ہو گئے۔ حسبِ معمول بکریاں لے کر قلعے سے باہر نکلے اور سیدھے سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی خدمت میں پہنچ گئے ۔ پھر بارگاہِ رسالت میں یوں عرض گزار ہوئے:اے حضرت محمد(صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم) آپ کسی چیز کی دعوت دیتے ہیں۔ "حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کو معبود نہ بناؤ اور مجھے اللہ عزوجل کارسول جانو ۔

حضرت اسود راعی فوراً کلمہ شہادت پڑھ کر دولتِ ایمان سے بہره یاب ہو گئے اور عرض کی یارسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان کو مالِک کے پاس پہنچادوں۔“حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا :تم ان بکریوں کو لشکر کے باہر لے جاکر ہانک دو اور تھوڑی سی کنکریاں ان کے پیچھے پھینک دو۔ اللہ تعالٰی تجھ کو اس امانت سے بری الذمہ کر دے گا۔ حضرت اسود راعی رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور بکریاں بھاگ کر اپنے مالِک کےگھر پہنچ گئیں۔لڑائی شروع ہوئی تو حضرت اسود راعی رضی اللہ عنہ بھی ہتھیار لے کر مجاہدین میں شامل ہو گئے اور مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ایک روایت میں ہے کہ مسلمانوں نے حضرت اسود راعی رضی اللہ  عنہ کی لاش ایک خیمے میں رکھ دی۔ سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم لاش کو دیکھنے خیمے کے اندر تشریف لے گئے لیکن فوراً لوٹ آئے[حکایاتِ صحابہ المعروف صحابہ کی ایمان افروز حکایات ص51-52،]

حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی کہ اللہ تعالٰی نے اس کے کالے چہرہ کو حسین بنا دیا ، اس کے بدن کو خوشبو دار بنا دیا اور دو حوریں اس کو جنت میں ملیں ۔ اس شخص نے ایمان اور جہاد کے سوا کوئی دوسرا عملِ خیر نہیں کیا، نہ ایک وقت کی نماز پڑھی، نہ ایک روزہ رکھا، نہ حج و زکٰوۃ کا موقعہ ملا مگر ایمان اور جہاد کے سبب سے اللہ تعالٰی نے اس کو اتنا بلند مرتبہ عطا فرمایا ۔(مدارج النبوت،قسم سوم باب ششم، ج ۲،ص ٢٤٠،۲۳۹،سیرتِ مصطفٰی ص ۳۸۵)



دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner