AD Banner

{ads}

(حضرت عبد اللہ ذوالبجادین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)

(حضرت عبد اللہ ذوالبجادین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)

(1)یتیم بھتیجا
(2)ظالم چچا
(3)دو چادروں والا
(4)اختیاراتِ مصطفٰیﷺ(حضورﷺنے فرمایا میں عبد اللہ ذوالبجادین کا خون کافروں پر حرام کرتا ہوں اور فرمایا(اے عبداللہ ذوالبجادین)لڑائی سے پہلے تمہیں بخار آ جائے اور اس بخار سے تم وفات پا جاؤ تب بھی تم شہید ہی ہوگے)
(5)حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے قبر میں اُتارا
(6)حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ ہر تعمیر آدمی پر وبال ہے ۔مگر وہ تعمیر جو سخت ضرورت اور مجبوری کی ہو

(1)یتیم بھتیجا

    حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عہدِطفلی تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چچا نے یتیم بچے کو اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا اور نہایت شفقت و محبت سے ان کی پرورش کی۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے فطرتِ سلیم اور قلب گداز عطا کیا تھا جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو مکہ مکرمہ میں دینِ حق کا آواز بلند ہو چکا تھا۔ ہوتے ہوتے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کانوں میں بھی دعوتِ توحید کی صدا پہنچ گئی۔ بلا تامل اس پر لَبّیک کہا لیکن چچا ابھی تک کفر و شرک کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل میں اسلام کی محبت بڑھتی چلی گئی لیکن چچا کے خوف سے اس کا اظہار نہ کرتے تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ کب چچا دعوتِ  حق قبول کرتا ہے۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے لیکن چچا کو قبولِ حق کی سعادت نصیب نہ ہوئی۔ اس اثناء میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔

(2)ظالم چچا:

آخر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ ایک دن وہ چچا کے پاس گئے اور کہا، ” پیارے چچا! میں عرصہ سے انتظار کر رہا ہوں کہ آپ کب جھوٹے معبودوں سے منہ موڑ کر اللہ عَزَوَجَلَّ کو خدا مانیں گے لیکن آپ کا جو حال پہلے تھا وہی اب ہے۔ اللہ عزوجل نے مجھے توفیق دی ہے کہ حق اور باطل میں تمیز کر سکوں۔ آپ آگاہ ہو جائيے کہ میں خدائےواحد عَزَّوَجَلَّ اور اس کے سچے رسول صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم پر ایمان لايا ہوں"۔

    چچا نے بر افروختہ ہو کر کہا، "اگر تو نے(حضرت)محمد(صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم)کا دین قبول کر لیا ہے تو اس سے بڑھ کر میرے لئے صدمہ کی کوئی بات نہیں۔ کیا میں نے اسی دن کے لئے تیری پرورش کی تھی کہ اپنے معبودوں کو جھٹلائے۔ بہتر یہی ہے کہ نیادین فوراً ترک کر دے ورنہ اونٹ ، بكریاں ، مال ، کپڑے جو کچھ میں نے تمہیں دے رکھا ہے ، سب چھین لوں گا “۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بےدھڑک جواب دیا۔ ” چچا جان ! اب تو خواہ میری جان چلی جائے میں اللہ عزوَجل اور اللہ عزوَجل کے سچے رسول صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم سے منہ نہ موڑوں گا“۔
چچا یہ جواب سن کر غضب ناک ہو گیا۔ اس نے توحید کے متوالے حضرت عبد الله رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سب کچھ چھین لیا۔ حتی(حَ-تّٰ-ی)کہ ان کے کپڑے تک اُتروا لئے۔ صرف کپڑے کی ایک دھجّی باقی رہنے دی تاکہ اس سے ستر ڈھانک سکیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ برہنہ تن لنگوٹی باندھے اپنی ماں کے پاس گئے اور اسے سارا واقعہ سنایا ۔ بیوہ ماں کو اپنے لختِ جگر سے بےپناہ محبت تھی۔ جب لڑکے کو اس حال میں دیکھا تو بےتاب ہو گئیں۔ ایک چادر تھی انہیں دے دی کہ اپنے جسم پر ڈال لو ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چادر کے دو ٹکڑے کئے ایک کا تہہ بند بنایا اور دوسرے کو بدن پر ڈال لیا اور پھر مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔

(3)دو چادروں والا:

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ پہنچے تو رات ڈھل چکی تھی اور نمازِفجر کا وقت ہو چکا تھا۔ وہ سیدھے مسجدِنبوی میں گئے اور رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ نماز کے بعد جب سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نظر پڑی تو پوچھا، "تم کون ہو ؟ انہوں نے عرض کیا ،میں مسلمان ہو چکا ہوں"میرا نام عبد العزّٰی ہے “ مسافر ہوں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا، " آج سے تمہارا نام عبدالعزیٰ نہیں عبداللہ ہے اور لقب ذوالبجادین (دو چادروں والا) ہے۔ تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو“۔ حضور پر نور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کا ارشاد سن کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرطِ مسرت سےباغ باغ ہو گئے اور اصحابِ صُفّہ میں شامل ہو کر صبح و شام آستانہ نبوی کی حاضری کو اپنامعمول بنالیا۔ محبوب رب العالمین کے کاشانہ اقدس کی دربانی ان کو دنیا کی ہر شے سےمحبوب تھی۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم بھی ان پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور ان کو بہت عزیز جانتے تھے۔حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذکرِالٰہی سے بےانتہا شغف تھا۔ ہر وقت پُر سوز آواز میں تہلیل و تسبیح اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتے تھے ۔ سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ان کے سوزِاخلاص کو دیکھتے تو بہت خوش ہوتے تھے۔

(4)اختیاراتِ مصطفیٰﷺ:

۹/ہجری میں سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو تیس ہزار جاں نثار آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ تھے۔ حضرت عبداللہ ذوالبجادین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بھی ان جاں نثاروں میں شامل تھے۔ چلنے سے پہلے یا اثنائےراہ میں وہ بارگاہِ رسالت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم دعا فرمائیے کہ اللہ تعالے مجھے رتبہ شہادت پر فائز کرے۔ حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جاؤ کسی درخت کی چھال اتار لاؤ۔ جب وہ چھال اُتار کر لائے تو حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے وہ چھال ان کے بازو پر باندھ دی اور فرمایا : میں(حضرت) عبداللہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کا خون کا فروں پر حرام کرتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم میرے ماں باپ آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم پر قربان آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم میرا خون کافروں پر حرام کر رہے ہیں لیکن میں تو شہادت پانے کا طلب گار ہوں۔“
حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : جب تم راہِ خدا عزوجل میں جہاد کی نیت سے نکل آئے اور پھر لڑائی سے پہلے تمہیں بخار آجائے اور اس بخار سے تم وفات پا جاؤ تب بھی تم شہید ہی ہو گے۔“حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کا ارشاد سن کر مطمئن ہو گئے۔

(5)حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے قبر میں اتارا:

    خدا کی قدرت لشکرِاسلام جب تبوک پہنچا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شدید بخار آگیا اور اسی بخار سے وہ لشکر گاہ میں عالم بقاء کو سدھار گئے۔ تدفین رات کے وقت عمل میں آئی۔ اس وقت چشمِ فلک نے عجیب منظر دیکھا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں مشعل تھی اور اس کی روشنی میں حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مل کر قبر کھود رہے تھے۔ جب قبر کُھد چکی تو حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے دونوں رفیقوں کی مدد سے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی میت کو لحد میں رکھا۔ اس وقت آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم ان سے فرما رہے تھے۔ اپنے بھائی کا ادب ملحوظ رکھو ۔ جب قبر پر مٹی ڈالی جاچکی تو سیدالمرسلین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے دعامانگی : اِلٰہی عَزَّوَجَلَّ میں اس سے راضی تھا تو بھی اس سے راضی رہ ۔"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی اس موقع پر موجود تھے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم کی دعا سن کر میرا جی چاہا کہ اے کاش عبد اللہ ذوالبجادین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے بجائے مجھے موت آجاتی۔(یعنی اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا کہ خود حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم اپنے دستِ مبارک سے مجھے دفن کرتے اور میرے لیے اسی طرح دعا فرماتے۔)حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تدفین جس شان سے ہوئی اس سے ان کی جلالت قدر اور بارگاہِ رسالت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم میں ان کی محبوبیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم حضرت عبداللہ ذوالبجادین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ شخص بارگاہِ الٰہی عزوجل میں سچے دل سے فریاد کرتا ہے۔(حکایاتِ صحابہ المعروف صحابہ کی ایمان افروز حکایات صفحہ 45 تا 49)

(6)حضورﷺنے فرمایا کہ ہر تعمیر آدمی پر وبال ہے مگر وہ تعمیر جو سخت ضرورت اور مجبوری کی ہو:

حضورصلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم ایک مرتبہ دولت کدے سے باہر تشریف لے جارہے تھے راستے میں ایک قبہ (گنبد دار حجرہ) دیکھا جو اوپر بنا ہوا تھا۔صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے دریافت کیا، یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا:فلاں انصاری نے قبہ بنایا ہے۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم سن کر خاموش رہے کسی دوسرے وقت وہ انصاری حاضرِخدمت ہوئے۔سلام عرض کیا، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم نے اعراض فرمایا سلام کا جواب بھی نہ دیا انہوں نے اس خیال سے کہ شاید خیال نہ ہوا ہو دوبارہ سلام عرض کیا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم نے پھر اعراض فرمایا اور جواب نہیں دیا وہ اس کے کیسے متحمل ہو سکتے تھے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو وہاں موجود تھے کہا:خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم تو مجھے ناپسند فرمارہے ہیں۔انھوں نے کہا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم باہر تشریف لے گئے تھے راستہ میں تمہارا قبہ دیکھا تھا اور دریافت فرمایا تھا کہ کس کا ہے؟یہ سن کر وہ صحابی رضی اللہ تعالٰی عنه فوراً گئے اور اس کو توڑ کر ایسا زمین کے برابر کر دیا کہ نام و نشان بھی نہ رہا اور پھر آ کر عرض بھی نہیں کیا۔اتفاقاً حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم ہی کا اس جگہ کسی دوسرے موقع پر گزر ہوا تو دیکھا کہ وہ قبہ وہاں نہیں ہے،دریافت فرمایا؟صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے عرض کیا انصاری نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے اعراض کو کئی روز ہوئے ذکر کیا تھا،تو ہم نے کہہ دیا تھا تمھارا قبہ دیکھا ہے انھوں نے آکر اس کو بالکل توڑ دیا۔حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ہر تعمیر آدمی پر وبال ہے ۔ مگر وہ تعمیر جو سخت ضرورت اور مجبوری کی ہو۔(سنن ابی داؤد کتاب الادب، باب ماجاء في البناء،ج ٤ ، ص:٤٦٠،صحابه كا عشقِ رسول)


دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner