AD Banner

{ads}

(جنگ یمامہ اور مسیلمہ کذاب)

(جنگ یمامہ اور مسیلمہ کذاب)


 جنگِ یمامہ میں مُسَیلَمہ کذاب کا قتل حضرت براء بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کاحضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے فرمان (علمِ غیب) پر یقین
مسیلمہ(مُسَ-یۡ-لَ-مَه)کذاب جو ایک بہت بڑے قبیلہ بنوحنیفہ کا سردار تھا اس نے نبوت کا جھوٹا دعوٰی کر دیا اور اس کے قبیلہ نے اس کے اس دعوٰی کو تسلیم بھی کر لیا اس نے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف خط لکھاجس میں یہ الفاظ تھے ((مِنۡ مُّسَيۡلَمَةَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ إِلٰى مُحَمَّدٍ رَّسُوۡلِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَیۡهِ وَسَلَّمَ))یہ خط اس مسیلمہ کی طرف سے جو اللہ کا رسول ہے محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو اللہ کے رسول ہیں اس کے جواب میں حضور علیہ الصَّلٰوۃ والسلام نے یہ الفاظ لکهے
((مِنۡ مُّحَمَّدٍ رَّسُوۡلِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَسَلَّمَ إِلٰى مُسَيۡلَمَةَ الۡكَذَّابِ))میں اللّٰہ کا رسول ہوں اور میرا یہ خط مسیلمہ جھوٹے کی طرف ہےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے کذاب کہنا اتنا مشہور ہوا کہ یہ اس کی پہچان کی علامت بن گیا۔

    بقول ابن جریر رحمہ اللہ "مسلمانوں کو اس سے زیادہ سخت معرکہ كبھی پیش نہیں آیا‘‘کیونکہ مسیلمہ کذاب کے ساتھیوں میں عصبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی حتّٰی کہ صراحةً کہتے تھے کہ ہمیں معلوم ہے ’’محمد(صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم)سچے ہیں اور مسیلمہ جھوٹا لیکن قبیلہ کا جھوٹا ہمیں زیادہ محبوب ہے(یعنی مسیلمہ)قبیلہ مضر کے سچے(یعنی حضرت محمد صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم)سے مسيلمہ کذاب نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں بہت بڑی قوت حاصل کر لی تقریبًا اَسِِّیۡ ہزار80,000کے قریب نوجوان اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے لیکن عاشقِ صادق جانشینِ مصطفٰی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے باوجود نامساعدہ حالات کے اس کی سرکوبی کے لیے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں  لشکرِجرار(جَ-رَّ-ا-ر) بھیجا ان کا مسیلمہ کذاب کے لشکر جرار کے ساتھ یمامہ کے مقام پر کھلے میدان میں مقابلہ ہوا وہاں کثیر التعداد لوگ مارے گئے مسیلمہ کے لشکر میں بڑے بہادر، بڑے جنگجو تھے اور اس کے تقریبًا اسِِّی ہزار کے قریب فوج کے ساتھ مقابلہ ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی تعداد دس یا گیارہ ہزار کے قریب تھی جو حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی کمان میں میدانِ جنگ میں اُترے تھے گھمسان کا رن پڑا دشمن کے قدم اُکھڑ گئے اور وہ مسلمانوں کے لشکر سامنے نہ ٹہر سکے مسلمانوں کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا۔ سات سو کے قریب حُفَّاظۡ صحابہ کرام کو شہادت نصیب ہوئی لیکن مُسَیۡلَمَہ کا لشکر تاب نہ لا سکا اور انہوں نے قریب ہی ایک بہت بڑے باغ میں پناہ لی جس کے اِرۡد گِرۡد بہت ہی بڑی مضبوط اور مستحکم فصیل تھی وہ باغ قلعہ نُما معلوم ہوتا تھا مُسَیۡلَمَہ کا لشکر اس کے اندر گُھس گیا اور دروازے بند کر دیئے اور فَصِیل کی دیواروں پر نیزہ بردار اور تیروں سے لَیس پہرہ دار مقرر کر دیئے اب مسلمانوں کے لیے بظاہر اس کے اندر داخل ہونا ناممکن تھا کیونکہ اس کے دروازے فولاد کے تھے اور دیواروں پر مَشَّاق تیرانداز تھے نہ ان پر تلواروں سے وار کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی انہیں نیزے چھلنی کر سکتے تھے کیونکہ جب مسلمان ان پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تو وہ ان کو اپنے تیروں کا نشانہ بناتے اور اگر کوئی دیوار کے نزدیک پہنچنے کی کوشش کرتا تو وہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ان سنگین ترین حالات میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک صحابی جن کا نام نامی اسمِ گرامی حضرت براء بن مالک رضی اللّٰه عنه تھا  اُنہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم اس طرح اس فتنہ و فساد کے معرکہ کو سَر نہیں کر سکتے بلکہ تم ایسا کرو کہ مجھے ایک پنگھوڑے میں بٹھاؤ اور اس کو نیزوں کے ساتھ باندھو اور اسے اُونچا کر کے مجھے دیواروں تک پہنچا دو میں چھلانگ لگا کر اس فصیل کے اوپر پہنچ جاؤں گا اور پھر نیچے چھلانگ لگا کر دوڑ کر دروازه کھول دوں گا تو اس طرح تم اندر داخل ہو جاؤ گے اور ان کو واصل جہنم کر سکو گے تو جب صحابہ کرام نے اُن کی یہ تجو یز سنی تو کہنے لگے اگر ہم اس طرح کریں گے تو فَصِیل پر کھڑے ہوۓ بہادر تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے چھلانگ لگا کر اندر داخل ہونا اور دروازہ کھولنا تو بڑی دور کی بات ہے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی آپ كی زندگی کا چراغ گُل ہو چکا ہوگا اور ہم جان بوجھ کر آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنا نہیں چاہتے اس صحابی رسول نے جب یہ بات سنی تو اُنہوں نے کہا کہ آپ لوگ میری موت کی فکر نہ کرو قسم بخدا مجھے اِس جنگ میں  موت نہیں آ سکتی ہے تو صحابہ کرام نے پوچھا وہ کیسے تو اُنہوں نے بڑے یقین اور وثوق سے کہا اس جنگ میں موت مجھے اس لیے نہیں آ سکتی ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ مِصۡرۡ فتح ہوگا اور اس سے اتنا علاقہ تجھے بطور جاگیر عطا كیا جائے گا تو اس لیے جب تک حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا وعدہ پورا نہیں ہوتا اور مجھے مِصۡر میں جاگیر نہیں ملتی اس وقت تک مجھے موت نہیں آ سکتی ہے۔ تو صحابہ کرام نے جب یہ سنا تو انہیں یقین ہو گیا اور انہوں نے آپ کو پنگھوڑے میں بٹھا دیا نیزوں کے ساتھ باندھ کر فصیل کے اوپر پہنچا دیا وہ چھلانگ لگا کر اس فصیل کے اوپر چڑھ گئے اور مسليمہ کذاب کے لشکریوں پر بجلی بن کر گرے ، پھر دس(10)دشمنانِ خدا کو قتل کرنے کے بعد دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے لیکن وہ خود زخموں سے چور چور ہو چکے تھے اور انہیں اس وقت اسی(80)سے زائد زخم آ چکے تھے ۔ باغ کا دروازہ کھلتے ہی مسلمان فوج نے مرتدین کو اپنی تلواروں پر رکھ لیا اور بیس ہزار مرتدین مارے گئے مسیلمہ بھاگنے کی فکر میں تھا کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے برچھا مارا جس سے وہ دوٹکڑے ہو کر گر پڑا۔

حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے خادم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے عَلَّاتی(باپ شریک بھائی یعنی جن کا باپ ایک ہو اورمائیں الگ الگ ہوں)بھائی تھے ۔ان کی شخصیت میں مسلمانوں کے لئے کئی اسباق پنہاں ہیں ۔ یتیم تھے ، کیونکہ ان کے والد مالک بن نضر ۔ ام سلیم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا(حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی والدہ) سے ان کے اسلام لانے پر ناراض ہو کر شام چلے گئے تھے جہاں انہیں قتل کر دیا گیا۔ لیکن ان کی یتیمی نے ان کی بہادری اور ہمت میں کمی نہیں کی نہ یتيمی نے انہیں میدانِ جہاد سے روکا چنانچہ غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں وہ شریک رہے ہیں ، بلکہ آخر زندگی تک لڑتے لڑتے شہید ہوۓ ۔حضرت براء رضی اللہ عنہ خوبصورت آواز کے مالک تھے دبلے، پتلے ایسے کمزور جسم والے تھے کہ آنکھیں اندر کی جانب دھنسی ہوئی تھیں جو دیکھتا اس کو ان پر رحم آ جاتا تھا لیکن جب میں میدانِ جنگ میں اُترتے تو شیر کی طرح بپھرتے تھے ۔(ضیاء الواعظین جلد1 صفحہ،38-39،مظلوم کے آنسو صفحہ،40-41)


دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner