AD Banner

{ads}

(تابوت یوسف علیہ السلام)

(تابوت یوسف علیہ السلام)


(1)بزرگوں کی قبروں پر قُبّہ نُما چھت بنانا انبیاء کی سنت ہےسیدنا سلیمان علیہ السّلام نےوحیِ الٰہی کے مطابق بزرگوں کی قبروں پر قبہ نماچھت بنادی۔
(2)حیاتِ انبیاء علیہم السلام و فیضان کاثبوت کہ دریاکےدرمیان سیدنایوسف علیہ السلام چارسوسال مدفون رہے اور لوگ آپ سے فیض حاصل کرتے رہے۔
(3)سیدنا یوسف علیہ السّلام کے تابوت کوچار سو(4,00)سال بعدسیدنا موسیٰ علیہ السّلام نے دریاۓِنیل سےنکالاتو اندھیری رات روشن ہوگئی اور راستہ مل گیا۔

(1)الخلیل یا حبرون غرب اردن(مغربی کنارہ)کے علاقے میں ہے جس پر غاصب اسرائیلیوں نے جون 1967ء کی جنگ سے قبضہ کر رکھا ہےالخلیل کی آبادی 75 ہزار سے زیادہ ہے۔ الخلیل کو حبری اور مسجدِابراہیمی بھی کہتے ہیں۔یہ جبل نصرة کی سطح مرتفع کے درمیان ایک نہایت زرخیز وادی میں واقع ہے۔الخلیل بیت المقدس سےپینتس(35)کلومیٹر جنوب میں ہے۔ یہ اس وقت بھی آباد تھا جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام یہاں آئے تھے اور انہی کے لقب سے الخلیل موسوم ہے۔یہاں ایک غار(مغارہ مکفیلہ ) میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام سیدنا اسحٰق علیہ السلام اور سیدنا یوسف علیہ السلام کی قبریں ہیں۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام وحیِ الٰہی کے مطابق ان انبیائےِکرام کی قبروں پر قبہ نما چھت بنادی۔(معلوم ہوا کہ بزرگوں کی قبروں پر قبہ نُما چھت بنانا انبیاء کی سنت ہے) 

حضرت سارہ رضی اللہ عنہا زوجہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام،حضرت ربقہ رضی اللہ عنہا،زوجہ سیدنا اسحٰق علیہ السلام،حضرت ایلیا رضی اللہ عنہا زوجہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی قبریں بھی اسی غار کے اندر ہیں ۔،سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے قبیلہ بنوحیث کے ایک آدمی عفرون بن صوحار الحبشی سے زمین کا ایک ٹکڑا چارسونقرئی درہموں میں خریدا تھا۔(تذکرہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام صفحہ:٢٧٥-٢٧٦)

(2)حضرت یوسف علیہ السّلام کی قبر دریائے نیل کے درمیان:(فَطَلَبَ أَهْلُ كُلَِّ مَحَلَّةٍ أَنْ يُّدْفَنَ فِي مَحَلَّتِهِمْ رَجَاءَ بَرَكَتِهِ) یعنی:سیدنایوسف علیہ السلام کی وفات کے بعد مصری لوگوں میں تنازع ہو گیا ہر ایک کی خواہش تھی کہ آپ علیہ السلام ہمارے محلہ میں دفن کئے جائیں تاکہ وہ آپ علیہ السلام سے برکت حاصل کر سکیں-قریب تھا کہ ان کے درمیان لڑائی بھڑک اٹھے، آخر کار کچھ لوگوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ آپ علیہ السلام کو سنگِ مرمرکے صندوق میں بند کر کے دریائےِنیل میں دفن کیا جائے تاکہ اس پانی سے تمام شہر والے ایک جیسے برکت حاصل کریں۔

حضرت عکرمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:"پہلے آپ کو دریائےِنیل کی دائیں جانب دفن کیا گیا تو اس طرف کا علاقہ سرسبز و شاداب رہنے لگا اور دوسری جانب خشک پھر آپ کے صندوق کو نکال کر نیل کی بائیں جانب دفن کر دیا گیا۔ اب اس طرف خوشحالی کا دور آ گیا اور دوسری جانب خشکی رہنے لگی ۔ پھر آپ کو دریائےِ نیل کے درمیان میں دفن کیا گیا یہاں تک کہ دونوں جانبیں سرسبز و شاداب ہو گئیں ۔آپ کا جسمِ اطہر اسی طرح دریائے نیل کے درمیان رہاچار سو(4,00)سال بعد جب سیدناموسٰی علیه السلام نے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے روانگی اختیار کی تو آپ کے جسمِ اطہر کو بھی ساتھ لے گئے یہاں تک کہ شام میں اپنے آباء کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔(از: خطیب و مدارک و تذکرۃ الانبیاء صفحہ:۱۹۴)

سبحان اللہ ان لوگوں کے کیسے پاکیزہ عقیدے تھے؟ کہ انہیں معلوم تھا کہ نبی کی ظاہری حیات میں جس طرح برکت حاصل کی جاتی ہے اسی طرح دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی اس سے برکت حاصل ہوتی ہے۔ سیدنایوسف علیہ السّلام کی قبر کی برکت سے خوشحالی حاصل ہوتی رہی۔

(3)سیدنا یوسف علیہ السلام نے وصیت فرمائی تھی کہ جب تم مصر سے نکلو تو میرا تابوت بھی ساتھ لے کر جانا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے آپ کی وصیت کے مطابق ایک بوڑھی عورت کی نشاندہی پر وہ تابوت نکال کر خود بنفس نفیس اٹھایا۔

حدیث:ابن ابی حاتم حضرت ابو موسی اشعری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے ایک روایت نقل فرماتے ہیں :کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ایک دیہاتی کے پاس ایک مرتبہ ٹھہرے۔ اس نے حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی مہمان نوازی کی اور بہت تعظیم اور تکریم کی، آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا کہ تم کبھی ہمارے پاس بھی آنا تو وہ دیہاتی ایک مرتبہ آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا: بتاؤ تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟ کہ میں تمہیں عطا کروں ۔اس نے کہا: ایک اونٹنی جس پر کجاوہ پڑا ہوا ہو اور ایک دودھ دینے والی بَکری جس کا دودھ میرے گھر والے پئیں ۔حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا تو تو بنی اسرائیل کی بوڑھی عورت سے بھی گیا گزرا ہوا ہے۔(اس نے تو جنت طلب کی تھی)صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا:یارسول الله صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم بنی اسرائیل کی بوڑھی عورت کا واقعہ کیا ہے؟آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:جب موسٰی علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کر چلے تو راستہ بھول گئے اس پر حیرانگی سے ایک دوسرے سے پوچھنے لگے یہ کیا ہوا؟ کچھ لوگوں کو حضرت یوسف علیہ السلام کی وصیت کا علم تھا تو انہوں نے کہا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت ہمارے آباؤ اجداد سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ مصر سے نکلتے وقت میرا تابوت ضرور ساتھ لے جانا ہمارے بھولنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو یوسف علیہ السلام کی قبر کو جانتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے ایک بوڑھی عورت کے بغیر کوئی بھی نہیں جانتا کہ یوسف علیہ السلام کی قبر کس جگہ واقع ہے؟تو حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اس عورت کو بلا کر کہا: کہ تم بتاؤ کہ یوسف علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟اس نے کہا میں اس وقت تک نہیں بتاؤں گی جب تک میری ایک شرط نہ پوری کرو۔آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: میری صرف یہ خواہش ہے کہ میں جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ حضرت موسٰی علیہ السّلام کچھ سوچ میں پڑے تو اللہ تعالٰی نے آپ کی طرف وحی نازل کی کہ اے موسیٰ !(علیہ السّلام) اس سے وعدہ کر لو۔آپ نے کہا: ٹھیک ہے تمہاری درخواست منظور ہے۔ موسیٰ علیہ السّلام جب اس عورت کے ساتھ چلے تو اس نے آپ کی قبر کی نشاندہی کی۔ جب سیدنا یوسف علیہ السّلام كے تابوت کو نکالا گیا تو اندھیری رات روشن ہوگئی، اس طرح انہیں راستہ مل گیا۔یہ حدیث غریب ہے قریب ہے کہ صحابی تک موقوف ہو۔(تذکرۃ الانبیاء صفحہ:۳۴۲)ضعیفہ کا نام مریم بنتِ نا موسٰی ہے اور ضعیفہ کی عمر سات سو(7,00)سال ہوئی.(اسلامی حیرت انگیز معلومات صفحہ:۱۶۶)


دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner