AD Banner

{ads}

(حضرت سلمان فارسی کا واقعہ)

(حضرت سلمان فارسی کا واقعہ)


    حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں، مجھ سے حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے ایمان لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں "اصبہان" کے ایک گاؤں میں رہتا تھا، میرا باپ ایک بڑا جاگیردار تھا اور وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا، میں اس کے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیارا تھا۔ اس محبت کی وجہ سے وہ مجھے گھر سے باہر نہ نکلنے دیتا، ہر وقت مجھے گھر ہی میں رکھتا، میری خوب دیکھ بھال کرتا ، میرے باپ کی یہ خواہش تھی کہ میں پَکّا مجوسی (یعنی آتش پرست) بنوں کیونکہ ہمارا آبائی مذہب "مجوسیت" ہی تھا اور میرا باپ پَکّا مجوسی تھا۔ وہ مجھے بھی اپنی ہی طرح بنانا چاہتا تھا لہٰذا اس نے میری ذمہ داری لگا دی کہ میں آتش کدہ میں آگ بھڑکاتا رہوں اور ایک لمحہ کے لئے بھی آگ کو نہ بجھنے دوں ۔ میں اپنی ذمہ داری سرانجام دیتا رہا۔ ایک دن میرا باپ کسی تعمیری کام میں مشغول تھا جس کی وجہ سے وہ زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے نہیں جاسکتا تھا۔

    چنانچہ میرے باپ نے مجھے بلایا اور کہا: اے میرے بیٹے ! آج میں یہاں بہت مصروف ہوں اور کھیتوں کی دیکھ بھال کے لئے نہیں جاسکتا ۔ آج وہاں تو چلا جا اور خادموں کو فُلاں فُلاں کام کی ذمہ داری سونپ دینا اور ان کی نگرانی کرنا ، اِدھر اُدھر کہیں متوجہ نہ ہونا، سیدھا اپنے کھیتوں پر جانا اور کام پورا ہونے کے فوراً بعد واپس آجانا۔ اپنے باپ کا حکم پاتے ہی میں اپنی زمینوں کی طرف چل دیا۔ راستے میں عیسائیوں کا عبادت خانہ تھا۔ جب میں اس کے قریب سے گزرا تو مجھے اندر سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ وہاں کچھ راہب نماز میں مشغول تھے۔ میں جب اندر داخل ہوا اور ان کا اندازِعبادت مجھے بڑا انوکھا اور اچھا لگا میں نے پہلی مرتبہ اس انداز میں کسی کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں چونکہ زیادہ تر گھر ہی میں رہتا تھا اس لئے لوگوں کے معاملات سےآگاہ نہ تھا۔ اب جب یہاں ان لوگوں کو دیکھا کہ یہ ایسے انداز میں عبادت کر رہے ہیں جو ہم سے بالکل مختلف ہے تو میرا دل ان کی طرف راغب ہونے لگا اور مجھے ان کا اندازِعبادت بہت پسند آیا۔

    میں نے دل میں کہا: ” خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! ان راہبوں کا مذہب ہمارے مذہب سے اچھا ہے ۔ پھر میں سارا دن انہیں دیکھتا رہا اور اپنے کھیتوں پر نہیں گیا۔ جب تاریکی نے اپنے پَر پھیلانا شروع کئے تو میں ان لوگوں کے قریب گیا اور ان سے پوچھا: تم جس دین کو مانتے ہو اس کی اصل کہاں ہے؟ یعنی تمہارا مرکز کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا: ” ہمارا مرکز شام میں ہے۔ پھر میں گھر چلا آیا۔ میرا باپ بہت پریشان تھا کہ نہ جانے میرا بچہ کہاں گُم ہو گیا؟ اس نے میری تلاش میں کچھ لوگوں کو آس پاس کی بَستیوں میں بھیج دیا تھا۔ جب میں گھر پہنچا تو میرے باپ نے بےتاب ہو کر پوچھا: ” میرے لال ! تو کہاں چلا گیا تھا؟ ہم تو تیری وجہ سے بہت پریشان تھے ۔“ میں نے کہا: میں اپنی زمینوں کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں کچھ لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا ، ان کا اندازِعبادت بہت پسند آیا چنانچہ میں شام تک انہی کے پاس بیٹھا رہا۔

    یہ سن کر میرا باپ پریشان ہوا اور کہنے لگا : ” میرے بیٹے ! ان لوگوں کے مذہب میں کوئی بھلائی نہیں۔ جس مذہب پر ہم ہیں اور جس پر ہمارے آباؤ اجداد تھے وہی سب سے اچھا ہے لہٰذا تم کسی اور طرف توجہ نہ دو “ میں نے کہا: ہرگز نہیں ، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! ان راہبوں کا مذہب ہمارے مذہب سے بہت بہتر ہے۔ میری یہ گفتگو سن کر میرے باپ کو یہ خوف ہونے لگا کہ کہیں میرا بیٹا مجوسیت کو چھوڑ کر نصرانی مذہب قبول نہ کرلے۔ اسی خوف کے پیشِ نظر اس نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈالوادیں اور مجھے گھر میں قید کر دیا تاکہ میں گھر سے باہر ہی نہ نکل سکوں ۔ مجھے ان راہبوں سے بہت زیادہ عقیدت ہو گئی تھی۔ میں نے کسی طریقے سے ان تک پیغام بھجوایا کہ جب کبھی تمہارے پاس ملکِ شام سے کوئی قافلہ آئے تو مجھے ضرور اطلاع دینا۔

    چند روز بعد مجھے اطلاع ملی کہ شام سے راہبوں کا ایک قافلہ ہمارے شہر میں آیا ہوا ہے۔ میں نے پھر راہبوں کو پیغام بھجوایا کہ جب یہ قافلہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد واپس "شام" جانے لگے تو مجھے ضرور اطلاع دینا ۔ کچھ دن بعد مجھے اطلاع ملی کہ قافلہ واپس شام جا رہا ہے ۔ میں نے بہت جد و جہد کے بعد اپنے قدموں سے بیڑیاں اُتاریں اور فوراً شام جانے والے قافلے کے ساتھ جا ملا ۔ ملکِ شام پہنچ کر میں نے لوگوں سے پوچھا: ”تم میں سب سے زیادہ معزز اور صاحبِ علم و عمل کے کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: " فلاں کنیسہ(یعنی عبادت خانہ) میں رہنے والا راہب ہم میں سب سے زیادہ قابلِ احترام اور سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے ۔ چنانچہ میں اس راہب کے پاس پہنچا اور کہا: مجھے آپ کا دین بہت پسند آیا ہے ، اب میں اس دین کے بارے میں کچھ معلومات چاہتا ہوں۔ اگر آپ قبول فرمالیں تو میں آپ کی خدمت کیا کروں گا اور آپ سے اس دین کے متعلق معلومات بھی حاصل کرتا رہوں گا ۔ برائے کرم ! مجھے اپنی خدمت کے لئے رکھ لیجئے ۔“

    یہ سن کر اس راہب نے کہا: ٹھیک ہے، تم بخوشی میرے ساتھ رہو اور مجھ سے ہمارے دین کے بارے میں معلومات حاصل کروں۔ چنانچہ میں اس کے ساتھ رہنے لگا لیکن وہ راہب مجھے پسند نہ آیا۔ وہ بہت بُرا شخص تھا، لوگوں کو صدقات و خیرات کی ترغیب دلاتا ۔ جب لوگ صدقات و خیرات کی رقم لے کر آتے تو یہ اس رقم کو غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم نہ کرتا بلکہ اپنے پاس ہی جمع کر لیتا ۔ اس طرح اس بَدباطِن راہب نے بہت سارا خزانہ جمع کر کے سونے کے بڑے بڑے سات(7)مَٹکے بھر لئے تھے۔ مجھے اس کی ان حرکتوں پر بہت غصہ آتا بالآخر جب وہ مرا تو لوگوں کا بہت بڑا ہجوم اس کی تجہیز و تکفین کے لئے آیا۔ میں نے لوگوں کو بتایا: جس کے بارے میں تمہارا گمان تھا کہ وہ سب سے بڑا راہب ہے وہ تو بہت لالچی اور گندی عادتوں والا تھا ۔ لوگ کہنےلگے: یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ وہ راہب بُرا شخص تھا ؟ میں نے کہا: "اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں آتا تو میرے ساتھ چلو، میں تمہیں اس کا مال و دولت اور خزانہ دکھاتا ہوں جو وہ جمع کرتا رہا اور فقراء ومساکین اور یتیموں پر خرچ نہ کیا ۔ لوگ میرے ساتھ چل دیئے۔ میں نے انہیں وہ مَٹکے دکھائے۔ جن میں سونا بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے وہ مَٹکے لئے اور کہا: ” خدا عزوجل کی قسم ! ہم اس راہب کو دفن نہیں کریں گے ۔ پھر انہوں نے اس کے مردہ جسم کو سولی پر لٹکایا اور پتھر مار مار کر چھلنی کر دیا پھر اس کی لاش کو بےگور و کفن پھینک دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے ایک اور راہب کو اس کی جگہ منتخب کر لیا ۔ وہ بہت اچھی عادات وصفات کا مالک اور انتہائی متقی و پرہیزگار شخص تھا طمع و لالچ اس میں بالکل نہ تھی، دن رات عبادت میں مشغول رہتا۔ دُنیوی معاملات کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دیتا ، میرے دل میں اس کی عقیدت و محبت گھر کر گئی۔ میں نے اس کی خوب خدمت کی اور اس سے نصرانِیت کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہا۔ جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا: " آپ مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرتے ہیں؟ آپ کے بعد میری رہنمائی کون کرے گا ؟" وہ راہب کہنے لگا : اے میرے بیٹے ! اللہ عز وجل کی قسم ! جس دین پر میں ہوں اس میں سب سے بڑا عالم و فقیہہ ایک شخص ہے جو "موصل" میں رہتا ہے۔ میرے نزدیک اس سے بہتر کوئی نہیں جو تمہاری رہنمائی کر سکے، اگر تم سے ہو سکے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ ۔ راہب کی یہ بات سن کر میں "موصل" چلا گیا اور وہاں کے راہب کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے واقعی اسے ایسا پایا جیسا اس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ وہ بہت نیک و زاہد شخص تھا۔ چنانچہ میں اس کے پاس رہنے لگا پھر جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا: ” اب آپ مجھے کس کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں جو آپ کے بعد میری صحیح رہنمائی کرے؟ اس نے جواب دیا: ”اللہ عزوجل کی قسم ! اس وقت ہمارے دین کا سب سے بڑا باعمل عالم "نصیبین" میں رہتا ہے۔ میری نظروں میں اس سے بہتر کوئی اور نہیں ، اگر ہو سکے تو اس کے پاس چلے جاؤ۔“ چنانچہ میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا ہوا "نصیبین"پہنچا اور اس راہب کے پاس رہنے لگا۔ وہ بھی نہایت متقی و پرہیزگار شخص تھا ، جب اس کی وفات کا وقت آیا تو میں نے پوچھا : ” آپ مجھے کس کے پاس جانے کا حکم فرماتے ہیں ؟ اس نے کہا: ” اس وقت ہمارے دین پر قائم رہنے والوں میں سب سے بڑا باعمل راہب "عموریہ"میں رہتا ہے، میری نظروں میں اس سے بہتر کوئی نہیں تم اس کے پاس چلے جاؤ وہ تمہاری صحیح رہنمائی کرے گا۔ چنانچہ میں "عموریہ" پہنچا اور اس راہب کی خدمت میں رہنے لگا۔ وہ واقعی بہت نیک و صالح شخص تھا۔ میں اس سے دینِ نصارٰی کے بارے میں معلومات حاصل کرتا اور دن کو بطورِاجیر (یعنی مزدور)ایک شخص کے جانوروں کی دیکھ بھال کرتا۔ اس طرح میرے پاس اتنی رقم جمع ہوگئی کہ میں نے کچھ گائے اور بکریاں وغیرہ خرید لیں ۔ پھر جب اس راہب کی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے اس سے پوچھا: آپ مجھے کس کے پاس بھیجیں گے جو آپ کےبعد میری صحیح رہنمائی کرے؟“

    اس راہب نے کہا: اے میرے بیٹے ! اب ہمارے دین پر قائم رہنے والا کوئی ایسا شخص نہیں جس کے پاس میں تجھے بھیجوں ۔ ہاں ! اگر تم نجات چاہتے ہو تو میری بات توجہ سے سنو : اب اس نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی جلوہ گری کا وقت بہت قریب آ گیا ہے جو دینِ ابراہیمی لے کر آئے گا۔ وہ سرزمینِ عرب میں مبعوث ہوگا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت فرمائے گا ۔ اس نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی کچھ واضح نشانیاں یہ ہیں:(۱) وہ ہدیہ قبول فرمائیں گے (۲) لیکن صدقے کا کھانا نہیں کھائیں گے۔اور (۳) ان کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مُہرِنبوت ہوگی ۔

    اگر تم اُس نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پاؤ تو ان کے پاس چلے جانا ان شاءاللہ عز وجل تم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے ۔ اے میرے بیٹے ! تم اس رحمت والے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ضرور ملنا ۔ اتنا کہنے کے بعد اس راہب کا بھی انتقال ہو گیا ۔ پھر جب تک میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے چاہا میں "عموریہ" میں ہی رہا۔ پھر مجھے اطلاع ملی کہ قبیلہ بنی کلب کے کچھ تاجر عرب شریف جا رہے ہیں تو میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا: ” میں بھی تمہارے ساتھ عرب شریف جانا چاہتا ہوں، میرے پاس کچھ گائیں اور بکریاں ہیں، یہ سب کی سب تم لے لو اور مجھے عرب تشریف لے چلو ۔ ان تاجروں نے میری یہ بات منظور کر لی اور میں نے انہیں تمام گائیں اور بکریاں دے دیں۔ چنانچہ ہمارا قافلہ سوئےِعرب روانہ ہوا ۔ جب ہم وادی "قُرٰی" میں پہنچےتو ان تاجروں نے مجھ پر ظلم کیا اور مجھے جبراً اپنا غلام بنا کر ایک یہودی کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ یہودی مجھے اپنے علاقے میں لے گیا۔ وہاں میں نے بہت سے کجھوروں کے درخت دیکھے تو میں سمجھا کہ شاید یہی وہ شہر ہے جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یہاں تشریف لائیں گے۔ چنانچہ میں اس یہودی کے پاس رہنے لگا اور اس کی خدمت کرنے لگا۔ کچھ دنوں کے بعد اس یہودی کا چچازاد بھائی مدینہ منورہ زَادَهَا اللّٰهُ شَرۡفًاوْ تَعْظِيماً سے اس کے پاس آیا۔ اس کا تعلق قبیلہ بنی قریظہ سے تھا۔ یہودی نے مجھے اس کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ وہ مجھے لے کر مدینہ منورہ زَادَهَا اللّٰهُ شَرْفًاوَتَعْظِيماً کی طرف روانہ ہو گیا ۔ خدا عزوجل کی قسم ! جب میں مدینہ منورہ کی پاکیزہ فضاؤں میں پہنچا تو میں نے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا کہ یہی جگہ میری عقیدتوں کا محور و مرکز ہے۔ یہی وہ پاکیزہ شہر ہے جس میں نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوگی ۔ جونشانیاں راہب نے مجھے بتائی تھیں کہ وہاں بکثرت کھجوریں ہوں گی ، وہ میں نے وہاں پالی تھیں۔ اب میں منتظر تھا کہ کب میرے کانوں میں یہ صدا گونجے کہ اس پاکیزہ ہستی نے اپنے جلوؤں سے مدینہ منورہ کو نور بار کر دیا ہے جس کی آمد کی خبر سابقہ آسمانی کتب میں دی گئی ہے۔ بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ۔ ایک دن میں کھجور کے درخت پر چڑھا ہوا تھا اور میرا مالک نیچے بیٹھا تھا۔ اس کا چچا زاد بھائی آیا اور کہنے لگا: "اللہ عزوجل فلاں قبیلے (یعنی اوس وخزرج) کو برباد کرے، وہ لوگ مقام "قُباء" میں جمع ہیں اور ایک ایسے شخص کا دین قبول کر چکے ہیں جو مکہ مکرمہ زَادَھَا اللّٰہُ شَرۡفًا وَّ تَعظِیۡمًا سے آیا ہے اور وہ اپنے آپ کو اللہ عز وجل کا نبی کہتا ہے۔ اس قبیلے (یعنی اوس و خزرج ) کے اکثر لوگ اپنے آباء واجداد کا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لاچکے ہیں ۔ جب میں نے اپنے مالک کے چچازاد بھائی کی یہ بات سنی تو میں خوشی کے عالم میں جھوم اُٹھا۔ قریب تھا کہ میں اپنے مالک کے اوپر گر پڑتا لیکن میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور جلدی جلدی نیچے اُترا۔ پھر پوچھا: ” ابھی تم نے کیا بات کہی ہے؟ اور کون شخص مکہ سے آیا ہے؟“ میری یہ بات سن کر میرے مالک کو بہت غصہ آیا اور اس نے مجھے ایک زور دار طمانچہ مارا اور کہا: تمہیں ہماری باتوں سے کیا مطلب؟ جاؤ! جا کر اپنا کام کرو۔“ میں نے کہا: ” میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا یہ کہہ کر میں دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ میرے پاس کچھ رقم بَچِی ہوئی تھی۔ ایک دن موقع پا کر میں بازار گیا، کچھ کھانے پینے کی اشیاء خریدیں اور بےتاب ہو کر اس رخِ زیبا کی زیارت کے لئے "قُباء" کی طرف چل دیا جس کے دیدار کی تمنا نے مجھے فارس سے مدینہ منورہ زَادَهَا اللّٰهُ شَرۡفًا وَّ تَعۡظِیۡماً تک پہنچا دیا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے ان کی بارگاہ بیکس پناہ میں حاضر ہو کر عرض کی: اے اللہ عزو جل کے بندے! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ اللہ عز وجل کے برگزیدہ بندے ہیں اور آپ کے اصحاب میں اکثر غریب اور حاجت مند ہیں، میں کچھ اشیائے خوردونوش لے کر حاضر ہوا ہوں ،میں یہ اشیاء بطورِصدقہ آپ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں ، آپ قبول فرما لیں ۔“ یہ سن کر اس پاکیزہ و مطہر ہستی نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ” آؤ! اور یہ چیزیں کھا لو ، لوگ کھانے لگے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔ یہ دیکھ کر میں نے دل میں کہا: ” ایک نشانی تو میں نے پالی ہے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد میں کھانے کا کچھ سامان لے کر حاضر خدمت ہوا اور عرض کی: "حضور! یہ کچھ کھانے کی چیزیں ہیں، انہیں بطورِہدیہ قبول فرمالیں ۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے کچھ کھایا اور اپنے اصحاب کو بھی اپنے ساتھ کھانے کا حکم فرمایا۔ میں نے دل میں کہا: ” یہ دوسری نشانی بھی پوری ہو گئی ہے ۔“

    پھر ایک دن میں جَنَّتُ الۡبَقِیۡع کی طرف گیا تو دیکھا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم وہاں موجود ہیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اَطہر پر دو چادریں ہیں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے گرد اس طرح جمع ہیں جیسے شمع کے گرد پروانے جمع ہوتے ہیں۔ میں نے جا کر سلام عرض کیا اور پھر ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں سے میری نظر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پُشت مبارک پر پڑے تاکہ میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے مبارک شانوں کے درمیان مُہرِنبوت کو دیکھ سکوں کیونکہ مجھے راہب نے جو نشانیاں بتائی تھیں وہ سب کی سب میں نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں دیکھ لی تھیں۔ بس آخری نشانی (یعنی مُہرِنبوت) دیکھنا باقی تھی۔ میں بڑی بےتابی سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھ رہا تھا جب نبی غیب داں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھی تو میرے دل کی بات جان لی اور میری طرف پیٹھ پھیر کر مبارک شانوں سے چادر اُتار لی جیسے ہی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے چادر ہٹائی تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مُہرِنبوت جگمگارہی تھی۔ میں دیوانہ وار آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھا اور مُہرِنبوت کو چومنا شروع کر دیا۔ مجھ پر رقت طاری ہو گئی ، بےاختیار میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ آج میری خوشی کی انتہاء نہ تھی جس کے روئے زیبا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے میں نے اِتنی مصیبتیں اور مشقتیں جھیلیں آج وہ نورِمجسّم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے موجود تھے اور میں ان کے جلوؤں میں اپنے جسم کو منور ہوتا دیکھ رہا تھا۔

    میں نے فوراً حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی: اے میرے محبوب آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ سلم ! مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیجئے اور اپنے غلاموں میں شامل فرما لیجئے ۔ پھر الْحَمْدُ لِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ میں مسلمان ہو گیا۔ میں ابھی تک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مُہرِنبوت کو بوسے دے رہا تھا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اب بس کرو ۔" چنانچہ میں ایک طرف ہٹ گیا، پھر میں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ساری روداد سنائی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان بہت حیران ہوئے کہ میں کس طرح یہاں تک پہنچا اور میں نے کتنی مشقتیں برداشت کیں ۔

    حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے۔ سلمان (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) ! تم اپنے مالک سے مکاتبت کر لو ( یعنی اسے رقم دے کر آزادی حاصل کرلو ) جب حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے مالک سے بات کی تو اس نے کہا: ” مجھے تین سو(300)کھجوروں کے درخت لگا دو اور چالیس(40)اوقیہ  بھی دو پھر جب یہ کھجوریں پھل دینے لگ جائیں گی تو تم میری طرف سے آزاد ہو جاؤ گے۔“

    میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اپنے مالک کی شرطیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بتائیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو ۔ چنانچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھر پور تعاون کیا کسی نے کھجوروں کے 30 پودے لا کر دیئے، کسی نے 50 ۔ الغرض ! مددگار صحابہ کرام علیہم الرضوان کی مدد سے میرے پاس تین سو(300)کھجوروں کے پودے جمع ہو گئے۔پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اے سلمان فارسی (رضی اللہ تعالٰی عنہ) ! تم جاؤ اور زمین کو ہموار کرو۔ چنانچہ میں گیا اور زمین کو ہموار کرنے لگا تاکہ وہاں کھجور کے پودے لگائے جاسکیں ۔ اس کام سے فارغ ہو کر میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ کے وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے میرے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! میں نے زمین ہموار کر دی ہے ۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ چل دیئے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے ۔ ہم حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کوکھجوروں کے پودے اُٹھا اُٹھا کر دیتے اور آپ صلی الہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اپنے دستِ اقدس سے اسے زمین میں لگاتے جاتے۔ حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ” اس پاک پروردگار عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں سلمان فارسی (رضی اللہ تعالی عنہ) کی جان ہے! حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جتنے پودے لگائے وہ سب کے سب اُگ آئے اور ان میں بہت جلد پھل لگنے لگے ۔ چنانچہ میں نے تین سو(300)کھجوریں اپنے مالک کے حوالے کیں ۔ ابھی میرے ذمہ چالیس(40)اوقیہ دینا باقی تھا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پاس کسی نے مرغی کے انڈے جتنا سونے کا ایک ٹکڑا بھجوایا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے استفسار فرمایا: ” سلمان فارسی کا کیا ہوا؟ پھر مجھے بلوا کر فرمایا: اسے لے جاؤ، اور اپنا قرض ادا کرو ۔ میں نے عرض کی:” اے میرے آقاصلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! یہ اتنا سا سونا چالیس(40)اوقیہ کے برابر کس طرح ہوگا ؟

    آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم یہ سونا لو اور اس کے ذریعےچالیس(40)اوقیہ جو تمہارے ذمہ ہے، اسے ادا کرو، اللہ عزوجل تمہارے لئے اسی سونے کو کافی کر دے گا اور تمہارے ذمہ جتنا دینا ہے یہ اس کے برابر ہو جائے گا۔ میں نے وہ سونے کا ٹکڑا لیا اور اس کا وزن کیا۔ اس پاک پروردگار عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! وہ تھوڑا سا سونا چالیس(40) اوقیہ کے برابر ہو گیا اور اس طرح میں نے اپنے مالک کو دے دی اور غلامی کی قید سے آزاد ہو کر سرکار صلّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں میں شامل ہو گیا۔ پھر میں غزوہ خندق میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شامل ہوا۔ اس کے بعد میں ہر غزوہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہا۔(المسند للامام احمد بن حنبل، حديث سلمان الفارسي ، ج ۹، ص ۱۸۵ تا ۱۸۹،عُيُوۡنُ الۡحِكايات (مترجم)حصہ اول صفحہ:315 تا 321 مؤلف: امام عبد الرحمٰن بن علی الجوزی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ اَلۡمُتَوَفّٰی ۵۹۷ھ)



دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner