AD Banner

{ads}

(واقعات جنگ احد)

(واقعات جنگ احد)

(1)غزوہ اُحد میں شریک ہونے کے لئےنونہالانِ اسلام کی کُشتی
(2)حضرت وهب بن قابوس مزنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد صرف ایک ایسا کارنامہ انجام دیاجس پر اکابر صحابہ تک رشک کرتے تھے
(3)غزوہ احد میں حضرت سعد بن ربیع رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا آخری پیام

(1)غزوہ اُحد میں شریک ہونے کے لئےنونہالانِ اسلام کی کُشتی 

    غزوہ اُحُد کے موقع پر جب حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے غلاموں کو ساتھ لے کر جانبِِ احد شریف تشریف لے جا رہے تھےراستے میں ایک مقام پر آپ نے لشکر کو ٹھہرایا تاکہ لشکرِ اسلام کی گنتی کی جائے جب لشکر کو ملاحظہ کیا گیاکچھ مجاہدین ایسے تھے جو کہ کم عمر تھے جنہیں واپس جانے کا حکم دیا تھا......جب نونہالانِ اسلام کو واپسی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے حضرت رافِع بن خدیج(_خَ_دِ_یۡ_ج)رضی اللہ عنہ تھے۔اُن کے متعلق اُن کے چچا سیدنا ظُہۡیر بن رافع رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نےکہا یہ تو کم عمر ہے مگر تیر اندازی میں بہت ماہر ہےحضرت رافع رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:((وَجَعَلْتُ أَتَطَاوَلُ وَعَلَىَّ خُفَّانِ لِیۡ))میرے پاس جوتے نہیں تھے،موزے پہنے ہوئے تھے، میں نے ایڑیاں اوپر کو اٹھا لیں تاکہ میرا اقد لمبا معلوم ہو اور آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم مجھے اجازت سے نوازیں۔ چنانچہ حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے مجھے اجازت عطا فرمادی ۔[المغازی للواقدی، ج:1 ، ص: 216 ، دار الاعلمی، بیروت]

جب سید نا رافع رضی اللہ عنه کو اجازت ملی تو ایک اور صحابی جن کی عمر کم تھی، مگر جذبہ جواں تھاسیدناسمرہ(-سَ-مُ-رَ-ه) بن جندب(-جُ-نۡ-دُ-ب) نے حسرت بھرے لہجے میں اپنےسر پرست کو کہا:((أَجَازَ رَسُولُ اللّٰهِ رَافِعَ بۡنَ خَدِيۡجٍ وَرَدَّنِيۡ، وَأَنَا أَصْرَعُ رَافِعَ بۡنَ خَدِیجٍ))"رافع کو اجازت مل گئی ہے، مگر مجھے نہیں ملی ! حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے عرض کیجیے کہ میری اور رافع کی کشتی کرا لیں، اگر میں جیت جاؤں تو مجھے بھی اجازت سے نوازیں"اُنہوں نے یہ درخواست بارگاہ اقدس میں پیش کر دی۔ آپ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا: " مقابلہ کرو۔۔....قربان جاؤں ان کی محبت رسالتِ مآب پر ---چناںچہ چشمِ فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ ان ننھے ننھے صحابی مجاہدوں کے درمیان کشتی ہوئی ۔....جب ایک نے دوسرے کو کلاوے میں لے لیا.... تو بزبانِ حال چھوٹے نے بڑے سے کہا بھائی ! آپ کو تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا ہے ۔اب تم اپنی پُشۡتۡ(پیٹھ) زمین پر لگوا لو تاکہ میں بھی آپ کے ساتھ جا سکوں ۔۔۔۔اور اس طرح اُنہیں بھی جنگ میں شریک ہونے کی اجازت مل گئی۔میدان میں ان دونوں نے بڑی شجاعت اور مہارت جنگ کا ثبوت دیا،رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اس جنگ میں زخمی ہوئےتیر سے سینے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔۔۔۔اور نوک جسم میں ہی رہ گئی۔۔۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔میں میدانِ حشر میں تمہارے حق میں شہادت دوں گا۔۔۔۔۔تیر کی یہی نوک ایک عرصہ کے بعد ان کی وفات كا سبب بنی(مدارج النبوۃ جلد2 صفحہ،114،روحانی حکایات صفحہ،40)

(2)حضرت وهب بن قابوس مزنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد صرف ایک ایسا کارنامہ انجام دیاجس پر اکابر صحابہ تک رشک کرتے تھے

    حضرت وہب بن قابوس مزنی(مُ-زۡ-نِ-ی)اپنے بھتیجے کے ساتھ بکریاں لے کر مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے تو ۔۔۔۔۔۔دیکھا مدینہ منورہ سنسان ہے،علاقہ مردوں سے خالی ہے ،۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب معرکہ اُحد(-اُ-حُ-د-)کی خاطر.... رسول اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے اپنے صحابہ کرام کو لے کر کوچ کر چکے تھے اور زمانہ بھی وہ تھا کہ ۔۔۔۔۔۔دلوں میں جہاد کا جذبہ،۔۔۔۔۔۔ شہادت کا شوق ہر ایک کے دل میں تھا،۔۔۔۔۔کفار کے مقابلہ میں ڈٹ جانے کی ہمت ہر کوئی رکھتا تھا ، بچے ۔۔۔۔۔بوڑھے اور جوان حتّٰی کہ عورتیں تک میدانِ جہاد میں جانے کے لئے بےچین ہوتی تھیں اس لئے۔۔۔۔۔۔۔ مدینہ منورہ مردوں سے خالی تھا ،۔۔۔۔۔۔ انہیں حیرانی ہوئی ، پوچھا کیا بات ہے کہ آج مجھے مدینہ میں مرد نظر نہیں آ رہے ہیں؟ بتایا گیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُحد کے پہاڑ پر کفار سے مقابلہ پیش آیا ہے، مسلمان وہاں جا چکے ہیں ،اس لئے ایسی ویرانی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔یہ دونوں مسلمان ہوۓ اور بکریاں چھوڑ کر میدانِ کار زار کی طرف روانہ ہو گئے ۔۔۔۔۔،ادھر میدان جنگ کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ جس وقت حضرت وہب بن قابوس رضی اللہ عنہ مسلمان ہو کر اپنے بھتیجے کے ساتھ ۔۔۔۔۔حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی خدمت اقدس میں پہنچے تو یہی حالت تھی کہ ۔۔۔۔۔۔۔مسلمانوں بالخصوص حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم پر کفار مسلسل حملہ آور ہو رہے تھے ،۔۔۔۔۔ یہ بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے قریب حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے دفاع کے لئے تیار ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں کفار کا ایک جتها حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے سامنے آ گیا ،۔۔۔۔۔۔حضرت وہب رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف تیر پھينکنے شروع کئے یہاں تک کہ وہ پھر گئے ،۔۔۔۔۔۔اس کے بعد دوسرا جتها آیا حضرت وہب رضی اللہ عنہ نے اب اپنی تلوار سنبھالی حتّٰی کہ وہ سب لوٹ گئے پھر ایک جماعت اور آئی ۔۔۔۔۔۔حضرت وہب مزنی رضی اللہ عنہ نے اپنی خدمات پیش کیں اس پر حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:((قـم وابـشـر بـالجنة))جنت کی بشارت کے ساتھ جاؤ ،

    اس فرمان پر وہ خوش وخرم یہ کہتے ہوئے اٹھے" اللہ کی قسم نہ کسی کو واپس ہونے دوں گا اورنہ خود  اپنی واپسی کی کوشش کروں گا‘‘ یہ کہہ کر کفار پر تلوار سے حملہ کرتے ہوۓ گھس گئے ۔ یہاں تک کہ آخری حد تک پہنچ گئے ۔مگر یہ کب تک لڑتے سینکڑوں زخم آ چکے تھے یہ تو  جنت کی بشارت اور ۔۔۔۔۔۔حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی محبت تھی جو اب تک لڑتے رہے ورنہ ان زخموں کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ۔۔۔۔ ان زخموں کے ساتھ بھی کوئی لڑ سکتا ہے ،۔۔۔۔۔بالآخر کفار نے گھیرا ڈال کر ان کو شہید کر دیا اور اپنا غصہ نکالنے کے لئے ان کا مثلہ کیا ( ناک،کان ، ہونٹ وغیرہ کاٹ دیئے )۔۔۔۔۔۔۔ آج حضرت وہب رضی اللہ عنہ کفار کے نرغے میں تھے، تیر و تلوار کی بارش میں وہ کفار کا مقابلہ کر رہے تھے اور اس بے جگری و جانبازی سے لڑ رہے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ جیسے بطل جلیل بھی کہ گئے کہ میں نے وہب جیسی دلیری اور بہادری کسی کی بھی کسی لڑائی میں نہیں دیکھی ۔۔۔۔۔ان کی شہادت کے بعد حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے اپنے دستِ مبارک سے ان کو کفنایا اور خود ہی دفنایا حالانکہ حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم خود  بھی زخمی تھے اور حُضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے لئے کھڑا ہونا دشوار تھا ۔۔۔۔۔۔۔مگر ان کی تدفین کے آخر تک کھڑے رہے ،۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو میں تو ان سے راضی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت وہب مزنی رضی اللہ عنہ نے اگر چہ اپنی زندگی میں زیادہ کارنامے انجام نہیں دیئے ،۔۔۔۔۔مگر پہلا اور آخری کارنامہ ایسا انجام دیا جس پر اکابر صحابہ تک رشک کرتے تھے ،۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کہ میری خواہش کہ میں اس عمل کے ساتھ اللہ تعالٰی کے ہاں پہنچوں ،۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہب کے عمل کے ساتھ اللہ تعالٰی سے ملاقات کی آرزو ہے۔ ۔۔۔۔۔۔یہ حضرت وہب بن قابوس المز نی رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے ایمان لانے کے بعد سوائے جہاد کے عمل اور۔۔۔۔۔۔۔ کوئی عمل نہ کیا مگر جہاد کے اس عمل سے انہیں جو اللہ و رسول کی رضا حاصل ہوئی اس نے انہیں اکابر صحابہ کی نظر میں قابل رشک بنایا۔(مظلوم کے آنسو صفحہ33-34)

(3)غزوه اُُحد میں حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کا آخری پیام:

اُحُد میں حـضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نےدریافت فرمایاکہ۔۔۔۔۔۔ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کا حال معلوم نہیں ہوا کہ۔۔ ۔۔۔۔۔ کیا گزری ۔ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو تلاش کے لئے بھیجا۔۔۔۔۔وہ شہداء کی جماعت میں تلاش کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ آوازیں بھی دے رہے تھے کہ شاید وہ زندہ ہوں پھر پکار کر کہا کہ ۔۔۔۔۔مجھےحضور صلی اللہ نے علیہ وسلم نے بھیجا ہے کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی خبر لاؤں تو ایک جگہ سے بہت ہی ضعیف آواز آئی...... یہ اس طرف بڑھے جا کر دیکھا کہ۔۔۔۔۔۔ سات مقتولین کے درمیان پڑے ہیں اور ایک آدھ سانس باقی ہے۔۔۔۔۔  جب یہ قریب پہنچے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا سلام عرض کر دینا۔۔۔۔۔۔۔....اور۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ اگر کافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے اور۔۔۔۔۔۔۔تم میں سے کوئی ایک آنکھ بھی چمکتی ہوئی رہے یعنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ زندہ رہا تو۔۔۔۔۔اللہ تعالٰی کے یہاں کوئی عذر بھی تمہارا نہ چلے گا اور......یہ کہہ کر جاں بحق ہوۓ ۔(الاصابة في تمييز الصحابة،سعد بن ربیع رضی الله عنه، ج3،ص49)

دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

AD Banner