AD Banner

{یہ کہنا کیسا ہے کہ میرے دیش کی دھرتی فتنہ اگلے؟}

 {234)

(یہ کہنا کیسا ہے کہ میرے دیش کی دھرتی فتنہ اگلے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ شعر کے بارے میں کہ زید کہتا ہے پہلے لوگ کہتے تھے۔

 میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے اگلے ہیرے موتی

میرے دیش کی دھرتی میرے دیش کی دھرتی

 لیکن میں  اب اس کو اس طرح پڑھتا ہوں 

میرے دیش کی دھرتی فتنہ اگلے اگلے یوگی مودی میرے دیش کی دھرتی میرے دیش کی دھرتی

 بکر کہتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ دھرتی کی شان میں گستاخی ہے اس طرح نہیں کہنا چاہئے،جبکہ زید کہتا ہے کہ یہ جملہ ’’دھرتی کی شان میں گستاخی‘‘ غلط ہے کیونکہ غیر مسلم دھرتی کی پوجا کرتے ہیں ہم نہیں ،آیا کون حق پر ہے ؟علمائے کرام جواب عنایت فرمائیں۔   المستفتی:۔ محمد رضوان گونڈہ

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجــــواب  اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 زید کا یہ کہنا کہ میرے دیش کہ دھرتی فتنہ اگلے اگلے یوگی مودی بالکل غلط ہے کیا اس نے یہ نہیں دیکھا کہ اس دھرتی پرعلمائے حق علمائے اہلسنت، پیران عظام و مفتیان کرام کی جماعت ہے اسی دھرتی پر اولاد رسول کی ذات ہے کیا یہ سب فتین ہیں( معاذ اللّٰہ رب العالمین)

 زید کو اپنے جملے سے رجوع کرناچاہئے اور توبہ کرنی چاہئے اوربکر کا یہ کہنا کہ یہ دھرتی(زمین) کی شان میں گستاخی ہے بیشک درست ہے کیونکہ ہمیں وطن سے محبت کرنے کا سبق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے اس لئے ہم جس دھرتی پر رہتے ہیں اس سے محبت کریں گے کیونکہ ہم اسی سے پیدا ہوئے اسی پر چلے بڑھے اور اسی کے اندر جانا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے مابین کو ئی انتقال کرتا ہے تو ہم مٹی دیتے وقت کہتے ہیں ’’مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی‘‘ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا اور اسی میں تمہیں پھر لے جا ئیں گے اور اسی سے تمہیں دوبا رہ نکالیں گے۔(کنز الایمان ،سورہ طہ ۵۵)

     زید کا یہ کہنا کہ دھرتی کی شان میں گستاخی والا جملہ پوچنا ہے یہ اس کی نادا نی و جہا لت ہے مثلا زید ایک عالم دین ہے بکر نے زید کو گالی دی عمر نے بکر سے کہا زید کی شان میں گستاخی نہ کرو اب اس کا مطلب یہ نہ ہو گا کہ عمر زید کو پوج رہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عمر زید سے محبت رکھتا ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ دھرتی کی شان میں گستاخی ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین سے محبت رکھتا ہے نہ کہ پوجا کرتا ہے ۔

     ہاں اگر بکر کہے کہ میرا عقیدہ پوجنا کے معنی میں ہے تو بیشک وہ کافر ہے لیکن جب تک سائل کے بارے میں نہ معلوم ہو تو کفر کا حکم نہیں لگا سکتے بلکہ بندۂ مؤمن پر حسن ظن ررکھنا چا ہئے  جیساکہ ارشاد ربانی ہے ’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَ یُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۔ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ‘‘اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان،سورۃ الحجرات آیت نمبر۱۲)

اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ایاکم والظن فان الظن اکذب‘‘ بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگما نی سب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔(صحیح البخاری کتاب الوصایا جلد ۱ ؍۳۸۴)

     اور یہ کہنا کہ دھرتی فتنہ اگلے یا درہے کہ دھرتی فتنہ نہیں اگلتی بلکہ لوگ فتنے والا کام کرکے خود فتنہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں مثلا گناہ کثرت سے کرنے لگتے ہیں تول میں کمی بیشی کرنے لگتے ہیں تو اللہ ان پر ظالم بادشاہوں کو مسلط کردیتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے’’ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھما قَالَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ  صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِہِنَّ وَأَعُوذُ بِاللہِ أَنْ تُدْرِکُوہُنَّ لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِی قَوْمٍ قَطُّ حَتَّی یُعْلِنُوا بِہَا إِلَّا فَشَا فِیہِمْ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِی لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِی أَسْلَافِہِمْ الَّذِینَ مَضَوْا وَلَمْ یَنْقُصُوا الْکَیْلَ وَالْمِیزَانَ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِینَ وَشِدَّۃِ الْمَئُونَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ وَلَمْ یَمْنَعُوا زَکَاۃَ أَمْوَالِہِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَائِ وَلَوْلَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوا وَلَمْ یَنْقُضُوا عَہْدَ اللہِ وَعَہْدَ رَسُولِہِ إِلَّا سَلَّطَ اللہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِّنْ غَیْرِہِمْ فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِی أَیْدِیہِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللہِ وَیَتَخَیَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللہُ إِلَّا جَعَلَ اللہُ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ. عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤگے اور میں اللہ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم ان میں مبتلاہوجاؤ، کسی بھی قوم میں جب کھلے عام گناہ ہوتا ہے تو ان میں طاعون اور بھوک کی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو ان کے پہلے لوگوں میں نہیں ہوئی ہوتیں، اور جب کوئی قو م پیمانہ اور تول کم کر دیتی ہے تو انہیں قحط،سخت مشقت اور ظالم بادشاہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور جب کوئی قوم اپنے مال کی زکاۃ روک لیتی ہے تو آسمان سے بارش رک جاتی ہے، اگر جانور نہ ہوں تو انہیں پانی کا ایک قطرہ نہ ملے، اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول(جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم) کا عہد توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ کوئی دوسرا دشمن مسلط کر دیتا ہے، تو وہ ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہوتا اس میں سے کچھ چھین لیتے ہیں۔ اور جب کسی قوم کے حکمران اللہ کی کتاب سے فیصلے نہیں کرتے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ انہیں آپس کے اختلافات میں مبتلا کر دیتا ہے۔(سلسلتہ الصحیح حدیث نمبر ۱۸۶۷)

      لہذازید پر لازم ہے کہ اپنے جملے سے رجوع کرکے توبہ کرلے اور ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک سے یعنی اپنے وطن سے اپنی زمین سے محبت کرے اسی میں بھلائی ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ 

فقیر تاج محمد قادری واحدی 


فتاوی مسائل شرعیہ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad