AD Banner

{ads}

اپریل فول منانا کیسا ہے؟


(بسم اللہ الرحمن الرحیم)

(لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلی الْکٰذِبِیْن)

جھوٹوں پر اللہ کی لعنت(کنز الایمان)




اپریل فول منانا کیسا ہے؟


ازقلم

خلیفۂ حضور ارشد ملت وخلیفۂ حضور منظور ملت 

مولانا تاج محمد حنفی قادری واحدی

مقام رضا گا ئیڈیہ پوسٹ چمرو پور تحصیل اترولہ ضلع بلرام پوریوپی(الہند)


(ناشرین)

اراکین مسائل شرعیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نگاہ اولین)

آ ج سے تقریباً پندرہ سو سال پہلے جہا لت اس قدر پھیلی ہو ئی تھی کہ جھوٹ ،دغا بازی ،عیا شی وغیرہ عام ہو چکی تھی ۔جھوٹ بولنے کو بہا دری اور ہو شیا ری کا کام سمجھا جا تا تھا ،لیکن جب پیغمبر اسلا م شکم آمنہ رضی اللہ عنہا سے دنیا میں تشریف لائے اور چو دہ سال کی عمر میں صدا قت کا ایسا جھنڈا لہرا یا کہ مکہ کے لوگ آپ کو امین وصادق کہنے لگے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے لگے پھر جب اعلان نبوت کا حکم ہوا تو آپ  ﷺ نے انہیں اللہ کا پیغام سنایا اور فرمایا کہ جھوٹ گناہ کبیرہ ہے جھوٹ بولنے سے بچو کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے جیسا کہ اللہ تعا لیٰ نے  قرآن مقدس میںارشاد فرمایا ہے( لَعْنَتُ اللّٰہِ عِلَی الْکٰذِبِیْنَ )یعنی جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ،نیز حدیث شریف میں رسول اللہ  ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ(اِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَا عَدَعَنْہُ الْمَلَکُ مِیْلاً مِنْ نَّتَنِ مَا جَائَ بِہٖ)یعنی جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بد بو سے (جواس کے منہ سے ا ٓ تی ہے)فرشتہ ایک میل دور ہو جا تا ہے ۔(مشکوۃ صفحہ، ۴۱۳؍باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم ،فصل ثانی)

مگر افسوس صد افسوس کہ آج ہم نبی پاک  ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں اور اپنے آپ کو غلام مصطفی  ﷺکہتے ہیں اس کے با وجود جھوٹ پر جھوٹ بو لتے ہیں خصو صا’’ اپریل فول ‘‘ منا نے میں اور یہ بلا اس قدر پھیل چکی ہے کہ جیسے مئی کے مہینہ میں کسی چیز کو آگ لگی ہو اور بجھنے کانام نہ لیتی ہو ٹھیک اسی طرح یہ بلا بڑھتی جارہی ہے اور لوگ ’’گناہ بے لذت ‘‘میں مبتلا ،ہو تے جا رہے ہیں ۔

حالانکہ یہو دیوں کی مشا بہت رکھنا ایمان کی ہلا کت کا سبب ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما سے روا یت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فر ما یا (مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْ مٍ فَھُوَ مِنْھُمْ)یعنی جو کسی قوم سے مشا بہت کرے گا تو وہ انہیں میں سے ہو گا ۔(رواہ ابو داؤد ،مشکوٰۃ صفحہ ۳۷۵ ،کتاب اللباس فصل ثا نی )

اور مراۃ المناجیح میں ہے کہ غرق فرعون کے دن سا رے فر عونی ڈوب گئے مگر فرعونیوں کا بہروپیہ بچ گیا تو موسیٰ علیہ السلام نے بار گاہ الٰہی میں عرض کی مولیٰ !یہ کیوں بچ گیا ؟فر مایا اس نے یہ تمہا را روپ بھرا ہوا تھا۔ (مراۃ المناجیح جلد ۶ صفحہ ۱۱۵)

معلوم ہوا کہ اچھوں کی مشا بہت فائد مند اور بخشش کا ذریعہ ہے اور بروں کی مشا بہت ہلا کت کا سبب ہے لہذا اس ’’گناہ بے لذت‘‘ سے دور رہنا چاہئے اللہ تعا لی ہر بند ۂ مو من و مؤ منہ کو سمجھنے کی تو فیق عطا فرما ئے۔آمین یارب العلمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

     حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول کریم  ﷺ نے فر مایاکہ جو شخص خلاف شرع دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے اور اگر ہاتھ سے رو کنے کی قدرت نہ ہو تو زبان سے منع کرے اور اگر زبان سے بھی منع کرنے کی قدرت نہ ہو تو دل سے برا جا نے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے ۔(مسلم جلد اول صفحہ ۵۱، باب الامر با لمعروف ،مشکوۃ ۴۳۶ فصل اول )

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا کہ لوگ جب کو ئی خلاف شرع دیکھیں اور اس کو نہ مٹا ئیں تو عنقریب خدا ئے تعا لیٰ ان کو اپنے عذاب میں مبتلا کرے گا ۔(ابن ما جہ ،جلد دوم صفحہ ۲۸۹ ،باب الامر بالمعروف ،مشکوۃ ۴۳۶؍فصل ثا نی)

انہیں احا دیث مبارکہ پر عمل کرتے ہو ئے میں نے قلم کو سنبھالاحالانکہ میں اس کا اہل نہیں تھا لیکن کچھ لو گوں کی فرمائش نے لکھنے پر مجبور کر دیا با لآخر پیرطریقت ،رہبر راہ شریعت ،شہزادۂ حضورطا ہر ملت ،سیدی ،مرشدی حضور سید سہیل میاں صاحب قبلہ مد ظلہٗ النوارانی کی دعا ؤں کا سہا را لے کر لکھنا شروع کر دیا یہاں تک کہ رسالہ ھذا مکمل ہوا ۔

میں شکر گزار ہوں استاذ المکرم والمحترم صو فی با صفا عالی وقار ما سٹر رحمت اللہ صا حب قبلہ آسوی ؔکا جنھوں نے بچپن سے فقیر کی پر ورش کرکے اس لا ئق بنایا اور اپنی دعاؤں سے نوا زتے رہے ۔ اورشکر گزار ہوں حضر ت علامہ مو لا نا محمد غزا لی صا حب قبلہ مصبا حیؔ کا کہ حضرت نے رسالہ ھذا کی نظر ثا نی کرکے اور کلمات خیرتحریرکرکے اسے زینت بخشی .اور شکر گزار ہوں حضرت علا مہ مو لانا الحاج مفتی غلام رضا صاحب قبلہ رضویؔ کا جنھوں نے اپنے بہترین مشوروں سے نوازا ۔اور شکر گزار ہوں عزیزم حا فظ غلام شیر رضا سلمہٗ کا جنھوں نے قرآن کی آیت مقدسہ کو حاصل کر نے میں میری بھر پور مددکی ۔اور شکر گزار ہوں مخیر قوم ملت عالی جناب سیٹھ صابر علی صاحب کا جو ہرموقع پر تعا ون فرما تے رہے۔

آخر میں اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ رسالہ ھذا میں کو ئی غلطی نظر آئے تو ’’واحدی کتب خا نہ‘‘ کو اطلاع دیکر شکریہ کا موقع دیں ۔ مو لیٰ کریم کی بار گاہ میں دعا ہے کہ جنھوں نے میری مدد کی یا رسالہ ھذا میں کسی قسم کا تعاون کیا اللہ تعا لی ان سبھی حضرات کے علم و عمر میں بر کتیں عطا فرمائے اور اجر عظیم و رزق حلال عطا فرما۔آمین بجاہ حبیبہ الکریم وسید المرسلین

دعاگو

مولانا تاج محمد حنفی قادری واحدی

۵ ربیع الاول ۱۴۳۸ مطا بق۵دسمبر ۲۰۱۶ بروز پیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نظر ثا نی)

ناشر مسلک اعلیٰ حضرت،حضرت علا مہ ومولانا محمد غزالی مصباحیؔ صاحب قبلہ دامت برکا تہم القدسیہ استاذ دارلعلوم اہلسنت حشمت الرضا جھلیہا اترولہ بلرام پور

حامدا اومصلیاً۔آج اس دور پر فتن میں مسلم نوجوان یہو دو نصا ریٰ کے تہذیب وتمدن پر فریفتہ نظر آرہے ہیں اوور ان کے تمام افعال کو اپنا نے کی ہر ممکن کو شش کرتے ہیں حالانکہ ان کو معلوم نہیں کہ ان کے تہذیب و تمدن کو اپنا نے کی وجہ سے ہم کتنی ہلا کتوں سے دو چار ہو نے والے ہیں اور ہم پر کس قدر تبا ہیاں مسلط ہو نے والی ہیں اور ان کے افعال قبیحہ کو اپنا نے کی وجہ سے ہم کس طرح گناہوں کے دلدل میں دھنستے ہو ئے چلے جا رہے ہیں ان کے انہیں افعال قبیحہ میں سے جن کو ہم اپنا چکے ہیں’’ اپریل فول‘‘ بھی ہے ۔

لہٰذا براد ران اسلام کو اپریل فول کی ہلا کتوں سے بچا نے کے لئے حضرت مو لانا تاج محمد واحدیؔ زیدہ مجدہٗ نے تمام مصروفیات کے با وجود انتھک کو شش کے ذریعہ اس رسالہ کو ترتیب دیا ۔

اللہ رب العزت کی با رگا ہ میں دعا ہے کہ مولیٰ کریم ان کی اس کا وش کو مقبول با رگاہ فرما ئے اور ملت بیضاکی حنا بندی کی مزید تو فیق عنا یت فرما ئے۔آمین بجاہ سید المرسلین علیہ و علیٰ اٰلہ وافضل الصلوۃ والتسلیم 

مولانا تاج محمد حنفی قادری واحدی

۴؍جمادی الثا نی ۱۴۳۸ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ الِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی  حَبِیْبِہِ سَیِّدِ الْاَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلَی اٰلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّا ہِرِیْنَ وَاَصْحَابِہِ الْاَکْرَمِیْنَ الْاَفْضَلِیْنَ الْاَ جْمَعِیْنَ ۔

 اما بعد

آج کل مسلمانوں کی حا لت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے فیشن پرستی اور اغیار کی تقلید میں نت نئی برا ئیاں مسلم معا شرے میں پھیلتی جا رہی ہیں انہیں برائیوں میں سے ایک اہم برا ئی ’’اپریل فول ‘‘ بھی ہے کہ یہ ایک خالص مغربی اور غیر اسلا می طریقہ ہے ۔

اپریل فول یعنی ہر سال اپریل کے مہینے کی پہلی تا ریخ کو ایک دوسرے کو بیوقوف بنا یا جا تا ہے ،جھوٹ بول کر موج مستی کی جا تی ہے ،فریب اوردغا سے کام لیا جا تا ہے ،وعدہ کے خلاف کیا جا تا ہے مثلاً اپنے دوست کو فون کر کے بتانا کہ آپ کے گھر میںآگ لگ گئی ہے یا آپ کے بیٹے کی طبیعت خراب ہے ،یا آپ فلاں مقام پر آکر ملیں میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں حالانکہ نہ تو کسی کی طبیعت خراب ہو تی ہے اور نہ ہی اور کو ئی حادثہ ہوتا ہے اور نہ ہی جس جگہ بلایا جا تا ہے وہاں ملاقات ہوتی ہے بلکہ بعد میں بتا یا جا تا ہے کہ ’’اپریل فول‘‘ منا کر میں نے آپ سے مذاق کیا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ جل شا نہ کا فرمان عا لی شان ہے(وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِاحْتَمَلُوْا بُھْتَا نًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا)اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستا تے ہیں انھوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا ۔(پارہ ۲۲؍ سورہ احزاب ۵۸)

اور مشکوۃ میں حضرت سفیان بن اسد حضرمی رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے فر ما تے ہیں میں نے رسول کریم  ﷺ کوفر ما تے سنا کہ بری خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھا ئی سے کو ئی بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں جھوٹا ہے۔(مشکوۃ صفحہ ۴۱۲،باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم ،فصل ثانی)

اور بعض جگہوں پرنو جوان ایسا بھی کرتے ہیں کہ پانچ ، دس رو پئے کے سکے میں fevi queqe (گوند )لگا کر سڑک پر چپکا دیتے ہیں اور جب کوئی اسے اٹھانا چا ہتا ہے تو اس کا مذا ق اڑاتے ہیں یا پھر دس ،بیس کے کا غذ والے نوٹ میں با ریک دھا گا باندھ کر سڑک پر رکھ دیتے ہیں اور جب کو ئی اسے اٹھا نا چاہتا ہے تو دھا گے کو اپنی جا نب کھینچ کرمذاق اڑاتے ہیں گو یا یہ ایک قسم کالہو ولعب ہے حالانکہ لہو ولعب کے متعلق ہم سب کا پر وردگار فرماتا ہے(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ٭ وَّیَتَّخِذَ ھَا ھُزُوًا٭ اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ)اور کچھ لوگ کھیل کی با تیں خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکا دیں بے سمجھے اور اسے ہنسی بنا لیں انکے لئے ذلت کا عذاب ہے ۔  (پارہ ۲۱ سورہ لقمان ۶) 

حدیث شریف میں ہے(۱)( وعن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده قا ل قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ويل لمن يحدث فيكذب ليضحك به القوم ويل له ويل له . رواه أحمد والترمذي وأبو داود والدارمي‘‘)حضرت بہز ابن حکیم اپنے والد (حکیم ابن معاویہ) سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن عبدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افسوس اس شخص پر جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے، افسوس اس شخص پر افسوس اس شخص پر۔ (سنن ابوداؤدحدیث نمبر ۴۹۹۰،مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر۴۷۳۷)

(۲)وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن العبد ليقول الكلمة لا يقولها إلا ليضحك به الناس يهوي بها أبعد ما بين السماء والأرض وإنه ليزل عن لسانه أشد مما يزل عن قدمه . رواه البيهقي في شعب الإيمان ‘‘)اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ ایک بات کہتا ہے اور صرف اس لئے کہتا ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے تو وہ اس بات کی وجہ سے (دوزخ میں) جا گرتا ہے اور اتنی دور جا گرتا ہے جو زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بندہ اپنے قدموں کے ذریعہ پھسلنے سے زیادہ اپنی زبان کے ذریعہ پھسلتا ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر۴۷۳۸)

((۳)حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ يَرْفَعُهُ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لَا يُرِيدُ بِهَا بَأْسًا إِلَّا لِيُضْحِكَ بِهَا الْقَوْمَ فَإِنَّهُ لَيَقَعُ مِنْهَا أَبْعَدَ مِنْ السَّمَاءِ‘‘)حضرت ابوسعید خدری (رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا بعض اوقات انسان کوئی بات منہ سے نکالتا ہے، اس کا مقصد صرف لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے، لیکن وہ کلمہ اسے آسمان سے بھی دور لے جا کر پھینکتا ہے۔( مسند احمد حدیث نمبر۱۰۹۰۳)

ان مذکورہ آیات کریمہ و احادیث نبویہ سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بو لنا گناہ کبیرہ و ہلاکت کا سبب ہے لہذا مسلمانوں کو چا ہئے کہ اس سے دور رہیں مگر افسوس کہ پہلے یو رپ ،امریکہ ،اور دیگر مما لک میں لوگ’’ اپریل فول ‘‘بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے اور ایک دوسرے کو بیوقوف بنا کر لطف اندوز ہو تے تھے مگر اب ہما رے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بھی’’ اپریل فول‘‘ منانے کا رواج شروع ہو ا بعد میں مو با ئل کی کثرت کی وجہ سے دیہاتوں میں بھی یہ بلا نا زل ہونے لگی ۔ اور کفار و مشرکین کی طرح اب مسلمانوں میں بھی ’’اپریل فول ‘‘ منا نے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے ماڈرن گھرا نے کے مسلمان بھی جھوٹ بول کر ایک دوسرے کو بیوقوف بنا کر خوب موج مستی کرتے ہیں اور زور دار قہقہہ لگا تے ہیں ۔

کیا ہو گیاسرکار غلاموں کو تمہا رے 
اغیار کے فیشن کی نحوست نہیں جاتی

جب مو با ئل عام نہیں ہوا تھا تو یہ بلا ’’ اپریل فول‘‘  منانا بھی مسلمانوں میں عام نہیں ہو ئی تھی بعض لوگ اس معصیت میں مبتلا تھے اسکول اور کا لج میں پڑھنے والے مسلم لڑکے اور لڑکیاں ہی ’’ اپریل فول‘‘ منا نے میں دلچسپی رکھتے تھے مگر اب صورت حال با لکل مختلف ہے مو با ئل کیا آیا مصیبت آگئی ،مو با ئل کی کثرت اور اس کا استعمال عام ہو نے کی وجہ سے اب’ ’’ اپریل فول‘‘ منانے کا رواج بھی مسلمانوں میں عام ہو تا جا رہا ہے مو با ئل کے ذریعہ مسلمان بڑی آسانی کے سا تھ اس ’’گناہ بے  لذت ‘‘ میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپریل فول کیوں منا یا جا تا ہے ؟

  ’’ اپریل فول‘‘ یہودی خاص طور سے منا تے ہیں اس لئے کہ اپریل کی پہلی تاریخ کویہودیوں نے اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام کو ستا یا تھا اور طرح ،طرح سے آپ کا مذاق اڑا یا تھا ۔صدیاں گزر جا نے کے با وجود بھی یہودی ایک دوسرے کو بے وقوف بنا کر اورمذاق اڑا کر اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔نعوذ با اللہ من ذٰلک(موبا ئل فون کے ضروری مسا ئل صفحہ ۹۳) 

اپریل فول منانا کیسا ہے ؟

’’ اپریل فول‘‘ خواہ موبائل فون کے ذریعہ منا یا جا ئے یا بغیر مو با ئل کے سراسر نا جا ئز و حرام ہے اور اگر یہ نیت ہو کہ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑایا گیا تھا اس لئے ہم کررہے ہیں تو یہ کھلا ہوا کفر ہے ۔

یاد رہے کہ ’’ اپریل فول‘‘  منا نے میںچھ(۶) قسم کے گناہ صادر ہو تے ہیں ۔ (۱) اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں تو ہین کر نا (۲)یہود و نصا ریٰ کی پیروی کرنا(۳)جھوٹ بو لنا (۴) مذاق اڑانا(۵)وعدہ کے خلا ف کر نا(۶) مسلمان کو ایذا پہونچانا۔

اب ہم ان مذکورہ بالاوعیدوںکو قرآن و احا دیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں بغور ملاحظہ فر ما ئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیاانبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں تو ہین کرناکفر ہے؟

برادران اسلام ! ’’ اپریل فول‘‘ منا نا گو یا اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام کامذاق اڑانا ہے اور آپ کی شان میں گستاخی کرنا ہے حالانکہ کسی بھی پیغمبرکی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کرنا کفر ہے جیسا کہ فقہ کی مشہور و معروف ومعتمد کتاب فتاوی عالمگیری میں ہے کہ جو انبیائے کرام علیہم السلام کے بال شریف کو ’’بلوا ‘‘تصغیر کے صیغے کے ساتھ کہہ دے تو وہ کا فر ہو جا ئے گا۔

بیان کیا جا تا ہے کہ جب یہو دیوں نے یہ طے کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دے دی جائے اورانھوں نے پھا نسی کا تختہ بھی کھڑا کر لیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام رو پوش ہو گئے ان کے حوارین میں ’’یہوذا‘‘ نامی ایک منا فق تھا اس نے نشا ند ہی کی یہو دیوں نے اس مکان کو جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے گھیر لیا یہوذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سا تھ تھا ،حضرت جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سا تھ رہتے تھے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر لے کر چلے گئے اور یہوذا کی شکل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مثل کر دی گئی یہودی اس کو پکڑ لے گئے اور پھانسی دے دی ۔(نذہۃ القا ری جلد سوم ص ۵۴۸)

      حضرات محترم ! مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستا خی کر نے کے سبب اللہ نے یہوذا کو انہیں یہودیوں سے ہلاک کرادیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا۔

اور نذہۃ المجالس میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بچوں کے ساتھ جب کبھی بیٹھتے تو انہیں گھر میں پو شیدہ چیزوں کو بتا دیا کرتے لڑ کے اپنے والدین سے ان اشیاء کا مطا لبہ کرتے کہ فلاں فلاں چیز یںکہاں ہیں والدین ان سے کہتے تجھے کیسے خبر ہو ئی وہ کہتے ہمیں حضرت عیسی علیہ السلام نے خبر دی ہے لو گوں نے اپنے لڑکوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آنے سے روکا جب بضد ہو ئے تو ان تمام کو ایک مکان میں بند کر دیا حضرت عیسی علیہ السلام آئے اور لو گوں سے لڑکوں کی با بت پو چھا اور فرمایا کہ اس مکان میں کیا ہے لوگ کہنے لگے اس گھر میں تو سوائے بندروں اور خنزیر وں کے کچھ نہیں آپ نے فرمایا اچھا پھر ایسا ہی ہو گا لوگوں نے مکان کا در وازہ کھو لا تو تمام لڑکے بندر اور سور بن چکے تھے ۔العیاذ باللہ۔ (نذہۃ المجالس مترجم جلد دوم صفحہ ۷۴۴)

محترم حضرات !آپ نے دیکھاکہ سیدناعیسی علیہ السلام کا وہ مقام ہے کہ آپ کے پاس بچوں کو آنے سے رو کاگیا اور آپ سے جھوٹ بولا گیاتو آپ کی بدعا سے اللہ نے انہیں بندر اور سور بنا دیا ۔استغفر اللہ 

لہٰذا انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں گستاخی کرنے سے بچو ور نہ ایمان سے محروم ہو جا ؤ گے۔ اسی طرح قرآن مقدس میں کئی آ یات کریمہ ہیں جن سے یہ ظا ہر ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں تو ہین کر نے والے کا فر ہو گئے اور ان کاایمان بر باد ہو گیاجیسا کہ تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ غزوۂ تبوک میں جاتے ہو ئے منافقین کے تین نفروں میں سے دو رسول کریم ﷺ کی نسبت تمسخرا کہتے تھے کی ان کا(نبی کریم ﷺ کا ) خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجا ئیں گے کتنا بعید خیال ہے اور ایک نفر بو لتا تو نہ تھا مگر ان با توں کو سن کر ہنستا تھا حضور  ﷺ نے ان کو طلب فر ماکر ار شاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے انہوں نے کہا کہ ہم را ستہ کاٹنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پردل لگی کی با تیں کر رہے تھے ،اس پر آ یت کریمہ نازل ہو ئی(قُلْ اَبِا للّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِؤُوْن٭  لَا تَعْتَذِرُوْ قَدْکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانُکُمْ)تم فر ما ؤکیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔بہانے نہ بناؤ تم کا فر ہو چکے مسلمان ہو کر۔(پارہ ۱۰؍سورہ تو بہ۶۵؍ ۶۶)

اور دوسرے مقام پر ارشاد با ری تعا لی ہے(وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَھُمْ عَذابٌ اَلِیْمْ)اور جو اللہ کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے درناک عذاب ہے ۔(پارہ ۱۰سورہ تو بہ ۶۱)

اور فرماتا ہے(اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْ ذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْ لَہٗ لَعْنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَھُمْ عَذَا بًا مُّھِیْنًا)بے شک جوایذا دیتے ہیں اللہ اور اسکے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آ خرت میں اور اللہ نے ان کےلئے ذلت کا عذا ب تیار کر رکھا ہے ۔(پا رہ ۲۲سورہ احزاب ۵۷)

حضرات محترم !بعض لوگ اس طرح کے گناہ کرتے رہتے ہیں اورا نہیں دنیا وی تکلیف نہیں پہونچتی پھر ان کے د ل میںیہ خیال آتاہے کہ میں جو کرتا ہوں یہی بہتر ہے اگر یہ بہتر نہ ہو تا تو کو ئی نہ کو ئی پریشا نی ضرور آتی ،حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ جب کو ئی تکلیف نہ پہو نچے تو یہ گمانہ کیا جائے کہ یہ کام بہتر ہے اس لئے کہ اللہ تبا رک و تعا لی بعض کودنیا میں سزا دیتا ہے اور بعض کو آخرت کے عذاب میں مبتلا کرے گا جیسا کہ قرآن مجید وفر قان حمید میں ہے کہ فرعونیوں نے موسی علیہ السلام کی تکذیب کی تو اللہ نے انہیں ڈھیل دی پھرعذاب آخرت میں مبتلا فرمایاچنانچہ فرماتا ہے(وَکُذِّبَ مُوْسیٰ فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْ تُھُمْ فَکَیْفَ کَا نَ نَکِیْرِ)اور مو سیٰ (علیہ السلام)کی تکذیب ہو ئی تو میں نے کا فروں کو ڈھیل دی پھر انہیں پکڑا تو کیسا ہوا میرا عذاب ۔(کنز الایمان پا رہ ۱۷؍ سورہ حج ۴۴)

لہٰذا انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں گستاخی کرنے سے پرہیز کرو بلکہ انکی تعظیم و توقیر کرو کہ یہی ذریعہ نجات ہے جیسا کہ ارشاد با ری تعا لیٰ ہے(وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِی وَعَزَّرْتُمُوْ ھُمْ وَاَقَرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرَضًا حَسَنًا لَّاُ کَفِّرَ نَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَ نْھٰرُ)اور میرے رسولوں پر ایمان لا ؤاور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو بے شک میں تمہا رے گناہ اتار دو نگا اور ضرور تمہیں با غو ں میں لے جا ؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔(کنز الایمان پا رہ ۶؍ سو رہ ما ئدہ ۱۲)

اور فرماتا ہے(لِتُؤْمِنُوْا بِا للّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّ رُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ ٭وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًا)اے لوگو !تم اللہ اور اس کے رسول (جل جلا لہ و  ﷺ )پر ایمان لا ؤ اور رسول کی تعظیم و تو قیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔ (کنز الایمان پا رہ ۲۶؍سورہ فتح ۹)

اے پیارے مصطفی  ﷺ کے شیدا ئیو! یہ تصور کبھی ہر گز نہ کرنا کہ ہم تو نبی کریم  ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں ہمیں عیسیٰ علیہ السلام سے کیا تعلق وہ تو عیسا ئیوں کے پیغمبر ہیں بلکہ یہ عقیدہ رکھنا کہ سب انبیائے کرام علیہم السلام ادب و تعظیم میں برابر ہیں اور ہمیں سب پر ایمان رکھنا لازم ہے پھر جو ایسا کیا یعنی سب انبیائے کرام سے محبت رکھا اور ان کی تعظیم کی تو بیشک وہ اجر عظیم کا مستحق ہے کیونکہ فرمان حق تعالی ہے(وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِا للّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ یُفَرَّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍمِّنْھُمْ اُوْلٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْ تِیْہِمْ اُجُوْ رَھُمْ ٭وَکَا نَ اللّٰہُ غَفُوًا رَّحِیْمًا )اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لا ئے اور ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہ کیا انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(کنز الایمان پا رہ ۶ ؍ نسا ء ۱۵۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہود یوں کی پیروی کر ناکیسا ہے ؟

’’ اپریل فول‘‘  منانا یہود یوں کی پیروی کر نا ہے حالاں کہ یہود یوں کی پیروی ناجائز و حرام ہے اوران کی پیروی کرنا ہمارے لئے ہلاکت کا سبب ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی کریم  ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص کے با رے میں کیا فر ما تے ہیں جو کسی قوم سے محبت کرے اور ان سے ملا نہ ہو ؟ تونبی پاک  ﷺ نے ارشاد فر ما یا کہ وہ اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرے۔(مشکوۃ صفحہ ۴۲۵؍باب الحب فی اللہ و من اللہ فصل اول )

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ!(صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) قیا مت کب آ ئے گی ؟ حضور  ﷺ نے فرمایا افسوس تجھ پر تو نے اس کے لئے کیا تیا ری کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے کو ئی تیا ری نہیں کی بجز اس کے کہ میں اللہ و رسول (جل جلالہ و  ﷺ) سے محبت کرتا ہوں تو حضور  ﷺ نے فر ما یا (اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ)یعنی تو اس کے ساتھ ہو گا جس سے تجھے محبت ہے ۔(متفق علیہ ،مشکوۃ فصل اول صفحہ ۴۲۶؍باب الحب فی اللہ و من اللہ فصل اول)

اورحضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فر مایا (اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحْبَّ) یعنی انسان اسی کے سا تھ ہو گا جس سے وہ محبت کرے۔ (ایضا فصل ثا نی)

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما سے روا یت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فر ما یا(مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْ مٍ فَھُوَ مِنْھُمْ)یعنی جو کسی قوم سے مشا بہت کرے گا تو وہ انہیں میں سے ہو گا ۔(رواہ ابو داؤد ،مشکوٰۃ صفحہ ۳۷۵ ،کتاب اللباس فصل ثا نی )

ان احا دیث طیبہ سے ثا بت ہوا کہ جب کوئی بندہ کسی بندے سے یا قوم سے محبت کرے (انکی پیروی کرے)تو اس کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا اگر چہ ان سے ملا نہ ہو، انہیں دیکھا نہ ہو۔اور اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت رضی اللہ تعا لی عنہ فر ما تے ہیں کہ آدمی جس حال پر مرتا ہے اسی حال پر اٹھتا ہے۔ اگر روزقیامت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ مجوس کی صورت(یا یہودیوںکی پیروی) دیکھ کر نگاہ فرمانے سے کراہیت فرمائی تو یقین جان کہ تیرا ٹھکاناکہیں نہ رہا، مسلمان کی پناہ، امان ،نجات، رستگاری جو کچھ ہے ان کی نظر رحمت میں ہے، اللہ کی پناہ اس بری گھڑی سے کہ وہ نظر فرماتے کراہیت لائیں۔ والعیاذ باللہ ارحم الراحمین، (فتاوی رضویہ جلد ۲۲ص۶۴۸ دعوت اسلامی)

سب نے  صف  محشرمیں  للکار دیا ہم کو      

اے بے کسوں کے آقااب تیری دہائی ہے

اور شاعر کہتا ہے ۔

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر  کے رہے 

لہٰذا ان خرافاتوں سے دور رہو اور یہودو نصاریٰ و مشرکین کی پیروی کرنے کے بجا ئے ان کی مخالفت کرو جیسا کہ احادیث طیبہ میںوارد ہے ۔

 (۱)‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ)حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما)سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فرمایا تم مشرکین کے خلاف کرو، داڑھی چھوڑ دو(ایک مشت تک) اور مونچھیں کترواؤ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر۵۸۹۲۔السنن الکبریٰ جلد اول صفحہ؍ ۱۵۱ )

(۲)عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَوْفُوا اللِّحَی‘‘)حضر ت عبد اللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مشرکوں کی مخالفت کیا کرو مونچھیں کتروا کر اور داڑھی کو بڑھا کر۔(صحیح مسلم حدیث نمبر۶۰۲)

(۳) عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ حِينَ صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَنَا بِصِيَامِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ صُمْنَا يَوْمَ التَّاسِعِ‘‘)عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور ہمیں بھی اس کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا اللہ کے رسول ! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا اگلے سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے ، (یہودیوں کی مخالفت کریں گے)( سنن ابوداؤدحدیث نمبر۲۴۴۵۔ مشکوۃ ص۱۷۸؍باب وصیام التطوع ؍فصل اول)

((۴) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ شَهِدْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَّى بِجَمْعٍ الصُّبْحَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَقَفَ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَشْرِقْ ثَبِيرُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّأَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ)ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے، انہوں نے عمرو بن میمون کو یہ کہتے سنا کہ جب عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ ) نے مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھی تو میں بھی موجود تھا، نماز کے بعد آپ ٹھہرے اور فرمایا کہ مشرکین (جاہلیت میں یہاں سے) سورج نکلنے سے پہلے نہیں جاتے تھے کہتے تھے اے ثبیر ! (سورج) تو چمک جا۔ نبی کریم  ﷺ  نے مشرکوں کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہوگئے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر۱۶۸۴)

ان احادیث طیبہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں ہر فعل میں یہودیوں مجوسیوں نصرانیوں مشرکوںکی پیروی کرنے کے بجا ئے انکی مخالفت کرنی چا ہئے۔ اگر وہ اپریل فول مناکر قوم کو دھو کہ دیتےہیں تو ہمیں منانے کے بجا ئے روکنا چا ہئے مگر افسوس صد افسوس کہ مسلمان بھی ان کی پیروی میںلگ گئے صحیح فرمایا تھا پیغمبر اسلام نے ( ’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏الْيَهُودُ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّصَارَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: فَمَنْ)تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ(چھپکلی سے ملتا جلتا ایک جا نور ہے اس ) کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے (راوی حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے)پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں ؟ فرمایا پھر اور کون؟( یعنی وہی مراد ہیں )۔(صحیح بخاری حدیث نمبر ۷۳۲۰)

  حضرات محترم !اس حدیث پاک سے با لکل ظا ہر ہے کہ یہود و نصا ری جو بھی طریقہ اختیار کریں گے ان کی پیروی میں بعض مسلمان بھی وہی طریقہ اپنا ئیں گے ۔ٹھیک وہی ہو رہا ہے کہ یہود ونصا ری ایک زما نہ سے ’’ اپریل فول‘‘ منارہے ہیں تو یہود و نصا ری کی تقلید کرتے ہو ئے اب مسلمان بھی ’’ اپریل فول‘‘  بڑے زور وشور سے منا نے لگے ہیں ۔

آج سے چودہ سو سال پہلےسچ فر مایا تھا نبی کریم  ﷺ نے کہ اگریہودونصاری گوہ کے سوراخ میں گھس جا ئیں گے تو تم بھی ان کی پیروی کرتے ہو ئے گوہ کے سوراخ میں گھس جاؤگے آج کا مسلمان ٹھیک اس حدیث کی عملی تفسیر اور ظا ہری نمو نہ بنا ہوا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ کفار و مشرکین یہود ونصا ری مسلما نوں کی سیرت و صورت اور تہذیب و معاشرت نہیں اختیار کرتے اور ہم مسلمان ہو کر یہود ونصاری کی صورت و سیرت اپنا نے کے سا تھ ،سا تھ انکی تہذیب اور معا شرت بھی اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں یہ ایمان کی کمزوری نہیں تو اور کیا ہے ۔اللہ تعا لی اپنے پیا رے حبیب نبی کریم  ﷺ کے صدقہ و طفیل ہر مسلمان مرد وعورت کو سمجھنے کی تو فیق عطا فر ما ئے اور ہمیں یہود ونصاریٰ کی پیروی سے محفوظ رکھے اور اغیار کے فیشن سے بچا ئے ۔اٰمین ثم اٰمین 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جھوٹ بو لنا کیسا ہے ؟

’’ اپریل فول‘‘ منا نے میں جھوٹ بھی بو لنا پڑتا ہے جو کہ آیات قرآنیہ واحا دیث نبویہ کے خلاف اور نا جا ئز و حرام ہے۔

  جھوٹ ایسی بری چیزکہ ہر مذہب والے اس کی برا ئی کرتے ہیں تمام ادیان میں یہ حرام ہے اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی ہے قرآن و احادیث میں بہت مواقع پر اس کی مذ مت فرمائی گئی ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے(لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ) یعنی جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ۔(کنز الایمان ۔پارہ۳اٰل عمران ۶۱)

مگر افسوس صد افسوس کہ لوگ ’’گناہ بے لذت ‘‘میں مبتلا ہو کر ’’ اپریل فول‘‘ کے نشہ میںآ کر اس قدر جھوٹ بو لتے ہیں کہ قرآن و احا دیث کو بھول جاتے ہیں یہی نہیں بلکہ جھو ٹی قسمیں بھی کھا نے لگتے ہیں جب کہ جھوٹی قسم کھا نے وا لوں کے لئے در دناک عذا ب ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے(اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ  تَوَ لَّوْا قَوْ مًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ  ٭مَا ھُمْ مِّنْکُمْ وَلَا مِنْہُمْ وَ یَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ ٭اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ عَذَا بًا شَدِیْداً)کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو ایسوں کے دوست ہو ئے جن پر اللہ کا غضب ہے وہ نہ تم میں سے نہ ان میں سے وہ دا نستہ جھو ٹی قسمیں کھا تے ہیں اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے ۔(کنز الایمان ۔پا رہ ۲۸؍سورہ المجا دلہ ۱۴؍۱۵)

اور بعض لوگ کفران نعمت کرتے ہیں اور کذب بیانی سے کام لیتے ہیںکہتے ہیں کہ طبیعت خراب ہے کبھی کہتے ہیں کہ گھر میں آگ لگ گئی ہے تو کبھی کہتے ہیں کہ انتقال ہو گیا جب کہ کچھ نہیں ہو تا ہے ایسوں کو تو اپنے رب کی نعمت کا چرچا کرنا چاہئے جیسا کہ فرمان خدا وندی ہے (وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ)اپنے رب کی نعمت کا خوب چر چا کرو ۔(پارہ ۳۰؍سورہ والضحیٰ ۱۱)

اور دوسری جگہ فرماتا ہے(فَا ذْکُرُوْنِیٓ اَذْ کُرْ کُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ)تو میری یاد کر میں تمہارا چر چا کروں گا اور میراحق مانواور میری نا شکری نہ کرو۔(کنز الایمان ۔پارہ ۲؍سورہ بقرہ ۱۵۲)

لیکن افسوس صد افسوس کہ اپنے رب کی نعمتوں کاچرچا کر نے کے بجائے رب پر جھوٹ با ندھتے ہیں جب کہ فرمان رب ذوالجلال ہے(وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ)اس سے بڑھ کر ظا لم کو ن جو اللہ پر جھوٹ با ندھے۔(کنز الایمان ۔پا رہ ۲۸ سورہ صف ۷)

     دوسرے مقام پر فرماتا ہے(فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِباً) تواس سے بڑھ کر ظا لم کو ن جو اللہ پر جھوٹ باندھے ۔(کنز الایمان ۔پا رہ ۱۱؍سورہ یونس ۷ا)

اور فرماتا ہے(فَمَنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبَ مِنْ بَعْدیِ ذٰلِکَ  فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْن)تو اسکے بعدجو اللہ پر جھوٹ با ندھے تووہی ظالم ہیں۔(کنز الایمان ۔پا رہ ۴؍سورہ ال عمران ۹۴)

اے پیا رے مصطفی  ﷺ کے غلامو! جھوٹ بولنے اوراس کی عادت ڈالنے اور ’’ اپریل فول‘‘ منانے سے بازآجاؤورنہ عذاب الٰہی میں گرفتار کئے جا ؤ گے جیسا کہ فرمان واحد قہار ہے(سَیَعْلَمُوْنَ غَدًمَّنِ الْکَذَّابُ الْاَشِرُ)بہت جلد کل جان جائیں گے(یعنی عذاب میں مبتلا کئے جا ئیں گے کہ) کون تھا بڑا جھوٹا اترونا ۔(کنز الایمان ۔پا رہ ۱۷؍ سورہ حج ۴۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احا دیث مبار کہ 

(۱)‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان ، باب منافق کی نشانیوں کابیان حدیث نمبر۳۳)

(۲)( ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا، ‏‏‏‏‏‏اؤْتُمِنَ خَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَش) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ  (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب  (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔(صحیح بخاری کتاب الایمان ، باب منافق کی نشانیوں کابیان حدیث نمبر۳۴)

(۳) ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا أَوْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ أَرْبَعَةٍ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا:‏‏‏‏ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا خَاصَمَ فَجَر)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں بھی وہ ہوں گی، وہ منافق ہوگا۔ یا ان چار میں سے اگر ایک خصلت بھی اس میں ہے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب معاہدہ کرے تو بےوفائی کرے، اور جب جھگڑے تو بد زبانی پر اتر آئے۔ (صحیح بخاری کتاب: گری پڑی چیز اٹھانے کا بیان،حدیث نمبر۲۴۵۹)

(۴)‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَرْبَعُ خِلَالٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَنَّ مُنَافِقًا خَالِصًا مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا)ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے عبداللہ بن مرہ نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا، چار عادتیں ایسی ہیں کہ اگر یہ چاروں کسی ایک شخص میں جمع ہوجائیں تو وہ پکا منافق ہے۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے، تو وعدہ خلافی کرے، اور جب معاہدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے۔ اور جب کسی سے لڑے تو گالی گلوچ پر اتر آئے اور اگر کسی شخص کے اندر ان چاروں عادتوں میں سے ایک ہی عادت ہے، تو اس کے اندر نفاق کی ایک عادت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔( صحیح بخاری کتاب: جہاد اور سیرت رسول اللہ  ﷺحدیث نمبر۳۱۷۸)

(۵)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْ دٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صِدِّيقًا وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ كَذَّابًا)حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا سچائی کو اپنے اوپر لازم کرلو، کیونکہ سچ نیکی کی راہ د کھاتا ہے اور نیکی جنت کی راہ دکھاتی ہے اور انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ گناہ کا راستہ دکھاتا ہے اور گناہ جہنم کی راہ دکھاتا ہے اور انسان مسلسل جھوٹ بولتا اور اسی میں غور و فکر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے( مسند احمدکتاب: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرویات حدیث نمبر۳۴۵۶)

(۶)عَنْ  بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عن جده ، قَالَ : قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : وَيْلٌ لِمَنْ يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ )حضرت بہز بن حکیم بواسطہ اپنے والد معاویہ کے اپنے دادا حیدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئےاپنے بیان میں جھوٹ بولے، اس پر افسوس اس پر افسوس۔ (مسند احمد، جامع ترمذی،، دارمی،سنن ابوداؤدادب کا بیان حدیث نمبر۴۹۹۰؍مشکوۃ صفحہ ۴۱۲،باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم ،فصل ثانی)

(۷)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيح)حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سچ بولو، اس لئے کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتا ہے، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔(جامع ترمذی ، نیکی و صلہ رحمی کا بیان حدیث نمبر۱۹۷۱)

(۸)عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏  إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَكُ مِيلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ يَحْيَى:‏‏‏‏ فَأَقَرَّ بِهِ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ هَارُونَ)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  ﷺ نے فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور بھاگتا ہے ۔(جامع ترمذی ص ۴۱۳؍نیکی و صلہ رحمی کا بیان حدیث نمبر۱۹۷۲)

(۹)وعن صفوان بن سليم أنه قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم أيكون المؤمن جبانا ؟ قال نعم . فقيل أيكون المؤمن بخيلا ؟ قال نعم . فقيل أيكون المؤمن كذابا ؟ قال لا . رواه مالك والبيهقي في شعب الإيمان مرسلا)اور حضرت صفوان ابن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے آپ نے فرمایا ہوسکتا ہے پھر آپ سے پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے آپ نے فرمایا ہوسکتا ہے پھر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بہت جھوٹا ہوسکتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں اس روایت کو مالک نے اور بہیقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،صفحہ ۴۱۴،فصل ثا لث،آداب کا بیان،حدیث نمبر۴۷۶۱)

(۱۰)(وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن العبد ليقول الكلمة لا يقولها إلا ليضحك به الناس يهوي بها أبعد ما بين السماء والأرض وإنه ليزل عن لسانه أشد مما يزل عن قدمه . رواه البيهقي في شعب الإيمان)اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ ایک بات کہتا ہے اور صرف اس لئے کہتا ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے تو وہ اس بات کی وجہ سے (دوزخ میں) جا گرتا ہے اور اتنی دور جا گرتا ہے جو زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بندہ اپنے قدموں کے ذریعہ پھسلنے سے زیادہ اپنی زبان کے ذریعہ پھسلتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، آداب کا بیان،حدیث نمبر۴۷۳۸)

(۱۱)حضرت قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں( وَسَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ مُجَانِبٌ لِلْإِيمَانِ)حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا کہ جھوٹ سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ ایمان سے الگ ہے۔(مسند احمد،حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مرویات حدیث نمبر۱۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان احا دیث طیبہ سے مندر جہ ذیل با تیں معلوم ہو ئی

(۱) سچ بولنے والا اور اس کی عادت بنا نے والا رب کے نزدیک صدیق لکھا جا تا ہے اور صدیق کا ٹھکانا جنت ہے اور جو جھوٹ بولنے کی عادت بنا لیتا ہے رب کے نزدیک وہ کذاب لکھ دیا جا تا ہے اور اس کے لئے سخت عذابو ں کی وعید ہے ۔

(۲) جھوٹ بول کر ہنسا نا جیسا کہ ’’ اپریل فول‘‘ منا نے والے کرتے ہیں ایسے لوگوں کے با رے میں نبی پاک  ﷺ نے فرمایا خرا بی ہے خرا بی ہے(یعنی درد ناک عذاب ہے )

(۳)جھوٹ بو لنے سے جو بد بو منھ سے نکلتی ہے اس سے فرشتے ایک میل دور ہوجاتے ہیں ( یعنی اس سے رحمت دور ہو جا تی ہے اوروہ رحمت سے محروم ہو جاتا ہے)

(۴)جھوٹ بو لنا گو یا امانت میں خیانت کر نا ہے ۔

(۵) مومن جھوٹانہیں ہو سکتا (یعنی جھوٹ کی عادت بنا نا مومن کی شان نہیں)

(۶) جھوٹ بولنا ایمان کو بر باد کر نا ہے ۔

(۷) مذاق میں بھی جھوٹ بو لنا گناہ کبیرہ ہے ۔

(۸)لو گوں کو ہنسا نے کے لیے بھی جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے ۔

(۹)سچ بولنا ،وعدہ کو پو را کر نا ،امانت میں خیا نت نہ کرنا ،زنا سے بچنا ،غیر محرم پر نگاہ نہ ڈالنا ،اور کسی کو بلا وجہ ایذا نہ دینا مومن ہونے کی نشانی ہے۔

(۱۰)جھوٹ کی عادت بنالینا منافقت کی نشانی ہے۔

لہذا  اے مصطفی  ﷺ کے دیوانو!ہمیشہ سچ بو لنے کی کوشش کرو کہ یہی نجات کا راستہ ہے اور اگر سچ نہ بول سکوتو جھوٹ بھی نہ بولو بلکہ بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کرلو  یہی کتب احادیث  سے ثابت ہے ،چند حدیثیں درج ہیں ملاحظہ کریں ۔

(۱)وعن عبادة بن الصامت أن النبي صلى الله عليه وسلم قال اضمنوا لي ستا من أنفسكم أضمن لكم الجنة اصدقوا إذا حدثتم وأوفوا إذا وعدتم وأدوا إذا ائتمتنم واحفظوا فروجكم وغضوا أبصاركم وكفوا أيديكم)اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم لوگ اپنے بارے میں مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو یعنی چھ باتوں پر عمل کرنے کا عہد کرلو تو میں نجات پائے ہوئے اور صالحین کے ساتھ تمہارے جنت میں جانے کا ضامن بنتا ہوں۔

(۱) جب بھی بولو سچ بولو(۲) وعدہ کرو تو پورا کرو (۳) تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت ادا کرو (۴) اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو یعنی حرام کاری سے بچو(۵) اپنی نگاہ کو محفوظ رکھو یعنی اس چیز کی طرف نظر اٹھانے سے پرہیز کرو جس کو دیکھنا جائز نہیں(۶) اپنے ہاتھوں پر قابو رکھو یعنی اپنے ہاتھوں کو ناحق مارنے اور حرام و مکروہ چیزوں کو پکڑنے سے باز رکھو، یا یہ کہ اپنے آپ کو ظلم وتعدی کرنے سے باز رکھو۔(مشکوٰۃ المصابیح،صفحہ ۴۱۵؍ آداب کا بیان حدیث نمبر۴۷۶۹)

(۲)عَنْ عَبد اللہ بن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ مَنْ صَمَتَ نَجَا)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول کریم  ﷺ نے فر مایاجو خا موش رہا وہ نجات پا یا ۔(مشکوۃ المصابیح صفحہ ۴۱۳)

(۳)(عن عبدالله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صمت نجا . رواه أحمد والترمذي والدارمي والبيهقي في شعب الإيمان)اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۴۱۳،فصل ثا نی ؍حدیث نمبر۴۷۳۹)

(۴)(وعن عقبة بن عامر قال لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت ما النجاة ؟ فقال أملك عليك لسانك وليسعك بيتك وابك على خطيئتك . رواه أحمد والترمذي)اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھو تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے اور اپنے گناہوں پر روؤ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۴۱۳،فصل ثا نی ؍حدیث نمبر۴۷۴۰)

(۵)وعن عمران بن حصين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال مقام الرجل بالصمت أفضل من عبادة ستين سنة)اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چپ رہنے کی وجہ سے آدمی کو جو درجہ حاصل ہوتا ہے وہ ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح ،صفحہ ۴۱۴،فصل ثا لث  ،حدیث نمبر۴۷۶۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

استہزا کر نا کیسا ہے ؟

استہزا کرنا یہ بھی جا ئز نہیں بلکہ اس کی مما نعت آ ئی اور ٹھٹھا اور مذاق کرنے والے کو جا ہل سے تشبیہہ دی گئی ہے جیسا کہ تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ بنی اسرائیل میں عامیل نامی ایک عا بد تھا اس کے چچا زاد بھا ئی نے بطمع وراثت (مال کے وارث بننے کے لالچ میں)اس کو قتل کرکے دو سری بستی کے دروازے پر ڈال دیا اور خود صبح کو اس خون کا مدعی بنا وہاں کے لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے در خواست کی کہ آپ دعا فر ما ئیں کہ اللہ تعا لیٰ حقیقت حال ظاہر فر ما ئے اس پر حکم ہوا کہ ایک گا ئے ذبح کر کے اس کے کسی حصے سے مقتول کو ماریں وہ زندہ ہو کر قا تل کو بتائے گا جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے(وَاِذْ قَالَ مُوْ سٰی لِقَوْمِہٖ اِنَّ اللّٰہَ یَأْ مُرُ اَنْ تَذْ بَحُوْا بَقَرَ ۃً)اور جب مو سی نے اپنی قوم سے فرمایا خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گا ئے ذبح کرو تو قوم نے کہا(قَالُوْا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا)بو لے کہ آپ ہمیں مسخرہ بنا تے ہیں (مذاق کرتے ہیں )تو موسیٰ علیہ السلام نے فر ما یا(اَعُوْ ذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ) خدا کی پناہ کہ میں جا ہلوں میں سے ہوں (یعنی مذاق کر نا جا ہلوں کا طریقہ ہے اشراف کا طریقہ نہیں)(تفسیر خزائن العرفان پا رہ ا؍سورہ بقرہ آیت ۶۷) 

اور دوسرے مقام پر اللہ تعا لی فر ما تا ہے(یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا لَا یَسْخَرْ قَوْ مٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسیٰٓ اَ نْ یَّکُوْ نُوْ ا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآ ئٌ مِّنْ نِّسَا ئٍ عَسیٰٓ اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ)یعنی اے ایمان والو! نہ مرد مرد وںسے ہنسیں (مذاق کریں )عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں ۔اور نہ عورتیں عورتوں سے (مذاق کریں )دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں ۔(پا رہ ۲۶؍ سورہ حجرات آ یت ۱۱)

حضرات محترم !ان آیات مقدسہ سے ثا بت ہوتا ہے کہ استہزا ء کر نایعنی ٹھٹھاکرنا جاہلوں کا کام ہے اسی لئے دوسرے مقام پر اللہ تعا لیٰ نے فر ما یا کہ کو ئی قوم کسی قوم سے نہ ہنسیں پھر فر ما یا عورتیں عورتوں سے نہ ہنسیں (مذاق نہ اڑائیں )

افسوس صد افسوس کہ آج کا مسلمان فیشن کے نشہ میں آکر ’’ اپریل فول‘‘  منانے میں نہ جا نے کتنے خرافات کو اکٹھا کر تا ہے اور گناہ کبیر کا مرتکب ہو تا ہے اللہ تعا لی ہر مسلمان مرد وعورت کو’ ’’ اپریل فول‘‘ منا نے سے محفوظ رکھے۔آمین بجاہ سید المرسلین علیہ واٰلہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وعدہ خلافی کر ناکیسا ہے ؟

  ’’اپریل فول‘‘ منا نے میں وعدہ کے خلاف کیا جا تا ہے یہ بھی نا جا ئز ہے حدیث شریف میں ہے کہ جب وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو۔(مشکوۃ صفحہ ۴۱۴ )

  اے پیارے مصطفی  ﷺ کے غلا مو!جب وعدہ کرو تو اس کو پورا بھی کیا کروکیو نکہ وعدہ کو پورا کر نا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کا واقعہ درج ہے کہ ایک مر تبہ کسی مقام پر آپ سے کو ئی کہہ گیا تھا کہ آپ یہیں ٹھہرے رہیں جب تک میں واپس نہ آؤں۔ آپ اس جگہ اس کے انتظا ر میں تین رو ز ٹھہرے رہے چنانچہ اللہ تبا رک و تعالی فرماتا ہے({وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَا نَ رَسُوْلاً نَّبِیًّا)  اورکتاب (قرآن مقدس )میں اسمعیل کو یاد کرو بے شک وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتا نے والا۔(خزائن العرفان پارہ ۱۶سورہ مر یم ۵۴)

اور حدیث شریف میں حضرت عبداللہ بن ابی الحسماء سے روا یت ہے وہ فرما تے ہیں کہ اعلان نبوت سے پہلے میں نے نبی کریم  ﷺ سے خرید وفروخت کیا اور آپ کا کچھ بقا یا رہ گیا میں نے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ وہ چیز لا تا ہوں پھر میں بھول گیا تین دن کے بعد مجھے یا د آیا تو حضور انور  ﷺ اس جگہ تھے فر ما یا کہ تم نے مجھ پر مشقت ڈال دی میں تین دن سے یہاں تمہا را ہی انتظا ر کر رہا ہوں ۔(رواہ ابو دا ؤد مشکوۃ صفحہ۴۱۶؍باب الوعدفصل ثا نی )

یاد رہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب اعلان نبوت کا حکم بھی نہیں ہوا تھاتو اس وقت بھی ہما رے نبی  ﷺ علیہ وسلم اس طرح وعدے کو پو را فر مایا کرتے تھے کہ تین تین دن تک کسی کا انتظار کیا کرتے ہیںاور قرآن نے فرمایا کہ ان کی مبارک زندگی تمہارے لئے نمونہ عمل ہے لہٰذا ہمیں بھی چا ہئے کہ ہم بھی اپنے وعدہ کو پورا کر نے کے لئے اسوقت تک کو شاں رہیں جب تک کو ئی شرعی قبا حت نہ آئے جیسے کہ وعدہ پو را کر نے کی فکر میں نماز چھوڑ دے یا روزہ چھوڑ دے یا والدین کو ایذا دے نہیں بلکہ ان تمام چیزوں کالحاظ رکھ کر وعدہ کو پورا کیا جائے جیسا کہ ایک دوسری حدیث پاک حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فر ما یا جو کسی شخص سے وعدہ کرے پھر ان میں سے ایک نماز کے وقت تک نہ آ ئے اور جا نے والا نماز کے لئے چلا جا ئے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ (مشکوۃ صفحہ۴۱۶ )

اور اگر کو ئی وعدہ کرے اور وعدہ کوپو را کر نے کا ارادہ بھی ہو مگر کسی مجبو ری کے سبب پو را نہ کر سکے تو اس پر گناہ نہیں کہ یہ بوجہ مجبو ری ہے جیسا کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فرما یا جب کو ئی شخص اپنے بھا ئی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پو را کر نے کی ہو پھر(مجبوری کے سبب ) پورا نہ کر سکے یعنی وعدہ پر نہ آسکے تو اس پر گناہ نہیں ۔(ایضا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلمان کو ایذا پہونچانا کیسا ہے؟

’’اپریل فول‘‘منانا مسلمانوں کو ایذا پہنچانا ہے، یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے، قرآن کریم میں ہے(’اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْ مِنِیْنَ  وَ الْمُؤْ مِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْ بُوْافَلَھُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ‘‘)بے شک جنھوں نے ایذا دی مسلمان مرد وں اور مسلمان عورتوںکو پھر تو بہ نہ کی ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے آگ کا عذاب۔ (کنزا لایمان، سورہ  بروج آیت نمبر ۱۰)

  اللہ تعا لی ہر بندۂ مو من مرد عورت کو سمجھنے کی تو فیق عطا فر ما ئے اور وعدہ خلافی سے محفوظ فر ما کر شریعت مطہرہ کا پا بند بنا ئے۔آمین  یا رب العلمین بجاہ سید المرسلین  ﷺ

اللھم بدیع السموات والارض ذالجلال والاکرام خا لق الیل والنہار اسئلک ان تصلی وتسلم علی اول خلق اللہ سیدنا محمد ن المصطفی وعلی الہ و صحبہ اصولہ و فرو عہ وابنہ الغوث الاعظم الجیلا نی اجمعین وآخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین ۔ 

مولانا تاج محمد حنفی قادری واحدی

۸ ربیع الآخر۱۴۳۸ ؍مطا بق۷جنوری ۲۰۱۷ بروز شنبہ

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads