AD Banner

{ads}

(بدمذہبوں کے اعتراضات اور ان کے جوابات)

(بدمذہبوں کے اعتراضات اور ان کے جوابات)

اسلام علیکم ورحمۃ اﷲبرکاتہ

ایک گستا خ رسول نے چند یعنی سات سوال کئے ہیں لہٰذا بہت سنجیدگی کے ساتھ جواب عنایت کریں۔ بہت مہربانی ہوگی۔

(اعتراض نمبرا) عن علی عن النبیﷺقال لا تشدواالرحال الا الی ثلا ثۃ مساجد مسجدی ھذا و مسجد الحرام والمسجد الا قصی  ولا تسافرالمراۃ فوق یومین الاومعھا زوجھا اوذو محرم رواہ الطبرانی فی الصغیروالاوسط (مجمع الزوائد جلد۴ صفحہ۳مطبوع بیروت۔ )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روضئہ رسول کی زیارت کی نیت سے قصداسفر کرنے کی اجازت نہیں، ہاں بالقصد مسجد نبوی کی زیارت اس میں نماز ادا کرنے کے لئے کرے اور وہاں جاکر روضئہ رسول کی بھی حاضری دے لے لیکن یہ بالتبع اور غیرمقصد ہو تو یہ صورت جائز ہے؟  

(اعتراض نمبر۲)   حدیث پاک میں وارد ہے حضور  ﷺ نے ارشاد فرمایا لاتتخذوا قبری عیدا، میری قبر کو عید نہ ٹھہراؤ یعنی جس طرح عوام عید کے لئے ہجوم در ہجوم آتے ہیں تم اس طرح میری قبر کی طرف نہ آؤ۔

(اعتراض نمبر۳)   امام مالک بن انس رضی اﷲ عنہ کی طرف اس بات کی نسبت کی جاتی ہے کہ آپ نے حضور  ﷺ کی قبرانور کی زیارت کو مکروہ بتایا ہے جب اتنے بڑے امام کا یہ فتوٰی ہے توپھر اس کا جواز کیسے ہو سکتا ہے؟ 

(اعتراض نمبر۴) جن احادیث میں حضور  ﷺ کی قبر انور کی زیارت کرنے کا ذکر ملتا ہے وہ تمام کی تمام احادیث قابل حجت نہیں؟

عن ھارون ابی قز عۃ رجل من ال حاطب عن حاطب قال قال رسول اﷲﷺمن زارنی بعد موتی فکا نمازارنی  فی حیاتی و من مات باحد الحرمین بعث من الا منین یوم القیامۃ ۔(  دارقطنی جلد ۲ صہ ۲۷۸ مطبوعہ قاہرہ حدیث ۱۹۳)

اس روایت میں ہارون ابی قزعہ کا شیخ مجہول ہے اسی وجہ سے امام بیہقی نے اس روایت کومجہول الاسناد کہاہے ملاحظہ ہو بیہقی شریف جلد ۵ ص۲۴۵ لہذا ایسی روایت جو اسناد کے اعتبار سے مجہول ہے ایسی روایت سے یہ کیونکر ثابت ہو سکتا ہے کہ حضور  ﷺ کی قبرانور کی زیارت جائز ہے؟

(اعتراض نمبر۵) من زار قبر ی وجبت لہ شفاعتی جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی اس حدیث کی سند میں موسی بن ہلال عبدی ایک راوی ایسا ہے جس پر محدثین کرام نے جرح کی ہے جس کی وجہ سے یہ مجروح ہوئی اور مجروح روایت سے استدلال درست نہیں ہوتا، صاحب نیل الا وطار نے بھی روایت مذکورہ کے بعد لکھا ہے مجہول ای مجہول العدالۃ یعنی موسٰی بن ہلال عبدی کی عدالت کا علم نہیں لہذا ایسی روایت سے قبرانور کی زیارت کا جواز ثابت کرنا درست نہ ہوا۔

(اعتراض نمبر۶)  جواہر البحار سے نقل کردہ حدیث شریف بھی ضعیف ہے جس میں آپ  ﷺ نے فرما یا ، جس نے میری قبر کی زیارت نیت نیک سے کی میں اس کے لئے قیامت کے روز گواہ اور شفیع ہوں گا اس کے رجال میں سلیمان بن یزیدا لکعبی راوی ہے جسے ابن حبان اور دار قطنی نے ضعیف کہا، نیل الا وطار جلد ۵ ص؍۱۷۹ پر یہ بات درج ہے۔

(اعتراض نمبر۷)  جو آدمی مدینہ شریف میں میری زیارت کے لئے آیا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہے اس کی سند میں ایک راوی عبد اﷲ بن وہب کی اسناد مجہول ہے لہذا اس سے استدلال درست نہیں ہو سکتا۔

المستفتیان:۔جملہ رضاؔ کمیٹی بھنگا سراوستی

۲۷ شوال المکرم۱۴۳۴؁ھ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(۱)  الجواب بعون الملک الوہاب اللھم ہدایۃ الحق والصواب

یہی استدلال ابن تیمیہ اوراس کے مقلدین کا ہے جو بالقصد زیارت قبر انور کے لئے سفر کو ناجائز کہتے ہیں ، ہم اس استدلال کے چند جوابات تحریر کرتے ہیں،  جن سے حدیث طیبہ کا مفہوم بھی واضح ہو جائے گا۔

اولا۔ صاحب مجمع الزوائد حضر ت اما م علی بن ابی بکرالہیثمی روایت مذکورہ کے آخر میں رقمطراز ہیں۔ وفیہ ابراھیم  بن اسماعیل بن یحیی الکھیلی وھو ضعیف اس روایت میں راویوں میں سے ایک راوی ابراھیم بن اسماعیل بن یحیی کہیلی ہے اور یہ ضعیف ہے ، لہذا یہ روایت قرآن کریم کی آیت  ولو انھم اذظلموا انفسھم الا یۃ کے مقابل پیش نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ومن یخرج من بیتہ کے سامنے اس کا کوئی وزن ہے۔ خاص کر ان لوگوں کے لئے جو زیارت قبر انور کو واجب کا درجہ دیتے ہیں، ان کے سامنے اسکی کوئی معتد بہ حیثیت نہیں ہے۔

ثانیامشہورغیر مقلد شوکانی نیــ’’ نیل الا وطار‘‘ میں اس روایات کا جواب جمہور کی طرف سے یہ دیا ہے۔

جمہور نے اس حدیث ۔ ’’لا تشد واالرحال‘‘ کا جواب یہ دیا ہے کہ اس میں قصرا ضافی ہے حقیقی نہیں، یعنی دیگر مساجد کی نسبت سے ان تین مساجد کی طرف قصدا سفر کرنے کی اجازت ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ احادیث میں اسناد صحیحہ کے ساتھ یہ مذکور ہے کسی سفر کرنے والے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی مسجد کی طرف سفر کرے کہ اس میں نماز کا فائدہ زیادہ ہوگا ۔ ما سوی مسجد اقصٰی ـمیری مسجد اور مسجدحرام کے، لہذا زیارت وغیرہ اس نہی سے خارج ہیں۔ (نیل الا وطار جلد ۵ مطبوعہ مصر صفحہ ۱۸۰)

جواب کی وضاحت یوں ہے کہ حضور  ﷺ نے تین مساجد کے سوا قصدًا سفر کی جو ممانعت فرمائی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ان تین مساجد کے برابر کسی اور مسجد کو سمجھ کر وہاں نماز پڑھنے کے لئے سفر نہ کرے کیوں کہ ان تینوں مساجد سے بڑھ کر کوئی دوسری مسجد افضل نہیں، گویا ان تین مساجد کی تخصیص بقیہ مساجد کے مقابل میں ذکر کی گئی ، اسی کو قصر اضافی کہتے ہیں۔ حدیث پاک کا یہ مطلب نہیں کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ یا کسی اور مقصد کی خاطر سفر کرنا ممنوع ہے۔ یہ قصر حقیقی بنے گا۔ اسی ’’مجمع الزوائد‘‘ جلد ۴ مطبوعہ بیروت صفحہ ۳ میں ایک روایت مذکور ہے ابو البصر ہ غفاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ملاقات کی وہ طور سے واپس ہوئے تھے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو، کہنے لگے طور سے آرہا ہوں میں وہاں نماز پڑھنے گیا تھا یہ سن کر ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اگر میری ملاقات تیر ے ساتھ تیرے اس سفر سے پہلے ہو جاتی تو پھر تو یہ سفر نہ کرتا کیوں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سناہے کہ آپ نے فرمایا تین مساجد کے سوا کسی اور کا سفر نہ کیا جائے مسجدحرام،میری مسجد اور مسجد اقصٰی ، معلوم ہوا کہ فضیلت و مرتبہ جو ان تین مساجد کو حاصل ہے ایسا مرتبہ و فضیلت کسی دوسری مسجد کو حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں نماز  پڑھنے کی فضیلت احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اسی لیے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ کوہ طورپر نماز پڑھنے کو افضل سمجھ کر اس طرف کا سفر کرنا درست نہ تھا۔’’ مجمع الزوائد ‘‘میں ایک اور روایت مذکورہے کہ شہر نامی آدمی بیان کرتا ہے کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے سنا جب کہ ان کے سامنے کوہ طور پر نماز پڑھنے کا ذکر ہوا انھوں نے فرمایا کہ حضور   ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی سفر کرنے والے کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مسجد کی طرف سفر کرے تاکہ اس میں نماز کی فضیلت کو تلاش کر لے مگر تین مساجد کی طرف سفر کرے ، مسجد حرام، میری مسجد، مسجد اقصٰی۔

ان تمام روایت سے’’ لا تشدوا الرحال‘‘ کا مفہوم واضح ہوا کہ اس سے مراد مذکورہ تین مساجد میں ادا کی جانے والی نماز کی فضیلت کسی اور مسجد میں تلاش کرنے یا سمجھ کر اس کی طرف سفر کرنے کی ممانعت ہے۔ اس میں کسی مزار یا روضہ مقدسہ کی زیارت یا مسجد میں مطلقا نماز ادا کرنے کے لیے سفر کرنے سے منع نہیں کیا گیا  اس سے حدیث مذکورہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ثالثا۔ صاحب نیل الا وطار علامہ شوکانی غیر مقلد نے حدیث مذکورہ کا مفہوم بتاتے ہوئے لکھا ہے جو در اصل اعتراض کا جواب بھی ہے۔ تجارت کی خاطر اور دنیوی اغراض ومقاصد کے حصول کی خاطر سفر کرنا بالا جماع جائز ہے، بلکہ بعض صورتوں میں  واجب ہو جاتا ہے جیسا کہ وقوف عرفات کے لیے مناسک حج کی ادائیگی کے لیے‘ منٰی اور مزدلفہ میں جانے کے لیے ، جہاد اور ہجرت کے لیے سفرکرنا واجب ہے یونہی دار کفر سے  دار اسلام کی طرف سفر کرنا واجب ہے،   علم دین حاصل کرنے کے لیے سفر کرنا لازم ہے۔ (نیل الا وطار جلد ۵ مطبوعہ مصر صفحہ ۱۸۱)

 لہذا معلوم ہوا کہ جب کچھ سفر ایسے ہیں جن کو وجوب کا درجہ حاصل ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی میں بھی ان تین مساجد کی طرف سفر کر نے کی پابندی نہیں تو پھر کیا مذکورہ حدیث کی آڑ لیکر صرف اور صرف رسول کریم ﷺ کے روضئہ مقدس کی زیارت کے لیے سفر کرنا ہی منع رہ گیا تھا؟ دراصل لوگوں کو ایک بہت بڑی نعمت سے محروم رکھنے کی احمقانہ کوشش ہے اﷲ تعالیٰ ان مانعین کو عقل وخردعطا فرمائے۔

رابعا۔ ’’واجتج ایضا من قال بالمشروعیۃ بانہ لم یزل داب المسلمین القاصدین للحج فی جمیع الا زمان علٰی تبائن الدیار واختلاف المذاھب لوصول الی المدینۃ المشرفۃ لقصدزیارتہ ویعدون ذلک من افضل الاعمال ولم ینقل ان احدا انکرذلک علیھم فکان اجماعا‘‘ً۔یعنی جن حضرات نے زیارت روضۂ مقدسہ کو جائز قرار دیا ہے انھوں نے اس کے جواز پر یہ دلیل بھی پیش کی ہے کہ ہر دور میں مسلمانوں کا یہ طریقہ چلا آ رہا ہے کہ جب وہ حج پہ آنے کا ارادہ کرتے ہیں تو باوجود مختلف مذاہب اور مختلف مقامات کے وہ مدینہ منورہ میں زیارت قبر انور کا ضرور ارادہ کرتے ہیں اور پھر اسے روبکار بھی لاتے ہیں اور اس کو وہ افضل الاعمال شمار کرتے چلے آرہے ہیں اور ان حضرات کے اس فعل و قصد پر کسی ایک کا بھی اعتراض وانکار منقول نہیں لہذا یہ اجماعا  ثابت ہو گیا( نیل لا و طار جلد ۵ مطبوعہ مصر صفحہ ۱۸۱ )    واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب

(۲)الـــــــــــــــــــــــــــــجـــــــــــــــــــــــــــواب

 مذکورہ الفاظ کے ارشاد نبوی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اسکا جو مفہوم ذکر کیا گیا وہ الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ اے مسلمانو دیکھو عید کا سال بھر میں دن مقرر ہے ۔ وقت مقرر ہے۔ عید ہر روز نہیں ہوتی، تم میری قبر پر حاضری اور اس کی زیارت کے لیے ایسا نہ کرنا کہ سال میں صرف ایک دو مرتبہ آجاؤ اور کوئی ایک وقت مقرر کر لو بلکہ تمھیں جب بھی فرصت ملے اور اشتیاق زیارت ہو تو اپنا شوق حاضری دے کر پورا کر لینا۔ حدیث مذکورہ کا یہ مفہوم صاحب نیل الا وطار نے ان الفاظ سے ذکر کیا ہے لاتتخذو اقبری عیدا لانہ یدل علیٰ الحث علی کثرۃ الزیار ۃ لا علی منعھا وانہ لا یھمل حتی لا یزار الا فی بعض الا وقات کا لعیدین ویؤیدہ قولہ علیہ السلام لا تجعلوابیوتکم قبورا ای لا تترکوا الصلوۃ فیھا کذا قال الحافظ المنذری وقال السبکی معناہ انہ لاتتخذ والھا و قتا مخصوصا لا تکون الزیارۃ الا فیہ اولا تتخذوہ کالعید فی العکوف علیہ واظھار الزینۃ والا جتماع للھو وغیرہ کما یفعل فی الاعیاد بل لا یوتی الا للزیارۃ والدعاء والسلام والصلوۃ ثم ینصر ف عنہ 

’’لاتنخذواقبری عیدا‘‘ یہ حدیث پاک اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ کی قبر انور کی زیارت کثرت سے کرنی چاہیے نہ اس پر کہ زیارت قبر انور ممنوع ہے اور اس  ٓؔکا یہ مفہوم ہے کہ قبر انور کو مہمل نہ چھوڑ دیا جائے اس طرح کہ صرف چند مخصوص اوقات میںاس کی زیارت کی جائے جس طرح کی عیدین ہیں، اس مفہوم کی تائید حضور  ﷺ کا یہ قول شریف فرماتا ہے’’ اپنے اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ یعنی ان میں نماز ادا کرنا ترک نہ کرو یہ مفہوم حافظ منذری نے بیان فرمایا اور امام سبکی فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ کا معنی یہ ہے کہ زیارت قبر انور کے لیے کوئی وقت مخصوص نہ کر لو۔ اس طرح کہ اس وقت مخصوص میں ہی زیارت کے لیے آؤ (اور آگے پیچھے زیارت نہ کرو)یا اس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح عید کو تم زیب زینت کرتے ہو اور اکٹھے ہوتے ہو اور لہو و لعب میں مشغول ہو جاتے ہویہ باتیں میرے قبر کی زیارت کے ساتھ نہ کرنا بلکہ یہاں آنا تمہارا اس لیے ہونا چاہیے کہ زیارت کرو ،دعاء کرو ،صلاۃ و سلام پڑھو اور پھر لوٹ جاؤ۔(نیل الا وطار جلد۵ مطبوعہ مصر ۱۸۱)

مذکورہ حدیث پاک کے معانی اور مفاہیم جو علماے کرام اور محدثین ومحققین نے ذکر فرمائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور  ﷺ نے ایک عجیب فصاحت و بلاغت بھرے انداز میں زیارت قبر انور پر مسلمانوںکو ابھارا ہے اور اس کے آداب ملحوظ رکھنے کا اشارہ فرمایا ہے اس حدیث پاک کو زیارت قبر انور سے منع پرپیش کرنا سیاق کلام سے ناآشنائی ہے اور بدنصیبی کی علامت ہے ۔واﷲ تعالٰی اعلم با لصواب

(۳)الــــــــــــــــــــــــجــــــــــــــــــــــــــــواب

 در اصل جو بات امام مالک رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب کی گئی تھی ، معترض نے اسے سمجھاہی نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ منسوب ہے ان کا تحقیقی قول ثابت نہیں اور دوسری بات یہ کہ آپ نے حضور  ﷺ کی قبر انور پر حاضری دینے کو’’ زیارت کرنا ‘‘کے الفاظ استعمال کرنے کو مکروہ بتایا ہے۔ حوالہ ملاحظ ہو،

’’قیل انما کرہ ا طلاق لفظ الزیارۃ لا ن الزیارۃ من شاء فعلھا ومن شاء ترکھا و زیارۃ قبرہ ﷺ من السنن الواجبۃ کذ اقال عبد الحق‘‘  بیان کیا گیا ہے کہ امام مالک رضی اﷲ عنہ نے لفظ’’ زیارت‘‘ کے بولے جانے کو مکروہ کہاہے کیونکہ زیارت کا مفہوم یہ ہے کہ جس کی مرضی ہو وہ کرے اور جو چاہے نہ کرے حالانکہ حضور  ﷺ کی قبر انور کی زیارت ایسی نہیں بلکہ وہ سنن واجبہ میں سے ہے جیسا کہ شیخ عبد الحق نے کہا( نیل الاوطار جلد ۵ مطبوعہ مصر صفحہ ۱۸۱ )واﷲ تعالیٰ اعلم با لصواب

(۴)الــــــــــــــــــــــجــــــــــــــــــــــــــــــــواب

 اس سوال کا جواب’’ اعلاء السنن‘‘ میں یو ں دیا گیا ہے کہ ہارون ابی قزعہ کا شیخ اور استاذ بہر حال تابعین کرام میں سے کوئی تابعی ہے اور تابعی کا مجہول الحال ہونا کیا مقام رکھتا ہے؟  المجھول فی القرون الفاضلۃ حجۃ عندنا فالحدیث حجۃوفی الباب عن عبد اﷲ بن مسعود و ابو ھریرۃ وعن انس بن مالک وابن عباس وعلی ابن ابی طالب و غیرھم اذا ضمت صارت حجۃ قویۃوقدذکر صاحب الوفاء الوفاء ج۲؍ص۳۰۳باسانید ھافلیراجع۔

ٓحضرات تابعین کرام کے بابرکت زمانہ کے کسی راوی کا مجہول الحال ہونا ہمارے ہاں حجت ہے لہذا حدیث مذکور حجت ہے اور مسئلہ کے متعلق حضرت عبد اﷲ بن مسعود، ابوہریرہ انس بن مالک ، ابن عباس اور علی مرتضی رضی اﷲ عنہم وغیرہ حضرات سے بہت سی روایات ہیں۔ ان کو جمع کیا جائے تو مضبوط حجت ہوئیں۔ صاحب وفاء الوفاء نے اپنی کتاب جلد ۲ ص ۳۰۳ پر ان روایات کی اسناد ذکر کی ہیں وہاں دیکھ لیں۔  (اعلاء السنن جلد ۱۰ مطبوعہ کراچی صفحہ ۴۹۸) 

لہذامعلوم ہوا کہ اول تو خود حدیث مذکورقابل حجت ہے کیونکہ اس کا صرف ایک روای مجہول ہے اور وہ چونکہ تابعی ہے اس لیے تابعی کی جہالت، حجت کے مانع نہیں، دوسرا اس مضمون کی تائید اور توثیق میں اجلہ صحابہ کرام سے روایات موجود ہیں تو اس طرح یہ مضمون و مسئلہ مختلف طرقٖ واسانید کی وجہ سے انتہائی مضبوط و مستحکم ہو گیا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم با لصواب

(۵)الـــجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب

 معترض نے ’’نیل الاوطار‘‘ سے روایت مذکورہ کے ایک روای کے بارے میں جرح کا ذکر کیا ۔کیااچھا ہوتا کہ’’ نیل الا وطار‘‘ کی بقیہ عبار ت نقل کر دی جاتی، بقیہ عبارت ملاحظ ہو قال احمد لا باس بہ و ایضا قد تابعہ علیہ مسلمۃ بن سالم کما رواہ الطبرانی من طریقہ و موسی بن ھلال الذکور رواہ عن عبید اﷲ بن عمرعن نافع وھو ثقۃمن رجال صحیح وجزم ایضا المقدسی والبیھقی وابن عدی و ابن عساکربان موسی رواہ عن عبد اﷲ بن عمر المکبر و ھو ضعیف ولکنہ قد و ثقہ ابن عدی وقال ابن معین لا باس بہ وروی لہ المسلم مقرونا باخروقدصحح ھذالحدیث ابن السکن عبدا لحق وتقی الدین السبکی۔

امام احمد نے کہاکہ موسیٰ بن ہلال کی روایت کے قبول کرنے میںکوئی حرج نہیں ہے اور اس مسئلہ پر اس کی اتباع مسلمہ بن سالم نے بھی کی ہے، جیساکہ طبرانی نے اپنی اسناد سے اسے ذکر کیا اور موسیٰ بن ھلال مذکورہ روای   عبید اﷲ بن عمر سے وہ نافع سے روایت کرتے ہیں اور وہ ثقہ ہے اور صحیح بخاری کے رجال میں سے ہے اور مقدسی ،بیہقی، ابن عدی، اور ابن عساکر نے اس پر جزم کیا ہے کہ موسیٰ مذکور عبیداﷲ بن عمر المکبر سے روایت کرتا ہے ، وہ ضعیف ہے لیکن اس کی ابن عدی نے توثیق کی ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ اس کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام مسلم نے ایک اور روای کو اس کے ساتھ ملا کر روایت کی ہے۔ اس حدیث کو ابن السکن عبد الحق اور تقی الدین سبکی نے صحیح کہا ہے۔ (نیل الا و طار جلد۵ مطبوعہ مصر صفحہ ۱۷۹)

       قارئین کرام تمام محدثین کرام اس بات پر متفق ہیں کہ فضائل میں ضعیف حدیث بھی مقبول ہوتی ہے ۔ حدیث مذکوربھی رسول اکرم   ﷺ کی فضیلت میں ہی ہے۔ اور اس کا ضعف بھی بالاتفاق نہیں بلکہ جلیل القدر حضرات مثلا         امام احمدبن حنبل، طبرانی ، ابن عدی، ابن معین اور تقی الدین السبکی نے اسے صحیح حدیث کہا ہے۔ جو جرح کی گئی ہے وہ بھی مجہول ہے لہذا ایسی جرح سے اس حدیث کو ضعیف قرار دینا درست نہیں ہو سکتا ۔اس کے رجال میں سے عبد اﷲ بن عمر المکبری کو ضیعف کہا گیا ہے ، خود اس نام کے روای میں اختلاف ہے کہ یہ راوی عبد اﷲ بن المکبر ہے یا عبد اﷲ بن عمر المصغر ہے۔ اعلاء السنن میں اسی پر بحث کی گئی ہے۔

حدثنا عبید بن محمد بن قاسم بن ابی مریم الوراق حدثنا موسی بن ھلال العبدی عن عبید اللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما الحدیث فثبت عن عبید بن محمد وھو ثقۃ ور وایۃ علی التصغیر والرواۃ الی موسی بن ھلال ثقات و موسی قال بن عدی ارجو انہ لا باس بہ وقد روی عنہ ستۃ منھم الا مام احمد ولم یکن یروی الاعن ثقۃ فلا یضرہ قول ابی حاتم الرازی انہ مجھول کذافی وفاء الوفاء ج۲ ص ۳۹۴فالحدیث حسن صحیح قد صحح ھذا الحدیث ابن السکن وعبد الحق وتقی الدین السبکی۔ 

ترجمہ:  حدیث کا سلسلہ اسناد یہ ہے کہ عبید بن محمدبن قاسم بن ابی مریم الوراق موسی بن ہلال العبدی عبید اﷲ بن عمر، نافع، ابن عمر، یہ حدیث عبید بن محمد سے ثابت ہے اور وہ ثقہ ہے اور لفظ عبید مصغر ہے ان سے موسی بن ہلال تک تمام روای ثقہ ہیں اور موسی کے بارے میںابن عدی نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں ان کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ان سے صحاح ستہ میں روایت موجود ہے، ان میں سے اما م احمد بھی ہیں جو صرف ثقہ لوگوں سے ہی روایت کرتے ہیں لہذا ابوحاتم رازی کے اس قول سے مذکورہ روایت کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچتی کہ موسی بن ہلال مجہول ہے، جیسا کہ وفاء الوفاء جلد ۲ ص ۳۹۴ میں مذکور ہے ۔ لہذا حدیث حسن صحیح ہے اور ابن السکن عبد الحق اور تقی الدین السبکی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(اعلاء السنن جلد ۱۰ مطبوعہ کراچی صفہ ۴۹۲؍ ۴۹۳ ابواب الزیارۃ النبویہ)

 مذکورہ حدیث کی جو سند پیش کی گئی ہے یہی سند دار قطنی جلد۲ مطبوعہ دیوبند صفحہ ۲۴۴ میں مرقوم ہے۔ گویا اما م بیہقی اور دارقطنی ایک سند پر متفق ہیں لہذا ثابت ہوا کہ جس آدمی نے رسو ل اﷲ ﷺ کی قبر انور کی زیارت کی اس کے لیے آپ کی شفاعت لازم ہو گئی ، اب منع کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ زائرین کو حضور  ﷺ کی شفاعت سے محروم رکھنے کے لئے حیلے بہانے وہ تراشتے ہیں کیا وہ امت کے خیرخواہ ہیں؟ فاعتبرو ا یااولی الا بصارو اﷲ تعا لی اعلم با لصواب

(۶)الــــــــــــــــــجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب

 ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ ضعیف حدیث فضائل میں بالا تفاق معتبر ہوتی ہے ، زیادہ سے زیادہ روایت مذکورہ کو ضعیف ہی کہا گیا ہے، موضوع تو نہیں کہا گیا بلکہ نیل الاوطار کے مذکورہ صفحہ پر یہ بھی منقول ہے ۔ ذکر ہ ابن حبان فی الثقات سلیمان بن یزید کعبی کو ابن حبان نے ثقہ روایوں میں ذکر کیا ہے ،    علاوہ ازیں یہ روایت کئی اور اسناد سے بھی مروی ہے لہٰذا جب کوئی ضعیف روایت مختلف طرق سے مروی ہو تو اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے ۔ ان تمام طرق میںکسی ایک راوی کے کذب یا ضعف پربھی اتفاق نہیں کیا گیا۔ اس لئے اسے درجۂ حسن میں شمار کرنا جائز ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم با لصواب

(۷)الــــــــــــــــــــجـــــــــــــــــــــــــــــــــواب

 صاحب  وفاء الوفاء نے اعتراض و جواب سمیت اس روایت کو ذکر فرمایا ، ہم اسے من و عن نقل کرتے ہیں۔محمد بن یعقوب حدثنا عبد اﷲ بن وھب عن رجل عن بکربن عبد اﷲ عن النبی ﷺ قال من اتی المدینۃ زائرا لی وجبت لہ شفاعتی یوم القیامۃ ومن مات فی احد الحرمین بعث امنا ورواہ یحیی بن الحسن بن جعفر الحسینی فی اخبارا لمدینۃ ولم یتکلم علیہ السبکی و محمد بن یعقوب ھو ابو عمر الزبیری المدنی صدوق وعبد اﷲ بن وھب ثقۃ ففیہ الرجل المبھم وبکر بن عبد اﷲان کان المزنی فھو تابعی جلیل فیکون مرسلا وان کان بکربن عبد اللہ ابن الربیع الانصاری فھو صحابی۔

محمد بن یعقوب کہتے ہیں کہ ہمیں عبد اﷲ بن وہب نے ایک شخص سے حدیث سنائی ، وہ شخص بکر بن عبد اﷲ سے بیان کرتے ہیں کہ حضور  ﷺ نے فرمایا جو شخص مدینہ منورہ میں میری زیارت کے لئے آیا قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی، اور جس کا انتقال حرمین میں سے کسی حرم کے اندر ہواوہ امن میں رہے گا ۔ اس کو یحیی بن حسن بن جعفر حسینی نے اخبار مدینہ میں روایت کیا ہے ، علامہ السبکی نے اس پر کوئی جرح نہیں کی اور محمد بن یعقوب وہی ہے جسے ابو عمر زبیر ی مدنی کہتے ہیں۔ وہ صد وق ہے اورعبد اﷲ بن وہب (دوسراراوی) ثقہ ہے۔ آگے تیسرے درجہ میں ایک مبہم راوی ہے اور چوتھا راوی جس کا نام بکر بن عبد اﷲ المذنی ہے تو پھر جلیل القدرتابعی ہے لہٰذا روایت مرسل ہوگی اور اگر بکر بن عبد اﷲا بن ربیع ہے تویہ صحابی ہے۔(وفاء الوفاء جلد ۴مطبوعہ مصر صفحہ ۱۳۴۸ )

مجہول راوی اگر تابعی ہیں توپھر حدیث مرسل ہوئی اگر صحابی ہیں تو پھر اس کی صحت میں کون سا اعتراض ہوسکتا ہے لہذا کسی طرح بھی اسے مجہول راوی کے اعتبار سے مجہول نہیں کہا جا سکتا ایسے حیلوں بہانوں سے لوگوں کو سرکار دو عالم ﷺ کی قبر انور کی زیارت سے روکنا اور انہیں شفاعت سے محروم رکھنے کی کوشش کرنا کسی طرح ایک دین دار کو زیب نہیں دیتا۔ آئیے وفاء الوفاء سے اسی امر کی ایک اور روایت دیکھ لیں۔

عن عمربن الخطاب رضی اﷲ عنہ انہ لما صالح اھل بیت المقدس وقدم علیہ کعب ا لا حبار واسلم و فرح باسلامہ قال ھل لک ان تسیرمعی الی المدینۃ وتزورقبر النبی ﷺ وتتمتع بزیارتہ فقال نعم یا امیر المؤمنین انا افعل ذالک ولما قدم عمر المدینۃ کان اول مابدا بالمسجد علی النبی ﷺ ذکرہ فی فتوح الشام۔

حضر ت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے بیت المقدس کے رہنے والوں سے صلح کی اور کعب احباران کے پاس آئے اور اسلام لائے توحضرت عمرٓرضی اﷲ عنہ کو ان کے اسلام لانے سے بہت خوشی ہوئی انہوں نے کعب سے پوچھا  کیا تم ہمارے ساتھ مدینہ منورہ چلوگے اور نبی کریم ﷺ کی قبرانور کی زیارت کروگے اوراس کی زیارت سے بہرہ ورہوگے ؟جناب حضرت کعب نے کہا اے امیر المؤمنین ! ہاں  میںیہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوں ۔   جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے جو آپ نے کام کیا وہ مسجد نبوی میں آکر حضور  ﷺ کو سلام عرض کیا ۔ اسے فتوح الشام میں ذکر کیاگیاہے۔ (وفاء الوفاء جلد۴ صفحہ ۱۳۵۷ مصر ی)

روایت مذکورہ اس بات کی صراحت کر رہی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲعنہ ایسی شخصیت نے قبر انور کی زیارت کا قصد کرکے جانب مدینہ منورہ سفر کیا اور انکے ساتھ ایک بہت عظیم عالم بھی تھے ۔ صاحب وفاء الوفاء نے یہ واقعہ اسی لیے بیان کیا تاکہ پتہ چل جائے کہ حضور ﷺ کی قبر انور کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا بہترین عمل ہے۔ اور حضرات صحابہ کرام اس پر کاربند تھے ۔

تصریحات ائمہ

 امام اجل علامہ کمال الدین دمشقی حنفی مصری علیہ الرحمۃ  و الرضوان رقمطراز ہیں والا ولیٰ فیما یقع عندالعبد الضعیف تجرید النیۃ الزیارۃ قبر النبی ﷺ اس عبد ضعیف کے نزدیک بہتریہ ہے کہ حضور سرور کائنات  ﷺ کی قبرانور کی زیارت کے لیے مخصوص نیت کرکے سفر کیا جائے ۔( فتح القدیر جلد ۳ مطبوعہ دیوبند صفحہ ۱۶۸)

فقیہ بے بدل علامہ ابن عابدین شامی حنفی علیہ الرحمۃ و رضوان تحریر فرماتے ہیں انھا قریبۃ من   الوجوب لمن لہ سعۃ،حضور  ﷺ کی قبر انور کی زیارت ہراس شخص کے لیے جو گنجائش رکھتا ہو واجب کے قریب ہے ، یہی نہیں بلکہ مزید فرماتے ہیں ۔ فان مر بالمدینۃ کا ھل الشام بدأ بالزیارۃ لا محالۃ لان تر کھا مع قربھا  بعد من القساوۃ والشقاوۃ وتکون الزیارۃ حینئذ بمنزلۃ الوسیلۃ و فی مرتبۃالسنۃ القبلیۃ للصلوٰۃ ۔

اگر کسی کا مدینہ منورہ کے قریب سے گزرہو جیسا کہ اھل شام کا معاملہ ہے تو اسے رسول کریم  ﷺ کی قبر انورکی زیارت لازما پہلے کر لینی چاہیے کیونکہ قریب ہوتے ہوئے اس سے محروم رہنا بہت بڑی سنگدلی اور بدبختی میں شمار ہوگا ۔     ان حالات میں آپ کے قبر انور کی پہلی زیارت کرنا گویا ایک ذریعہ اور وسیلہ کے ہے، جو نماز ادا کرنے کے لیے پہلے پورا کیا جاتا ہے۔ اور یہ نماز کی ان سنتوں کے مانند ہے جو نماز سے قبل ادا کی جاتی ہیں۔ (فتاویٰ شامی جلد ۴ مطبوعہ دیوبند صفحہ ۵۴)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ آداب سفر میں تحریر فرماتے ہیں وید خل فی جملتہ زیارۃ قبور الانبیاء علیھم السلام وزیارۃ قبور الصحابۃ والتابعین وسائر العلماء والاولیاء وکل من یتبرک بمشاہدتہ فی حیاتہ یتبرک بزیارتہ بعد وفاتہ ویجوز شد الرحال لھذ الغرض

سفرکی دوسری قسم میں انبیاے کرام علیہم السلام صحابہ و تابعین اور دیگر علما واولیا کے مزارات کی زیارت بھی داخل ہے زندگی میں جس کی زیارت سے برکت حاصل کی  جاسکتی ہے۔وفات کے بعد بھی اس کی زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (احیاء علوم الدین جلد ۲ص۲۴۷بیروت)

امام ابن الحاج مکی مالکی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں’’ویحتاج الی الادب الکلی فی زیارتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام وقد قال علماء نارحمۃ اللہ علیھم ان الزائر یشعرنفسہ بانہ واقف بین یدیہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کماھو فی حیاتہ اذلافرق بین موتہ وحیاتہ اعنی فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ باحوالھم ونیاتھم وعزائمھم وخواطرھم وذلک عند ہ جلی لا خفاء فیہ‘‘

ٓاور آپ کی زیارت میں ادب کا مل کی ضرورت ہے ہمارے علما رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ زائر یوں محسوس کرے کہ میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں جیسے کہ آپ کی حیات ظاہری میں تھا کیونکہ آپ کی موت اور حیات میں فرق نہیںہے آپ امت کا مشاہدہ فرماتے ہیںاور ان کے احوال نیتوں ارادوں اور خیالات کو ملاحظہ فرماتے ہیں اور آپ کے نزدیک یہ ظاہر ہے اس میں کوئی خفا نہیں ہے۔( المدخل جلد اول ص ۲۵۲)

یہی علا مہ ابن الحاج رقمطراز ہیں’’فمن ارادحاجۃ فلیذھب الیھم ویتوسل بھم فانھم الواسطۃ بین اللہ تعالیٰ وخلقہ‘‘

جوشخص کسی حاجت کا ارادہ کرے وہ اولیاے کرام کے مزارات پر جائے اور ان کا  وسیلہ پکڑے کیو نکہ وہ واسطہ ہیں اللہ تعا لی اور اسکی مخلوق کے ما بین ۔(المدخل جلد اول ص ۲۴۹)

نیز رقمطراز ہیں

’’وقد تقررفی الشرع وعلم ماللہ تعالیٰ بھم من الاعتناء وذلک کثیر مشھور ومازال الناس من العلماء والا کابر کابر ا عن کابر مشرقاومغربا یتبرکون بزیارۃ قبورھم ویجدون برکۃ ذلک حسا ومعنی۔

شریعت میں ثابت اور معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی کتنی عزت افزائی فرماتا ہے اور یہ بکثرت ہے اور مشہور ہے علما ے مشرق ومغرب کے عظیم اکابر مزارات اولیا کی زیارت سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں اور حسی اور معنوی طورپر ان کی برکت پاتے رہے ہیں۔ (المدخل جلد اول ص ۲۴۹)

نائب امام اعظم مظہر غوث اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان رقمطراز ہیں’’ہماری کتب مذہب میں،مناسک، فارسی ،وطرابلسی۔ وکرمانی، واختیار شرح مختار، وفتاویٰ ظہیر یہ ،وفتح القدیر ،وخزانۃ المفتین، ومنسک متوسط ومسلک متقسط، ومنح الغفار، ومراقی الفلاح ،وحاشیہ طحطاوی علی المراقی، ومجمع الانہر، وسنن الہدی ، وعالمگیری وغیرہ میں اس کے قریب واجب ہونے کی تصریح کی ہے‘‘(فتاویٰ رضویہ شریف جلد ۱۰ ص ۷۱۹گجرات)

مدینہ منورہ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر انور کے چند آداب

 حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شہر مدینہ منور ہ آپ کے چاہنے والوں کے لئے بڑے ادب واحترام والا شہرہے بہت سے عشاق ایسے دیکھے جاتے ہیں جو اس بابرکت شہر میں ازراہ ادب جوتے نہیں استعمال کرتے بہر حال ہر شخص کو اس کے ادب کے اعتبار سے نواز ا جاتا ہے۔

جیسا کہ فقہ حنفی کے عظیم محقق علامہ کمال الدین دمشقی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں ’’واذاوصل الی المدینۃ اغتسل بظاھر ھا قبل ان یدخلھا قبل ان یدخلھا او توضا ، الغسل افضل ولبس نظیف ثیابہ والجدید افضل ،ومایفعلہ بعض الناس من النزول بالقرب من المدینۃ والمشی علی اقدامہ الی ان یدخلھا حسن وکل ماکان ادخل فی الادب والجلال کان حسنا واذادخلھا قال بسم اللہ رب ادخلنی مدخل صدق( الایہ) اللھم افتح لی ابواب رحمتک وارزقنی من زیارۃ رسولک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مارزقت اولیائک واھل طاعتک واغفرلی وارحمنی یاخیر مسئول‘‘ ولیکن متواضعا متخشعا معظمالحرمتھا‘‘ 

جب خوش قسمت شخص مدینہ منورہ کے قریب پہونچ جائے تو مدینہ منورہ سے باہر ہی غسل کرکے پھر داخل ہو یا وضو کرلے لیکن غسل کرلینا افضل ہے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے اور نئے کپڑے پہننے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں اور کچھ خوش عقیدہ لوگ جویوں کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ سے باہر قریب ہی سواری سے اتر کرپیدل چلتے ہیں اور اسی طرح پیدل ہی چلکر مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہیں یہ فعل بہت اچھا ہے اور یہی نہیں بلکہ ہر وہ کام جوا دب وجلال کا آئینہ دار ہو وہ اچھا ہی ہے پھر جب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں داخل ہونے لگے تو پڑھے بسم اللہ رب ادخلنی مدخل صدق (الی اخرالایۃ )اللھم افتح لی ابواب رحمتک (اے اللہ میرے لئے رحمت کے دروازے کھول دے) اور مجھے اپنے رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی زیارت نصیب فرما جو تو نے اپنے اولیا ء اور بندگی گزار وں کو نصیب فرمائی مجھے معاف فرمادے مجھ پر رحم فرما اے اللہ تو ہی بہتر ہے کہ جس سے مانگا جاتا ہے اور (اے مدینہ طیبہ میں داخل ہونے والے) تو نہا یت تو اضع کر نیوالا ڈر نیوا لا تعظیم بجا لا نیوالا اور اس جگہ کی حر مت کو مد نظر رکھنے والا بن جا۔( فتح القد یر جلد سوم ص۱۶۸)

زینۃ الاحناف علا مہ علی قا ری مکی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں ’’ناظرا الی الارض اوالی اسفل ما یستقبلہ من الحجر ۃ الشر یفۃ ای من جدر انھا محترز اعن اشوال النظر بما نھاک او من الزینۃ متمثلا صورتہ الکریمۃ فی خیا لک مستشعر ابا نہ علیہ السلام عالم بحضور ک وقیا مک وسلامک ای بل بجمیع افعا لک واحوالک وار تحا لک ومقا مک وکا نہ حاضر جالس با زاء ک مستحضر ا عظمتہ وجلا لتہ ای ھیبتہ و شر فہ وقد ر ہ ای رفعتہ مر تبتہ‘‘ ﷺ روضۂ شر یف کے زائر کو اس حا ل میں وہا ں جانا   چا ہییٔ کہ وہ نگا ہیں جھکا ئے زمین کودیکھتا جا رہا ہویا پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حجر ۂ شریفہ کی دیواروں کی ان جگہوں کو دیکھتا ہو جو سطح زمین سے با لکل متصل ہیں اور ہر ممکن طر یقہ سے اپنی نگا ہ کو مسجد اور روضہ مقدسہ کی زیب وزینت میں کھوجانے سے روکے اور کیفیت یہ ہو نی چا ہیے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صورت مقدسہ کو اے زائر! تو اپنے خیال میں سامنے رکھے ہو ئے ہواور اس شعورو ادراک کے ساتھ وہا ں رہے کہ حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تیری موجو د گی ،کھڑے ہو نے ، سلا م عرض کر نے بلکہ تمام افعال واحوال سے با خبر ہیں اور آمد ورفت پر مطلع ہیں گو یا آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تیرے سامنے جلوہ فرماہیں اور تو آقا کے حضور موجود ہے۔آقا کی عظمت وجلالت کو توپیش نظر رکھے اور آپ کی ہیبت وبزرگی قدرومنزلت اور رفعت مرتبہ بھی پیش نظرر ہے۔ (ارشاد الساری الی مناسک علی قاری صفحہ ۳۳۸باب زیارۃ سید المرسلین بیروت)

ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس روحانی اور وجدانی کیفیت میں حاضر ہونے کی تعلیم کے بعد فرمایا کہ ہر زائر کوپھر بڑے مؤدب طریقہ سے بارگاہ رسالت میں یوں عرض کرنی چاہئے

       السلام علیک یا رسول اللہ      السلام علیک یاخلیل اللہ۔   السلام علیک یا خیرخلق اللہ 

علامہ ابن ہمام رضی اللہ عنہ حاضر ی کی کیفیت کویوں بیان فرماتے ہیں ۔’’فیستقبل جدارہ ویستد برالقبلۃ علی نحو اربعۃ اذرع من الساریۃ التی عند راس القبرفی زاویۃ جد ارہ وماعن ابی اللیث انہ یقف مستقبل القبلۃ مردود بما روی ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ فی مسند ہ عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال من السنۃ ان تاتی قبرالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم من قبل القبلۃ وتجعل ظھرک الی القبلۃ وتستقبل القبر بو جھک ثم تقول السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضۂ مقدسہ کی دیوارکی طرف منہ کرے اور قبلہ کی طرف پشت ہو اور تقریباً چارہاتھ دور اس ستون سے کھڑا ہو جو آپ کی قبر انور کے سرہانے کی طرف ہے اور کونہ میں کھڑا ہو اور وہ طریقہ جو لیث سے منقول ہے کہ زائر قبلہ کی طرف منہ (اور آپ کی قبر انور کی طرف پیٹھ کرکے ) کھڑاہو یہ مردود ہے کیوں کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مسند میں روایت کی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا سنت یہ ہے کہ تو حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر انور کی زیارت کے لئے جانب قبلہ سے آئے اور تیری پیٹھ قبلہ کی طرف اور تیرا چہرہ قبر انور کی طرف ہو پھر تو کہے السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ (فتح القدیر جلد سوم ص ۱۶۸)

قارئین کرام! بارگاہ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی حاضری اور ادب کی کچھ باتیں آپ نے ملاحظہ کیں آخر ادب و احترام کی کیفیت یہ کیوں نہ ہوکہ آپ کی قبرانور کائنات کی ہر شی اور خدا ے تعالیٰ کی کل مخلوقات سے افضل واعلیٰ ہے نہ کعبہ اس کی ہم سری کرسکے اور نہ عرش معلی اس کی برابری کا دعویدار ہو سکتا ہے امام مالک رضی اللہ عنہ سے جو کیفیت ادب کتب میں منقول ہے اس کی ایک جھلک صاحب فتح القدیرعلامہ ابن ہمام رضی اللہ عنہنے یوں دکھائی ہے ۔

ولذاکان مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ لایر کب فی طرق المدینۃ وکان یقول استحیی من اللہ تعالیٰ ان اطأٔ تربۃ فیھا   رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بحافردابۃ ۔

اسی لئے امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ کی گلی کوچوں میں سوار ہوکر نہیں چلا کرتے تھے آپ فرمایا کرتے تھے میں اللہ تعالیٰ سے شرماتا ہوں کہ اس مٹی کو کسی سواری کے کھروں سے روندوں جس میں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آرام فرماہیں۔(فتح القدیر ج۳ ص ۱۶۸)


ادب گاہے ست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید اینجا


یہ ادب واحترام ان حضرات سے منقول ہے جو قرآن وحدیث کے علوم پر وہ عبور رکھتے تھے کہ قیامت تک کوئی ان کی مثال نہیں مل سکتی ۔ان لوگوں کا ادب بھر اعمل اور اظہار عقیدت ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے اور ایسے لوگوں کے راستہ اور طریقہ کو صراط مستقیم فرمایا گیا ان کے خلاف وہ لو گ ہیں جو مغضوب علیھم اور ضالین کے مصداق ہیں ۔

 آداب بارگاہ

ہمارا ان کا معاملہ واحد ہے جو ان کا غلام ہے ہمارا قائد ہے ان کے حضور آواز بلند کرنے سے عمل حبط ہو جاتے ہیں انہیں نام لے کر پکارنے والے سخت سزائیں پاتے ہیں،اپنے جان ودل کا انہیں مالک جانو !ان کے حضور زندہ بدست مردہ ہوجاؤ! ہماراذکر ان کی یاد کیساتھ ہے ان کا ہاتھ بعینہ ہمارا ہاتھ ہے ان کی رحمت ہماری مہر ،ان کا غضب ہمارا قہر، جس قدر ملازمت زیادہ ہوتی حضور کی عظمت ومحبت ترقی پاتی اور وہ حال مذکور یعنی خشوع وخصوع ورعب ،ہیبت روز افزوں کرتی قال اللہ تعالیٰ زادتھم ایمانا اور ایمان حضور کی تعظیم ومحبت کا نام کمالا یخفی

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا تیرے حبیب کا پیارا چمن کیابرباد


ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

الٰہی نکلے یہ نجدی بلا مدینے سے

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم وأسأل اللہ تعالیٰ ان یصلی علی نبیہ محمد والہ وان یمیتنا علی الایمان ویرحم فاقتی بذلک وان یسعد نی بلقائہ وان یتقبل ھذہ الرسالۃ وینفع بھا عبادہ المؤ منین ویغفرلی مافرط منی فیھا وفی غیرھا انہ علی کل شیٔ قدیر وصلی اللہ علی سید نا محمد والہ واصحابہ واھل بیتہ وسلم آمین 

کتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــبہ

العبد الضعیف محمد معین الدین خاں حنفی رضوی ہیم پوری 

خادم التدریس والافتاء 

دارالعلوم اہلسنت حشمت العلوم گائیڈیہہ بلرامپور۳۰؍شوال ۱۴۳۴ھ؁




हिन्दी फतवा के लिए यहाँ किलिक करें 

مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads