AD Banner

{ads}

کیاحضور ﷺ نے اپنے والدین کو زندہ کیا ہے؟

(کیاحضور ﷺ نے اپنے والدین کو زمدہ کیا ہے؟)

 استفتا ء:کیا فر ما تے ہیں علما ئے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ !اہل سنت و جما عت کے لو گ کہتے ہیں کہ سر کا ر دو عا لم  ﷺ نے اپنی والدہ ما جدہ کو زندہ فرمایا اور وہ آپ پر ایمان لا ئیں اور شرف صحا بیت سے مشرف ہو ئیں جبکہ وہا بیہ دیا بنہ کہتے ہیں کہ احیا ئے اٰمنہ رضی اللہ تعا لی عنہا با لکل بے اصل ہے ؟
(۱)اصول حدیث میں ہے ۔
کہ بعض گفتہ اند کہ ایں حدیث نیست زیرا کہ ابن جو زی اورادر موضاعات شمر د فر مو د کہ در سند وے احمد بن دا ؤد است وے متروک الحدیث وکذاب است ابن حبان گفتہ کہ وضع میکر د حدیث را!
۲)فقہا ئے کرام کا مسلم قا ئدہ ہے کہ ! من ما ت کا فرا لم  ینفعہ الایمان بعد الرجعۃ بل لو امن عند المعا ئنتہ لم ینفعہ فکیف بعد الاعاد ہ !
۳)حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے مر وی ہے کہ رسول کریم  ﷺفر ما تے ہیں کہ میں نے  اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجا زت طلب کی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی۔
اس کا نتیجہ یہ نکا لا کہ دیکھو خود سر کا ر نے فر ما یا کہ مجھے استغفار کی اجا زت نہ دی گئی۔ نیز یہ حدیث احیا ء مو تٰی و مر نے کے بعد ایمان لانے کے با رے میں نفع نہ دیگی لہٰذا یہ کہنا کہ سر کا ر نے اپنے والدین کریمین کو زندہ فر ما یا ہے
 اوروہ ایمان لا ئیں ہیں یہ جا ہلوں کا کام ہے !
لہٰذا ہمیں احا دیث و ارشادات ائمہ سے جواب بتا ئیں حق کیا ہے بہت مہر با نی ہو گی ! فقط والسلام 
المستفتی: محمد عطا ء المصطفی خاں رضوی ہیم پو ریؔ 
۷؍ صفر المظفر۱۴۳۶؁ ھ یکم دسمبر ۲۰۱۴؁ء
بسم اللہ الررحمن الرحیم
الجواب الحمدللہ علی الدوام والمدیٰ والصلاۃ والسلام علی سید نا محمد نبی الرحمۃ والہدیٰ ،وعلی اٰلہ وصحبہ المشبھین
 با لنجم فی الاہتدأ ثم التا بعین لھم باحسان لحمۃ وسدیٰ۔
بیشک اس مسئلہ میں حق و صحیح یہی ہے کہ نبی کر یم  ﷺ  کے والدین کریمین کو خدا ئے تعا لی نے حضور  ﷺ کی دعا سے آپ کے دست اقدس پر وفات شریف کے بعد دو با رہ زندگی عطا فر ما ئی اور وہ آپ ﷺ کی رسا لت و نبوت پر ایمان لا ئیں ۔ اور یہ فضیلت وشرافت حضور  ﷺ  کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہو ئی کہ بخلا ف قوا عد شرعیہ کسی کو بعد از و فا ت زندہ کر کے دو لت ایمان سے مشرف کیا ہو فقط یہ منصب جلیلہ اور فضیلت عظمی  ہما رے آقا ئے نامدار سید ابرارو اخیار شفیع رو ز شما ر   ﷺ کو عطا کی گئی ہے ۔ اور یہ رسول اکرم حبیب معظم نبی محتشم  ﷺ کے  بیشمار خصا ئص و معجزات میںسے ایک یہ بھی ہے اور حضور  سید المر سلین  ﷺ کے خصا ئص و معجزات کا انکا ر محرو می اور بد قسمتی کی نشا نی ہے’’ احیـــــا ء اٰمنـــــہ ‘‘رضی اللہ تعا لی عنہا کے متعلق وہ حدیث جسے متعدد حافظا ن حدیث نے صحیح کہا اور اس میں طعن کرنے والے کی با ت کو قابل التفا ت نہ جا نا ۔پیش خدمت ہے ملا حظہ کریں ! 

(۱) حد ثنا محمد بن الحسن بن زیا د مو لی الا نصا ر قال (نا) احمد بن یحیی الحضرمی قال (نا) قال ابو عر وۃ محمد بن یحیی الزہری قال (نا ) عبد الو ہا ب بن مو سی الزہری عن عبد الرحمن بن ابی الزنا د عن ھشام بن عر وۃ عن ابیہ عن عا ئشۃ رضی اللہ تعا لی عنہا ان النبی  ﷺ نزل الی الحجو ن کیئبا حزینا فا قا م فیہ ما شا ء ربہ عز و جل ثم رجع مسرور افقلت !یا رسول اللہ نزلت الی الحجو ن کیئبا فا قمت فیہ ما شا ء اللہ ثم رجعت مسرور۱!قال! سالت ربی عزو جل فاحیا امی فا ٓ منت بی ثم ردھا!
ترجمہ: روا یت ہے حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے کہ نبی کریم  ﷺ مقام حجو ن پر افسر دہ اور غمز دہ اترے جب تک اللہ تعا لی نے چا ہا آپ وہا ں ٹھہرے پھر آپ خو شی خو شی لو ٹے  میں نے کہا یا رسو ل اللہ  ﷺ ! آپ مقا م حجون پر غمزدہ اترے تھے پھر جب تک اللہ نے چا ہا آپ وہاں ٹھہرے پھر آپ خوشی خو شی لو ٹے ؟آپ نے فر ما یا میں نے اپنے رب عزو جل سے سوال کیا تو اللہ تعا لی نے میری ما ں کو زندہ کر دیا وہ مجھ پر ایمان لا ئیں پھر اللہ تعا لی نے ان پر موت طا ری کر دی ۔(النا سخ والمنسوخ ص ۲۸۴،مطبو عہ پو ر بندر گجرا ت)

(۲)اور حا فظ ابو بکر خطیب بغدا دی ’’کتاب السا بق واللا حق ‘‘ میں حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے روا یت کرتے ہیں !قالت حج بنا رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع فمر بی علی عقبۃ الحجون وھو باک حزین مغتم فبکیت لبکائہ رسول اللہ  ﷺ ثم انہ نزل فقال یا حمیرا ء استمسکی فاستندت الی جنب البعیر فمکث عنی طویلا ثم  عا د الی و ھو فرح متبسم فقلت لہ با بی انت وامی یا رسول اللہ نزلت من عندی وانت با ک حزین مغتم فبکیت لبکا ئک ثم انک عدت الی و انت فرح متبسم فمم ذاک یا رسول اللہ ﷺ فقال! ذھبت لقبرامی فسا لت اللہ        ان یحییھا فاحیا ھا فا منت بی وردھا اللہ عزو جل ۔

ترجمہ: کہ رسول اللہ  ﷺ  نے حجۃ الوداع کا حج ہما رے سا تھ کیا آپ میرے سا تھ الحجو ن گھا ٹی میں گز ر ے اس وقت آ پ رو رہے تھے اور غمگین تھے ،رسول کریم  ﷺ کے رو نے کی و جہ سے میں بھی رو نے لگی آ پ و ہا ں اترے اور فر ما یا اے حمیرا ٹھہر جا ؤ،میں اونٹ کی ایک جا نب ٹیک لگا کر بیٹھ گئی آپ کا فی دیر وہاں ٹھہرے رہے پھر خو شی خو شی مسکرا تے ہو ئے واپس آ ئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ آپ پر میرے ما ں با پ فدا ہو ں!آپ یہاں پر غم اور افسردگی کی کیفیت میں اترے تھے حتی کہ یا رسول  ﷺ آپ کے رو نے کی وجہ سے میں بھی رو نے لگی ،پھر آپ اس حال میں میرے پاس واپس آ ئے کہ آپ خوشی میں مسکرا رہے ہیں یا رسول اللہ! اس کی کیا و جہ ہے ؟ آپ نے فر ما یا میں اپنی ما ں اٰمنہ کی قبر کے پا س سے گزرا میں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ وہ انکو زندہ کر دے ،سو اللہ تعا لی نے ان کو زندہ کر دیا تو وہ مجھ پر ایمان لے آ ئیں     اللہ تعالی نے ان کی مو ت کو پھر لو ٹا دیا ۔(زر قا نی شرح موا ہب جلد اول ص ۳۱۴،مطبو عہ گجرات )

(۳) عن عا ئشۃ رضی اللہ تعا لی عنہا  قا لت ان النبی  ﷺ نزل الحجون کیبا حز ینا فا قام بھا ما شا ء اللہ عزو جل ثم رجع مسرور ا قال سالت ربی فاحیا لی امی فا منت بی ثم رد ھا۔
ترجمہ:حضرت ام المؤمنین عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے روا یت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے بمو قع حجۃ الوداع کے حجو ن قبر ستان مکہ معظمہ میں نزول اجلال فر ما یا دراں حا لانکہ حضور پور نو ر  ﷺ بے حد غمگین و حزین تھے آپ نے کچھ عرصہ تک وہاں اقامت اختیا ر کی جس قدر خدا وند کریم کو منظو ر تھا         پھر جنا ب رسالت  ﷺ نہا یت خوش و خرم میرے پا س تشریف لا ئے فر ما یا اے عا ئشہ ! میں نے اپنے پا ک پر ور دگا ر سے سوال کیا اس نے اپنے فضل و کرم سے میری والدہ ما جدہ کو زندہ کر دیا اس نے میری نبوت و رسالت کی دعوت کو صدق دل سے تسلیم کر لیا پھر فو ت ہو گئیں۔(المعجم الاو سط رقم الحدیث ۱۲۴۶۸)

(۴)عا رف کا مل علا مہ اسمٰعیل حقی حنفی علیہ الرحمہ  رقمطراز ہیں ۔ذکر ان النبی  ﷺ بکی بکا ء شدید ا عند قبر ا مہ و غر س شجرہ یا بستہ قال ان اخضر ت فھم و علا متہ لا مکا ن ایما نھا فا حضرت ثم خر جا من قبرہ ببر کتہ بد عا ء النبی  ﷺ واسلماوارتحلا۔
ترجمہ:مروی ہے کہ رسول کریم  ﷺ نے اپنی والدہ ما جدہ کی قبر پر بہت گریہ فر ما یا اور ایک خشک در خت لیکر والدہ ما جدہ کی قبرکے نز دیک زمین میں گا ڑ دیا اور اپنے قلب گر ا می میں یہ گما ن کیا اگر یہ در خت قد رت ربا نی سے سر سبز و شاداب ہو گیا تو یہ میرے وا لدین کر یمین کے قبول اسلام کی علا مت ہو گی پھر وہ درخت خدا کی قد رت سے فو را ہرا بھرا ہو گیا اور حضو پو ر نو ر  ﷺ  کے وا لدین کر یمین اپنی قر سے با ہر نکلے یہ حضور  ﷺ کی دعا مبا رک کا نتیجہ تھا وہ زندہ ہوتے ہی حضور  ﷺ کی نبو ت و رسا لت پر ایمان لا کر اپنی اپنی قبروںمیں واپس چلے گئے ۔(تفسیر روح البیا ن جلد اول ص ۴۷)

(۵)امام سہیلی !سند عر وہ بن زبیر حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے روا یت کرتے ہیں ان رسول اللہ  ﷺ سال ربہ ان یحیی ابو یہ فا حیا ھما لہ فآ منا بہ ثم اما تھما !
تر جمہ:کہ نبی کریم  ﷺ نے رب تعا لی سے اپنے وا لدین کریمین کی     احیاء کی دعا کی تو اللہ تعا لی نے انہیں زندہ فر ما دیا اور وہ دو نو ں آپ پر ایمان لے آئے پھر اللہ تعا لی نے انہیں مو ت دے دی (الرو ض الانف جلد اول ص ۲۹۹،مطبو عہ بیرو ت )
مذ کو رہ با لا احا دیث نورا نی سے آ فتا ب کی طرح رو شن و آ شکا ر ہو گیا کہ اہل سنت و جما عت کا مذ ہب اور ان کا قول حق و درست ہے یقینا نبی آ خر الزماں  ﷺنے اپنے والدین کریمین کو زندہ فر ما کر انہیں اپنے نبوت و رسا لت و شرف صحا بیت سے مشرف فر ما یا بعد ہ وہ اپنی اپنی قبروں میں تشریف لے گئے اور وہا بیہ دیا بنہ کا عقیدہ با طل محض ہے ۔معجزا ت و خصا ئص مصطفی  ﷺ سے انکار با عث محرومی سراسر عناد کھلا نفا ق ہے ۔

احا دیث طیبہ کے ان واضح بیا ں نا ت کے بعد اب ذیل میں چند مشہور زما نہ مقبول انام ائمہ کرام کی تصریحا ت مطا لعہ کیجئے تا کہ احیا ء ابو ین کریمین خوب روشن و آشکا ر ہو جا ئے ۔

عا شق رسول امام سہیلی رحمۃ اللہ علیہ حدیث مذ کو ر کے بعد تحریر فر ماتے ہیں ! واللہ قا در علی کل شیٔ و لیس تعجز رحمتہ و قد رتہ عن شیٔ و نبیہ   ﷺ اھل ان یختصہ بما شا ء من فضلہ و ینعم علیہ بما شا ء من کرا متہ !
اوراللہ تعا لی ہر چیز پر قا در ہے اور اس کی رحمت اور قدرت کسی چیز سے عا جز نہیں ہے اور نبی کریم  ﷺ کی ذا ت عا لی اس با ت کی مستحق ہے کہ اللہ تعا لی اپنے حبیب  ﷺ  کو جس فضل و احسا ن سے چا ئے مختص کرے ۔اور اپنے کرم سے آپ کو جس نعمت سے چا ہے نوا زدے۔(الر و ض الانف جلد اول ص ۲۹۹ ، مطبوعہ بیرو ت ،زر قا نی شرح مواہب جلد اول ص ۳۱۶ ،مطبو عہ گجرات )

امام قر طبی علیہ الرحمۃ و الرضوان تحریر فر ما تے ہیں بأ ن فضا ئلہ  ﷺ و خصا ئصہ لم تزل تتو ا لی و تتا بع  الی حین مما تہ فیکون ھٰذامما فضلہ اللہ بہ و اکرمہ ،قال ! و لیس احیاؤ ھما و ایما نھما بممتنع عقلا و لا شر عا فقد و ردفی الکتاب العزیز احیا ء قتیل بنی اسرا ئیل و اخبا رہ بقا تلہ و کا ن عیسی علیہ السلام یحیی المو تی و کذ لک نبینا  ﷺ  احیا اللہ علی یدیہ جما عۃ من المو تی قال ! واذا ثبت ھذا فما یمتنع  ایمانھما بعد احیا ئھما و یکو ن ذلک زیا دۃ فی کرامتہ و فضیلتہ ۔

نبی کریم  ﷺ کے فضا ئل و خصا ئص آپ کے وصال تک متوا تر اور مسلسل ثا بت ہو تے رہے ہیں لہٰذا آپ کے وا لدین کریمین کو زندہ کر نا بھی آپ کے ان خصا ئص میں سے ہے جن سے اللہ تعا لی نے آپ کو مشرف کیا ہے ۔ نیز آپ کے والدین کریمین کو زندہ کر نا اور ایمان لا نا عقلا اور شر عا ممتنع نہیں ہے ،کیو نکہ قرآن مجیدمیں مذ کو رہے کہ بنی اسرا ئیل کے مقتول کو زندہ کیا گیا اور اس نے اپنے قاتل کی خبر دی اور حضرت عیسی علیہ السلام مردوں کو زندہ کیا کر تے تھے ،اسی طرح ہمارے نبی  ﷺ کے ہا تھ پر اللہ تعا لی نے مردوں کی ایک جما عت کو زندہ فر ما یا اور جب یہ امور ثا بت ہیں تو آپ کے والدین کریمین کو زندہ کر نے اور پھر ایمان لا نے سے کیا چیز ما نع  ہے ؟ جب کہ اس میں آپ کی زیا دہ کرا مت اور فضیلت ہے ۔(التذ کرہ جلد اول ص ۳۷،مطبو عہ بیرو ت،مواہب اللدنیہ مع زرقا نی جلد اول ص ۳۲۰ مطبوعہ گجرا ت ،الحا وی للفتا ویٰ جلد دوم ص ۲۱۸ ،مطبو عہ بیروت)

علا مہ جلا ل الدین رو می علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں
 یفعل اللہ ما یشا ء را خواندہ
 پس چرا اندر تحیر ما ندہ

اندعا ئے شیخ نے چوں ہر دعا ست
نا ئب ست او دست او دست خداست

گفتہ  او گفتہ اللہ بود
گر چہ از حلقوم عبد اللہ بود 

۱)اللہ جو چا ہتا ہے وہ کر تا ہے تو نے یہ آ یت پڑھی ہے پھر حیرا ن کیوں ہے ؟
۲)شیخ کا مل کی دعا عام دعا ؤں کی طرح نہیں وہ خدا کا نا ئب ہے اس کا ہاتھ خدا کا ہا تھ ہے 
۳)اس کا قول اللہ تعا لی قول ہے اگر چہ بظا ہر بندہ خدا کے منھ سے نکلا ہے ۔

ان قسمت کے ما روں (یعنی وہا بیہ ،دیا بنہ)کو عیسی علیہ السلام و دیگر انبیا ء کرام علیہم السلام بلکہ تقریبا اولیا ء امت کے احیا ء پر بھی ایمان ہے لیکن اپنے نبی علیہ السلام کے احیا ء سے انکا ر ہے ۔

العیاذ با للہ الحمد للہ الذی ھدانا لھٰذا اللھم اجعلنا من المھتدین ولا تجعلنا فئۃ للقوم الظلمین ۔
آنکھ والے تیرے جو بن کا تما شا دیکھے 
دیدئہ کو ر کو کیاآے نظر کیا دیکھے
٭٭٭٭٭

منکرین احیا ء اٰمنہ رضی اللہ عنہا پر تین دلیلیں اور اسکا مسکت جواب 
دلیل وہا بیہ نمبر (۱) رسائل اصول حدیث میں ہے !
کہ بعض گفتہ اند کہ ایں حدیث نیست زیرا کہ ابن جو زی اورادر مو ضو عات شمر دو فر مو د کہ سند وے احمد بن دا ؤد است وے متروک الحدیث و کذا ب است ابن حبا ن گفتہ کہ وضع میکر دحدیث را ۔

بعض علما ء کرام نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں کیو نکہ اس حدیث کو ابن جو زی نے اس کو مو ضو عات میں شما ر کیا ہے کیونکہ اس سند میں احمد بن دا ؤد را وی جو متروکہ الحدیث ہے اور کاذب ہے ابن حبا ن نے کہا ہے کہ وہ جھوٹی حدیثیں بنا یا کر تا تھا ۔

جواب نمبر (۱)اصول حدیث سے بے بہرہ شخص ہی اس حدیث کو مو ضوع کہہ سکتا ہے ور نہ اصول حدیث سے معمو لی وا قفیت رکھنے والا بھی جا نتا ہے کہ اس حدیث کو ضعیف کہا جا سکتا ہے لیکن مو ضوع کہنا ہر گز درست نہیں ! اور حدیث ضعیف اگر متعددطرق سے مر وی ہو جا ئے توپھر وہ ضعیف بھی  نہیں رہ جا تی بلکہ حسن ہو جا تی ہے ۔جیسا کہ کتب اصول حدیث میں ہے ۔

اول :۔مقدمہ مشکوۃ ص۵؍پر ہے کہ والضعیف ان تعدد طر قہ وا نجبر ضعفہ یسمی حسنا لغیرہ !اور ضعیف حدیث اگر متعدد طریقوں سے  مروی ہو اور اسکا ضعف جا تا رہا ہے تو اس کا نام حسن لغیرہ رکھا جا ئے گا۔

دوم : مقدمہ طحطا وی مطبو عہ ایجو کیشنل پر لیس ادب منزل پا کستان چوک کرا چی میں ہے !والضیف ان تعدد طرقہ و انجبر ضعفہ یقال لہ حسنا لغیرہ !اور ضعیف حدیث کے اگرمتعدد طرق ہو جائیں اور اس کا ضعف دور کر دیا اسے حسن لغیرہ کہا جا ئے گا ۔

سوم:امام المحدثین عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اشعۃ اللمعا ت شرح مشکوۃ کے مقدمہ میں تحریر فر ما تے ہیں !
اگر در حدیث ضعیف تعدد طرق جبرآں نقصان ضعف وے کر دہ آنرا حسن لغیرہ گو یند ! یعنی اگر ضعیف حدیث میں متعدد اسناد مل کر اس کے ضعف کو دور کریں تو اسے حسن لغیرہ کہتے ہیں !

چہا رم :وہا بیہ دیا بنہ کے پیشوا عبد اللہ رو پڑی تو حدیث ضعیف کے متعدد طریق کے سبب صحت کے بھی قا ئل ہو ئے ہیں !چنا نچہ اپنے فتا وی اہل حدیث صفحہ ۴۷۳؍ پر علا مہ سیو طی رحمۃ اللہ علیہ کی عبا رت پر تبصرہ کر تے ہو ئے لکھتے ہیں۔ امام سیو طی نے انکے مجمو عہ پر حسن یا صحیح ہو نے کا حکم اس لئے نہیں لگا یا کہ ان میں ضعف زیا دہ ہے اگر ضعف کم ہو تا تو مجمو عہ مل کر حسن یا صحیح کے در جہ کو پہنچ جا تا خیران پر عمل سے رو کا نہیں جا تا خاص کر جب کہ امام بھی اس طرف گئے ہیں ۔

قا رئین حضرا ت دیکھیں کہ اگر وہا بیہ دیا بنہ کے بقول یہ با ت درست ہے کہ حدیث ضعیف فضا ئل اعمال میں مقبول ہو تو پھر ان کے بڑوں نے اسے فضا ئل اعمال میں قا بل قبول کیوں کہا ہے اس سے معلوم ہوا کہ وہا بیہ دیا بنہ اپنے بزرگوں کہ کتا بوں سے بھی نا وا قف ہیں !لہٰذا حدیث احیا ء اٰمنہ کا مو ضو ع کہنا بے شرم وہا بیہ ،دیا بنہ کا اپنا وہم و گما ن ہے !کما لا یخفی علی من طا لعہ بامعا ن النظر واللہ المو فق۔

اب ذرا چشم حق بین سے ارشا دات ائمہ ملا حظہ کریں 

فقیہ اجل سید احمد بن محمد حسنی حموی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحیر فر ما تے ہیں ۔
فا ن قلت الیس الحدیث الذی و رد فی احیا ء ھما مو ضو عا
قلت زعمہ بعض النا س الا ان الصواب انہ ضعیف لا مو ضوع ‘‘
ولقد احسن الحا فظ نا صر الدین الدمشقی حیث قال !
(۱)حبا اللہ النبی مزید فضل 
(۲) فاحیا امہ وکذا اباہ
(۳)فسلم فا لقد یم بہ قدیر
نص علی کون الحدیث المذ
 علی فضل فکان بہ رء و فا
لا یمان بہ فضلا لطیفا
وان کان الحدیث بہ ضعیفا
کور ضعیفا لا مو ضو عا 
اگر تو یہ با ت کہے کہ حدیث احیا ء ابو ین کریمین کی موضوع ہے !
سید احمد حموی رحمۃ اللہ علیہ کاجوا ب
آپ فر ما تے ہیں’’یہ صرف بعض بے شرم اور نا فہم لو گوں کا اپنا وہم و گما ن ہے کیونکہ قا بل قبول واقر ب الی الصواب یہ بات ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن ہر گز مو ضوع نہیں ہے ‘‘
دیکھو حا فظ امام نا صر الدین دمشقی نے کیا خوب کہا کہ !
(۱) اللہ تعا لی نے اپنے نبی کریم  ﷺ پر بڑا فضل کیا اور وہ ان کے لئے بڑا رحیم ہے 
(۲) ان کی خا طر ان کی وا لدہ اسی طرح وا لد کو زندہ کیا تا کہ آپ پر ایمان لائیں یہ بہت بڑا فضل ہے ۔
(۳) یہ ما ن لینا چا ہئے کہ وہ اللہ تعا لی اس مر پر قا در ہے ،اگر چہ یہ مسئلہ حدیث ضعیف سے ثابت ہے ۔
یہ ابیا ت نص قوی ہے کہ حدیث ضعیف ہو گی ہر گز مو ضو ع نہیں ۔(غمز عیون البصا ئر جلد ۲ ص ۴۶۷) 
 
عاشق رسول شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فر ما تے ہیں’’احیا ء والدین اگر چہ در قدرت خود ضعیف است ولیکن تصحیح و تحسین کر دند ہ اند بتعدد طریق‘‘یعنی حدیث شریف احیا ء ابوین کریمین کی اگر چہ بہ لحا ظ اسنا د ضعیف ہے لیکن علما ء کرام رحمۃ اللہ تعا لی علیہم نے اس کو بوا سطہ تعدد طرق حدیث کے صحیح اور احسن تصور کیا ہے ۔(اشعۃ اللمعا ت شرح مشکوۃفا رسی جلد اول ص ۷۱۸)

وحدیث الاحیا ء ان کا ن فی حد ذا تہ ضعیفا لکنہ صححہ بعضھم لبلو غہ در جتہ الصحتہ و متعدد طر قہ و ھذا العلم کا ن مستو رامن المتقدمین فکشفہ علی المتا خرین واللہ یختص برحمتہ من یشا ء ۔

حدیث احیا ء ابوین کریمین اگر چہ سند اس کی ضعیف در جہ کی ہے لیکن علماء نے اس کو صحیح تصور کیا ہے بو جہہ پہو نچنے در جہ صحت تک اور بواسطہ تعدد طرق حدیث کے گو یا یہ علم متقدمین پر پو شیدہ رہا کہ اللہ تعا لی نے اپنے فضل و کرم سے علما ء متا خرین پر اس راز مخفی کو کھو ل دیا یہ سب اللہ تعا لی کا محض فضل  و کرم ہے   اللہ تعا لی جس کو چا ہتا ہے اپنے فضل و کرم کے سا تھ خاص کرتا ہے ۔(زاد اللبیب ص ۲۳۶)

خا تم الحفاظ علا مہ جلا الدین سیو طی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فر ما تے ہیں و کا ن مما نسب من المعجزا ت والخصا ئص الیہ احیاء ھما حتی امنا بہ ا بو یہ وما زال اھل العلم و الحدیث فی القدیم والحدیث یرو ن ھٰذا الخبرو یسرو ن بہ و ینشرون ویجعلونہ    فی الخصا ئص و المعجزات و ید خلو نہ فی المنا قب  و الکرا مات و یز عمون ان ضعف الاسنا د فی ھذا  المقام معفو ن و یرا د ما ضعف فی الفضا ئل و المنا قب معتبر 

ترجمہ:۔اور جو چیز معجزا ت اور خصا ئص سے رسول کریم  ﷺ کی طرف منسوب کی جا تی ہے ان میں سے احیا ء ابوین کریمین اور ان کے قبول اسلام کا واقعہ ہے ۔ہمیشہ اہل علم حضرا ت اور محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ گروہ بیچ زمانہ گزشتہ اور عہد حاضرہ کے اس حدیث شریف کی روا یت کر تے  چلے آ ئے ہیں اور اس بات کے اظہا ر سے خوش ہو تے ہیں اور ہر گز اس کو مخفی نہیں کرتے اور اس با ت کو حضور  اکرم  ﷺ کی خصا ئص اور معجزا ت سے شما ر کر تے ہیں اور آپ کے مناقب اور فضا ئل میں در ج کرتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اس با رے میں سند کا ضعیف ہو نا معا ف ہے کیو نکہ فضا ئل اور خصا ئص نبوی میںضعیف احا دیث  سے احتجا ج کر نا جمہو ر محدثین کے نزدیک معتبر اور قا بل اعتما د ہے ۔(المقا مۃ السند سیہ فی ا لنسبۃ المصطفویۃ ص ۵)

عا شق رسول امام حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسا لے مو لداور شرح ہمزیہ میں فر ما تے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف نہیں ، بلکہ بہت سے حفاظ حدیث نے اسکی صحت کا حکم دیا ہے ۔

ایک محدث کہتے ہیں ۔ایقنت ان ابا النبی و امہ احیا ھما الر ب الکریم البا ری حتی لہ شھد بصدق رسالۃ سلم فتلک کرامۃ المختا ر ھٰذا  الحدیث ومن یقول بضعفہ فھم الضعیف عن الحقیقۃ عاری ۔

مجھے یقین ہے کہ اللہ تعا لی نے نبی کریم  ﷺ کے والدین کریمین کو زندہ فر ما یا یہاں تک کہ دو نو ں نے آپ کے رسا لت کی گوا ہی دی پس اس حدیث میں حضور  ﷺ کا بڑا شرف ہے جو اس کے ضعف کا قا ئل ہے وہ خود ضعیف العقیدہ اور حقیقت سے عا ری ہے (از ۔محو لہ حجۃ اللہ علی العٰلمین جلد اول ص ۶۵۹)

خاتم المحققین علا مہ ابن عا بدین شا می حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں ’’الا تری ان نبینا  ﷺ قد اکر مہ اللہ تعا لی بحیا ۃ ابو یہ لہ حتی آ منا بہ کما فی الحدیث صححہ القر طبی و ابن ناصرالدین الد مشقی فا نتفعا با لا یمان بعد المو ت علی خلا ف القا عدۃ اکرا ما لنبیہ  ﷺ وصح ان اللہ تعا لی رد علیہ الشمس بعود مغیبھا حتی صلی علی کرم اللہ تعا لی و جھہ العصر فکما اکرم بعود الشمس  والوقت بعد فوا تہ فکذ لک اکرم بعودالحیا ت و وقت الایمان بعد فوا تہ‘‘

کیا تو اس با ت کو نہیں جا نتا کہ رسول کریم  ﷺ کو اللہ تعا لی نے یہ کرامت عطا فر ما ئی ہے کہ آپ کے وا لدین کریمین کو دوبا رہ زندہ کیا اور وہ آپ کی نبوت پر ایمان لا ئے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ صحیح تسلیم کیا اس کو   امام قرطبی نے اور امام نا صر الدین د مشقی نے بس ان کا مر نے کے بعد دو لت ایمان سے مشرف اور فا ئدہ مند ہو نا بخلاف قوا عد شر عی کے حضور  ﷺ کی فضیلت اور کرا مت کی نہا یت زبر دست دلیل ہے اور یہ با ت بھی با لکل صحیح ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے حضور  پو ر نور سر کا ر مصطفی  ﷺ کی دعا سے بمقام خیبر سو رج کے غرو ب کے بعدلوٹا یا تھایہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ تعا لی نے اپنی نما ز عصر ادا کی جس طرح اللہ تعا لی نے ان کو اعا دہ سو رج و تجدید وقت نما ز سے بعد  قضا ہو نے نماز کے ادا ئیگی نما ز کی کرا مت عطا کی تھی اسی طرح اللہ تعا لی نے حضور پو ر نو ر  ﷺ کے ابوین کریمین  ﷺ کو زندہ کیا اور قبول ایمان کی کرامت عطا کی ہے ۔(فتا وی شا می جلد ۶ ص ۳۶۹؍ مطبو عہ دیو بند )

خاتم الحفاظ علا مہ جلا ل الدین سیو طی رضی اللہ تعا لی عنہ تحریر فر ما تے ہیں !کہ حضور  ﷺ کے والدین کریمین کے ایمان لا نے پر مجھے واضح دلیل یہ ملی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعا لی عنہما سے روا یت کہ اصحا ب الکہف امام مہدی کے مدد گا ر ہو ں گے ،امام ابن مر دویہ نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ اصحاب کہف اپنی مو ت کے بعد پھر زندہ کئے جا ئیں گے اور اس میں کو ئی استعباد نہیں ہے کہ اللہ تعا لی نے نبی کر یم  ﷺ  کے وا لدین کے لئے ایک عمر  لکھ دی ہو پھر انکی عمر پو ری ہو نے سے پہلے ان کی رو حوں کو قبض کر لیا ہو پھر انکو وفات کے بعد زندہ کر کے بقیہ زندگی عطا فر ما ئی اور وہ اس زندگی میں آپ پر ایمان لے آ ئے ہو ں پھر انکی زندگی پو ری ہو نے کے بعد ان پر و فا ت طا ری کردی ہو جیسا کہ اصحا ب کہف کے سا تھ ہوا اور دو مو توں کے در میا ن جو انکو حیات عطا فر ما ئی یہ نبی کریم  ﷺ کی خصو صیت کی وجہ سے ہو ۔(التعظیم والمنتہ ص۸،مطبو عہ بیرو ت ،زرقا نی شرح مواہب اللدنیہ جلد اول ص ۳۲۲)

تصریحا ت ائمہ ،محدثین سے آ فتا ب عا لم تا ب کی طرح رو شن و آ شکا ر ہو گیا کہ احیا ء ابو ین کریمین کی حدیث عند العلماء با لکل صحیح  قا بل قبول ہے جس کی تصدیق و تصحیح ،امام قر طبی ،خطیب بغدا دی ،حا فظ ابن عسا کر ،علا مہ سہیلی ،علا مہ ابوالعبا س قر طبی ،محب طبری ، حا فظ ابن شا ہین ،ابن سید النا س ،علا مہ ابی ما لکی ،علامہ سنو سی ما لکی ،حا فظ شمس الدین بن نا صر الدین محدث دمشقی ،وغیرہم نے کی ہے 

لہٰذا حدیث احیا ء آمنہ رضی اللہ تعا لی عنہاکا اب بھی مو ضوع کہنا یہ   دیا بنہ ،وہا بیہ کی ضد اور ہٹ دھر می ہے !سچ فر مایا ہے اعلی حضرت عظیم البر کت ،مجدد اعظم ،امام احمد رضا خاں رضی اللہ تعا لی عنہ نے ۔
اف رے منکر یہ بڑھا جوش تعصب آخر
بھیڑ میں ہا تھ سے کم بخت کے ایمان گیا

دلیل وہا بیہ نمبر (۲)فقہا ئے کرام کا مسلم قا عدہ ہے کہ !
من ما ت کا فرالم  ینفعہ الایمان بعد الرجعۃ بل لو آ من عند المعا ینۃ لم ینفعہ ذلک فکیف بعد الاعا دۃ ۔
جو شخص کفر کی حا لت میں فو ت ہو گیا پھر اس کو دنیا میں لا نا اور ایمان لانا کچھ فا ئدہ نہیں دیتا بلکہ اگر کو ئی شخص عذا ب اخروی کے دیکھنے کے بعد ایمان قبول کر ے جس کو ایمان با ئس کہتے ہیں کچھ فا ئدہ نہیں دیتا تو پھردو با رہ زندہ کئے جانے کے بعد ایمان لا نا کیو نکر فا ئدہ مند ہو گا ؟

جواب:وہا بیہ دیا بنہ کا انکار احیا ء ابوین کریمین میں اس قا عدہ کو پیش کر نا اور یہ نتیجہ نکا لنا کہ رسول کریم  ﷺ کا اپنے والدین کریمین کو زندہ کر نا اور ان کا ایمان لا نا بعد و فا ت کیو نکر فا ئدہ مند ہو گا !یہ انکی ہٹ دھر می اور فر یب کا ری ہے علا وہ ازیں احا دیث و تصریحا ت ائمہ پیش کی گئیں ان سب سے اندھا بن جا نا اور اس قاعدہ کو پیش کر کے مغا لطہ دینا بے دینی ہے اب یہ بھی دیکھئے کہ مخا لفین نے جس قاعدہ کو نفی احیا ء ابوین کریمین کی دلیل بنا ئی ہے !

ائمہ اس کے کیا معنی بتا تے ہیں !ملا حظہ فر ما ئیں !
علامہ قر طبی رحمۃ اللہ علیہ رقمطر از ہیں !قو لہ من مات کا فرا الی آخر ۔کلامہ مر دود بما روی فی  الخبر ان اللہ تعا لی ردالشمس علی نبیہ ﷺ بعد مغیبھا ذکر ہ الطحا وی و قال انہ حدیث ثا بت فلو لم یکن رجوع الشمس نافعا وانہ لا یتجد د الوقت لما ردھا علیہ فکذ لک یکو ن احیا ء ابوی النبی  ﷺ نا فعا لا یما نھما و تصدیقھما با لنبی ﷺ 

امام قر طبی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ! قول قا ئل کہ !من ما ت کا فرا لم ینفعہ الا یمان !کلام مر دود ہے کیو نکہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضور علیہ السلام پر سورج غرو ب ہو نے کے بعد وا پس پھیرا تھا اس کو امام طحا وی رحمۃ اللہ علیہ نے معانی الاٰثا ر میں !روا یت کیا ہے !اور کہا یہ حدیث شریف ثا بت ہے اگر سو رج لو ٹا نے سے تجدید وقت نماز عصر کا صحیح ہو نا نہ تھا تو پھر اعا دہ آ فتا ب کی دعا کر نا عبث اور اعا دہ آ فتا ب کی کیا حا جت تھی !آپ نماز قضا ء پڑھ سکتے تھے اور اسی طرح نبی کریم  ﷺ کے وا لدین کریمین کو زندہ کر نا ان کے ایمان لا نے اور نبی کریم  ﷺ کی تصدیق کر نے کے لئے مفید تھا(التذکرہ ،جلد اول صفحہ ۳۷ ،مطبو عہ بیروت ،شرح زرقا نی علی الموا ہب جلد اول ص ۳۲۱ مطبو عہ گجرا ت)

ؑٓ عا شق رسول مجدد اعظم امام احمد رضا خا ں رضی اللہ تعا لی عنہ تحریر فر ما تے ہیں !’’ وبما قرا ت امر الا حیا  ء اند فع ما زعم الحا فظ ابن دحیۃ من مخا لفۃ لا یا ت عدم انتفا ع الکا فر بعد مو تہ کیف وانا لا نقول ان الاحیا ء لا حدا ث ایمان بعد کفر ہ بل لا عطا ء الایمان بمحد  ﷺ و تفا صیل د ینہ الاکرام بعد المضی علی محض التو حید و حینئذ لا حا جۃ بنا الی اد عا ء التخصیص فی الایت کما فعل العلما ء المجیبو ن۔

تر جمہ:یہ زندہ کر نے کا معا ملہ جو تو نے پڑھا ہے  اس سے حا فظ ابن دحیہ کا وہ قول مند فع ہو گیا کہ والدین کریمین کا ایمان ما ننے سے ان آ یا ت کریمہ کی مخالفت لازم آ تی ہے جن میں کا فر کے مر نے کے بعد عدم انتفاع کا ذکر ہے یہ مخالفت کیسے لا زم آ سکتی ہے حالانکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ والدین کریمین رسول اللہ  ﷺ کو کفر کے بعد ایمان دینے کے لئے زندہ کیا گیا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ توحید پر انتقال فر ما نے کے بعد انھیں محمد رسول اللہ  ﷺ پر اور آ پ کے دین اکرم کی تفاصیل پر ایمان کی دو لت سے مشرف فر ما نے کے لئے زندہ کیا گیا اس صو رت میں ہمیں آ یا ت کر یمہ میں تخصیص کا دعوی کر نے کی ضرو رت نہیں جیسا کہ جواب دینے وا لے علما ء نے کیاہے(فتا وی رضو یہ شریف جلد ۱۱ ص ۱۶۳)

امام زر قا نی شرح موا ہب میں ائمہ قا ئلین نجا ت کے اقوال و کلما ت ذ کر کر کے تحریر فر ما تے ہیں ’’فھذا ماوقفنا علیہ من نصوص علما ئنا ولم نر لغیر ھم مایخا لفہ الا ما یشم من نفس ابن دحیۃ وقد تکفل بردہ القر طبی ‘‘

یہ ہما رے علما ء کے وہ نصو ص ہیں جن پر میں وا قف ہوا اور ان کے غیرسے کہیں اس کا خلا ف نظر نہ آیا سوا ئے ایک بو ئے خلا ف کے جو ابن دحیہ کے کلا م سے پا ئی گئی اور امام قر طبی نے بر وجہ کا فی اس کا رد کیا ۔(زر قا نی جلد اول ص ۳۴۹ ،مطبو عہ گجرا ت )

دلیل وہا بیہ نمبر (۳)عن ابی ھریرۃ قال زار النبی  ﷺ قبر امہ فبکی وا بکی من حو لہ فقال  ﷺ استا ذنت ربی فی ان استغفر لھا فلم یو ذن لی واستا ذ نتہ فی ان از و ر قبر ھا فا ذن لی فزو ر القبور فا نھا تذ کر المو ت !

تر جمہ:حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعا لی عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ نبی اکرم  ﷺ نے اپنی وا لدہ کی قبر کی زیا رت کی آپ خود بھی رو ئے اور آپ نے اپنے گرد مسلما نوں کو بھی رلا یا اور فر ما یا میں نے اپنی والدہ کے استغفا ر کے لئے اپنے رب سے اجا زت طلب کی تو مجھے اجا زت نہیں دی گئی پھر میں نے یہ اجا زت طلب کی کہ میں ان کی قبر زیا رت کروں تو مجھے اس کی اجا زت دے دی گئی تو تم قبروں کی زیا رت کیا کروں یہ موت کو یا د دلا تی ہے ۔(مسلم جلد اول ص ۳۱۴ ،)

جواب:رسول اکرم نبی محتشم  ﷺ کے وا لد ین کریمین کے ایمان کی نفی پر وہابیہ ،دیا بنہ،و دیگرمخا لفین کی قوی ترین دلیل یہی حدیث ہے !کہ آپ نے اپنی والدہ کے لئے استغفا ر کی اجازت طلب کی تو آپ کو اس کی اجازت نہ دی گئی ! ہم کہتے ہیں کہ استغفا ر کی اجا زت نہ دینے کا واقعہ پہلے کا ہے اور آ پ کے والدین کا زندہ کیا جا نا اور ان کا ایمان لا نا بعد کا واقعہ ہے جو حجۃ الوداع کے مو قع کا ہے اسی وجہ سے امام ابن شا ہین اور دیگر ائمہ و محققین نے  اس حدیث کو صحیح مسلم کی حدیث کے لئے نا سخ قرار دیا ہے !

جیسا کہ علا مہ قر طبی رضی اللہ تعا لی عنہ تحریر فر ما تے ہیں !’’لا تعا رض بین حدیث الاحیا ء و حدیث النھی عن الا ستغفا ر ،فا ن احیا ء ھما متا خر عن الا ستغفا ر لھما بدلیل حدیث عا ئشۃ ان ذلک کا ن فی حجۃ الوداع ولذ لک جعلہ ابن شا ہین ناسخا لما ذکر من الاخبا ر ‘‘

ان دو نو ں حدیثوں میں کو ئی تعا رض نہیں ہے کیو نکہ آپ کو اپنی والدہ ماجدہ کے لئے استغفار کر نے سے منع کر نے کا وا قعہ پہلے کا ہے اور آپ کے والدین کریمین کو زندہ کر نے کا واقعہ بعد کا ہے ،حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا کی حدیث میں ہے کہ والدہ کو زندہ کر نے کا وا قعہ حجۃ الوداع کے مو قع کا ہے  اس لئے ابن شا ہین محدث نے حدیث احیا ء کو کتا ب النا سخ والمنسو خ میں دو سری احا دیث کے لئے نا سخ قرار دیا ہے ۔(التذ کر ہ جلد اول ص ۳۵ ، مطبو عہ بیرو ت )

(۲)علا مہ اسمٰعیل حقی حنفی علیہ الرحمہ تحریر فر ما تے ہیں !واما ما روی عنہ فلم یو ذن لی فی الشفا عتہ فھو متقدم علی احیاء ھما لا نہ کا ن فی حجۃ الوداع فمن الجا ئز ان یکو ن ھٰذا الدرجہ حصلت لہ علیہ الصلوۃ والسلام بعد ان لم تکن‘‘

ترجمہ:جو نبی کریم  ﷺ سے مروی ہے کہ مجھے شفا عت طلب کرنے کی اجازت نہ ملی یہ روا یت واقعہ احیا ء سے پہلے کی ہے کیو نکہ ان کے زندہ کر نے کا واقعہ حجۃ الوداع میں ظہور ہوا ہے اور یہ با ت با لکل ممکن الوقوع اور جائز ہے کہ یہ کرامت احیاء ابوین کریمین کی حضور  ﷺ کو ان روا یا ت مخالف کے بعدحاصل ہو ئی ہو یہی با ت قا بل اعتماد ہے ۔(تفسیر روح البیان جلد اول ص ۴۰۷)

علا مہ حموی شا رح الاشباہ والنظا ئر رحمۃ اللہ علیہ تحریر فر ما تے ہیں !’’وذکر بعض اھل العلم فی الجمع ما حصلہ ان من الجا ئز ان یکو ن ھذہ درجۃ حصلت لہ علیہ الصلوۃ والسلام بعد  ان لم تکن وان یکو ن الاحیا ء والایمان متاخرا عن ذلک فلا معا رضہ ‘‘ بعض اہل علم نے تطبیق رو ایا ت یو ں ذکر کی ہے کہ ممکن ہے کہ یہ کرامت نبی کریم  ﷺ کو بعد میںحا صل ہو ئی ہو پہلے حاصل نہ ہو یہ کہ ابوین کریمین کا زندہ ہو نا اور ایمان لا نا مخا لف احا دیث سے بعد کا واقعہ ہو تو اس صورت میں کو ئی تعا رض با قی نہ رہا ۔(غمز العیون البصا ئر جلد ۲ ص ۴۶۸)

(۴) حا فظ فتح  الدین ابن سید النا س رحمۃ اللہ نے ،سیرت میں ،حدیث احیاء کو حدیث نہی عن الاستغفا ر سے مو خر ذکر کر نے کے بعد تحریر فر ما تے ہیں !’’ذکر بعض اھل العلم فی الجمع بین ھٰذہ الرو ا یا ت ما حا صلہ ان النبی ﷺ لم یزل را قیا فی المقاما ت السنیۃ صا عدا فی الدراجات العلیۃ الی ان قبض اللہ رو حہ الطا ہرۃ الیہ وا زلفہ بما خصہ بہ لد یہ من الکرا مات الی حین القدوم علیہ فمن الجا ئز     ان تکو ن ھٰذہ در جۃ حصلت لہ  ﷺ بعد ان لم تکن و ان یکو ن الا حیا ء والا یمان متا خرا عن تلک الا حا دیث فلا تعا رض ۔انتھی

بعض اہل علم حضرات نے ان دو نو ں روایت میں یو ں تطبیق ذ کر کی ہے جس کا ما حصل یہ ہے کہ نبی کریم  ﷺ ہمیشہ بلند مقامات اور اعلی در جات کی طرف طر قی کر تے رہے ،یہاں تک کہ اللہ تعا لی نے آپ کی پا کیزہ رو ح کو اپنی طرف قبض فر ما لیا اور اپنی با ر گا ہ میں قر ب خاص سے نوا زالہٰذا جائز ہے کہ آپ  ﷺ کو یہ در جہ عطا ہو گیا  ہو کہ آپ  ﷺ  کے والدین کریمین کو وصال کے بعد زندگی ملے اور وہ آپ  ﷺکی رسا لت پر ایمان لا ئیں اور احیا ء و ایمان کا واقعہ ان احا دیث کے بعد کا ہے جن میں اس کا خلاف آ یا ہے لہٰذا ان کے در میا ن کو ئی تعا رض نہیں ہے ۔(اللا ئی المصنو عہ ،جلد اول ص ۲۴۶،والحا دی للفتا ویٰ جلد دوم ص ۲۱۹ ،و زر قانی شرح مواہب جلد اول ص ۳۲۲)

(۵) حا فظ شمس الدین ابن نا صر الدین دمشقی رحمۃ اللہ رقمطراز ہیں !’’و جعلو ہ نا سخا لما خا لفہ من الاحا دیث المتا خرہ ولم یبا لو ا بضعفہ لا ن الحدیث الضعیف یعمل بہ فی الفضا ئل و المنا قب ‘‘

اور اس حدیث کو دوسری تمام مخا لف حدیثوں کے لئے نا سخ قرار دیا ہے اور اس با رے میں ضعیف اسنا د کی کچھ پرواہ نہیں کی کیو نکہ جمہور علما ء کرام رحمۃاللہ علیہم اجمعین کے نز دیک فضا ئل اور منا قب میں ضعیف احا دیث پر عمل کرنا جائز ہے ۔(از محولہ زرقا نی شرح موا ہب جلد اول ص ۳۱۸)

(۶) علا مہ زرقا نی شرح مواہب اللدنیہ میں رقمطراز ہیں !’’و یمکن الجواب عن الحدیثین با نھا کا نت مو حد ۃ غیر انھا لم یبلغھا شا ن البعث والنشور وذلک اصل کبیر فاحیا ھا اللہ لہ حتی آ منت با لبعث و بجمیع ما فی شریعتہ ولذا تا  خرا حیا ؤ ھا الی حجۃ الو داع حتی تمت الشریعۃ ،ونزل (الیوم اکملت لکم دینکم )فاحییت حتی آمنت بجمیع ما انزل علیہ۔

اور معا رض احا دیث کا یہ جواب ممکن ہے کہ ابو ین کریمین پہلے ہی موحد اور خدا پرست تھے مگر ان کو کما حقہ دار آ خرت کا علم حا صل نہ تھا چو نکہ آخرت پر ایمان لا نا دین حقا نی کے اصولی چیزوں سے ہے پھر اللہ تعا لی نے ان کو زندہ کیا تاکہ دا ر آ خرت اور تما م احکام شرعی پر کامل طور پر ایمان لا ئیں اس لئے اللہ تعا لیٰ نے حجۃ الوداع کے زما نہ تک ان کے زندہ کر نے میں تا خیر کی یہاں تک کہ دین اسلام مکمل ہو گیا اور یہ آ یت نا زل ہو ئی (الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی )آج میں نے تمہا رے لئے تمہا را دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پو ری کر دی پھر ان کو زندہ کیا گیا تا کہ تمام امور دینی اور احکام شرعی پر مکمل طور پر ایمان لا ئیں ۔(زرقا نی شرح موا ہب جلد اول ص ۳۳۵ ،مطبو عہ گجرا ت )

(۷)اعلی حضرت مجدد اعظم رضی اللہ تعا لی عنہ تحریر فر ما تے ہیں ! اب ذرا چشم حق بین سے دیکھئے !حضرات ابوین کریمین رضی اللہ تعا لی عنہما کا انتقال عہد اسلام سے پہلے تھا تو اس وقت تک وہ صرف اہل تو حید و اہل لا الہ الا اللہ تھے تو نہی از قبیل لیس ذلک لک ہے بعد ہ رب العزت جل جلا لہ نے اپنے نبی کریم  ﷺ کے صدقے میں ان پر اتمام نعمت کے لئے اصحاب کہف رضی اللہ تعا لی عنہم کی طرح انہیں زندہ کیا کہ حضور  ﷺ پر ایمان لا کرشرف صحا بیت پا کر آرام فر ما یا لہٰذا حکمت الٰہیہ کہ یہ زندہ کر نا حجۃ الوداع میں واقع ہوا جب کہ قرآن کریم پورا  اتر لیا اور ’’الیو م اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ‘‘(آج میں تمہا رے لئے تمہا را دین کامل کر دیااور تم پر اپنی نعمت پو ری کر دی )نے نزول فر ما کر دین الٰہی کو تام و کا مل کر دیا تا کہ انکا ایمان پو رے دین کا مل شرا ئع پر وا قع ہو ۔(فتا وی رضو یہ جلد ۱۱ص ۱۶۲)

اقول وبا للہ التو فیق 
حضور اقدس  ﷺ  کو استغفا ر سے رب العز ت نے اسی لئے منع فرمایا کہ آپ کے وا لدین گنہ گا ر نہیں تھے استغفار تو گنہ گا روں کے لئے ہو تا ہے اور گنہ گاروہ مجرم ہو تا ہے جسکو نبی یا رسول دعوت تو حید  و احکام دے اور وہ شخص اعتراض کر دے ۔حضور  ﷺ کے وا لدین کے لئے یہ دو نوں امر ثا بت نہیں !بلکہ وہ ملت ابرا ہیم پر تھے !اور ہم یہ کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی آپ کے ایمان پر دلیل ہے کیو نکہ اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ آپ کو حضرت آمنہ کی قبر کی زیا رت کی اجا زت دی گئی اور کا فروں کی قبر کی زیا رت کی آپ کو اجازت نہیں ہے بلکہ ان کی قبروں پر کھڑے ہو نے کی بھی آپ کو اجا زت نہیں ۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ہے’’ولا تصل علی احد منھم ما ت ابدا ولا تقم علی قبرہ انہم کفر وا با للہ ورسولہ وما تو اوھم فسقون ٭
تر جمہ:اور ان میں سے کو ئی مر جا ئے تو آپ اس کی ہر گز نماز جنا زہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑیں ہوں انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے سا تھ کفر کیا اور فسق کی حا لت میں مر گئے ۔(سو رہ توبہ آ یت ۸۴)

اس آ یت سے معلوم ہوا کہ حضرت آ منہ رضی اللہ تعا لی عنہا معا ذ اللہ کافرہ نہ تھیں ،ورنہ ان کی قبر پر کھڑے ہو نے کی اور ان کی قبر کی زیا رت کر نے کی اجا زت نہ دی جا تی !

      نیز !ملا علی قا ری نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلم کی اس حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہو جا تا ہے جو کہتے ہیں کہ آپ کی والدہ اھل فترت سے تھیں ۔(مر قا ت جلد ۴؍ص ۱۱۳)

ہم پو چھتے ہیں کیا حضرت آ منہ اہل فترت سے نہیں تھیں ؟ کیا انھوں نے کسی نبی کی بعثت کا زما نہ پا یا تھا اور جب ا نھوں نے کسی نبی کی بعثت کا زما نہ پا یا ہی نہیں تو ان کو معذب ما ننا کیا قرآن کی اس آ یت کے خلاف نہیں ہے ۔
’’ما کنا معذ بین حتی نبعث رسو لا ‘‘ہم اس وقت تک عذا ب دینے والے نہیں ہیں حتی کہ ہم رسول بھیج دیں۔(نبی اسرا ئیل آیت ۱۵)

اور علما ئے امت کا اس با ت پر اجما ع ہے کہ اصحاب فترت غیر مکلف اورغیر معذب ہیں۔وھو المقصد والحمد للہ العلی الودود۔

ان فر عو ن و شداد مزاج وہا بیہ دیا بنہ کو فقیر رضوی نے استغفا ر کے بالمقابل احادیث احیا ء نا سخ وثابت کر دکھلا ئی جیسے جمہور نے دعوی کیا ہے اب اگر کو ئی وہا بی دیو بندی نہ ما نیں  تو اس سے اسلام کے اصول میںفرق نہیں آ تا لہٰذا اہل اسلام کو سیدہ آ منہ کے ایمان پر پو را یقین ہے ۔ الحمدعلی ذلک 

منکرین ایمان ابوین کریمین کو سز ا ئیں

مسلما نو !اے مصطفی پیا رے  ﷺ کی عزت و عظمت پر قر بان ہو نیوالو! یقین فرمائیں کہ !ائمہ متا خرین و مشا ئخ دین اور علما ئے محدثین وفقہاء کرام و مفتیان اسلام رحمہم اللہ تعا لیٰ علیہم اجمعین کا اجما ع علی ایمان ابوین کریمین ایسا مقبول ہوا جو بھی بعد کو اس کا منکر ہوا سزا پا ئی چند حکا یا ت پیش خدمت ہیں !
حضرت ملا علی قا ری رحمۃ البا ری جو کفر کے مو قف کو اختیا ر کر نے کے بعد گو نا گو ںمصا ئب وآ لا م میں مبتلا ء ہو گئے ۔
علا مہ عبد العز یز پرھا روی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں ۔
’’فر ای استا ذہ ابن حجر مکی فی منا مہ ان القا ری سقط  
من سقف فا نکسرت رجلہ فقیل ھٰذا جزا ء اھا نۃ والدی 

رسول اللہ  ﷺ  فو قع کما را ی ‘‘
کہ ملا علی قا ری رحمۃ البا ری کے استاذ محترم علا مہ ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ الرضوان نے خواب میں دیکھا  کہ وہ چھت سے گر ے ہیں اور انکا پاؤں ٹوٹ گیا ہے اور کہا گیا کہ یہ رسول اللہ  ﷺ کے وا لدین کی تو ہین کی سزا ہے پھر جس طرح انھوں نے خواب دیکھا تھا ویسا ہی ہو گیا ۔(نبراس  ص ۳۱۶ ،مطبو عہ دیو بند )

علا مہ حموی رحمۃ اللہ نے بھی اپنے رسا لہ مبا رکہ میں بعض مصا ئب کا ذکر کیا ہے جو کہ ملا علی قا ری کو آ خری عمر میں پہو نچی مثلا فقر اور مسکنت یہاں تک کہ اکثر دینی کتب بھی فروخت کر ڈا لیں ۔

علا مہ طحطا وی مصری رحمۃ اللہ علیہ حا شیہ در مختا ر میں رقمطراز ہیں !کہ ایک عا لم را ت بھر مسئلہ ابوین کریمین میں متفکر رہے کہ کیو نکر تطبیق اقوال ہواسی فکر میں چراغ پر گر پڑے کہ بدن جل گیا ،صبح ایک لشکری آ یا کہ میرے یہاں آپ کی دعوت ہے راہ میں ایک سبزی فروش ملے کہ اپنی دکا ن کے آ گے با ٹ ،ترازو لئے بیٹھے ہیں انھوں نے اٹھ کر ان عا لم کے گھو ڑے کی لگام پکڑی اور یہ اشعار پڑھے ۔

امنت ان ابا النبی وامہ 
حتی لقد شھد الہ بر سا لۃ
احیا  ھما الحی القد یر البا ری 
صدق فتلک کرا مۃ المختا ر 
وبہ الحدیث ومن یقول بضعفہ 
فھو االضیف عن الحقیقۃ عا ری 

۱)یعنی میں ایمان لا یا کہ رسول کریم  ﷺ کے وا لدین کو اس زندہ ابدی قادرمطلق خا لق عالم جل جلا لہ نے زندہ کیا ۔
۲)یہاں تک ان دو نو ں نے حضور  اقدس  ﷺ کی نبوت کی گوا ہی دی اے شخص اس کی تصدیق کر کہ یہ مصطفی  ﷺ کے اعزا ر کے وا سطے ہے۔
۳) اور اس با ب میں حدیث وارد ہو ئی ہے جو اسے ضعیف بتا ئے وہ آپ ہی ضعیف اور علم حقیقت سے خا لی ہے ۔(حا شیہ درمختار با ب النکا ح جلد دوم ص ۸۱)

وہا بیہ دیا بنہ کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟

 انکو بھی سزا ملنی چا ہئے اورضرو ر ملے گی !اللہ تعالی  ارشا د فر ما تا ہے ! واملی لھم ان کید ی متین ٭اور انہیں میں مہلت دیتا ہو ں لیکن میری تدبیر مضبو ط ہے ۔(سو رہ قلم آ یت ۴۵)
 سزا کبھی جلد ملتی ہے کبھی دیر سے لیکن انہیں یہ سزا کچھ کم ہے کہ وہ بے اد ب گستاخ  اور بے با ک ہیں ممکن ہے دجا ل کے لئے انہیں تیا ر کیا جا رہا ہو کہ جب وہ آ ئے گا تو مدینہ منو رہ میں زلزلوں کیوجہ سے نکل کر دجا ل کے پا س پہو نچیں گے ۔
تنبیہ نبیہ 
سنی بھا ئیو !یہ فتنوں کا دور ہے ایک سے بڑھ کر ایک فتنہ سامنے آ تا ہے ایمان کے ڈاکو ،دین کے لٹیرے طرح ،طرح کے لبا سوں میں سنی بن بن کر تمہا رے بیش قیمت اور انمو ل ایمان کو لو ٹنا چا ہتے ہیں ان سے ہو شیا ر  رہو ۔
لیکن وہا بیہ ،دیا بنہ اپنی ظا ہری اعمال و اشغا ل ،تسبیح و اوراد ،نماز وروزہ ، حج و زکو ۃ پر نا زا ں اور اپنی اسلا میت کے دا عی ہیں جبکہ رب قدیر جل مجدہ تعا لی کے ارشادکے وہ مصداق ہیں ’’یحلفو ن با للہ ما قا لو ا ولقد قا لو ا کلمۃ الکفر و کفر وا بعد اسلا مھم ٭
اللہ کی قسم کھا تے ہیں کہ کلمہ کفر نہیں بو لے حا لا نکہ بو ل چکے اور اسلام لانے کے بعد کا فر ہو گئے ۔(پا رہ ۱۰ ؍ سورہ تو بہ آ یت ۷۴)
اب آ گے فیصلہ آ پ خو د کریں کہ یہ گندم نما جو فرو ش دین و ایما ن کے لٹیرے جبہ و دستا ر کے نیچے کیا چھپا ئے پھر تے ہیں اور رو زہ نماز کی تلقین کر کے قوم کی دلوں سے عظمت پر وردگا ر اور محبت نبی علیہ السلام کو مٹا نے وا لے ان مولویو ں کو کو ن سی سزا ہو نی چا ہئے بس آ خر میں نبی کریم  ﷺ کا فیصلہ جو ایسے لوگوں کے با رے میں ہے وہ سن لیجئے ۔آ قا ئے دو جہاں  ﷺ فر ما تے ہیں !’’ایا کم و ایا ھم لا یضلو نکم ولا یفتنو نکم ‘‘ان کو اپنے سے دو ر رکھو اور خود بھی ان سے دور بھا گو کہیں یہ تم کو گمراہ نہ کر دے اور کہیں تمہیں فتنے میں نہ ڈا لدیں ۔(مسلم جلد اول ص ۱۰)
اللہ تعا لی مسلما نو ں پر رحمت نا زل فر ما ئے اور انکی جان و مال عزت وآبرو کی حفاظت فر ما ئے اور حق سننے ما ننے اور دوست و دشمن میں فر ق جا ننے کی توفیق دے ۔
نسال اللہ تعا لی ان ید یمنا علی الایمان والسنۃ ویختم لنا علی دینہ الحق بعظیم المنہ وید خلنا  بجا ہ حبیبہ الکریم علیہ افضل الصلو ۃ والتسلیم فراد لیس الجنۃ و صلی اللہ تعا لی علی سید نا و مو لا نا محمد سید الانس و الجنۃ وعلی الہ وصحبہ واھلہ وحز بہ اجمعین والحمد للہ رب العلمین ۔
کـتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
العبد الضعیف محمد معین الدین خاں حنفی رضوی ہیم پو ری

خا دم درس و افتا ء 
دار العلوم اہل سنت حشمت العلوم گا ئیدیہہ ،اترولہ ،بلرام پور 
۱۴؍ صفر المظفر ۱۴۳۶؁ھ ۸؍دسمبر ۲۰۱۴؁ء




(سا بق فتوی پر ایک شبہ اور اسکا جواب )

حضور مفتی صا حب قبلہ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ و بر کا تہ !
التماس انیکہ حدیث احیاء آمنہ رضی اللہ تعا لی عنہا کی سند پر ایک وہا بی نے اعتراض کیا ہے کی اس حدیث کی سند میں !محمد بن حسن زیا د نقاش !ایک راوی ہے اس کو علا مہ ابن جو زی نے غیر ثقہ کہا ہے !نیز احمد بن یحی اور محمد بن یحیی دو نو کو مجہول کہا ہے اور ابن جو زی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہما رے شیخ ابو الفضل بن ناصرنے کہا ہے کہ یہ حدیث مو ضوع ہے !اور وہ حوا لے میں ! کتاب المو ضو عا ت جلد اول ص ۲۸۴ کو پیش کر تا ہے !لہٰذا مدلل جواب تحریر فر ما کر ہم لو گوں کی رہنما ئی فرما ئیں !بینو ا تو جرو !
الجواب :نحمد ہ و نصلی علی رسولہ الکریم

محمد بن حسن بن زیا د نقاش پر ابن جو زی کی جرح کا جواب حا فظ ذہبی سے 

علا مہ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی( متوفی ۷۴۸؁ ھ )لکھتے ہیں !محمد بن حسن بن محمد بن زیا د ،ابو بکر نقاش ،استاذ القراء اورمفسر ہیں ،وہ ضعیف راوی ہیں ،ابو بکر عمر الدا نی نے ان کی تحسین کی ہے بر قا نی نے کہا ان کی حدیث منکر ہے ۔(میزا ن الاعتدال جلد ۶ ص ۱۱۵،رقم ۷۴۱۰؍۷۲۸۸،مطبو عہ بیرو ت )

علا مہ ذہبی نے محمد بن حسن بن زیا د کو ضعیف را وی کہا ہے،وضا ع نہیں کہااور نہ اسکی روا یت کو مو ضوع کہا ہے انھوں نے کہا ان کی روا یت منکر ہے ، منکراس حدیث کو کہتے ہیں جو حدیث صحیح کے خلا ف ہو ۔حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت آ منہ رضی اللہ تعا لی عنہاکی قبر مقام ابواء میں ہے اور اس حدیث میں ہے کہ ان کی قبر مقام حجون میں ہے تو یہ روا یت حدیث صحیح کے خلا ف ہو نے کی وجہ سے منکر قرا ر پا ئی اور حدیث منکر ضعیف کی اقسام میں سے ہے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے مو ضو ع نہیں ہے ۔

اور حدیث ضعیف فضا ئل و منا قب میں معتبر ہو تی ہے ۔محمد بن یحی اور احمد بن یحییٰ پر جرح کا جواب حا فظ ذہبی اور حا فظ عسقلا نی سے

علا مہ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی (متو فی ۷۴۸ھ) تحریر فر ما تے ہیں محمد بن یحییٰ ابو غز یہ المد نی مو سی بن و رد ان سے روا یت کرتے ہیں الدارقطنی نے کہا یہ متروک ہیں اور الا ز دی نے کہا ضعیف ہیں ۔(میزا ن الا عتد ال جلد ۶ ص ۳۶۴ ،مطبو عہ بیروت )

علا مہ ذ ہبی نے یہی لکھا ہے کہ محمد بن یحی ضعیف راوی ہیں اور ہم نے بھی ان کی روا یت کو ضعیف قرا ر دیا ہے اور فضا ئل و منا قب میں حدیث ضعیف معتبر ہو تی ہے ۔حا فظ ابن حجر عسقلا نی نے بھی ان کے متعلق ایسا ہی تحریر فر ما یا ہے (لسان المیزا ن جلد ۵ص ۴۲۰،مطبو عہ بیروت)

علا مہ ابن جو زی نے لکھا ہے کہ محمد بن یحییٰ اور احمد بن یحییٰ دو نو ں مجہو ل ہیں !حا فظ ابن حجر عسقلا نی (متوفی ۸۵۲ھ)ان کا رد کر تے ہوئے رقمطراز ہیں !رہے محمد تو وہ مجہو ل نہیں ہیں بلکہ وہ معرو ف ہیں ابو سعید بن یو نس نے تاریخ مصر میں ان کا عمدہ تذ کرۃ لکھا ہے امام دا ر قطنی نے ان پر وضع کی تہمت لگائی  ہے اور وہ ابو غز یہ محمد بن یحییٰ الزھری ہیں اپنے مقام پر ان کا ذکر آ ئے گا اوررہے احمدبن یحییٰ تو اس سند کے سب سے قریب احمد بن یحییٰ بن زکر یا ہیں اور وہ مصری ہیں اور ابن الجو زی نے اپنے شیخ محمد بن نا صر سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث مو ضو ع ہے کیو نکہ حضرت آ منہ کی قبر ابواء میں ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے اور اس ابوغزیہ نے یہ کہا کہ وہ الحجون میں ہے اور مجھے ابو غز یہ کی اس حدیث کا حضرت ابوھریرہ کی روایت سے ایک اور شا ہد ملا ہے (لسا ن المیزا ن جلد ۴ ص ۹۲ ،مطبو عہ بیروت )

 حا فظ عسقلا نی کی اس عبا رت سے وا ضح ہو گیا کہ علا مہ ابن جو زی کا محمد بن یحی اور احمد بن یحی کو مجہو ل کہنا صحیح نہیں ہے وہ معرو ف ہیں اور ابن جو زی اور ان کے استاذ محمد بن نا صر کا اس حدیث کو مو ضو ع کہنا غلط ہے یہ حدیث ضعیف ہے اورفضائل میں معتبر ہے نیز حا فظ ابن حجر عسقلا نی نے لکھا ہے کہ امام ابن عسا کر نے حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعا لی عنہا کی اس حدیث کو اس سند کے ساتھ ذ کر کیا ہے !

الحسن بن علی بن محمد بن اسحا ق المجلسی ،حدثنا ابوطالب ،عمر بن الربیع الخشا ب حدثنا علی بن ایو ب الکعبی حدثنا محمد بن یحی الز ھری ابو غز یہ حدثنی مالک عن       ابی الزنا دعن ھشام بن عر وۃ عن ابیہ عن عا ئشہ ۔امام ابن عسا کر نے اس حدیث کو منکر کہا ہے(لسان المیزان جلد ۴ص ۳۰۵ ،مطبو عہ بیروت )

حا فظ ابن حجر عسقلا نی کی اس عبا رت سے واضح ہو گیا کہ یہ حدیث صرف امام ابن شا ہین کی سند سے مر وی نہیں ہے ،امام ابن عسا کر کی سند سے بھی مر وی ہے اور امام ابن عسا کر نے اس حدیث کو منکر کہا ہے اور منکر ضعیف کی اقسام سے ہے اور جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں اورا سکی سند کا ضعیف ہو نا ہمیں مضر نہیں ہے فضا ئل منا قب میں حدیث ضعیف معتبر ہو تی ہے ۔

اسکی تا ئید حا فظ سیو طی علیہ الرحمہ سے !

حا فظ سیو طی فر ما تے ہیں !میں کہتا ہو ں کہ علا مہ ذ ہبی نے محمد بن یحی کا میزان اور المغنی میں ذکر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ محمد بن یحی کے متعلق امام دار قطنی نے کہا ہے کہ وہ مجہول ہے اور الا ز دی نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے ،پس وہ ضعیف راوی ہے اور اس کا مو ضو ع کے تحت درج کر نا صحیح نہیں ہے ،اور حا فظ ابن حجر عسقلا نی نے لسا ن المیزا ن میں امام ابن جو زی کا کلام ذ کر کر نے کے بعد کہا محمد بن یحی کو مجہول کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ وہ معروف ہے تا ریخ مصر میں اس کا عمدہ ذکر ہے اس میں مذ کور ہے کہ محمد بن یحی بن محمد بن عبد العزیز بن عبد الرحمن بن عوف ابو عبد اللہ ہے اس کا لقب ابو غز یہ ہے وہ مدنی ہے اور مصر میں آ کر رہنے لگا اور وہ اسکی کنیتیں ہیں اس سے اسحا ق بن ابراہیم الکبا س اور زکر یا بن یحی البغوی اور سہل بن سوا دۃ الغا فقی اورمحمد بن عبد اللہ بن حکیم اور محمد بن فیرو ز نے روا یت کی ہے او ر وہ دس محرم ۲۵۸ھ میں فو ت ہو گیا ۔

اور رہا محمد بن یحی اگر یہ نقا ش ہے جیسا کہ ابن جو زی نے ذکر کیا ہے تویہ قرأت کے علما ء اور ائمہ تفسیر میں سے ہے ،امام ذہبی نے کہا وہ اپنے زما نہ میں قرأت کا استاذ تھا اور ضعیف کے با وجو د اسکی تعریف کی ہے ۔(اللا ئی المصنوعہ فی الاحا دیث المو ضو عۃ جلد اول ص ۲۴۵،مطبو عہ گجرا ت )

تفصیل کے لئے خا تم الحفاظ علا مہ جلا ل الدین سیو طی رحمۃ اللہ علیہ کا رسا لہ مبارکہ ’’نشر العلمین المنیفین فی احیا ء الا بوین الشریفین ‘‘مطا لعہ کریں ۔

آخر میں اللہ تعا لی سے دعا ہے کہ مصطفی کریم  ﷺ کے توسل تمام سنیوں کو مسلک اعلی حضرت پر قا ئم ودا ئم رکھے اور وہا بیوں ،دیو بندیوں ،نجدیوں ،وجملہ بد مذ ہبوںکے شر سے محفو ظ ومامون فرمائے ۔آمین بجاہ حبیبہ الکریم الامین ۔

کـتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
العبد الضعیف محمد معین الدین خاں حنفی رضوی ہیم پو ری

خا دم درس و افتا ء 
دار العلوم اہل سنت حشمت العلوم گا ئیدیہہ ،اترولہ ،بلرام پور 
۲۸؍ صفر المظفر ۱۴۳۶؁ھ ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۴؁ء




Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads