AD Banner

{ads}

(اعلٰی حضرت ہم زمانہ كاملین کی نظر میں)

(اعلٰی حضرت ہم زمانہ كاملین کی نظر میں)


(1)شیخ عبد الرحمٰن دَھَّان مکی رحمۃاللہ علیہ
(2)شیخ احمد ابو الخیر عبداللہ میر داد رحمۃ اللّٰہ علیہ
(3)استاذ المحدثین علامہ مفتی وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ
(4)شیخ المشائخ علامہ الشاہ سید علی حسین المعروف اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ
(5)سند المحدثین امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری قدس سرہ العزیز
(6)فاتح قادیانیت عارف باللہ امام اہل سنت الشاہ سید پیر مہر علی شاہ محدث گولڑوی قدس سرہ العزیز
(7)زبدۃ العارفین خواجہ شاہ محمد رکن الدین الورٰی قدس سرہ العزیز
(8)رئيس المتقین شیر ربانی میاں شیر محمد شرقپوری قدس سرہ العزیز
(9)قدوۃ السالکین سیدنا حاجی وارث علی شاہ قدس سرہ العزیز(دیوٰی شریف)نے اعلٰی حضرت سب سے پہلے کہا
(10)عارف باللہ شاہ جی محمد شیر میاں نقشبندی پیلی بھیتی قدس سرہ العزیز

کسی بھی شخصیت کے مقبول  ہونے میں جہاں دیگر امور کا رول ہوتا وہیں اس شخصیت کے معاصرین (ہم زمانہ احباب) کا بھی اہم کردار ہوتا ہے کہ معاصرین اس کو سراہتے اور اسکے علمی و روحانی کمالات کو تسلیم کرتے ہیں اس سلسلہ میں جب ہم امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ العزیز کو دیکھتے ہیں تو یہ بات بخوبی ظاہر وباہر ہو جاتی ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان کے علمی و فقہی کارناموں کو آپ کے تمام تر معاصرین نے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ ان کے گن گائے ہیں۔آئیے ذیل میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کےمعاصرین کے امام کی بارگاہ میں چند تاثرات ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1)شیخ عبد الرحمٰن دَھَّان مکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ:

شیخ عبد الرحمن دہَّان مکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: وہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جن کے متعلق مکہ مکرمہ کے علماے کرام گواہی دے رہے ہیں کہ آپ سرداروں میں یکتا و تنہا ہیں۔ (تمہید الایمان، ص5)

(2)شیخ احمد ابو الخیر عبداللہ میر داد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ:

رئیس الخطباء شیخ احمد ابو الخیر عبداللہ میر داد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (خطیب مسجد حرام) فرماتے ہیں: وہ امام احمد رضا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حقائق کا خزانہ ہے اور محفوظ خزانوں کا انتخاب، معرفت کا آفتاب ہیں جو دوپہر کو چمکتا ہے۔ علوم کی ظاہر و باطن مشکلات کھولنے والے ہیں۔ جو شخص اس کے علم و فضل سے واقف ہو اس کو کہنا چاہئے کہ اگلوں پچھلوں کے لئے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔(تمہید الایمان، ص3)

(3)استاذ المحدثین علامہ مفتی وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ:

حضور محدث اعظم ہند کچھوچھوی علیہ الرحمہ 1369ھ میں بمقام ناگپور یومِ رضا کے موقع پر اپنے صدارتی خطبہ میں فرماتے ہیں“میرے استاد فن حدیث کے امام علامہ وصی احمد محدث سورتی قدس سرہ کو بیعت حضرت علامہ فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ سے تھی مگر زبان پر پیر و مرشد کا ذکر میرے سامنے کبھی نہیں آیااور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے بکثرت تذکرے محویت کے ساتھ فرماتے تھے میں اس وقت بریلی شریف حاضر نہ ہوا تھا ۔اس انداز کو دیکھ کر میں نے ایک دن عرض کیا کہ آپ کے پیر و مرشد کا تذکرہ نہیں سنتا اور اعلیٰ حضرت کا آپ خطبہ پڑھتے رہتے ہیں فرمایا جب میں نے پیر و مرشد سے بیعت کی تھی بایں معنی مسلمان تھا کہ میرا سارا خاندان مسلمان سمجھا جاتا تھامگرجب میں اعلیٰ حضرت سے ملنے لگا تو مجھ کو ایمان کی حلاوت مل گئی”

(4)شیخ المشائخ علامہ الشاہ سید علی حسین المعروف اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ:

خلیفہ مفتی اعظم ہند طوطی چمنستانِ رضا الحاج قاری امانت رسول پیلی بھیتی لکھتے ہیں ” استاذ العلماء مفتی تقدس علی خان صاحب علیہ الرحمه نے راقم السطور سے دوسرے سفر حرمین شریفین میں فرمایا حضرت مولانا شاہ سید علی حسین اشرفی میاں قدس سرہ اکثر و بیشتر اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ سے ملاقات کے لیے تشریف لاتےتودونوں ایک دوسرے کی دست بوسی کرتے مزید فرماتے ہیں کہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ جس مسند پر تشریف فرما ہوتے کسی کو نہیں بٹھاتے تھے لیکن ایک بار میری موجودگی میں حضور اشرفی میاں اعلیٰ حضرت سے ملنے تشریف لائے تو اعلٰی حضرت نے انکو اپنی مسند پر بٹھایا.

(5)سند المحدثین امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری قدس سرہ العزیز:

حافظ محمد بشیر جماعتی علی پوری روایت کرتے ہیں ” حضرت امیر ملت علیہ الرحمہ عموماً نعت شریف بالخصوص اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا نعتیہ کلام سماعت فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ آپ یہ نعت سن رہے تھے

ہے کلام الٰہی میں شمس الضحٰی...... الخ
جب اس نعت کا آخری مقطع پڑھا گیا
یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں
کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہند میں واصف شاہ ہدٰی
مجهے شوخی طبع رضا کی قسم

تو اس پہ حضرت امیر ملت نے لقمہ دیا کہ صرف ہند میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایسا سحر بیاں اور واصف شاهِ ہدٰی کوئی نہیں ہے

(6)فاتح قادیانیت عارف باللہ امام اہل سنت الشاہ سید پیر مہر علی شاہ محدث گولڑوی قدس سرہ العزیز:

علامہ نور محمد فریدی علیہ الرحمہ بارہا فرماتے تھے کہ عارف باللہ امام اہل سنت سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی قدس سرہ ارشاد فرماتے تھے کہ آپ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی زیارت کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ حدیث پڑھا رہے تھے فرماتے ہیں مجھ کو ایسا محسوس ہوتا کہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ دیکھ کر آپ کی زیارت شریفہ کے انوار کی روشنی میں حدیث پڑھا رہے ہیں.شیخ الحدیث مولانا عبد الرزاق مد ظلہ العالی فرماتے ہیں ایک دن میں اور مولانا عبد الغفور ہزاروی علیہ الرحمہ اعلٰی حضرت گولڑوی قدس سرہ کے ناظم مراسلات ملک سلطان محمود مرحوم کے پاس بیٹھے تھے ملک صاحب نے فرمایا کہ حضرت کے آخری دور میں جو خطوط آتے تھے ان پر مختلف اشعار لکھے ہوتے تھے ایک دن میں مکاتیب سنا رہا تھا کہ ایک مکتوب کھولا اور یہ شعر پڑھا 

پیش نظر وہ نوبہار سجدہ کو دل ہے بےقرار
روکئے سر کو روکئے ہاں یہی امتحان ہے

آپ نے پوچھا یہ شعر کس کا ہے ؟ حاضری میں سے ایک نے جواب دیا یہ شعر مولانا احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کا ہے اس پہ آپ نے فرمایا “ایسا شعر کہنا ان ہی کی شان عالی کے مناسب ہے۔

(7)زبدۃ العارفین خواجہ شاہ محمد رکن الدین الورٰی قدس سرہ العزیز:

خواجہ محمد رکن الدین الورٰی قدس سرہ کو امام اہل سنت اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے بہت ہی دیرینہ اور گہرے تعلقات تھے آپ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “مولود محمود” میں کئی مقامات پر کلام رضا کے گلہائے عقیدت رنگارنگ سجائے ہیں یہاں تک کہ کتاب کا اختتام بھی سیدی اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی اس مناجات پر کیا ہے جس کا آخری شعر یہ ہے 

یا الٰہی جو دعائیں نیک میں تجھ سے کروں
قدسیوں کے لب سے آمیں ربنا کا ساتھ ہو

نیز آپ نے کئی اسفتاء بھی اعلیٰ حضرت کی خدمت میں بھیج کر جواب طلب فرمائے ہیں 22 ذی الحجہ 1324 میں ریاست الور سے یوں مخاطب ہوتے ہیں“بسم اللہ الرحمٰن الرحیم"جامع معقول و منقول جناب مولانا احمد رضا خان صاحب ادام فیوضکم وبرکاتکم السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ فقیر حقیر مسکین محمد رکن الدین حنفی نقشبندی مجددی نادیدہ مشتاق زیارت دو مسئلے خدمت شریف میں پیش کر کے امیدوار ہے کہ جناب اپنی تحقیق سے اس عاجز کو ممنون فرمائیں اللہ تعالٰی اس کا اجر عظیم عطا فرمادے گا۔

(8)رئيس المتقین شیر ربانی میاں شیر محمد شرقپوری قدس سرہ العزیز:

مولانا صابر نسیم لکھتے ہیں شیخ وقت شیر ربانی میاں شیر محمد شرقپوری قدس سرہ کو خواب میں حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوئی میاں صاحب نے دریافت کیا حضور اس وقت دنیا میں آپ کا نائب کون ہے؟ ارشاد فرمایا”بریلی میں احمد رضا”

حاجی محمد مونگہ شرق پوری تحریر کرتے ہیں:حضرت میاں صاحب شرق پوری رحمہ اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ بریلی شریف بھی گیے تھے واپسی پہ آپ نے بابا شیخ محمد عاشق مونگہ کو فرمایا “عاشقا ! میں بریلی شریف گیا تھا جب میں وہاں پہنچا تو مولانا احمد رضا خان صاحب حدیث کا درس دے رہے تھے یار ! جب میں وہاں بیٹھا تو مجھ کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب علیہ الرحمہ جو بھی حدیث بیان کرتے ہیں وہ براہِ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر بیان کرتے ہیں”

(9)قدوۃ السالکین سیدنا حاجی وارث علی شاہ قدس سرہ العزیز دیوٰی شریف:

اعلیٰ حضرت کو اعلٰی حضرت سب سے پہلے کس نے کہا ؟:
مولانا حاجی سید وارث پاک کی عادت کریمہ تھی کہ جب مولوی لوگ آتے تھے تو کسی کو “مولانا” نہیں کہتے تھے کتنے بھی بڑے عالم آپ کی خدمت میں گئے ہمیشہ حضرت نے مولوی ہی کہا مگر جب اعلیٰ حضرت اپنے چند خادموں کے ساتھ آپ کی زیارت کو گیے تو حضرت وارث پاک اٹھ کر بیٹھ گیے اور فرمانے لگے “آؤ مولانا آؤ تم تو اعلٰی حضرت ہو”۔قبلہ حاجی صاحب علیہ الرحمہ کے عطا کردہ لقب کو ایسی شہرت حاصل ہوئی کہ جب بھی اعلیٰ حضرت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلی علیہ الرحمہ کی جان ذہن متبادر ہو جاتا ہے.

(10)عارف باللہ شاہ جی محمد شیر میاں نقشبندی پیلی بھیتی قدس سرہ العزیز:

فخر الحفاظ حافظ یعقوب خان علیہ الرحمہ جب حضرت شاہ جی محمد شیر میاں علیہ الرحمہ کی خدمت میں مرید ہونے کی غرض سے حاضر ہوئے شاہ جی میاں نے حافظ صاحب سے فرمایا کیا کرو گے مرید ہو کر تم تو خود مادر زاد ولی ہو حافظ صاحب نے پھر عرض کیا کہ مرید فرما لیجئے آپ نے پھر وہی جملہ ارشاد فرمایا تیسری بار پھر عرض کیا تو شاہ جی میاں نے فرمایا دیکھو لوحِ محفوظ پر تمہارا حصہ ہمارے یہاں نہیں ہے تم بریلی شریف جاؤ بڑے مولوی صاحب مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے یہاں تمہارا حصہ ہے۔

لہٰذا حافظ صاحب ٹرین سے بریلی شریف روانہ ہوئے ادھر اعلٰی حضرت نے مولانا عبدالاحد صاحب پیلی بھیتی اورمولانا حبیب الرحمٰن صاحب کو حکم دیا کہ اسٹیشن جاؤ اس ٹرین سے حافظ صاحب تشریف لا رہے ہیں ان کو یہاں لے آؤ اعلٰی حضرت نے نہ تو حافظ صاحب کا نام ظاہر فرمایا نہ ان حضرات نے دریافت کیا خیر اسٹیشن پہونچے ٹرین میں سے حافظ یعقوب علی خان صاحب اترے تو ان حضرات نے پہچان لیا اور حافظ صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کہاں تشریف لے جائیں گے۔

حافط صاحب نے اعلیٰ حضرت کا پتا بتایا تو مولانا حبیب الرحمٰن خان صاحب پیلی بھیتی نے کہا کہ اعلیٰ حضرت نے تو پہلے ہی بتا دیا دونوں حضرات حافظ صاحب کو لے کر محلہ سوداگران کو لے چلے ادھر اعلٰی حضرت اپنے دروازہ پر حافظ صاحب کے استقبال کے انتطار میں رونق افروز تھے میں حافظ صاحب تشریف لت آئے معانقہ مصافحہ ہوا اعلٰی حضرت نے حافظ صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کچھ ارشاد فرمایا اور حافظ صاحب کو بیعت کیا۔(ماخوذ از:امام احمد رضا کاملین کی نظر میں مطبوعہ رضا دار الاشاعت لاہور)

دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads