AD Banner

{ads}

(امام احمد رضااور رفاہی کام)

(امام احمد رضااور رفاہی کام)


خلقِ خدا کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہا یت پسندیدہ ہے، روایت ہے.((الخَلْقُ كلَُھم عِیال اللہ فأحَبَُ الخلْقِ إلی اللہِ أنفَعُھُمْ لِعیالِه)) مخلوقِ خدا اللہ تعالیٰ کی پرورش میں ہے تو اللہ کے نزدیک سب سے پیارا وہ ہے جو اس کی مخلوق کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو ۔بندگانِ خدا کی خدمت سے جہاں مولیٰ تعالیٰ کی رضاحاصل ہوتی ہے وہیں اللہ تعالیٰ ایسے بندے کی محبت دوسرے بندوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے جس سے خدمت گار بندہ دیگر بندگانِ خدا کی نگاہ میں بڑا محترم و معظم بن جاتا ہے ۔
اسی مفہوم کوحضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ یوں بیان فرماتے ہیں ہرکہ خدمت کرد او مخدوم شد یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے ایک دن وہ خود مخدوم بن جاتاہے۔آج پوری دنیا میں چیرٹی اور رفاہی کاموں کی بڑی گونج ہے ۔ساری دنیا میں عیسائی اور یہودی مشنریاں چیرٹی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور یہ دکھاتی ہیں کہ انسانیت کے سب سے بڑے ہم درد اور غم خوار وہی ہیں . لیکن عیسائی اور یہودی مشنریاں چیرٹی اور رفاہی کاموں کی آڑ میں اپنے برے ایجنڈوں کو پھیلاتی ہیں ۔لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ جس زمانے میں عیسائی اور یہودی ظلم وستم کے خوگر اور دوسروں کی حق تلفی کرتے تھے اس وقت ہمارے آقا و مولیٰ حضور سید عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے قرآن میں اور اپنے ارشادات کے ذریعےلوگوں کو رفاہِ عام اور خدمتِ خلق کے کاموں پر ابھارا۔بطور ثبوت قرآن واحادیث کے حوالے حاضر ہیں ۔رفاہ و امداد پر قرآنی ارشادات: لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡھَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِِّقَابِ -ترجمہ کنزالایمان:۔کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو. ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر. اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں
(پارہ 2 سورۃ البقرۃ آیت177)

قرآنِ مجید:وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا:ترجمہ:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شر یک کسی کو نہ ٹھہراؤ. اور ماں باپ سے بھلائی کرو،اور رشتہ داروں، اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باند ی غلام سے بھلائی کرو۔(پارہ 5 سورۃ النساء آیت36)

مذکورہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کے ساتھ اچھا سلوک رب کو بہت ز یادہ پسند ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد سب سے پہلے بندوں کے حقوق پر زور دیا۔یہ الگ بات ہے کہ بندوں میں سب سے مقدم والد ین ہیں لیکن عمومی طور پر ان آیات سے بندگانِ خدا کی حاجت بر آری اور ان کی خبر گیری کا سبق ملتا ہے۔آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں جب رفاہ و امداد کے لئے بین الاقوامی اداروں کی منصوبہ بندی اور ان کے پروجییکٹس کو دیکھتے ہوئے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے ارشادات کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا آج امدادِانسانی کے لیے پلاننگ اور ترغیبی کام کر رہی ہے جب کہ ہمار ے آقاصلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم عہدِجاہلیت میں ہی رفاہ وامداد اور غربا پرور ی کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ زمانہ آج تک ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے رفاہی کاموں کو بڑے مضبوط ومنظم انداز میں اپنی امت کے سامنے پیش کیا اس کے اغراض ومقاصد کو واضح کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو یوں بیان فرمایا۔بہتر ین انسان وہ ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔ درج بالا قول رسول کا ا یک ایساجامع کلمہ ہے کہ جس کے احاطے میں کائنات کا ہر گوشہ شامل ہے۔اپنے کسی بھی عمل سے انسانیت کو نفع پہنچانے والا شخص کائنات کا سب سے اچھا انسان ہے۔شارعِ اسلام نے خدمتِ خلق اور غربا پروری کو کس قدر مقدس قرار دیاہے اس کا اندازہ درج ذیل احاد یث طیبہ سے لگا یاجاسکتا ہے۔

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ،نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے ،اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے ،جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پور ی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری فرماتا ہے ،اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی کوئی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فر مائے گا۔اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب چھپائے گا.(بخاری)

حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے کام کے سلسلے میں باہر نکلتا ہے یہاں تک کہ اسے پورا کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار اور دوسری روایت میں ہے کہ پچھتر ہزار(75000) فرشتوں کا سایہ کردیتا ہے، وہ فرشتے اس کے لئے اگر دن ہوتو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں ۔اور اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کے لئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اس کے رکھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ مٹا یاجاتا ہے۔(شعب الایمان للبہیقی)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سےکسی شخص نے سوال کیا بہترین اسلام کون سا ہے آپ نے ارشاد فرمایا،’’ تو کھانا کھلائے،سلام کرے اس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔(حاکم المستدرک)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نےفرمایا’’جوشخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے اللہ تعالیٰ اسے دوزخ کی آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دْوری پرکردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو(500)سال کا فاصلہ ہے. (حاکم المستدرک)

حضور اکرم سید عالم صلی ارشاد فرماتے ہیں “میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گےجس طرح میری یہ دونوں انگلیاں اور آپ نے انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ہوئے یہ بات فرمائی ‘‘(صحیح البخاری)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ ماضی قر یب کے وہ عظیم بزرگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی سنتوں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر اتار کر ہمارے لئے نمونہ عمل پیش کیا . ضرورت ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے طریقوں کو اپنانے کی کوشش کر یں۔امام احمدرضا قدس سرہٗ اور اتباع قرآن وحد یث آپ کی درخشاں حیا ت میں ا یسے ایسے روشن اوراق موجود ہیں جن کے مطالعے سے ذہن و دل روشن ہوجاتے ہیں ۔ابھی ہم نے رفاہی کاموں اور غریبوں کی امداد کے حوالے سے قرآن وحد یث کے جو حوالے نقل کیے ان کی روشنی میں یہ چند اہم شکلیں بنتی ہیں۔محض رضائے مولیٰ کی خاطر اپنا مال رشتہ داروں،دوست واحباب پر خرچ کرنا،نیک کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرنا،ھوکے شخص کو کھانا کھلانا،ڑوسی کے حقوق کاخیال رکھنا،مسافروں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا،اپنے بھائیوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا،وقت ضرورت دوسروں کے کام آنا،مسکینوں اور ناداروں کی خبرگیری کرنا،بیوہ خواتین کی امداد کرنا،یتیموں کی امداد کرنا،

آئیےاعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ کی حیات کے ورق الٹتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دنیا کو عشقِ رسالت کے جام پلانے والے امام کی زندگی کیسی تھی حضرت علامہ ظفرالدین رضو ی بہاری بیا ن فرماتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ کے کاشانۂ اقدس سے کبھی کوئی سائل مانگنے والا خالی نہ پھرتا، اس کے علاوہ بیوگان کی امداد،ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور ناداروں کے توکلاً علی اللہ مہینے مقرر تھے اور یہ اعانت فقط مقامی ہی نہ تھی بلکہ بیرون جات میں بذریعہ منی آرڈر رقوم امداد روانہ فرمایاکرتے تھے۔

ایک مرتبہ ا یک صاحب کی خدمت میں مد ینہ طیبہ میں پچاس روپے روانہ کرنے تھے۔اتفاق سے اس وقت اعلیٰ حضرت کے پاس کچھ نہ تھا۔اعلیٰ حضرت نے بارگاہِ رسالت میں رجوع کیاکہ سرکار دو عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم میں نے کچھ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے بھروسے پر اپنے ذمے مقرر کر لئے ہیں اگر کل منی آرڈر پچاس روپے کا روانہ ہوجائے گا تو ڈاک کے جہاز کے وقت پہنچ جائے گا ورنہ تاخیر ہو جائے گی ۔یہ رات اعلٰی حضرت کی اسی کرب و بےچینی میں گزری۔علی الصباح ایک سیٹھ صاحب حاضر خدمت ہوئے، اور مبلغ اکاون روپے حسنین رضا خاں کے ذریعے مکان میں بطور نذر حاضرِخدمت کئے۔

اس وقت اعلیٰ حضرت پر بہت رقت طاری ہوئی اور مذکورہ بالا ضرورت کا انکشاف فرمایا. یہ یقیناً سرکار دوعالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا عطیہ ہے اس لیے کہ اکاون روپے ملنے کے کوئی معنیٰ نہیں سوائے اس کے کہ پچاس بھیجنے کے لیے اور ایک فیس منی آرڈر کے لیے بھی تو چاہیے ۔چناں چہ اسی وقت منی آرڈر کا فارم بھرا گیا اور ڈاک خانہ کھلتے ہی منی آرڈر روانہ کردیا.(حیات اعلیٰ حضرت)

۔1 آپ کا دائرۂ سخاوت ملک و بیرون ملک تک وسیع تھا
۔2  ۔ضرورت مندوں کے لیے ماہانہ وظیفےمقرر کر رکھے تھے
۔ 3 ضرورت مند کی امداد کے لئے منی آرڈر جیسے پر تکلف ذرائع بھی استعمال فرماتے
۔4 ضرورت مندوں کے وقت کا خاص خیال فرماتے تھے
۔5 ان کی ضرورتوں سے اس قدر قلبی تعلق تھا کہ انتظام نہ ہونے سے نیند تک نہیں آتی تھی
۔6  ضرورت مندوں کے لئے بہت ہی رقیق القلب اور نرم دل تھے۔انتظام نہ ہوتا توآنکھوں سے آنسو جار ی ہوجاتے ۔ان سارے کاموں کو پورا کرنے کے لیے انھیں اپنے آقا ومولیٰ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی ذات کریمہ پر بےپناہ اعتماد و بھروسہ تھا

اسی بھروسے کے سہارے وہ ہر ضرورت مند کی امداد کو اپنے ذمہ لے لیا کرتے اور آقا صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم بھی اپنے اس غلام کی ہر موڑ پر امداد و خبر گیری فرمائی ۔علامہ ظفرالد ین رضوی بہاری آنکھوں دیکھا حال بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں .
حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں صاحب(اعلیٰ حضرت کے بڑے لڑکے) کو برابر بیٹیاں ہی پیدا ہوئیں اسی لئے سبھی لوگوں کی دلی تمنا تھی کہ بیٹا ہوتا تو اس کے ذریعے اعلیٰ حضرت کا نسب وحسب وفضل وکمالات کا سلسلہ جاری رہتا
خداوند عالم کی شان ۱۳۲۵ ھ میں ابراہیم رضاخاں سلمہ یعنی حضور تاج الشریعہ رَحمہ اللہ کے والد گرامی کی ولادت ہوئی ۔ نہ صرف والدین اور اعلیٰ حضرت بلکہ جملہ متوسلین کو از حد خوشی ہوئی۔

اسی خوشی میں منجملہ اور باتوں کے اعلیٰ حضرت نے جملہ طلبائے اہل سنت’’منظر اسلام‘‘کی ان کی خواہش کے مطابق دعوت فرمائی بنگال کے طلبہ سے در یافت فرمایا’’آپ لوگوں کی کیا خواہش ہے. انہوں نے کہا مچھلی بھات ‘‘چناں چہ روہو مچھلی’’ بہت وافر طریقے پر منگوائی گئی.اور ان لوگوں کی حسبِ خواہش دعوت ہوئی ۔

بہار کے طلبہ سے در یافت فرما یا. آپ لوگوں کی کیا خواہش ہے؟ ان گوں نے کہا ’’بریانی زردہ،کباب ،فیرنی میٹھا ٹکڑا وغیرہ ان کے لئے یہ پرتکلف کھانا تیارکرایاگیا۔پنجاب کے اور ولایتی طلبہ کی خواہش ہوئی ’’ دنبے کا خوب چربی دار گوشت تنور کی پکی گرم گرم روٹیا ں‘‘۔ان لوگوں کے لئے وافر طور پر اسی کا انتظام ہوا۔اس وقت خاص عزیزوں اور مریدوں کے لیے بھی جوڑا تیار کیا گیا تھا ۔نہایت ہی مسرت کے ساتھ لکھتا ہوں کہ میں انہیں خاص لوگوں میں ہوں جن کے لئے جوڑا بھی تیارکرایا گیا تھا. کرتا،پائجامہ،ٹوپی جوتا تو اسی زمانے میں پہن لیا تھا،مگر انگرکھا بہت قیمتی کپڑے کا تھا گاہے گاہے اس کو پہنا کرتا تھا۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت) ۔

ہمارے آقا صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ کی بارگاہ میں بھی جو ہدایہ اور تحائف آتے تو حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم فوراً ہی اسے ضرورت مندوں میں تقسیم فرماد یاکرتے تھے۔تاجدارِ بریلی نے بھی حضور سید عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی اس سنت کریمہ پر اپنی زندگی میں خوب عمل کیا اور جو کچھ بھی نذر ملتا اس کو جلد سے جلد ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا ۔کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ بڑ ی خطیر رقمیں بھی بطور نذر آتیں لیکن اس رقم سے گھر کے لئے کچھ بھی نہ نکالتے اور ساری تقسیم فرما دیتےتھے۔

دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads