AD Banner

{ads}

(اعلی حضرت کی فتوی نویسی)

(اعلی حضرت کی فتوی نویسی)


فتویٰ نویسی اور فتاویٰ رضویہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے آٹھ(8)سال کی عمر میں فتویٰ نویسی کا کام شروع کر دیا تھا، اور علمِ فرائض کا ایک مسئلہ تحریر فرمایا تھا.تیرہ سال دس ماہ پانچ دن کے جب ہوئے تو باضابطہ طور پر منصبِ افتا کی ذمہ داری آپ کے سپرد کر دی گئی پہلا استفتا جو آپ کی بارگاہ میں آیا وہ رضاعت کا تھا، وہ سوال یہ تھا: کہ اگر بچے کی ناک میں کسی طرح دودھ چڑھ کر حلق میں پہنچ گیا تو کیا حکم ہے؟اعلیٰ حضرت نے بڑے محققانہ انداز میں اس کا جواب تحریر فرمایا: کہ منھ یا ناک سے عورت کا دودھ جو بچے کے پیٹ میں پہنچے گا حرمتِ رضاعت لائے گا.(امام احمد رضا نمبر ،ص:٣٤٠)

        آپ تقریباً چون(٥٤)سال تک مسلسل فتاویٰ صادر فرماتے رہے، اور اس کے لیے آپ کو نہ تو کوئی تنخواہ ملتی نا کوئی معاوضہ بلکہ فی سبیل اللہ یہ ساری خدمات انجام دیتے. فقہ و فتویٰ میں آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، آپ کے فتووں کا مجموعہ “فتاویٰ رضویہ” کے نام سے موجود ہے، جو درحقیقت فقہِ حنفی کے مطابق جاری کردہ ہزاروں فتاویٰ جات کا مجموعہ ہے، اس علمی ذخیرہ کو فقہ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے، اس کا پورا نام “العطايا النبویه فی الفتاوی الرضویه” ہے اب یہ 32 جلدوں میں چَھپ کر منظر عام پر آچکی ہے، اہل علم کے نزدیک اس کی حیثیت ماخذ ومرجع کی ہے، فتاویٰ رضویہ کےحوالےسے جوبات کہی جاتی ہے وہ قولِ فیصل کی حیثیت رکھتی ہے.

        کنز الایمان امامِ اہلِ سنت نے تفہیمِ قرآن کے لیے بھی زبردست کام کیا ہے، آپ کے تفہیمِ قرآن کی امتیازی شان اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت، تقدس و جلالت کا مکمل طور پر خیال رکھا ہے ترجمے تو بہت سارے افراد نے کیے مگر ترجمۂِ قرآن کنزالایمان میں جو انفرادیت اور امتیازی خصوصیت پائی جاتی ہے وہ دوسرے اردو ترجموں میں نہیں پائی جاتی. یہی وجہ ہے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی کنز الایمان کی تعریف کر رہے ہیں

        امیر جماعت اہل حدیث پاکستان سعید یوسف زئی نے برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ: یہ ایک ایسا ترجمۂِ قرآن مجید ہے کہ جس میں پہلی بار اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جب ذاتِ باری تعالیٰ کےلیے بیان کی جانے والی آیتوں کا ترجمہ کیا گیا ہے تو بوقت ترجمہ اس کی جلالت و تقدس و عظمت و کبریائی کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے. جبکہ دیگر تراجم خواہ وہ اہلِ حدیث سمیت کسی بھی مکتبه فکر کے علما ہو، ان میں یہ بات نظر نہیں آتی ہے.

        اسی طرح وہ آیتیں جن کا تعلق رسولِ اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے ہے، یا جن میں آپ سے خطاب کیا گیا ہے تو بوقتِ ترجمہ مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اوروں کی طرح صرف لفظی اور لغوی ترجمہ سے کام نہیں چلایا ہے بلکہ صاحب”ماینطق عن الھوی”اور “ورفعنالک ذکرک” کے مقام عالی شان کو ہرجگہ ملحوظ خاطر رکھا ہے. یہ ایک ایسی خوبی ہے جو دیگر تراجم میں بالکل ہی ناپید ہے. ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ترجمہ میں وہ چیزیں پیش کی ہیں جن کی نظیر علمائےِ اہل حدیث کےیہاں بھی نہیں ملتی. (سالنامہ معارف رضا، کراچی-١٤١٨ھ، ص: ٢٠)

        کنز الایمان کی شہرت و مقبولیت اور کثرتِ اشاعت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ قبولیت کی سند پا چکا ہے۔

(١) ہندوؤں کے میلوں میں جانا ہندوؤں کے تہواروں میں جو لوگ جاتے ہیں وہ کان کھول کر امام عشق ومحبت کا فرمان سن لیں:ان (ہندوؤں)کا میلہ دیکھنے کے لیے جانا مطلقاً ناجائز ہے. (عرفان شریعت،ج، اول، ص:٢٧)

(٢) عورتوں کا مزارات پر جانا عورتوں کے لیے زیارت قبور و مزارات اولیا کے متعلق سوالات کے جواب میں ارشاد فرمایا :”عورتوں کے مزارات اولیا، مقابرِ عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے” (احکامِ شریعت. ج، دوم، ص:١٨)

فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں :اصح یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں.(فتاویٰ رضویہ. ج، ٤،ص:١٦٥. مطبع رضااکیڈمی )

(٣) فرضی قبریں فرضی مزار کے تعلق سے لکھتے ہیں: فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے. (ایضاً. ج، ٤،ص:١٥)

(٤) قبرکا بوسہ وطواف اس کے متعلق فرماتے ہیں :بلا شبہ غیرکعبہ معظمہ کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہےاور بوسہء قبر میں علما کا اختلاف ہے، بچنا بہتر ہے ۔ (احکام شریعت ،فتاویٰ رضویہ. ج، ٤ص: ٨)

(٥)سجدۂ تعظیمی حرام ہےاس سلسلے میں مستقل ایک رسالہ اعلیٰ حضرت نے لکھا ہے “الزبدۃ الزکیةلتحریم سجود التحیة” اس رسالے میں آپ نے واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ کسی بندے کو سجدۂ تعظیمی کرنا حرام ہے۔

(٦) محرم اور صفر میں شادی آپ سے سوال کیا گیا کہ محرم اور صفرمیں نکاح(شادی) کرنا منع ہےکیا؟ جواب دیا نکاح کسی مہینہ منع نہیں، یہ غلط مشہور ہے (الملفوظ، ج، اول، ص: ٣٦)

        اس کے باوجود بھی بعض لوگ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کو بدعتی کہتے ہیں. مذکورہ باتوں میں دیکھیں کہ اعلیٰ حضرت نے کیسے کیسے خرافات سے لوگوں کو منع کیا ہے.جنھیں اس سلسلے کی مزید تفصیلات دیکھنا ہوں وہ سید فاروق القادری کی کتاب “فاضلِ بریلوی اور امورِ بدعت” کے ساتھ علامہ یٰسین اختر مصباحی کی کتاب “امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات” ملاحظہ فرمائیں.


        دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads