AD Banner

{ads}

(سوانح اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ)

(سوانح اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ)


(1)آپ کے والد ماجد کا خواب
(2)بسم اللّٰہ خوانی
(3)سبق حَرۡف بَحَرف لفظ بہ لفظ سنا دیتے تھے
(4)حیرت انگیز بچپن
(5)سونے کا منفرد انداز
(6)دورانِ میلاد بیٹھنے کا انداز
(7)حیرت انگیز قوتِ حافظہ

(1)آپ کے والد ماجد کا خواب

اعلٰی حضرت امام احمد رضا  قدس سره کے والد مولانا نقی علی خان قدس سره نےایک عجیب خواب دیکهاآپ نےاپنےوالد مولانا رضا علی خان قدس سره سے بیان فرمایا۔آپ نے تعبیر میں فرمایا خواب مبارک ہے بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری پُشت سے ایک فرزند عطافرمائےگا جو علم کادریا بہائے گا جس کا شہرہ مشرق ومغرب میں پھیلے گا ۔جب اعلٰی حضرت پیدا ہوئے تو مولانارضا علی خان نےدیکھ کر گود میں لیا اور فرمایا یہ میرا بیٹا بہت بڑا عالم ہوگا.(كراماتِ اعلٰی حضرت ص:۱۱)

(2)بسم اللّٰہ خوانی

صحیح طور پر معلوم نہ ہو سکا کہ اعلٰی حضرت کی بسم اللہ خوانی کسی عمر میں ہوئی مگر بسم اللہ خوانی کے وقت ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا کہ آپ کے استاذِمحترم نے جب بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم کے بعد’’الف،با،تا،ثا‘‘ پڑھایا تو اعلٰی حضرت پڑھتے گئے۔ جب ’’لام الف(لا)"پر پہنچےتو استاذِصاحب نے فرمایا: لام الف ۔ آپ خاموش ہو گئے ۔ استاذ صاحب نے دوبارہ کہا: کہو میاں! لام الف ۔ اعلٰی حضرت نے عرض کیا: یہ دونوں تو پڑھ چکے ہیں یعنی لام بھی پڑھ لیا اور الف بھی تو یہ دوبارہ کیسا ہے؟ اس وقت اعلٰی حضرت کے جدامجد مولا نا رضا علی خان بریلوی رحمۃاللہ علیہ(جو جامع کمالاتِ ظاہری و باطنی تھے)نے فرمایا: بیٹا استاذ کا کہا مانو جو وہ کہتے ہیں پڑھو ۔

        اعلٰی حضرت نے دادا جان کے حکم کی تعمیل کی اور ان کے چہرہ کو دیکھا۔۔۔۔۔مولانا رضا علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نےاپنی فراستِ ایمانی سے سمجھا کہ بچے کو شبہہ ہو رہا ہے کہ یہ حروف مُفرَدہ کا بیان ہے۔ اب اس میں ایک مُرَکّب لفظ کیسے آیا؟ ورنہ یہ دونوں حروف تو پڑھ چکے ہیں۔۔۔۔۔اگر چہ اعلٰی حضرت کی عمر کے اعتبار سے اس راز کو ظاہر کرنا مناسب نہ تھا اور سمجھ سے بالا تر خیال کیا جاتا تھا مگر اعلٰی حضرت کے جد امجد نے اپنے نورِ باطنی سے سمجھا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کچھ بننے والا ہے۔۔۔۔۔۔اس لیے ابھی سے اسرار و نکات کا ذکر ان کے سامنے مناسب جانا اور فرمایا: بیٹا! تمہارا خیال درست ہے اور سمجھنا بجا ہے مگر بات یہ ہے کہ شروع میں تم نے جس کو ۔۔۔۔۔الف پڑھا وہ حقیقتًا ہمزہ تھااور یہ۔۔۔۔۔۔الف ہے۔ چونکہ الف ساکِن ہوتا ہے اور ساکِن سے ابتداء ناممکن ہے اس لیے ایک حرف یعنی لام اول میں لا کر اس کا تلفظ بتانا مقصود ہے۔۔۔۔۔۔اعلٰی حضرت نے عرض کیا: تو کوئی بھی ایک حرف ملا دینا کافی تھا۔ اتنی دور کے بعد لام کی کیا خصوصیت تھی یعنی۔۔۔۔۔با۔۔۔۔۔تا۔۔۔۔۔ دال۔۔۔۔ سین ۔۔۔۔۔۔وغیرہ بھی تو اول میں لا سکتے تھے۔ اعلٰی حضرت کے جدامجد نے محبت میں گلے لگا لیا او دعائیں دیں پھر فرمایا کہ لام اور الف میں صورةً اور سیرۃً مناسبت پائی جاتی ہے۔ ظاہراً لکھنے میں بھی دونوں کی صورت ایک کی ہوتی ہے اور سیرةً اس وجہ سے کہ لام کا قلب الف ہے اور الف کا قلب لام ہے۔۔۔۔۔۔ یہ اس کے بیچ میں ہے اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔اس کے بیچ میں ہے۔ کہنے کو تو اعلٰی حضرت کے جدامجد نے ’’الف لام‘‘ کو مرکب کرنے کی وجہ بیان فرمائی مگر باتوں بات میں ہی سب کچھ بتا دیا اور اسرار وحقائق کے رُموز و ارشادات کے دریافت و ادراک کی صلاحیت و قابلیت اس وقت پیدا کر دی جس کا اثر سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ۔۔۔۔۔۔شریعت میں وہ اگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے قدم بقدم ہیں ۔۔۔تو طریقت میں سیدنا غوث اعظم رحمۃاللہ علیہ کے نائبِ اکرم ہیں۔(اعلٰی حضرت اعلٰی سیرت صفحہ،٣٦)

چھ(6)سال کے تھے کہ ربیع الاول کے مبارک مہینے میں منبر پر جلوہ افروز ہو کر میلادالنبی کے موضوع پر ایک بہت بڑے اجتماع میں نہایت پُر مغز تقریر فرما کر علمائےِکرام اور مشائخِ عظام سے تحسین و آفرین کی داد وصول کی۔

(3)سبق حَرۡف بَحَرف لفظ بہ لفظ سنا دیتے تھے

جناب سید ایوب علی شاہ صاحب رحمة الله علیہ کا بیان ہےاعلٰی حضرت خود فرماتے ہیں کہ میرے استاذِمحترم جن سے میں ابتدائی کتاب پڑھتا تھا ،جب مجھے سبق پڑھا دیا کرتے ،ایک دو مرتبہ میں دیکھ کر کتاب بند کر دیتا،جب سبق سنتے تو حَرۡف بَحَرف لفظ بہ لفظ سنا دیتا۔روزانہ یه حالت دیکھ کر سخت تعجب کرتے ۔ایک دن مجھ سے فرمانے لگے کہ احمد میاں ! یہ تو کہو تم آدمی ہو یا جن ؟کہ مجھ کو پڑھاتے دیرلگتی ہے مگر تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی !آپ نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل و کرم شامل حال ہے ۔(حیاتِ اعلٰی حضرت جلد:۱ صفحه:٦٨)

(4)حیرت انگیز بچپن

اسی عمر میں آپ نے بغدادشریف کے بارے میں سَمت معلوم کر لی پھر تادمِ حیات غوثِ اعظم کے مبارک شہر(بغداد شریف عراق)کی طرف پاؤں نہ پھیلاۓ ۔نماز سے تو عشق کی حد تک لگاؤ تھاچنانچہ نماز پنج گانہ باجماعت تکبیر اولٰی کاتحفظ کرتےہوئےمسجد میں جا کر ادا فرمایا کرتے.(دیباچہ فتاوٰی رضویه ج:۳۰ص:١٦)

(5)سونے کا منفرد انداز

اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ سوتے وقت ہاتھ کے انگوٹھے کو شہادت کی انگلی پر رکھ لیتے تاکہ انگلیوں سےلفظ” الله "بن جاۓ-آپ پیر پھیلا کر كبھی نہ سوتےبلکہ داہنی(یعنی سیدھی)کروٹ لیٹ کر دونوں ہاتھوں کو ملا کر سر کے نیچے رکھ لیتے اور پاؤں سمیٹ لیتے ،اس طرح جسم سےلفظ” محمد "بن جاتا ۔(حیاتِ اعلٰی حضرت ج:۱ ص:۹۹)

(6)دورانِ میلاد بیٹھنے کا انداز

 اعلٰی حضرت محفل میلاد شریف میں ذکرِ ولادت شریف کے وقت صلٰوۃ وسلام پڑھنے کےلیےکھڑےہوتے باقی شروع سے آخر تک ادباً دو زانو بیٹھے رہتے ۔یوں ہی وعۡظ فرماتے ،چار پانچ گھنٹے کامل دو زانو ہی رہتے۔(سوانح امام احمد رضا ص:۹ ۱ ۱، حیاتِ اعلٰی حضرت ج:۱ ص:۹۸)

(7)حیرت انگیز قوتِ حافظہ:

حضرت سید محمد محدث کچھوچھوی رحمة اللّٰه علیه فرماتے ہیں کہ جب دارالافتا میں کام کرنے کے سلسلے میں میرا بریلی شریف میں قیام تھا تو رات دن ایسے واقعات سامنے آتے تھے کہ اعلٰی حضرت کی حاضر جوابی سے لوگ حیران ہو جاتے ۔  ان حاضر جوابیوں میں حیرت میں ڈال دینے والے واقعات وه علمی حاضر جوابی تھی جس کی مثال سنی بھی نہیں گئی ۔مثلًا اِستِفتا (سُوال) آیا، دَارُالۡاِفتا میں کام کرنے والوں نے پڑھا اور ایسا معلوم ہوا کہ نئی قسم کا حادثہ دریافت کیا گیا (یعنی نئے قسم کا مُعامَلہ پیش آیا ہے) اور جواب جُزئِیَّہ کی شکل میں نہ مل سکےگا فقہائےِکرام کے اُصولِ عامَّہ سے اِستنِباط کرنا پڑے گا۔ (یعنی فقہائےِکرام رَحِمَهُمُ اللّٰه کے بتائے ہوئے اُصولوں سے مسئلہ نکالنا پڑے گا ) اعلٰی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوۓ ،عرض کیا عجب نئے نئے قسم کے سوالات آ رہے ہیں ! اب ہم لوگ کیا طریقہ اختیار کریں؟ فرمایا: یه تو بڑا پُرانا سُوال ہے ۔ابنِ ہُمام نے ”فَتۡحُ الـقـدير“ کے فُلاں صَفحے میں،ابنِ عابدین نے "رَدُّالۡمُحتار“ کی فُلاں جلد اور فلاں صَفۡحَہ پر ( لکھا ہے)،فتاوٰی ہندیہ میں، ”خَیریہ“ میں یہ یہ عبارت صاف صاف موجود ہے اب جو کتابوں کو کھولا تو صَفۡحَہ سَطۡر اور بتائی گئی عبارت میں ایک نُقۡطے کا فَرۡق نہیں۔اس خدا دا فضل و کمال نے علما کو ہمیشہ حیرت میں رکھا ۔(حیات اعلیٰ حضرت ج١ ص۲۱۰)

کس طرح اتنے علم کے دریا بہا دیئے
علمائےِ حق کی عقل تو حیراں ہے آج بھی


دعاہےاللّٰه(عزوجل)پیارےمحبوبﷺوانبیائےکرام(علیھم السّلام)وصحابہ کرام(علیھم الرضوان)واولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه) کے صدقے میں میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلّی اللہ علیہ وسلّم)

طالبِ دعا:
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبدالوحید قادری شاہ پور بلگام کرناٹک

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads