AD Banner

( صحابی رسول حضرت تمیم انصاری کا حیرت انگیز واقعہ)

 ( صحابی رسول حضرت تمیم انصاری کا حیرت انگیز واقعہ)

ازقلم:(مولانا) اسلام الدین انجم فیضی گونڈوی

راویان صادق الاخبار روایت کرتے ہیں ایک روز امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ  نماز فجر کے بعد مسجدنبوی میں تشریف فرما تھےاس وقت ایک عورت سرتاپا ایک چادر میں لپٹی ہوئی وہاںآئی اور  آپ سے یوں مخاطب ہوئی یا امیر المومنین میرا شوہر ساڑھے تین سال سے مفقودالخبر ہے اب تک اس کی موت وحیات کا کچھ پتہ نہیںمیں بچوں کی پرورش کے متعلق سِخت پریشان ہوں اس لئے دوسرے مرد سے نکاح کرلینے کی خواستگارہوں امیر المومنین جب تک اورچارسال نہ گزر جائیں تجھ کودوسراشوہر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی  ہوسکتاہے اس عرصے میں تیراشوہر آجائے یا کہیں سے اس کےمتعلق خبر مل جائے عورت نے عرض کی اس کے بچوں کی پرورش کیسے کروں؟آپ نے فر مایا تو بچوں کی پرورش کی فکر نہ کر بیت المال سے بقدرضرورت ان کی پرورشکو مل جائے گا تم جاو بچوں کی اچھی تربیت کرو اللہ تعالی ساری مشکلیں آسان کرنے والاہے  وہ عورت ِخوشی خوشی گھر واپس ہوئی اور شوہر کےانتظار میں چارسال گزار دیئےچارسال کی مدت ختم ہونے کےبعد وہ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کیا  اے خلیفۃ المسلمین اب تو پورے چارسال گذر چکے ہیں  نہ شوہر آیا  اورنہ اس کی کوئی خبر ملی اب دوسرے مرد سے نکاح کرنےکی اجازت فرمائیں آپ نے فر مایا آج کے دن سے چار مہینے اور انتظار کرلو۔

جب یہ مدت بھی پوری ہوگئی اور اس کے شوہرتمیم انصاری کا کچھ پتہ نہ ملا تووہ عورت حضرت عمر فاروق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگی  اب مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا اس وقت آپ کے ساتھ کچھ افراد بیٹھےہوئے تھے آپ بآوازبلند ان سے مخاطب ہوئے تم میں کوئی ہے جو اس عورت کو اپنے نکا ح میں لائے ان میں سے ایک آدمی نے کھڑے ہوکر کہا میں اس عورت کو اپنے نکاح میں لانے کے لئے تیارہوں۔ اسی وقت آپ نے اس عورت کا نکاح اس مرد کے ساتھ کردیا عورت اپنے نئے خاوند اوربچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگی ۔کچھ عرصہ اسی طرح گذرا ایک دن عورت کایہ دوسراشوہر نمازعصر پڑھ رہاتھا اس وقت گھر کے اندر سے شوروغل کی آوازآنے لگی اس نے سلام پھیر کر بیوی کو پکارا اور دریافت کیا خیر تو ہے کس سےجھگڑا ہورہا ہے گھر میں کون آ گھسا ؟بیوی نے کہا یہ دیکھو کون ہےجوننگ دھڑنگ کھڑا ہواہے وہ جوان صالح جانماز سے اٹھ کر اس ننگ دھڑنگ کے پاس آیا اور اس سے نہایت غصے سے پوچھا تو کون ہے میرے گھر میں میری اجازت کے بغیر کیوں گھس آیا ؟معلوم ہوتا ہے کہ تیری موت تجھے یہاں لے کر آئی ہے فورا یہاں سے نکل جا ورنہ تیرا انجام بہت برا ہوگا ۔

یہ سن کر وہ ننگ دھڑنگ اس جوان صالح سے لپٹ گیا اور دونوں میں جنگ وجدال شروع ہوگئی وہ نیک بخت عورت یہ دیکھ کر چیخنے لگی اور آواز لگائی اے پڑوسیو دوڑ ےآؤکوئی میرے شوہر کو مارے ڈالتا ہے شاید یہی دیو میرے پہلے شوہر کولے گیاتھا اب میرے دوسرے خاوند کا دشمن بن کر آیاہے محلے کےلوگ یہ غل غپاڑہ سن کر بے تحاشہ دوڑے ہوئے آئے اور بہ مشکل دونوںکو ایک دوسرے سے جدا کیا اور اس ننگ دھڑنگ کو الگ لے  جاکرپوچھا سچ بتا تو کون ہے کہاںکا رہنے والاہے اور تیرا نام کیاہے؟ 

ننگ دھڑنگ نے جوا ب دیامیرا نام تمیم انصاری ہے اور میں اس عورت کا شوہر ہوں یہ سب بچے میرے ہیں اور میں یہیں مدینے کا رہنے والاہوں بہت ساری مصیبتوں میں گرفتار ہوگیا تھا اللہ تعالی کی عنایت شامل حال  ہوئی تو پھر میں اب یہاں آپہونچا ہوں چونکہ کافی رات ہوگئی تھی لوگوں نے دونوں کو سمجھایا کہ رات بھر صبر وتحمل کےساتھ کام لوصبح کو امیر المومنین حضرت عمرفاروق اعظم کی خدمت بابرکت میں پیش ہوکر واقعات بیان کرو وہاں سے جوحکم ملےعمل پیراہوجاو الغرض ساری رات افراتفری میں گزری کسی کو نید نہیں آئی صبح کو سب امیر المومنین حضرت عمرفاروق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعورت نے گذشتہ دن کا واقعہ روروکر بیان کیا آپ نے فرما یا اےننگ دھڑنگ تیرا نام کیاہے اور تو کہاں کا رہنےوالاہے ؟ننگ دھڑنگ نے جواب دیا میرا نام تمیم انصاری ہے اور میں یہیں مدینے کا رہنے والاہوں کیاآپ مجھے بھول گئے میں آپ کا ساتھی ہو ں یہ عورت میری زوجہ ہے اور یہ بچے میرے اپنے ہیں میں ان کا باپ ہو ں۔

  عورت نےکہا یاامیر المومنین یہ جھوٹا ہے یہ انسان نہیں دیو ہے میں کیوں اس کی بیوی ہونے لگی اور یہ میرا شوہر کیسے ہوسکتاہے اس نےتما م رات ہم لوگوں کو حیران کیاہے سارے محلے میں اس کی وجہ سے ایک ہنگامہ رہا ہے  یہ میرے شوہر کا جانی دشمن اور اس کے خون کا پیاسا ہوگیاہے ننگ دھڑنگ نے کہا آپ کوکیا ہوگیا ہے امیر المومنین مجھے پہچانتے ہی نہیں اورنہ میری سنتے ہیں اسی عورت کی سنے جارہے ہیں آپ نے فرما یا اےشخص تویہ کہ رہا ہے      میں تجھی کو دیکھ رہاہوں تمیم انصاری بیشک میرایار تھا اس کی شبیہ میرےتصور میں ہے مگر حیران ہوں کہ اس کی کوئی علامت تجھ میں نظر نہیں آتی ہے بغیر تحقیق کےمیں کسی طرح فیصلہ کرسکتا ہوں تو وہی تمیم انصاری ہے کیا تو اپنی شناخت کے متعلق کوئی گواہ پیش کرسکتا ہےننگ دھڑنگ نے کہا ہاں ضرورحضرت علی کو بلا لیجئے وہ مجھ کو پہچان لیں گے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں میرے حال سے آگاہ فرما دیا ہے یا آپ مجھے ان کے پاس لے چلیںحضرت عمرفاروق اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام حاضرین کے ساتھ حضرت علی شیر خدا کے دولت کدے پہ جا کر بآواز بلند السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ یاعلی! فر مایاحضرت علی وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کہتے ہوئے باہر تشریف لائے اورفرمایا  خیر تو ہے۔

صبح صبح امیر المومنین جو اس مجمع کے ساتھ غریب خانہ پہ تشریف لائے ہیںحضرت عمرفاروق اعظم نے اس عجیب الخلقت (ننگ دھڑنگ )مِخلوق کی طرف اشارہ کرکےفر مایا اسی وجہ سے آپ کے پاس آیاہوں حضرت علی  نےاس شخص سےمخاطب ہوکر فر مایا کیا توتمیم انصاری نہیں ہے؟ننگ دھڑنگ نے کہافداک ابی وامی یاعلی یقینا میں تمیم انصاری آپ کا قدیم دوست ہوں ساڑھے سات برس بعد آپ کے سامنے کھڑا ہوں دیوؤں کے پنجہ ظلم میں گرفتارہوکر اس حال کو پہونچا ہوں کہ کوئی مجھے پہچانتا ہی نہیںبلکہ انسان بھی نہیں سمجھتا حضرت علی نے فر مایا اے لوگو بیٹھ جاؤ اور اس کی کہانی مجھ سے سنویہ شخص بہت سے عجائبات دیکھ کر آیا ہے ایک دن پیغمبر ِخدا صلی الله علیہ وسلم نے اس کے سفر کی مکمل داستان مجھ سے فر مایا تھا عنقریب دنیا میں بہت سارے عجائبات ظاہر ہوں گےان میں ایک تمیم انصاری کابھی قصہ ہو گا حضرت علی نے تمیم انصاری سے فرما یا کہ اب تم اپنا حال بیان کرو کہ تمہاری پہونچ کہاںکہاں ہوئی اور کن کن مصیبتوں میں مبتلا ہو ئے اور کیا کیا عجائبات دیکھےتمیم انصاری نے کہا اے علی میں نے جو کچھ عالم بیداری میں دیکھاہے کسی نے خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا میں کچھ تفصیل سے بیان کرتاہوںایک رات میں نے اپنی بیوی سے مباشرت کی اور فار غ ہوکر اس سے کہا کہ جلدی پانی لاؤ تاکہ غسل کرکے پاک ہوجاؤں کیونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فر مایا ہے کہ مباشرت سے فارغ ہونے کے بعد غسل کرلیا جائے کیوں کہ یہ وقت شیطان کے غلبہ کاہے اکثر اوقات اس طرح کاناپاک آدمی کسی نہ کسی بلامیں گرفتار ہوکرتکلیف اٹھاتاہےمیری بیوی نے تمسخر سے کہا ارے دیو ان کو اٹھالے جایہ کہ کر وہ پانی لانے کے لئے چلی گئی میںبستر پہ لیٹارہااچانک ایک دیوآیا اور مجھےآسمان کی طرف لے اڑا وہ مجھ کو کبھی روشنی سے اندھیرے اورکبھی اندھیرے سے روشنی میں لئے جاتا تھا میں اتنی اونچائی پر پہونچ گیا کہ زمین ایک ڈھیلے کے مانند معلوم ہونے لگی میں خوف کے مارے دم بخود تھابس کچھ نہ چلتا تھاامید نہ تھی کہ اسکے پنجے سے چھٹکارا پاجاؤں گا رب قدیر کی شان کرم پر قربان جاؤں کہ ایک ابر کا ٹکڑا اس دیو کی گردن سے ایسا چمٹا کہ وہ بے بس ہوگیا اور آنکھیں بندکرکے سیدھے نیچے اترنے لگااورایک بہت بڑے دریا میں ڈوب گیا مجھ کو اس کی گرفت سے رہائی ملی اور میں زمین تک پہنچتے پہنچتےبیہوش ہوگیاجب مجھے ہوش آیا اور میری آنکھیں کھلیں تو اپنے آپ کوایک ایسے سرسبز و شاداب باغ میں پایا جس میں میوہ جات کے سینکڑوں درِخت تھے ہرطرف صاف وشفاف پانی کے چشمے جاری تھے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی پھولوں کی بھینی بھینی ِخوشبو دماغ کو معطر کررہی تھی میرے مردہ جسم میںجان پڑگئی دل میں سرور آنکھوں میں نور پیدا ہوگیا گویاساری کلفت دور ہوگئی فورا اٹھ کھڑا ہوا ادھرادھر دیکھا کسی کو نہ پایابس جس میوے کو چاہا توڑکر کھانے لگا اسی حال میں ایک سمت روانہ ہوا  ایک مقام پر اچانک میری نظر چند عجیب مخلوقات پر پڑی جو میری جنس سے نہیں تھیں میں سمجھ گیا یہ سب دیو ہیںضرور مجھ کو کھا جائیں گے 

        میں نے اپنے رب سے فریادکی غفور رحیم تو مجھےاس سے بھی بچالے میں ان دیوؤں کے خوف سےدرختوں کے ایک جھنڈ میں چھپ گیا اور دو دن تک وہیں بیٹھارہا تیسرے دن میں نے دو آدمیوں کو اپنی طرف آتےدیکھا     وہ میرے قریب آئےاور مجھے سلام کرکے ایک آدمی نے پوچھا اے شخص تو کون ہے اوریہاں کیسے آیا ؟میں نے جواب دیا میں آدمی ہوں مجھے خبر نہیں کہ یہ کون سی جگہ ہے ایک کالادیو مجھ کو گھر سے اٹھا لایاتھااس آدمی نے کہا یہ زمین کا پانچواں طبقہ ہے اور یہ دیوؤں کا ملک ہے تیرا گھر  یہاں سے پانچ ہزار کوس کی دوری پر ہے جب میں نے یہ بات سنی تو مجھ پر غشی سی طاری ہوگئی بالفرض اگر میں یہاں سے نکل بھی گیاتو گھر نہیں پہنچ سکتا گھرپہنچنے کی آس ٹوٹ گئی جب ہوش ٹھکانے لگے تو دونو ں آدمی غائب تھے پھر میں اپنی جگہ پہ آ بیٹھاحضرت تمیم انصاری نے مجمع عام میں حضرت علی سے مخاطب ہوکر بیان کیا کہ ایک رات غنودگی کےعالم میں میں نے بے حد شور و غل کی آوازیں محسوس کیں ڈرکرایک درخت پر چڑھ گیاتھوڑی دیر کے بعد بہت سے گھوڑسوار ہاتھوں میں ننگی تلوار لئےہوئے آتے دکھائی دئے یہ پریوں کا لشکر تھا اس لشکر نے دیوؤں پر شب خون مارا تھا دیو بھی سنبھل کرپریوں کےمقابل کھڑے ہوگئے گمھسا ن کی جنگ شروع ہوگئی۔

امیر المومنین ایسی خوفناک جنگ اس سے پہلے میری آنکھوں نے نہ دیکھی اور نہ کانوں نے سنی انجام کار پریو ں کا لشکر فتح یاب ہوا اور دیو سب مارے گئےیہ پریاں سب اہل ایمان تھیں جب فاتح لشکر اس درخت کے پاس سے گزر اجس پر میں بیٹھاتھامیں نے دیکھا کہ ایک پری ایسے گھوڑے پرسوار اڑی جارہی ہےجس کی زین میں یاقوت وزمرد جڑے ہوئے ہیںاورجس کی لگام لعل و الماس سےمرصع ہے یہ شاہ پری تھی اس نے مجھ کو درخت پر بیٹھےدیکھ لیا وہیں گھوڑے کو روک کر مجھ کو نیچے اترنے کا اشارہ کیا میں درخت سے اتر آیاشاہ پری نے کہا مجھے یقین ہےکہ تم انسان ہو بتا ؤ کہ تم کو یہاں کون لایا میں نے روروکر اپنا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے میں اپنے گھر بار اور بیوی بچوں سے دور ہوگیاہوں اتنی طاقت نہیں کہ گھر پہنچوں شاہ پری نے کہا آزردہ خاطرنہ ہو ایک پری کو بلاکر کہااس آدمی کے لئے سواری کا بندوبست کر وشاہ پری کے حکم کے بموجب اس پری نے میری سواری کاانتظام کردیا اورمیں اس کے ساتھ زمین کے تیسرےطبق پر جا پہنچا یہیں شاہ پری کی رہائش تھی شاہ پری اپنے تخت پر جلوہ افروزہوئی جوزمردولعل ویاقوت جیسے جواہرات سے جگ مگ کررہاتھا لشکر اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہوگیا میں بھی ایک گوشے میں کھڑا تھا،شاہ پری نے بڑی مہربانی سے مجھ کو بلاکر اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اورمیرانام دریافت کیا ۔

  میں نے کہا میرا نام تمیم انصاری ہے میں مدینہ طیبہ امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کارہنےوالاہوں اس نے کہا کیا تم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاہے؟میں نے کہا ایک عرصے تک آپ کی خدمت میں رہنے کا شرف حاصل ہےشاہ پری نے بے اختیار ہوکر میری آنکھوں کو بوسہ دیکر کہا کیاپیغمبر خدا ابھی باحیات ہیں؟میں نے کہا حضور ظاہری زندگی سے پردہ فرما چکے ہیںیہ سن کر شاہ پری بہت غمگین ہوئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اس نے کہا اے تمیم انصاری اب تم میرے منھ بولے فرزندہومیرے سات فرزند ہیں میری آرزو ہے کہ تم انہیں قرآن مجید پڑھا دو اس کے بعد تمہاراجو مقصد ہوگا  وہ میں پورا کروں گی اس میں مجھے کسی طرح کاعذرنہ ہو گا۔

شاہ پری نے کہا میرے بچوں کو قرآن مجید پڑھا دو میں ( حضرت تمیم انصاری )نے یہ درخواست بخوشی قبول کر لی،شا ہ پری نے اسی وقت ایک گھوڑا منگوا کر اس پر مجھ کو سوار کرواکے دوپریوں کو میرے ہمراہ کرکے انھیں حکم دیا ان کو میرے بیٹوں کے پاس لے چلو یہ وہیں رہیں گے اور میرے فرزندوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیں گے دیکھنا ان کی خاطر اور دل جوئی میں کوئی کمی نہ ہونے پائے ایک ہفتے کےبعد میں وہاںآؤں گی اگر ان کوذراسی بھی تکلیف پہنچی تو تمہیں سخت سزا دوں گی۔ امیر المومنین اس گھوڑے کی تیز رفتار ی کیا بیان کرو ں اس قدر تیز رفتار تھا کہ میرےہوش بجانہ رہے میری آنکھیں بند ہوگئیں اور مجھے یہ بھی خبر نہیں تھی کہ میں کہاںلے جایا جارہاہوں چند ساعتوں کے بعد مجھ کو ایک جگہ اتارا گیا میں نے آنکھیں کھولیں جب حواس ٹھیک ہوئے تو مجھے عصر کے وقت کا اندازہ ہوافورا وضو کرکے نماز پڑھی اتنے میں شاہ پری کےساتوں فرزند اورمتعلقین بھی میرے پاس آگئے سب نے میری بہت عزت کی اورطرح طرح کی نعمتیں مجھ کو کھلائیں اتنے میں شاہ پری کے فرزند نےمجھ سے پوچھا کہ آپ ہماری والدہ کے پاس سے کس وقت چلے تھے میں نے کہا آج فجر کی نماز پڑھ کر گھوڑے پر سوارہواتھا عصر کی نماز یہاں آکرپڑھی ہے فرزندنے کہا کیاآپ بتاسکتے ہیں کہ آپ نے کتنا راستہ طے کیاہے ؟میں نے کہا چالیس پچاس فرسنگ فرزند نےکہا حضور! آپ نے زمین کاایک طبق طے کیا ہے جو انسان کی رفتار سے ہزار برس کا راستہ ہے یہ سنتے ہی میرے ہوش اڑ گئے اور دل سرد ہوگیا بالآخر صبر کرکے بچوں کوقرآن مجید پڑھا نے میں مشغول ہوگیاہر ہفتہ شاہ پری آتی اور بچوں کے متعلق دریافت کرکے خود انکا سبق سنتی اور ِخوش ہو کرجاتی جس روز بچوں نے قرآن مجید ختم کیا اس دن شاہ پری بھی آئی ہوئی تھی میں نے اس رات خواب میں دیکھا کہ میری بیوی بچے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کررہے ہیں انہیں اس حالت میں دیکھ کرچاہا کہ انہیں لپٹالوں مگر آنکھ کھل گئی اس خواب سے مجھ کواتنارنج ہوا کہ دھاڑیں مارکررونے لگا میرے رونے کی آواز شاہ پری کے کانوں تک پہنچی شاہ پری نے چوکیداروں کوبلاکر کہا دیکھو آدم زاد کے رونے کی آواز آتی ہے معلوم کرو اس کو کس نے ستایاہے اور آدم زاد کو میرےپاس لے آؤ۔

نقیب اور چوکیدار میرے پاس آئے اور رونے کی کیفیت معلوم کرکے مجھ کو شاہ پری کے سامنے پیش کیااور بولے حضور ہم میں سے کسی نے انہیں نہیں ستایا یہ اپنے بچوں کویاد کرکے رو رہے ہیں رات کوانہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کے بچے روضہ رسول کی زیارت کررہے ہیں ان کو دیکھتےہی شفقت پدری جوش میں آگئی اور چاہا کہ انہیں گلے لگائےمگر آنکھ کھل گئی بس وہ رونے لگےشاہ پری نے کہا تمیم انصاری بتاؤ کہ اب تمہاری آرزو کیا ہے؟میں نے کہا صرف یہی کہ اپنی بیوی اور بچوں سے ملوں اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے فیض یاب ہو رہوں جس کے لئے مدت سے بےقرار بےتاب ہوں شاہ پری مجھ(تمیم انصاری ) کو قول دے چکی تھی کہ جب میں اس کے بچوں کو قرآن شریف ختم کراد وں گا و ہ مجھ کو مدینہ طیبہ پہونچا دے گی چونکہ بچوں نے قرآن مجید ختم کرلیا تھا شاہ پری بھی آئی ہوئی تھی لہذا  میرا خواب اسکےوعدہ کو پورا کرنے کا محرک ہوا وہ فورا تخت پر کھڑی ہوگئی اور ازراہ شفقت مجھ سے کہا میرا ہاتھ پکڑ لو میں نے اس کاہا تھ پکڑلیا وہ مجھ کو لےکر ہوا میں اڑنے لگی ہم اڑتے ہوئے ایک ایسے بیا بان میں پہنچے جہاں ایک بہت بڑا قلعہ مقفل تھا شاہ پری دروازے کے قریب گئی تو قفل خود بخود کھل کرنیچے گر پڑا شا ہ پری مجھ کو ساتھ لےکر اندر گئی وہاں بیسوں حجرے اور کمرے تھے ہر کمرے میں ایک دیو زنجیروں میں جکڑا ہوا ٹھا شاہ پری نے ہرایک دیو کودیکھا اوراس کانام معلوم کیا ہر دیو خوف کے مارے کانپنے لگا اورشاہ پری سےنظر ملانےکی ہمت نہ کرسکا آخر شاہ پری ایک سیاہ دیو کے کمرے میں گئی اور اس کا معائنہ کیا۔

امیر المومنین! اس دیو کی ہیئت کیا بیان کرو ں سر ایک گنبدعظیم منہ ایک بڑے غار کی طرح قد ایک کوہ بلند کے مانند آنکھیں طاس لان کی مثال اورناخن مثل ناخن ہائے پیلان وہ بڑی بڑی نہایت موٹی زنجیروں میں جکڑ اہو تھا شاہ پری کو دیکھتے ہی جان کے خوف سے بید کی طرح کانپنے لگا شاہ پری نے دیو سے کہا اگر تو ہماری اطاعت پر راضی ہے تو اقرار کر کہ پھر کبھی ہمارے حکم سے سرتابی نہ کرے گا اورہماراہمیشہ فرماں بردار رہے گا تو ممکن ہے کہ رہا کردیا جائے ورنہ یاد رکھ تجھ کو اسی جگہ ہلاک کردیا جائیگا دیو نے سر جھکا کر اور ہاتھ جو ڑکر کہا کہ میں بیشک قصور وار ہوں میری خطائیں معاف کر دی جائیں میں اقرار کرتاہوں کہ کبھی آپ کی فرماں برداری سے منہ نہ موڑوں گااور ہمیشہ آپ کی تابعدار رہوں گا شاہ پری نے کہا مجھ کو تیرے حال زار پہ رحم آتاہے تجھے اس شرط پہ رہا کرتی ہوں کہ اس آدمی کو جو میرے ساتھ ہے جس کوتو مدینہ طیبہ سے اٹھالایاہے مدینہ طیبہ پہونچا دے اوراس کے وہاں پہنچانے کی رسیدلا دےدیو نے قید سے رہائی پانے کے لئے بڑی خوشی کےساتھ مجھ کو مدینہ طیبہ پہونچا نے کا اقرار کر لیا شاہ پری نے اس کو بند گراں سے رہاکرکے اس کی گردن پر سوار کیا اوراس سےوعدہ لیا کہ وہ مجھ کو ایک ہفتے کے عرصے میں مدینہ طیبہ پہونچا دے گارخصت کرتے وقت شاہ پری نے مجھ سے کہا اےتمیم انصاری دیوؤں کے قول و فعل کا کوئی اعتبار نہیں یہ اکڑ اور بدعہدی کرتے ہیں اس لئے میں تجھے ایک دعا سکھا تی ہوں یادکرلے خدا نے چاہا تو اس کی برکت سے ہر آفت اور دیووں کے مکر ودغا سے محفوظ رہےگا وہ دعا یہ ہے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم یا دلیل المتحیرین یاغیاث المستغیثین و یا مجیب الدعوات المضطرین و یا الہ العالمین و صلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وآلہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین

حضرت تمیم انصاری نے بھرے مجمع میں حضرت امیر المومنین حضرت عمرفاروق اعظم سے کہا شاہ پری نے دیوؤں کے مکر و دغا سے محفوظ رہنے کی دعا بتا کر مجھ کو بخداس پردم کرکے رخصت کیا دیو مجھ کو لے کر آسمان کی طرف اڑا نہ جانے اس کے دل میں مجھ سے کیوں دشمنی پیدا ہوئی اڑتے اڑتے چاہا کہ مجھ کو نیچے چھوڑ دےمیں نے شا ہ پری کی بتائی ہوئی دعا پڑھنی شروع کی اسکی برکت سے وہ مجھ کو نیچے نہ چھوڑ سکا لیکن کبھی نیچےاترتا کبھی اوپر چڑھتاکبھی کسی دریا میں غوطہ لگاتا جاتاتھا مگر میں ہر طرح سے محفوظ رہا جب وہ مجھ پرغلبہ نہ پا سکا توایک مرتبہ اتنابلند ہوا کہ فرشتوں کی آوز مجھےسنائی دینے لگی میں نے بہت غورسے سنا فرشتے نہایت ِخوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم والصافات صفا فالزاجرات زجرا  وہ ملعون اپنی ِخباثت سے اوپر اڑاتو فرشتوں نے اس پر آگ برسائی وہ جل کر راکھ ہوگیااور میں اس دعائے مکرمہ کی برکت سے نیچے زمیں پر بغیرکسی تکلیف کے گرپڑا مگر بیہوشی مجھ پر طاری رہی جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو سلامت پایا حالانکہ میں گرتےوقت سمجھ گیاتھا کہ پاش پاش ہوجاؤں گا اور میرے وجود کا ایک ذرہ بھی نہ ملے گا۔

حضرت تمیم انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نےکہا کہ چلتے چلتے میں ایک جنگل میں پہنچا ؤہاں دو ہیولانی شکلیں نظر پڑیں جومیری ہی طرف لڑھکتی ہوئی آرہی تھیں جب میرے قریب آئیں تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ دونوں گول تھے نہ ان کی آنکھیں تھیں نہ کان تھے نہ سر تھا نہ شکم تھانہ پاؤں تھے ان ہیولانی شکلوں نے کہااے تمیم انصاری خوش با ش تو ضرور اپنے گھر پہنچے گامیں نے کہا تم کون ہو کیا جنات کی نسل سے ہو؟ ہیولانی شکل نے کہا اےتمیم انصاری ہم کو خناس کہتے ہیں میں نے کہا اے آل خناس تو مجھے راستہ بتا تاکہ میں اپنی منزل مقصود کوپہنچوں ہیولانی شکل نے کہا اےتمیم انصاری قبلہ کی سمت  نہ چھوڑوسیدھے اسی طرف جاؤ۔

  میں ان سے رخصت ہوکر قبلہ کی سمت چلنے لگا مہینوں چلتارہا بھوک لگتی تو جنگل میں جو کچھ ہاتھ لگتا کھا لیتا  تھک جاتا تو کسی درخت کے سائے میں لیٹ جاتارات کو کسی اونچے درخت پر چڑھ کر بیٹھ جاتا اور اونگھنے لگتا      ایک روز میں ایک پہاڑ پر پہنچا وہاں ایک بزرگ نماز پڑھتےہوئے دکھائی دیئے میں ان کے قریب گیا جب انھوں نے سلا م پھیرا تو میں نے ان کو سلام کیاشیخ نے سلام کاجواب دےکر کہاتو یہاں کہاں سے آیاکیوں کر آیا ؟  کوئی آدمی ِخشکی کےراستے اب تک یہاں نہیں آیاہرسال ایک کشتی سمندر کی راہ سے یہاں آتی ہے تو آدم زاد کی صورتیں نظرآتی ہیںمیں نے کہا خدا کی قدرت البتہ میں اپنے وطن کوجانا چاہتاہوںشیخ میرا ہاتھ تھامے ہوئے پہاڑ سے نیچے اترے اور ایک جوان سے ملاقات کرائی میں نے اس جوان کو اپنا سب حال بیان کیا اور کہا میں برسوں سے پیدل سفر کر رہاہوںمگر پتہ نہیں چلتا کہ کہا ں جارہاہوں جوان نے کہا میں تجھ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ تو ضرور اپنے گھر پہنچے گا اور میں تجھ کو پہنچاؤں گابلکہ تجھے کسی ملک کابادشاہ بنا دو ں گا بشرطیکہ تو وہی کرے گا جو میں کہوں گا۔

  میں نے کہا مجھے یہ تیری شرط منظور ہے اس جوان نےمیرا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لےکر ہلایا اور یہ کہہ کر تو یہیں ٹھہر وہ غائب ہو گیا تھوڑی دیر بعد ایک دستر خوان طرح طرح کی نعمتوں سے بھرا ہوا لے کر آیا اور میرے آگے رکھ دیا میں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا نوجوان نےکہا کیا تواپنے قول پرقائم ہے ؟میں نے کہا ہاں یقینا پھر وہ نوجوان غائب ہو گیا دوسرےروزآیا اور ہر قسم کی نعمتوں سے بھرا ہوا خوان لاکرمیرے سامنے رکھا جب میں کھانے سے فارغ ہوا تواس جوان نےایک غلولہ میرے ہاتھ میں پکڑادیا اورکہا اس کو حفاظت سےرکھ جب میں آگ میں جل کر راکھ ہوجاؤں تو یہ غلولہ اس راکھ پر رکھ دینا میں زندہ ہوجاوں گا اور تجھ کوتیرے گھر پہنچاکر ہفت اقلیم کی بادشاہت بھی تجھے دیدوںگا،میں نےاس کاشکریہ اداکیا اس کے ہاتھ میں ایک رسی بھی تھی وہ بھی اس نے مجھ کودیدی اور کہا میرا پیر مضبوطی سے پکڑ لومیں نے اس کے دونوں پیرپکڑ لئےاس نے مجھ کو لےکر ہوا میں پرواز کیا ذرا سی دیر ہم دونوں ایک پہاڑ پر اترے وہ پہاڑاتناوسیع تھا کہ اس کے طول و عرض کا بیان احاطہ تحریر سے باہر ہے مجھ کو پہاڑ پر بٹھا کر وہ غائب ہوگیا تھوڑی دیر بعد آیا میں نے کہا اےجوان یہ بتاکہ یہ کون سا پہاڑ ہے جوان نے کہا یہ کوہ قاف ہےکوہ قاف کانام سنتے ہی میں سناٹے میں آگیا کہ الہی میں یہاں سے کس طرح اپنے گھر پہنچوں گا کچھ دیر بعد میری طبیعت سنبھلی  میں نے کہا اے جوان ! تونے وعدہ کیا تھا کہ مجھ کو میرے گھر پہنچادےگا مگر تونے مجھے کوہ قاف پہ لاکر پہنچادیاجوان نےکہا تو بالکل نہ گھبرا میں تجھ کو تیرے گھر ضرور پہنچاوں گا تو اپنے عہد پہ قائم رہ آمیرے پیر مضبوطی سے پکڑلے میں نے اس کے کہنے کے مطابق اس کے دونوں پیر پکڑ لئے وہ مجھ کولےکر ہوامیں اڑنے لگا کئی دن رات اڑتارہاآخر ایک دن ایک غار میں اترپڑامیری نظر اس غار کےمقفل دروازے پر پڑی اس پر بخط جلی لاالہ الااللہ محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھاہواتھا۔

میں(حضرت تمیم انصاری) نے اس نووارد فرشتے سے کہا خدارا مجھے بتائیں کہ یہ شخص کون تھا جس کو آپنے ہلاک کیاہے فرشتہ نے کہا یہ شخص بہت بڑاساحرتھا کہ دیو پری کی بھی اسکے سامنے کچھ حقیقت نہ تھی حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں اس نے نہ آپ کی تابعداری کی اورنہ آپ کی خدمت میں حاضری دی حضرت سلیمان علیہ السلام  کی انگشتری چرانے یہاں آیاتھا اس لئے ہلاک کردیاگیا اس ملعون کا ساتھ دینا تیرےلئے مناسب نہ تھایہ غلولہ اور رسی سحر کی ہے انھیں پھینک دے یہ تیرے کام کی نہیں مسلمانوں کو ایسی چیزوں سے پناہ مانگنا چاہئےمیں فرشتہ ہوں ِ خدا کے حکم سے آیاہوں یہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں جو تخت پر آرام فرما ہیں یہ دیو اور ازدھے ان کی حفاظت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں میں نے کہا اے فرشتے تجھ پر خدا کی رحمت ہو میں گم کردہ راہ ہوں میرا گھر یہاں سے کوسوں دور ہے مجھے راستہ بتائیے کدھر جاوںفرشتہ نے کہا یہ انگوٹھی جو اس ہلاک شدہ ملعون کی انگلی میں ہے نکال کر اپنی انگلی میں پہن لے تو تمام دیو اور پریوں کے فریب ودغاسے محفوظ رہےگا۔

ایک سمت کی طرف اشارہ کرکے اس طرف کوسیدھا چلا جا میں نے فرشتہ کی ہدایت کے موافق اس ساحر ملعون کی انگشتری اس کی انگلی سے نکال کر اپنی انگلی میں پہن لی غلولہ اوررسی کوپھینک دیا اورجس سمت کی طرف فرشتہ نےاشارہ کیاتھا اس سمت کی طرف روانہ ہواکئی دنوں کے بعد ایک قلعہ دکھائی دیا میں اس قلعہ میں داخل ہوا           اندر ایک نہایت حسین و جمیل عورت بیٹھی ہوئی تھی جب اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ گھبراکر کھڑی ہوئی اور مجھ کوسلام کیا میں نے سلام کاجواب دیا عورت نے کہا کیا تم تمیم انصاری ہومیں نے کہا ہاں عورت نے کہاوہ جادوگر جو تم کولےگیاتھاکہاں ہے ؟ میں نے کہا وہ پایئہ تخت سلیمان علیہ السلام کے پاس ہلاک کردیاگیا  عورت نے کہامجھے یقین تھا وہ وہاں پہنچتے ہی ہلاک کردیاجائے گا میں نے اس کو بہت سمجھایا اور وہاں جانےسے منع کیاتھا کہ وہ پیغمبر خداکا مقام ہے مگر اس نے میری بات نہ مانی اور ہلاک ہوگیا ۔

  اے تمیم انصاری میں نے ایک نوشتہ میں پڑھا تھا کہ اس مہینے اور آج کی تاریخ میں یہاں ایک شخص آئے گا اور وہ تمہاری جیسی شکل کا ہوگااس کانام تمیم انصاری ہوگا وہ سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں میں سے ہوگا اس کے ذریعہ مجھ کو ہدایت ہوگی اور میں ایمان لاؤں گی اب تم مجھ کو کلمہ طیبہ کی تلقین کرو میں نے اسے کلمہ طیبہ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدان محمد اعبدہ ورسولہ پڑھا کر مشرف بہ اسلام کیا میں نے کہا اب تو مسلمان ہوگئی اور یقینا تونوع انسان سے ہے عورت نے کہا ہاں بیشک میں آدم زاد ہوں یہ سن کر مجھے بیحد ِخوشی ہوئی کہ اتنے سالوں کے بعد اپناہم جنس دکھائی دیا میں نے کہا اے عورت تیرا یہاں آنا کیسے ہوا ۔

حضرت تمیم انصاری نے اس نومسلم عورت سے کہا کہ یہ سن کرمجھے بیحد خوشی ہوئی کہ اتنے سالوں کے بعد اپنا ہم جنس دکھائی دیا آپ نے کہا اے عورت بتا تیرایہاں آنا کیسے ہوا؟ عورت نےکہا میرا باپ کسی اور شہر کابادشاہ تھا اور میری ماں وہاں کی ملکہ تھی وہ اتنی خوبصورت اورحسین تھی کہ اس کا ثانی اس زمانے میں کوئی نہ تھا میری ما ں کو جب میراحمل تھا اس جادوگر نے جو تم کو تخت سلیمان علیہ السلام تک لے گیا تھااوروہاں مارا گیا تھا کسی طرح میری ماں کو دیکھ لیاتھا اس پر فریفتہ ہوکر اس کومحل سے نہ جانے کیافریب دے کر نکال لایا اور اس قلعہ میں لاکر رکھا میری ما ں نے اس کو خبردار کیا کہ وہ حاملہ ہے جب تک وضع حمل فراغت نہ پائے اس کے پاس تک نہ پھٹکنا یہ سن کراس ساحر نے میری والدہ کے ساتھ کوئی حرکت نہ کی خدا کی قدرت دیکھو کہ وہ اپنے بندوں کو موذیوں سے کس طرح بچاتاہے جب وضع حمل کاوقت آیا تو میں تولدہوئی میری والدہ نے بارگاہ الہی میں گڑگڑا کر دعا کی خداونداتیرے بندوں میں ایک ناچیز بندی میں بھی ہوں توہی میری عزت وآبرو کامحافظ ہے یہ ساحر مجھ سے بدفعلی کا ارادہ رکھتا ہے اب تیرے سوامیرا کوئی مددگار نہیں ہے میں تیری پناہ چاہتی ہوں بس مجھ کو دنیا سے اٹھالےاور اپنے پاس بلالے تاکہ میں اس موذی کے چنگل سے چھٹکارا پاجاؤں ماں کی دعاقبول ہوگئی اوروہ اسی وقت اس دارفانی سے انتقال کرکے عالم جاودانی کو عزت وآبرو کے ساتھ روانہ ہوگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

وہ جادوگر روپیٹ کر خاموش رہا مگر مجھ کو بیحد چاہنے لگا اورمیری پرورش نہایت نازونعم سے کی چوں کہ دیو پری بھی اس کے تابع تھے اس کے شفقت کی وجہ سے وہ بھی میرے مطیع ہوگئے اس نے میری تعلیم کے لئے ایک مرد حسین کو مقرر کیا جو روزانہ یہاں آتا اور مجھ کو پڑھاکرجاتاتھا مدت سے مجھ کو بھی آرزوتھی کہ کوئی اپنا ہم جنس مسلمان نظرپڑے تاکہ اس کے مبارک ہاتھ پر ایمان لاؤں حق تعالی نے آج آپ کو یہاں بھیج دیا اور آپ نے مجھ کو کلمہ طیبہ پڑھا کر دولت ایمان سے مالامال کردیا آج سے آپ میرے دینی بھائی ہو اور میںآپ کی دینی بہن اب آپ یہیںرہیں اورمجھ کو احکام دین اسلام کی تعلیم دیا کریںاس کی درِخواست پر میں وہیں پڑا رہا اوراسے احکام اسلام کی تعلیم دینے لگاکچھ دن کے بعد میں اپنی بیوی بچوں کو دیکھنے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر نے کے لئے بے اختیارہوگیا اسی وقت میں نے وہاں رخصت ہو نے کاارادہ کرکے اپنی اس دینی بہن سے اجازت چاہی وہ حیران ہوگئی اور کچھ دن رکنے پر اصرار کرنے لگی میرااضطراب انتہا کو پہنچ گیاتھامیں نے اس کی بات نہ مانی اور سفر پر تیار ہوگیا۔

میری دینی بہن نے کہا تم اپنے طور پر اپنے گھر نہ پہنچ سکو گے کیو ں کہ تمہارا مکان یہاں سے دوہزار چالیس برس کی مسافت پر ہے میں تم کو ایک دیو کے ذریعہ مدینہ طیبہ پہنچانے کابندوبست کرتی ہوں تم کو کسی طرح کا اندیشہ کرنے کی ضرورت نہیں دیو تمہیں آسانی کے ساتھ تمہارے گھر پہنچادے گا پھر ایک دیو کو بلاکر اس سے کہا       یہ میرے دینی بھائی ہیں ان کا وطن مدینہ طیبہ ہے تو ان کو مدینہ طیبہ میں ان کے گھر پہنچادےدیو نے کہا بہت اچھا میں انھیں بہت جلد ان کے گھر پہنچادوں گا دینی بہن نے کہا جلد سے جلد کتنے دن میں دیو نے کہا تین دن میں    دیو کے زبان سے تین دن کی مسافت سن کر میں بہت خوش ہوا میری دینی بہن نے مجھے دیو کی گردن پرسوار کرکے کہامیرے دینی بھائی ! میں اب تمہیں رخصت کرتی ہوں شاہ پری نے جودعا تمہیں سکھائی ہے وہ ہروقت پڑھتے رہو اس کی برکت سے تم ہرطرح کی بلاء سے محفوظ رہو گے اچھا جاؤ تمہیں خداکو سونپا۔

حضرت تمیم انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی شیر خدا(کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم)کے مکان پہ مجمع عام میں امیر المومنین حضرت عمرفاروق اعظم کو مخاطب کر کے کہا اےامیر المومنین میری اس دینی بہن نے مجھے دیو کی گردن پرسوار کرکے کہا اےتمیم انصاری جاؤ تمہیں خداکو سونپا ،دیومجھ کو آسمان کی طرف لے اڑا تھوڑی دیر کے بعد مجھ کو ہلاک کردیناچاہا یعنی مجھےنیچے پھیک دینے پر آمادہ ہوگیااس کی یہ آمادگی میرے سمجھ میں آگئی اور میں نے شاہ پری کی سکھائی ہوئی دعاپڑھنی شروع کی اس کی برکت سے وہ مجھ کو نقصان نہ پہنچاسکا البتہ خود ایک دریا میں گر پڑا اور میں اس کی گرفت سے چھوٹ کر ایک پہاڑ پر کھڑا ہوگیا پھر وہ دیو دریا سے نکل کر میرے پاس آیا میں نے کہا اے دیو تو مجھ کو ہلاک کرنے کی تدبیریں کیوں کررہاہے ؟ دیو نے کہا میں تجھ کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا بات یہ ہے کہ تیرے وطن کاایک ہی راستہ ہے اس راستے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں وہ راستہ بڑاخطرناک ہے اور اس راستے پہ ایک بہت ہی بڑاقوی ہیکل دیووہاں رہتا ہے وہ میرادشمن ہےجب وہ ہم دونوں کو دیکھے گایقینا مار ڈالے گا  اسی لئے میں تجھے ادھر ادھر لے کر پھر رہاہوں میں نے کہا اس قوی ہیکل دیوسے بچ کر نکلنے کی کیاتدبیر ہے ؟ دیو نے کہا تو مجھ کو اپنی انگشتری دیدے تاکہ اس کی برکت سے میں اپنے دشمن کو زیر کرلوں اور حفاظت کے ساتھ تجھ کوتیرے گھر پہنچا دوں      یا امیر المومنین میں نے اپنی انگلی سے انگشتری نکال کر اس کو دیدی وہ انگوٹھی کو اپنے منھ میں رکھ کر وہاں سےفرار ہوگیا ،

مجھ کو سخت حیرانی ہوئی کہ خدایا اب میں کیاکروں کدھر جاوں تھوڑی دیر توقف کرکےاللہ کانام لےکر ایک طرف روانہ ہوا کچھ دور جانے کے بعد ایک ہیبت ناک سیاہ دیو ہاتھی کی طرح اپنی سونڈ لٹکائے ایک جواہر نگار تخت پر بیٹھاہوانظر آیا مجھے دیکھ کر وہ مار ڈالنے کے ارادے سے میری جانب بڑھااس وقت میں نے یہ سوچ کر قدم قدم پر طرح طرح کی مصیبتیں اٹھانے سے مرجاناہی بہتر ہے میںنے اس مرد قوی ہیکل سےپوچھا اے شخص تو کون ہے ؟ تجھ کواس درخت پر زنجیروں میں کس نے جکڑ رکھاہے؟ مرد قوی ہیکل نے کہا اےتمیم انصاری ! میں خدا ئےتعالی کے حکم سے یہاں مقیدہوں اے تمیم انصاری میں تم سے کچھ معلوم کرنا چاہتاہوں کہ مدینہ طیبہ میں حضور سیدالمرسلین محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بقید حیات ہیں یانہیں؟میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب ظاہری حیات میں نہیں رہے آپ پردہ فرما چکے ہیں پھر اس نے پوچھا کیا لوگ زنا کرتے ہیں ؟ جوا کھیلتے ہیں؟جھوٹی گواہی دیتے ہیں ؟ شراب پیتے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں سب کچھ کرتے ہیں یہ سن کر اس نے ایسازور لگایا کہ زنجیریں ٹوٹ گئیں پھرایسا نعرہ مارا کہ جنگل میں گویا زلزلہ آگیا اسی وقت ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوکر اپناگرزگراں اس قوی ہیکل انسان کےسرپر مارااورکہا اے ملعون ! ابھی وہ وقت نہیں آیا جس کاتو منتظر ہےاس نے فرشتے کے سامنے دم نہ مارا ہوں ہاں تک نہیں کی بالکل خاموش کھڑارہا اس فرشتےنے پھر اس کو زنجیروں میں جکڑ دیا میں یہ منظر دیکھ کر ہکابکا رہ گیا کہ الہی یہ کیا ماجراہےاتنے میں وہ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا حضرت تمیم انصاری نے کہا بارالہ یہ کیا ماجراہے جہاں جاتا ہوں کوئی نہ کوئی حیرت انگیزواقعہ دیکھتا ہوں میں اسی سوچ میں تھا کہ میری نگاہ چار سواروں پرپڑی جو ہتھیار باندھے ایک طرف کھڑے تھے میں انھیں دیکھ کر سہم گیااوردل میں کہاکہ ان سے بچنا محالات میں سےہے یہ مجھے قتل کردیں گے مگر دل کڑا کرکے سوچا جوہوگا دیکھاجائیگا آخر ایک دن مرنا ہے اگرقسمت میں اسی جگہ موت لکھی ہوئی ہےتو بچ نہیں سکتا کیوں نہ ان سے رسم سلام ادا کرکے یہاں کا احوال دریافت کریں پھر میں نے آگے بڑھ کر سلام کیاان ہتھیار بندسواروں نے وعلیکم السلام کہہ کر نہایت شفقت سے کہا اےتمیم انصاری تونے اس سفر میں بہت ساری تکلیفیں اورمصیبتیں جھیلیں بے حد زحمتیں اٹھائیں آزردہ خاطر نہ ہو خدا نے چاہا تو تو بہت جلداپنے وطن کو پہنچے گا میں نے مسرت و شادمانی کے ساتھ کہا پروردگارعالم کی تم پر رحمتیں ہوں مجھ کو کس طرح پہچان لیا اور یہ مقتول کون ہیں ؟ انھیں کس ظالم نےقتل کیاہے ؟ 

ان سواروں نے کہا ہم فرشتے ہیں اللہ کے حکم سے یہاں معمور ہیں یہ جو خزانہ ہے ہم اس خزانہ کے محافظ ہیں  یہ مقتول اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے بارگاہ خداوندی میں اپنی جانیں قربان کی ہیں ان کا خون اسی وقت سے بہتا ہے جب وہ شہید ہوئے اور قیامت تک اسی طرح بہتارہیگا یہ کھانا جوتو نے کھایاہے اسی طرح خوانوں میں بھرارہےگا نہ کم ہوگا نہ زیادہ جس کو اللہ تعالی یہاں بھیجے گا وہ اس کھانے سے اپنی بھوک مٹائے گا میں نے کہا اے فرشتہ رحمت اور کتنے سال جنگلوں میں خاک بسر پھرتارہوں گا؟ زندگی سےتنگ آگیاہوں خدا کے لئے مجھے مدینہ طیبہ کا راستہ دکھادوان فرشتوں کو میرے حال زار پہ ترس آگیا ایک فرشتہ تھوڑی دور تک میرے ساتھ ہو لیا اور مجھ کو راستہ دکھاکرواپس لوٹ گیامیں فرشتے کے بتائے ہوئے راستے پر سفر کرنے لگا چند دن کے بعد میرا گزرایک باغ میں ہوا وہاں ایک بزرگ ایک درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے تھے جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے انھیں سلام کیا  اس بزرگ نے میرے سلام کاجواب دےکر کہا توہی ہے جس کو لوگ مدینہ طیبہ میںڈھونڈھ رہے ہیں اور جس کانام  تمیم انصاری ہے ؟میں نے کہا جی ہاں میں وہی تمیم انصاری ہوں گم گشتہ راہ ہوکر وطن سے دور پڑاہوں اس بزرگ نے کہا آگے جا ایک اور پیر مرد سے تیری ملاقات ہوگی ان سے اپنا حال بیان کر میں آگے روانہ ہوا کئی دنوں سفر کرنے کے بعد ایک طرف نہایت عظیم الشان سرسبزوشاداب باغ دکھائی دیامیں نے دل میں یہ سوچ کر و ہ پیر مرد ضرور اس باغ میں ہو ںگے بے دھڑک اس باغ میں داخل ہوگیا ۔

یہ باغ ہر قسم کے پھلوں کے درختوں اور پھولوں کے پودوں سے بھراہواتھا چشمے صاف وشفاف پانی سے لبالب تھے ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت افزاء ہوائیں چل رہی تھیں اور ایک بزرگ ایک درِخت کے نیچے محو عبادت پروردگارتھےجب وہ عبادت سے فارغ ہوئےتو میں نے انھیں سلام کیا  بزرگ نے سلام کاجواب دےکر کہا کیاتو وہی تمیم انصاری ہے جس کو لوگ مدینہ طیبہ میں ڈھونڈھ رہے ہیں میں نے کہا جی ہاں میں وہی مصیبت کا مارا ہوں ۔     

حضرت تمیم انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرشتے کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہے کئی دنوں تک سفر کرنے کے بعد ایک بزرگ جو ایک درخت کے نیچے محو عبادت تھےان سےملاقات ہوئی بزرگ نے فر مایا تمیم انصاری مت گبھراو مصیبت کے دن ختم ہوگئےانشا ءاللہ تعالی بہت جلد اپنے گھر پہنچوگےمگر ایک کام کرویہ پہاڑ جو سامنے دکھائی دے رہاہے اس پرجاؤ اور قادر مطلق کی قدرت کا تماشہ دیکھوتمیم انصاری نے کہا یاامیر المومنین میں اس بزرگ کی ہدایت کے مطابق اس پہاڑ پر گیاوہاں اس باغ سے ہزاردرجہ نہایت پرفضا باغ تھا جس میں ہزاروں قسم کے ِخوشبودار میووںکے درِخت تھےہر درِخت کی ڈالیاں میووں کی بوجھ سے جھکی ہوئی تھی کوئی درخت ایسا نہ تھا جس میں پھل نہ ہوں خوشبو دار پھولوں کے پودوں کا تو حساب ہی نہیں تھاان پھولوں کی بھینی بھینی ِخوشبو سے ساراباغ مہک رہاتھاخوش الحان پرندے درختوں کی شاخوں پر بیٹھے چہچہارہے تھےمیں نےاس سفر میں اس طرح کافرحت افزامقام کہیں نہیں دیکھا۔

امیر المومنین میں نے اس باغ کی خوب سیر کی اور کئی درختوں کے میوے توڑتوڑ کر کھائےہر میوہ اتنالذیذتھا کہ اس کی لذت کی تعریف نہیں کی جاسکتی جب مجھے پیاس لگی تو میں پانی کی تلاش میں ادھرادھر پھرنے لگاایک طرف بہت ہی خوش نما ایک حوض دکھائی دیامیں اس حوض پر گیا پانی اس کا نہایت صاف وشفاف موتی جیسا تھا اس حوض کے کنارےایک بوڑھی عورت پرتکلف لباس میں ملبوس اورجواہرات کے مرصع گہنوں سے لدی ہوئی بیٹھی تھی اس کے گیسو بلکھائے ہوئے دونوں رخساروں پرلٹک رہے تھےاس کے ہاتھ میں لمبی سی تسبیح اوردوسرے ہاتھ میں مسواک تھی جب میں نے اس کو دیکھا تو میں نےاس کو سلام کیااس نے میرے سلام کاجواب نہ دے کر تسبیح اٹھاکر دکھائی مطلب یہ تھاکہ وہ وظیفہ پڑھ رہی ہے اس لئے سلام کاجواب نہ دے سکی میں اس وقت اس رمز کو نہ سمجھا اوراس سے دریافت کرنے لگااے عورت تو کون ہے ؟ یہاں کیوں بیٹھی ہے ؟ نہ بولتی ہے نہ سلام کاجواب دیتی ہے ؟اتنے میں باغ کے ایک گوشے سے کسی نے ہیبت ناک آواز میں کہا اے تمیم انصاری یہ تو کیاکررہاہے فورا یہاں سے واپس ہو کیاتجھ کو ہمارا خوف نہیں؟ یہ سن کر میں پریشان ہوگیا اور جوں تو ں کرکے اس باغ سے نکل کر پہاڑ سے نیچے اتر آیا اوراس بزرگ کی خدمت میں پہنچا  بزرگ نے کہا اےتمیم انصاری تونے ِ خداکی قدرت کو دیکھا میں نے کہا جی ہاں ازراہ عنایت مطلع فرمائیں کہ آپ کون ہیں؟وہ بزرگ جنھوں نے آپ کے پاس مجھے بھیجا کون ہیں ؟ اس باغ میں جو بوڑھی عورت قیمتی لباس سے آراستہ اور جواھر ات کے گہنوں سے پیراستہ نظرآئی  وہ کو ن ہےاور وہ ہیبت ناک تحکمانہ الفاظ کس کے تھے؟ 

بزرگ نے فرما یا میں خضر ہوں وہ الیاس پیغمبر تھےجس عورت کو تونے دیکھاوہ دنیاہے اور وہ ہیبت ناک الفاظ یاجوج ماجوج کے تھے اچھا ہوا کہ تو فورا وہاں سے میرے پاس چلا آیا اب کچھ دن میرےساتھ رہ کرآرام کرکیونکہ تونے بہت تکلیفیں اٹھائیں ہیں اور بے حدتھکاماندہ ہے میں نے کہا اے خواجہ آپ پررحمت باری ہویہ میری ِخو ش نصیبی ہے کہ مجھے آپ کی قربت نصیب ہوئی اب آپ ہی کے رحم وکرم پر میری زندگی منحصر ہے     مہربانی فرما کر یہ بتائیں کہ میرا وطن مدینہ طیبہ یہاں سے کتنی دور ہے اور میں کب گھر پہنچوں گا؟حضرت ِخضر نے فر مایاتیراوطن مدینہ طیبہ یہاں سے دوسو برس کے سفرکی راہ پر ہےمیں نے کہا اے بھٹکوں کوراستہ دکھانے والےخواجہ افسوس میری عمر اتنے برس کےسفرکے لئےوفانہ کرے گی اور نہ مجھ سے اتنی دورچلاجائے گاآہ          صدآہ اب میں اپنی بیوی اوربچوں کی صورت نہ دیکھ سکوں گا اورنہ زیارت روضہ حبیب علیہ الصلوۃ والتسلیم سے فیض یاب ہو سکوں گا۔

حضرت ِخضر نے فر مایا اےتمیم انصاری اس قدر ناامید نہ ہو اللہ پر بھروسہ کرو وہ چاہےتو ایک پل میں تجھے وطن پہنچادے اتنے میں آسمان سے گرج کی آوار آنے لگی ابر کاایک ٹکڑا ظاہر ہواحضرت ِخضر نے اسے بلایا ابر (بادل) نے بصدادب خواجہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام پیش کیا آپ نے سلام کاجواب دےکر کہا اے ابر تجھے کہاں جاناہے ابر نے کہا مجھے ایک جگہ برسنے کاحکم ہواہے اگر آپ کاکوئی کام ہوتو فرمائیےمیں بجا لاؤں ابر اور حضرت خضر کی گفتگوسن کر مجھے ایک گونہ اطمینان ہوا اور میں ِخوشی خوشی وہیں ٹھہر گیا تین دن کے بعدایک اور ابر کا ٹکڑانمودار ہوااور حضرت ِخضر کوسلام کیا مدینہ طیبہ کی سرزمین علی شیر خدا کے در دولت پہ مجمع عام میں حضرت تمیم انصاری نے امیر المومنین حضرت عمرفاروق اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یاامیر المومنین میں تین دن تک حضرت ِخضر کے پاس خوشی خوشی ٹھہر ارہا۔

تین دن کے بعد ایک ابرکا ٹکڑانمودار ہوااورحضرت خضر کو سلام کیا حضرت خضرنے جواب دے کر کہا تو کہاں جارہاہے؟ابر نے کہا مجھے مدینہ طیبہ جانے کاحکم ہواہے آپ کا کوئی کام ہو تو فرمائیں حضرت خضر نے فرمایا  میرا ایک کام ہے یہ شخص جو سامنے بیٹھاہواہےیہ مدینہ طیبہ کارہنےوالاہےایک دیوسیاہ اس کو زمین کے پانچویں طبقہ میں لے گیاتھا بہ دقت تمام اس کو اس کے پنجے سے رہائی مل گئی ہزاروں ٹھوکریں کھاکرلاکھوںمصیبتیں اٹھاکر ہیاں تک پہنچاہےمیں نے اسے یہاں ٹھہرارکھا تاکہ کوئی مدینہ طیبہ جائے تواس کے ساتھ روانہ کردوںاب چونکہ تیرا مقصدمدینہ طیبہ کا ہے اس کو ساتھ لے جا اوراس کے گھر پہنچادےابر حضرت ِخضر کےحکم پر فورا نیچے اتر آیا اور مجھے اپنے دوش پر اٹھالیاحضرت خضر نے فی امان اللہ کہہ کر مجھے رخصت کیا اور میں ابر کے ذریعہ دوسو برس کی راہ ایک پہر میں طےکرکے مدینہ طیبہ پہنچ گیاابر برسنے لگا اورمیں اپنے گھر پہنچ گیا۔

امیر المومنین یہ ہیں وہ واقعات جن کی لپیٹ میں آکرمیرا یہ حال ہوا ہےاتنی مصیبتیں اٹھاکراوراس قدر آفتیں سہ کر جب میں اپنے گھر میں داخل ہوا تو یہ واقعہ پیش آیا ایسامعلوم ہوتا ہے کہ یہاں کاہر آدمی میرادشمن ہے      حضرت تمیم انصاری کے یہ واقعات امیر المومنین حضرت عمرفاروق اعظم نے بڑے غور سے سنے اوراس بیان کی صحت پر حضرت علی شیر خدا نے گواہی دی تو آپ نے تمیم انصاری کوان کی بیوی دلادی اور جس سے اس بیوی کانکاح ہواتھا اس کو اس سے علیحدہ کردیا اور دونوں کو سمجھابجھاکر ان کے گھر روانہ کردیاکچھ عرصے کے بعد حضرت تمیم انصاری تبلیغ اسلام کےلئے مدینہ طیبہ سے نکلے چلتے پھرتے کراچی پہنچے اوروہیں مقیم ہوگئےوقت آخرآپ نے یہ وصیت کرکے انتقال کرگئے ( میرے جسم کو ایک صندوق میں بند کرکے سمندر میں بہادیاجائے یہ صندوق جس کنارے لگے وہیں میرامدفن ہوگا) لوگوں نے آپ کے جسم بے جان کو غسل کے بعد کفناکرآپ کی وصیت کی اس تحریر کے ساتھ کہ یہ صحابی رسول ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کانام تمیم انصاری ہے سن ۷۵/ہجری ایک صندوق میں بند کرکے سمندر کے حوالے کردیا اس صندوق کو پکڑنے کی لاکھ تدبیریں کی گئیںمگر وہ کسی کے ہاتھ نہ لگایہ خبر حاکم وقت نے سنی اسی وقت کولم کے ساحل سمندر پر آیا اورصندوق کو پکڑنا چاہا صندوق آسانی کے ساتھ حاکم کے قریب آگیاحاکم نے اسے ساحل پر لاکرکھولاتو اس میںتمیم انصاری کی لاش تھی اسکے ساتھ جوتحریری کاغذ تھا حاکم نے پڑھ کر اصل حقیقت معلوم کی یہ صندوق تقریباچارسوسال تک سمندر میں بہتا رہا اور بحیرہ عرب اور بحرہندسے بہتاہوا خلیج بنگال میں داخل ہوکر کالم کے ساحل آلگا مذکور ہ حاکم نے جنازہ کی نماز پڑھوانے کے بعد اس صندوق کو اسی جگہ جہاں صندوق کھولاتھا دفن کروا کر اس پر بہت عمدہ بے مثال مقبرہ تعمیر کروادیاآج آپ کے دربار سے روزانہ ہزاروں زائرین فیضیاب ہورہے ہیں۔

  (سیرت حضرت تمیم انصاری رضی اللہ تعالی عنہ ،انوار السیر فی سیرۃ اصحاب الخیر، ودیگر کتب سیرت صحابہ )

رب قدیر تو اپنی شان کریمی سےان تحریروں میں ان حضرات کےشایان شان کے غیر موافق کوئی جملہ لفظ منقول ہوتومعاف فرما اور اپنی شان کریمی کے تصدق میرے والدین کریمین وکل امت مومنہ کی مغفرت فرما۔آمین یارب العالمین بحرمۃ سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم 

وماتوفیقی الاباللہ تمت با لخیر

دعا جو

اسلام الدین احمد انجم فیضی

خادم و جاروب کش ومتولی آستانہ معلیٰ قدم رسول پاک قصبہ خاص

مدیر اعلی ماہنامہ فیض الرسول جدید براؤں شریف سدھارتھ نگر

 بانی وناظم اعلی جامعہ خدیجہ الکبری مسلم نسواں کالج پپراادائی گورا چوکی گونڈہ

 9792016141




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad