(مفتی حبیب اللہ نعیمی کی مختصر سوانح)
حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ نعیمی مصباحی خاں صاحب نور اللہ مرقدہ کا مختصر سوانح خاکہ
از قلم: فیض احمد امجدی متعلم: تخصص فی الفقہ الحنفی جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو
اللہ تبارک وتعالی جس سے اپنے دین، و دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت لینا چاہتا ہے،خواہ وہ کسی خطہ کا ہو،کسی بھی خاندان کا ہو، وہ اسے اپنے فضل وکرم سے ممتاز عالم دین بنا دیتا ہے، اسی علم کے ذریعہ وہ دین وسنیت کی خدمت انجام دیتا ہے، اسی کے وجہ سے وہ مابین العوام والخواص علماء اور اکابر علمائے میں مشہور ومعروف ہوا کرتا ہے، ایسے ہی کچھ خصوصیات،خوبیوں کے مالک حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ نعیمی مصباحی صاحب علیہ الرحمہ ہیں۔جو آسمان پر ایک ستارہ بن کر طلوع ہوئے،اور اپنی ضیاء بار کرنوں سے ایک جہاں کو منور ومجلیٰ کیا۔
ولادت باسعادت
ممتاز الفقہاء حضرت علامہ مفتی حبیب اللہ خان نعیمی ابن محمد ابراہیم خاں ابن نور محمد کی پیدائش سنہ 1954 عیسوی کو موضع دُھوبیٔ پوسٹ کھنڈ سری ضلع سدھارتھ نگر میں ہوئی۔ جو اِٹوا سے تقریباً بارہ کلو میٹر جانب مشرق میں واقع ہے، اور آج کل آپ کے گاؤں کے گرد ونواح میں دو عظیم ادارے دار العلوم اہلسنت امداد العلوم مٹہنا، اور جامعہ غوثیہ بڑھیا شریف موجود ہیں، آپ کے والد (مرحوم) پوری زندگی کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ آپ تین بھائی اور ایک بہن تھے، جن میں آپ سب سے چھوٹے تھے۔
ابتدائی تعلیم:
حضرت مفتی صاحب قبلہ نے جب شعور کی آنکھیں کھولی، تو آپ کے والد گرامی نے آپ کا داخلہ سدھارتھ نگر کے شہرت یافتہ ادارہ، جامعہ امداد العلوم مٹہنا سدھارتھ نگر یوپی میں کرایا، پھر آپ نے وہیں باقاعدہ،باضابطہ ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا، وہاں آپ نے از اعدادیہ تا سادسہ تک تعلیم حاصل کی۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے چند احباب کے مشوروں پر آپ نے 10/شوال 1396/ ہجری مطابق 1986ء میں ازہر ہند جامعہ اشرفیہ کا رخت سفر باندھا، وہیں تعلیم حاصل کرنے کا عزم مصمم اور عزم واستقلال کیا، وہاں آپ نے جماعت سابعہ میں داخلہ لیا، اور خوب محنت ولگن کے ساتھ سایۂ عاطفت حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ وزیر نگرانی حضور محدث کبیر اطال اللہ عمرہ میں مصروف و مشغول ہوئے، تقریبا سنہ 1400/ہجری مطابق 1980/ میں فارغ التحصیل ہوئے۔ درس نظامی اور اختصاص فی الفقہ الحنفی سے فراغت کے بعد آپ نے اپنی زندگی درس وتدریس وفقہ وافتاء سے استوار فرمایا، اپنی علمی خدمات اور گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے ارباب علم ودانش کے درمیان ایک نمایاں اور ممتاز مقام حاصل کی۔
درس وتدریس:
فراغت کے بعد آپ نے چند مدارس میں دینی خدمات انجام دی۔ جن میں سر فہرست دار العلوم فاروقیہ مدھنگر سدھارتھ نگر, جامعہ انوار القرآن بلرام پور، جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو ،دار العلوم فضل رحمانیہ پچپڑوا بلرام پور، جامعہ امجدیہ کے ابتدائی قیام کے دنوں میں آپ آٹھ سال تک صدر المدرس کے منصب پر فائز رہے، پھر آپ نے نا چاہتے ہوئے جامعہ امجدیہ کو خیر آباد کہ کر فضل رحمانیہ چلے آئے، وہاں آپ نے ایک عرصۂ دراز تک شیخ الحدیث اور صدر شعبۂ افتاء کے عہدے پر فائز رہ کر دینِ حنیف کی خدمت کی۔
اسناد ولیاقت:
عربی،فارسی بورڈ سے منشی، مولوی،عالم، کامل، فاضل، اور جامعہ اشرفیہ۔ سے سند فضیلت اور سند تخصص فی الفقہ۔
بیعت وخلافت:
پیر طریقت، رہبرِ راہ شریعت، حضرت مولانا سید اختصاص الدین نعیمی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کی، اور آپ کو حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خاں قادری ازہری اور نائب فقیہ اعظم ہند، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہما الرحمہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔
رشتۂ ازدواج:
آپ کی دو شادی ہوئی، پہلی شادی آپ کے والد نے موضع سِرسِیا جو گاؤں کے پاس میں ہے وہاں جناب شکر اللہ صاحب کی بیٹی سے کی۔ جس سے ایک بیٹا، دو بیٹی، کا تولد ہوا، پھر ان کے انتقال کے بعد آپ کی دوسری شادی بڑھنی میں ڈاکٹر شکیل صاحب کے صاحبزادی سے ہوئی، ان سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ جن میں سے ایک بیٹا دو بیٹی کے شادی ہو چکی ہے، اور ایک بیٹا اور ایک بیٹی کی باقی ہے۔
تصنیف وتالیف:
آپ نے تصنیف وتالیف کی دنیا میں اپنا اک الگ مقام حاصل کیا، ان کے نوک خامہ سے ہزاروں فتاوی نکلے ہیں، شرعی کونسل آف انڈیا، اور اشرفیہ کے سیمنار میں بھی شرکت کی اور اپنے فتاؤں کو ان علماء کے مابین کی۔ جو وہاں جج وفیصل کے حیثیت سے موجود رہتے تھے، انھیں کے خامۂ زریں سے ایک کتاب بنام *فقہ حنفی قرآن وحدیث کی روشنی میں* قابل دید ہے، قاری کے لے جامع اور بے حد مفید ہے۔ حضرت سراج الائمہ، کاشف الغمہ، امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے فقہ حنفی کو مدون کیا۔ کتابت کی کاکردگی ،عمدگی، نہایت خوبصورت اور جس پر انہوں نے لکھا بہت شاندار لکھا، آپ نے فقہ حنفی کے اصول وضوابط، قاعدہ وقانون کو مجموعی طور پر اپنے کتاب میں جمع کردیا، مؤلف صاحب نے جو مواد جمع کیا، وہ لائق مدح ،اور قابل ستائش ہیں۔
حج وعمرہ:
اللہ تبارک وتعالی کے اسلام کی پانچ اساسی منتخب کردہ فرض میں سے ایک فرض حج بھی ہے، جو ہر مسلمان شخص جو صاحب وسعت ہو اور اتنا پیسہ ہو کہ اس سے حج کر سکے تو اس پر حج فرض ہے۔ آپ نے اس فرض کی تکمیل 2002ء کی۔
اساتذۂ کرام:
حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری صاحب قبلہ،نائب مفتی اعظم ہند، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ، حضرت مفتی حفیظ اللہ خاں نعیمی صاحب قبلہ، جامع معقول ومنقول حضرت علامہ ومولانا عبد الرحمن نعیمی علیہ الرحمہ۔بحر العلوم علامہ عبد المنان علیہ الرحمہ، حضرت علامہ عبد الشکور مصباحی علیہ الرحمہ،حضرت علامہ عبد اللہ خاں عزیزی علیہ الرحمہ،
مشہور تلامذہ:
حضرت مولانا ساجد حسین مصباحی صاحب قبلہ استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور، حضرت قاری ذاکر علی لکھنؤ، حضرت مولانا نثار احمد مصباحی دار العلوم فضل رحمانیہ پچپڑوا، حضرت مولانا فیضان رضا جمالی پچپڑوا، حضرت مولانا معین الدین مصباحی استاذ فیض العلوم پپری، حضرت مولانا عبد المبین مصباحی استاذ جامعہ امجدیہ گھوسی مئو، حضرت مولانا عیش محمد مصباحی جامعہ نعیمیہ تلسی پور، حضرت مولانا اشتیاق صاحب قبلہ،
وصال:
حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ چند سالوں سے سوگر کے مریض تھے، دوا بھی جاری وساری تھی،ایک دن کیا ہؤا سورج اپنے تئیں افق پر چلا گیا،ہر طرف ظلمت وتاریکی چھائی ہوئی تھی، ہر جانب ماتم سا برپا تھا، ہر کوئی خواب غفلت کا شکار تھا،نیند ہم سب کو اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے تھا، تقریبا3بج کر 30 منٹ پر یہ اندوہناک اور روح افساں خبر موصول ہوئی، کہ مفتی صاحب ہم جیسے ہزاروں افراد کو داغ مفارقت دے گئے، انھیں رحمتہ اللہ علیہ لکھنے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ابھی عمر ہی کیا تھی، خیر! مشیت ایزدی،موت برحق ہے، ایک نا ایک دن سب کو آنی ہے۔ ان کی نعش مبارک کو پچپڑوا سے ان کے آبائی وطن دھبئی میں لایا گیا،ادھر سوشل میڈیا پر یہ اندوہناک خبر سن کر ہندوستان کے جید اور اکابر علمائے کرام نے دور دراز کی مشقتیں وصعبتیں برداشت کرتے ہوئے آپ کے جنازہ میں شرکت کی، آپ کی نماز جنازہ، آپ کے استاذ وشیخ، محسن ومربی، ممتاز الفقہاء ،سلطان الاساتذہ، امیر المومنین فی الحدیث ،حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری رضوی امجدی دامت برکاتہم العالیہ واطال اللہ عمرہ نے پڑھائی۔ حضور محدث کبیر کی آمد سے ایک الگ پر کیف وپر ساعت منظر رونما ہوگیا تھا، وہاں کا جم غفیر وہجوم قابل دید تھی ، کچھ عجب انداز ہی میں علماء وعوام نے شرکت کی، ہزاروں کی تعداد میں علماء ومشائخ عظام جنازہ میں شامل تھے، بالخصوص،شمس الفقہاء ،مناظر اہلسنت، ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مفتی شمشاد احمد مصباحی دامہ ظلہ العالی،وسجادۂ نشیں و شہزادۂ حضور محدث کبیر،حضرت علامہ ابو یوسف محمد قادری ازہری ولی عہد آستانہ امجدیہ گھوسی مئو، غزالی دوراں، قاضی شرع بلرام پور،حضرت علامہ مفتی حفیظ اللہ خاں نعیمی صاحب قبلہ، ان کے علاوہ دیگر ابلاد وامصار واضلاع کے علماء وعوام نے شرکت کی۔
رب قدیر مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی مغفرت فرمائے، اور ان کی درجات کو بلند فرمائے، ان کی تمام دینی علمی،عملی خدمات جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے، آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔
آپ سے گزارش ہے کہ صحیح تبصرے کریں، اور غلط الفاظ استعمال نہ کریں۔