AD Banner

{ads}

(پڑوس ملک سے چوری چھپ کر حج کرناکیساہے؟)

 (پڑوس ملک سے چوری چھپ کر حج کرناکیساہے؟)


مسئلہ؍ از مولوی امیر حسین مہار مدنی۔ ب ۱۷۴۷؍ ۱۷۴۷ مدینہ منورہ (سعودی عرب)

وہ مسلمان جو کہ ظالم کفار حکومت کے تحت اپنی زندگی گزارتے ہیں اور وہ مسلمان حج بیت اللہ شریف کے لئے چوری چھپے پڑوس والی دوسری حکومت میں داخل ہو کر اسی حکومت کے کہلاتے ہیں اور اس حکومت سے پاسپورٹ حاصل کرنے کے لئے رشوت بھی دیتے ہیں پھر بعد میں اسی حکومت کے ذریعہ حج بیت اللہ کے لئے آتے ہیں اور حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد پھر اسی راستے سے چوری چھپے اپنے اصلی وطن چلے جاتے ہیں۔ لیکن راستے میں آنے اور جانے کے درمیان حکومت کے قانون کے مطابق عقوبات کے مستحق ہوتے ہیں تو ان مسلمانوں پر اس طرح حج فرض ہوتا ہے یا نہیں؟ اور مذکوہ بالا صورت میں جن حضرات نے حج ادا کیا اس کا کیا حکم ہے۔ اس کا جواب مدلل و مفصل تحریر فرمائیں عین کرم ہو گا۔

الجواب: وجوب حج کی شرطوں میں سے ایک شرط امن طریق بھی ہے یعنی اگر سلامتی کا غالب گمان ہو تو جانا واجب ہے‘ اور اگر ہلاکت کا غالب گمان ہوتو جانا واجب نہیں جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں تبیین سے ہے:قال ابواللیث ان کان الغالب فی الطریق السلامۃ یجب وان کان خلاف ذالک لا یجب و علیہ الاعتماد۔ 

۔ اسی قول پر علامہ ابن نجیم مصری نے بحر الرائق میں اور علامہ ابن عابدین شامی نے ردالمحتار میں بھی اعتماد فرمایا ہے‘ اور ملا علی قاری نے شرح النقایہ میں فرمایا یہ قول مفتی بہ ہے‘ اور ظاہر یہ ہے کہ غلبۂ سلامتی کے ساتھ خوف کے غالب نہ ہونے کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ جیسا کہ امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں فرمایا:والذی ظھران یعتبر مع غلبۃ السلامۃ عدم غلبۃ الخوف۔

پھر اسی قول کو بحر الرائق اور ردالمحتار میں نقل کرنے کے بعد برقرار رکھا۔ لہٰذا وہ لوگ جو کسی ظالم حکومت میں رہتے ہیں اگر ان کو حج کی ادائیگی میں خوف کا غلبہ ہو تو ان لوگوں پر حج واجب نہیں ورنہ واجب ہے‘ اور حج کرنے میں اگر بعض لوگوں کو قید و بند کی تکلیفیں اٹھانی پڑیں یا بعض حجاج قتل کر دیئے جائیں تو یہ مانع وجوب حج نہیں۔ اس لئے کہ پانی کی قلت، گرم ہوا کی تکلیف اور بعض حجاز مقدسہ کا سفر زمانہ سابق میں اکثر محفوظ نہ تھا اس کے باوجود حج فرض رہا۔ ہاں اگر حج کرنے کے سبب ظالم حکومت اکثر حجاج کو قتل کر دے تو اس صورت میں حج فرض نہ ہو گا۔ ردالمحتار میں ہے:غلبۃ السلامۃ لیس المرادبھا لکل احد بل للمجموع وھی لاتنتفی الابقتل الاکثر اوالکثیر

ور فتاویٰ بزازیہ میں فرمایا:والمختار عدم السقوط لان البادیۃ والطریق ماخلت عن آفۃ ومانع ماوانیٰ یوجدرضا اللہ تعالیٰ وزیارۃ الاماکن الشریفۃ بلامخاطرۃ‘ 

اور حج کرنے کے لئے کچھ رشوت دینا پڑے جب بھی جانا واجب ہے‘ اور چونکہ مسلمان اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے مجبور ہیں اس لئے دینے والوں پر مواخذہ نہیں۔ درمختار میں ہے:امن الطریق بغلبۃ السلامۃ ولوبا لرشوۃ علی ماحققہ الکمال 

اورفتح القدیر و بحر الرائق میں ہے: وعلی تقدیر اخذ ھم الرشوۃ فالاثم فی مثلہ علی الآخذ لا المعطی علی ماعرف من تقسیم الرشوۃ فی کتاب القضاء ولا یترک الفرض لمعصیۃ عاص‘ 

اور مذکورہ بالا حالات میں جن لوگوں نے حج کرلیا اور ان کا حج فرض ادا ہو گیا۔ 

ھٰذا ما ظھرلی والعلم بالحق عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہُ الاعلٰی جل جلالہ و صلی المولیٰ علیہ وسلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی

۸؍ ربیع الاول ۱۴۰۰ھ




مسائل یوٹوب پر سسنے کے لئے یہاں کلک کریں 

نظامت کے اشعار کے لئے یہاں کلک کریں 

نعت و منقبت کے لئے یہاں کلک کریں 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads