AD Banner

(سلام پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟)

 (سلام پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟)


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سلام پڑھنا کہاں سے ثابت ہے دیوبندی نے سوال کیا ہے جواب سے نوازیں
 المستفتی:۔محمد تصدق حسین نیپالی مہتنیا نیپال

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

سب سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ ہر سوال کا جواب مل جائےگا لیکن دیوبندی وہابی کی مکاری کا جواب نہیں۔ رہی بات کہ سلام پڑھنا کہاں سے ثابت ہے الحَمْدُ لله نبیپاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود  و سلام پڑھنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"(سورۃالاحزاب پارہ ۲۲)

بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان والو تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔

نَسائی و دارمی نے روایت کی کہ ابو طلحہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور بشاشت چہرۂ اقدس میں نمایاں تھی، فرمایا میرے پاس جبریل آئے اور کہا آپ کا رب فرماتا ہے کیا آپ راضی نہیں کہ آپ کی اُمّت میں جو کوئی آپ پر درود بھیجے میں اس پر دس بار دُرود بھیجوں گا اور آپ کی اُمّت میں جو کوئی آپ پر سلام بھیجے میں اس پر دس بار سلام بھیجوں گا۔(سنن النسائي  کتاب السھو باب الفضل في الصلاۃ علی النبی صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم الحدیث  ۱۲۹۶  صفحہ ۲۱۷۱)

حدیث شریف میں ہے حضرت انس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے  یوں فرمایا ہے کہ  جو مجھ پر ایک بار دُرود بھیجے ﷲ عزوجل اس پر دس دُرودیں  نازل فرمائے گا اور اس کی دس خطائیں  محو فرمائے گا اور دس درجے بلند فرمائے گا۔ (النسائي  کتاب السھو باب الفضل في الصلاۃ علی النبی صلّی ﷲ تعالی علیہ وسلم الحدیث   ۱۲۹۴  صفحہ ۲۲۲۔)

اب نفس مسلہ ملاحظہ فرمائیں:قرآن کریم اور حدیث رسول کے اس عظیم الشان ارشاد پاک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ  وسلم پر درود و سلام بھیجنا ہر مسلمان پر لازم وضروری ہے نماز روزہ حج وغیرہ کے اوقات متعین ہیں نماز کو اوقات مکروہہ میں ادا کرنے سے منع فرما دیا گیا روزہ دن کو رکھنا اور وہ بھی چند دن کے سوا یعنی سال میں پانچ دن روزہ رکھنے سے منع فرما دیا گیا یعنی عیدالفطر کے دن اور چار دن ایام نحر کے (١٠۔ ١١ ۔١٢ ۔١٣ ذی الحجہ)حج ذی الحجہ کے چند دن میں ہی ہو سکتا ہے۔ چونکہ ان تینوں عبادات میں وقت کی پابندی ہے لہذا مقررہ وقت کے علاوہ ان پر عمل کرنا جائز نہیں۔

مگر درود و سلام میں یہ صورت نہیں درود و سلام پڑھنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں درود و سلام کی مثال جہاد سچ بولنے خرچ کرنے انصاف کرنے امانت ادا کرنے دین کی تبلیغ و تلقین کاروبار میں اسلامی ہدایات پر عمل کرنے بیوی بچوں ماں باپ ہمسائے اور دیگر مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی سی ہے یہ سب حکم شرعی ہیں فرض ہیں مگر ان کی ادائیگی میں وقت کی قید نہیں جب موقع ملے ان پر عمل کریں درود و سلام پر عمل کرنے کا بھی شریعت نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا یونہی کسی بھی وقت میں درود و سلام پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا۔لہذا جب موقع ملے بندہ مومن درود و سلام پڑھ کر اپنے رب کا حکم بجا لائے اور  اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے جس طرح آپ ہر سڑک اور ہر راستے پر چل سکتے ہیں اس کے لیے ضروری نہیں کہ راستوں میں لکھا ہو آپ یہاں چل سکتے ہیں جس جگہ چلنا یا گزرنا منع ہو وہاں لکھا ہوتا ہے کہ یہاں داخلہ ممنوع ہے اسی طرح شریعت نے جو حکم فرض و واجب تھے وہ بتا دیئے گئے جو منع تھے ان سے روک دیا گیا۔

لہذا درود و سلام کی ادائیگی کا حکم تو ہے پر وقت کی قید نہیں جب بھی کوئی مسلمان پڑھے گا حکم قرآن و سنت پر عمل ہو جائے گا ۔۔ مذکورہ حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ درود وسلام کا پڑھنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے ۔مکمل تفصیل کے لیے آپ وقارالفتاوی جلد۱صفحہ ۱۱۸/سے ملاحظہ فرمائیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم 
کتبہ
محمد راحت رضا نیپالی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad