AD Banner

{ads}

(کھچڑے کو حلیم کہنا کیساہے؟)

 (کھچڑے کو حلیم کہنا کیسا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ

 مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کھچڑے کو حلیم کہنا کیسا ہے ؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ حلیم اللہ تعالیٰ کا نام ہے اس لئے حلیم نہیں کہنا چا ہئے ؟کیا حلیم کہنے سے اللہ تعالیٰ کے نام کی توہین ہو تی ہے؟    المستفتی(مولانا) رضوان القادری

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب

کھچڑےکانام حلیم ہے توکھچڑے کو حلیم کہنا جائز ہے اگرچہ حلیم اللہ تعالیٰ کےصفاتی ناموں میں سےہے پھر بھی کھچڑے کو حلیم نام ہونے کی نیت سے حلیم کہنے میں قباحت نہیں کیونکہ عمل کا دارومدار نیت پر موقوف ہے( کما قال رسول اللہ ﷺ انما الاعمال بالنیات)

اور اگر مان لیاجا ئے کہ حلیم اللہ کا نام ہے اس لئے حلیم نہ کہا جا ئے تو پھر بہت ایسےصفاتی نام اللہ کے ہیں جو غیر اللہ کے لئےمستعمل ہیں جیسے(۱) وارث (۲)وکیل(۳)متکبر (۴)ظاہر (۵)باطن(۶)احد(۷)واحد(۸)مصور(۹)عزیز (۱۰)ولی (۱۱)حکیم (۱۲) مومن(۱۳)شہید

(1)  وارث:۔یہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسے فلاں میت کا وارث ہے ،بہن کاوارث ہے،عورت کا وارث،جگہ کا وارث ہے ،کھیت کا وارث ہے ،اور اس کو قرآن نے کئی مقامت پر ذکر کیا ہے چند آیات درج ذیل ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

(۱)’’ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا)اے ایمان والو تمہیں حلال نہیں کہ عورتوں کے وارث بن جاؤ زبردستی (کنز الایمان ،سورہ نساء،۱۹)

(۲) قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْآ۔اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ  یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ۔وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ)موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ کی مدد چاہو اور صبر کرو بیشک زمین کا مالک اللہ ہے اپنے بندوں میں جسے چاہے وارث بنائے اور آخر میدان پرہیزگاروں کے ہاتھ ہے۔( کنز الایمان ،اعراف۱۲۸)

(۳) وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ۔اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِیْرٌ‘)اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑافساد ہوگا۔( کنز الایمان،انفال۷۳)

(۴) وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقّ۔وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ۔اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا)اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہے ناحق نہ مارو اور جو ناحق مارا جائے تو بیشک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے ضرور اس کی مدد ہونی ہے۔( کنز الایمان ،بنی اسرائیل۳۳)

(۵)’’ وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ‘ )اور بیشک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔(کنز الایمان ،انبیاء۱۰۵)

دیکھیں مذکورہ بالاآیت میں غیر اللہ کو وارث کہا گیا ہے مثلاًنمبر ایک میں عورتوں کے وارث نمبردو میں زمینوں کے وارث نمبر تین میں کا فرکو کافر کاوارث ، نمبر چار میں گھر والوں کو وارث،نمبر پانچ میںبھی زمین کا وارث کہا گیا ہے۔اس کے علاوہ کئی ایک آیت کریمہ ہے جس میں غیر اللہ کو وارث کہاگیا ہے اب اگر یہ کہاجائے کہ وارث اللہ کا نام ہےلہذا دوسروں کو نہ کہاجائے تو ان آیت کریمہ کا جواب کیا ہوگا ؟

(2)  وکیل:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسےفلاں بندہ وکیل ہے ،فلاں وکیل بہت ماہر ہے حتی کہ قرآن میں ہے(’’هٰٓاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۔ فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰهَ عَنْهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَمْ مَّنْ یَّكُوْنُ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا )سنتے ہو یہ جو تم ہو دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے جھگڑے تو ان کی طرف سے کون جھگڑے گا اللہ سے قیامت کے دن یا کون ان کا وکیل ہوگا۔ (کنز الایمان ،سورہ نساء۱۰۹)

(3)  متکبر:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسےفلاں بندہ متکبر ہے یعنی تکبر کرنے والا ،گھمنڈی ،قرآن میں کئی مقامات پر غیر اللہ کو متکبر کہاگیا ہے ملاحظہ ہو۔

(۱) قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا۔قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ‘‘ ) اس کی قوم کے متکبر سردار بولے اے شعیب قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکا ل دیں گے یا تم ہمارے دین میں آجاؤ کہا کیا اگرچہ ہم بیزار ہوں۔(کنزالایمان.سورہ اعراف ۸۸)

(۲)وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ )اور موسیٰ نے کہا میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ہر متکبر سے کہ حساب کے دن پر یقین نہیں لاتا۔( کنز الایمان،سورہ مومن ۲۷) 

(۳) وَ لَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِیْنِ(۳۰)مِنْ فِرْعَوْن ۔اِنَّهٗ كَانَ عَالِیًا مِّنَ الْمُسْرِفِیْن)اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات بخشی۔ فرعون سے بیشک وہ متکبر حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔(کنز الایمان،سورہ دخان ۳۱)  

(4) ظاہر:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسےفلاں شیٔ ظاہر ہے ۔فلاں شخص ظاہر میں اچھا ہے ،میں فلاںکی غلطیوںکو ظاہر کرکے رہوں گا۔وغیرہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر لفظ ظاہر غیر اللہ کے لئے آیاہے ۔ملاحظہ ہو۔

(۱)’’ قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۰۶)فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ‘)

(۱)’’ قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۰۶)فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ‘‘ بولااگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو لاؤ اگر سچے ہو۔ تو موسیٰ (علیہ السلام)نے اپنا عصا ڈال دیا وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا ہوگیا۔(کنز الایمان،سورہ اعراف۱۰۷)

(۲) وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(۹۰)وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ)اور قریب لائی جائے گی جنت پرہیزگاروں کے لیے۔ اور ظاہر کی جائے گی دوزخ گمراہوں کے لیے۔(کنز الایمان،سورہ شعراء۹۱) 

(۳) فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ(۱۰)یَّغْشَى النَّاسَ۔هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ)تو تم اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں لائے گا کہ لوگوں کو ڈھانپ لے گا یہ ہے دردناک عذاب۔( کنز الایمان،سورہ دخان۱۱) 

اسی طرح بے شمار مثالیں ہیںجو مختصر میں ذکر کرتاہوں ورنہ کافی طویل ہوجائے گا ملاحظہ ہو۔

(5) باطن:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسےفلاں شخص ظاہر میں تو اچھا ہے مگر اس کا باطن بہت خراب ہے ۔وغیرہ

(6،7) احد؍واحد:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سےدو نام ہیں مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جوکسی ایک گنتی ایک شیٔ کو احد یا واحد کہاجا تا ہے۔

(8) مصور:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسےکہ تصویر بنانے والے کو عموماً مصور کہاجاتا ہے۔

(9) عزیز:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسے فلاں بندہ میرا بہت عزیز ہے ،یونہی مصر کے گورنر کو عزیز مصر کہاجاتا تھا جس کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔

(10) ولی:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسےفلاں بندہ ولی ہے۔فلاں میت کا ولی ہے ،فلاں اس عورت کاولی ہے۔

(11) حکیم:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے یعنی طبیب کو عرف میں حکیم کہاجا تا ہے جیسے لقمان حکیم وغیرہ

(12) مومن:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے جیسےمثلا زید مومن ہے فلاں پکا مومن ہے بلکہ ایک برادری ہے جو مومن کے نام سے مشہور ہے مہاراشٹر میں زیادہ تر پائے جاتے ہیں ۔

(13) شہید:۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے مثلاً راہ خدا میں مرنے والے کو شہید کہاجاتا ہے جیسے شہید اعظم وغیرہ ۔

مذکورہ بالانام ذات باری تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں مگر غیر اللہ کے لئے بھی مستعمل ہیں اور عوام وخواص اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں کو ئی معیوب نہیں جانتا نہ ہی اس سے اسم باری تعالیٰ کی توہین سمجھی جاتی ہے یونہی لفظ حلیم بھی ہے کہ اگر چہ باری تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے مگر یہ کھچڑے کابھی نام ہے جیسا کہ فیروز اللغات میں ہے ۔(ایک قسم کا کھانا جو اناج گوشت اور مسالہ ڈال کر پکایاجاتا ہے )(کھچڑا)(ص۳۰۶)

نیز اللہ رب العزت نے قرآن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو لفظ حلیم کا خطاب دیاہے ملاحظہ ہو(وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَآ اِیَّاهُ۔فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۔اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ‘ )اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کرچکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا بیشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والامتحمل ہے۔ (کنز الایمان ،توبہ۱۱۴)

مذکورہ بالاعبارت سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ کھچڑے کوحلیم کہہ سکتے ہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعا لیٰ کا نام ہے نہیں کہنا چا ہئے یا اللہ تعالیٰ کے نام کی توہین ہو تی ہے وہ غلط فہمی میں مبتلاء ہیں انہیں چا ہئے کہ پہلے علم سیکھیں پھر مسئلہ بیان کریں بغیر علم کے مسئلہ نہیں بیان کیاجاتاہے حدیث شریف میں ہے(’’من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السماء والارض‘‘)جو بغیر علم کے فتوٰی دے اس پر آسمان و زمین کے فرشتوں کی لعنت ہو۔ (فتاوی رضویہ بحوالہ کنز العمال)واللہ اعلم بالصواب

 کتبہ

فقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی


فتاوی مسائل شرعیہ



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

AD Banner

Google Adsense Ads